یادوں کی بہار کے مصنف مولانا وصی احمد شمسی سے ملاقات اور ان کی عیادت
کسی تاریخی شہر میں قیام, اور بافیض لوگوں کی صحبت و ملاقات منفرد افکار و انظار سے روبرو کراتی ہے، اسی طرح ناشناس لوگ اور اجنبی ماحول میں رہنے کا تجربہ بھی بڑا خوشگوار ہوتا ہے، جہاں آپ کو موقع ملتا ہے کہ آپ اپنی شخصیت کو جس انداز میں چاہیں متعارف کرائیں، نئی دلچسپیاں بنائیں، نئے دوست چنیں، گویا کہ زندگی کو ایک نئی سمت دے سکتے ہیں، اپنی خواہشات کو آزادانہ طور پر بروئے کار لا سکتے ہیں، انسان اس خوف سے آزاد ہوتا ہے کہ اگر وہ کچھ نیا اور الگ کرنے کی کوشش کرے گا تو دوست پھرکی لیں گے، خاص طور پر جب وہ جگہ اہل علم کی ہو، ارباب ذوق کا جہاں ہجوم رہتا ہو، تو پھر زندگی میں اس سے خوبصورت مقام اور خوشگوار موقع کوئی نہیں۔
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ بھی کچھ ایسی ہی جگہ ہے، اس سال یہاں آیا، نئے لوگوں سے شناسائی ہوئی،اجنبیت کا زیادہ احساس نہیں ہوا، کیوں کہ یہاں دارالعلوم دیوبند کے ساتھیوں کی کثیر تعداد موجود ہے، یہاں سے بہت کچھ سیکھا، ابتدائے سال ( شوال 1444ھ مطابق 2023ء) سے امارت کے اکابر کو پڑھنا شروع کیا، ان کے حالات نوٹ کیا، اور آزاد دائرۃ المعارف ( اردو ویکیپیڈیا) پر بتدریج ان کے حالات قلمبند کیا، اور اپلوڈ کیا، آج کل متبحر عالم دین مولانا عبد الصمد رحمانی نائب امیر شریعت ثانی کے حالات جمع کررہا ہوں، ان کی شخصیت کے خد و خال یہاں وہاں سے سمیٹ رہا ہوں، اسی سلسلے میں ہفت روزہ نقیب 1973 ء کا شمارہ نکالا، اس میں مولانا وصی احمد شمسی کا "تعزیت نامہ بر وفات مولانا عبد الصمد رحمانی” دریافت ہوا، ان سے بات کرنے اور ملنے کی جستجو ہوئی، کیوں کہ مولانا عبد الصمد رحمانی کو اپنی نظروں سے دیکھنے والے یا ان سے استفادہ کرنے والے کسی انسان کو اب تک میں نہیں جانتا ہوں، بعد میں معلوم ہوا کہ آپ کو بھی ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ بہر کیف:مولانا وصی احمد شمسی مولانا عبد الرحمن دربھنگوی امیر شریعت خامس امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے بھانجے اور چھوٹے داماد ہیں، انہوں نے امیر شریعت خامس کے حالات بھی جمع کئے ہیں، جو "حیات عبد الرحمن امیر شریعت خامس امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ” کے نام سے موسوم ہے، اس کتاب سے ان کا نمبر نکالا، ان سے رابطہ کیا، انہوں نے بڑی محبت سے بات کی، انہوں نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے وہ بائک پر سوار ہوئے، اور گرپڑے، ہڈی چنک گئی، اس کی پوری داستان سنائی، پھر انہوں نے بتایا کہ میں بھی پٹنہ ہی میں ہوں، نوجوان آدمی ہو، اگر ملنے آؤگے تو بہت خوشی ہوگی، اور جو پوچھنا ہو، پوچھ بھی لینا۔
شام میں چند رفقاء عبد اللہ قاسمی، عاشق الہی قاسمی، سالک ظفر قاسمی، اور دلشاد حبیب قاسمی کے ہمراہ ان کے گھر پہنچ گئے، جناب شمسی صاحب کا چوں کہ ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، اسی لئے وہ صاحبِ فراش ہیں، ڈاکٹر نے آرام کرنے کی تاکید کی ہے، چائے ناشتے سے ضیافت کئے، پانچ سو رپے دیے کہ سب لوگ کچھ کھا پی لینا؛ میں نے تبرک کے طور پر لے لیا، پھر اپنی خود نوشت سوانح حیات” یادوں کی بہار” کا تذکرہ کیا، کہ اس کی دوسری جلد بھی آنے والی ہے۔
کہا کہ” یہ کتاب پڑھئے گا! اس کتاب میں بہت سی انوکھی باتیں ہیں، جو خود آپ کو بیدار کرے گی، باشعور بناۓ گی”، کتاب بہت ضخیم ہے، تقریباً ساڑھے آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے، اس میں دربھنگہ کی بہت سی گمنام اور مشہور سیاسی سماجی ادبی مذہبی، شخصیات کا تذکرہ ہے، سات دہائیوں پر محیط ان کی عمر رفتہ کی داستان ، اور زندگی کے واقعات و حوادث کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے، بقول فاضل مصنف:’’ یہ کتاب عام تصور ،سوانح،آپ بیتی ،خاکے سے ہٹ کر خالص علمی و دینی ،تاریخی،سماجی،اصلاحی، سیاسی شعور کی بیداری کی بنیادوں پر لکھی گئی ہے ۔اس کتاب کوجہد مسلسل ،سعی پیہم کی ایک تحقیقی دستاویز کے طور پر خون دل نچوڑ کے اخلاص کی بنیاد پر تصنیف کیا گیا ہے‘‘۔
کہنے لگے: علماء باوقار ہوں تو ان کے سامنے دنیا بے وقار ہوتی ہے۔
اس کو یاد رکھئے۔
پھر ڈائری اور قلم دئے کہ سب لوگ اپنا نام اور نمبر لکھ دو، آنے کی وجہ اور تاریخ بھی لکھ دو، پھر مولانا عبد الرحمن دربھنگوی، مفتی ظفیر الدین مفتاحی اور مولانا قاسم مظفر پوری رحمہم اللہ کا ذکر خیر کیا، اپنے گھر روپس ضلع دربھنگہ آنے کی دعوت دی، آپ بڑے مشفق اور منکسر المزاج ہیں، انتہائی خلیق و ملنسار ہیں، آپ کی گفتگو میں خلوص کی خوشبو اور محبت کا رنگ تھا، بار بار شفایابی مرض کے لئے دعا کرنے کی تاکید کررہے تھے۔ اللّٰہ تندرستی نصیب فرمائے۔
مولانا کا مختصر سوانحی خاکہ
آپ کی پیدائش خاندانی روایت کے مطابق مارچ 1946ء میں مردم خیز بستی روپس پور ضلع دربھنگہ میں ہوئی، بچپن ہی میں آپ کے سر سے والد محترم کا سایہ عاطفت اٹھ گیا۔تعلیم و تربیت والدہ اور بڑے بھائی کی سرپرستی میں ہوئی، ابتدایی تعلیم پرائمری اردو مکتب دھمساین میں ہوئی ،مزید اعلی تعلیم کے حصول کے لیے اپنے ماموں امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن کے ہمراہ 1956ء میں مدرسہ حمیدیہ گودنا ضلع سارن تشریف لے گئے، ان کی زیر نگرانی حصول علم میں مصروف رہے،، اس کے بعد مدرسہ اشاعت العلوم جوگیا مغربی چمپارن میں تحصیل علم میں مصروف رہے، اخیر میں مدرسہ اسلامیہ شمس الھدیٰ پٹنہ سے 1970ء میں سند فضیلت حاصل کیا، فراغت کے بعد مادر علمی مدرسہ حمیدیہ گودنا سے درس و تدریس کا آغاز کیا، پھر سون پور ہائی اسکول میں 1974 تا1981قیام رہا، 1981ء میں پوہدی بیلا ہایی اسکول آگیے، پندرہ سال بعد 1995ء میں آپ کا تبادلہ واٹسن ہایی اسکول مدھوبنی میں ہوگیا، جو ملازمت کے سفر کا آخری پڑاؤ واقع ہوا۔چنانچہ31/مئی 2009 ء کو وہیں سے سبکدوش و ریٹائر ہوئے۔
آپ اچھے انسان، اور منجھے ہوئے قلم کار ہیں،اللہ آپ کو جلد از جلد شفایاب کرے۔ اور آپ کے قلم کو ہمیشہ رواں دواں رکھے
غالب شمس ✍️۔
( غالب کی ڈائری سے)