جمشید پور دار السرور کی سیاحت

طلحہ نعمت ندوی

مسلمانوں کی تمدنی وثقافتی روایات کا بھی کیا کہنا، وہ اس جہاں میں مانند خورشید جیتے ہیں، کبھی ایک شہر ان کے تمدنی وثقافتی آثار سے سرفراز ہوتا ہے تو کبھی دوسرا شہر، زمانہ کی گردشیں جب انہیں ایک جگہ سے محروم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو دوسری جگہ ان کے لئے آمادہ خیر مقدم ہوتی ہے۔

جمشید پور دار السرور کی سیاحت 
جمشید پور دار السرور کی سیاحت

ہندوستان کی تاریخ میں نہ جانے کتنے ایسے شہر وجود میں آئے جن کو مسلمانوں نے کبھی جنت نظیر کہا کبھی شیراز ہند کہا، کبھی شادی آباد کے نام سے موسوم کیا، کبھی خیر البلاد سے تعبیر کیا، اور کبھی دار السرور کے لقب سے نوازا۔ چنانچہ رامپور اور برہانپور اور اس وزن کے کئی شہروں کو جہاں مسلم وتمدن وثقافت کو فروغ ملا دار السرور کے نام سے موسوم کیا گیا، جن میں دار السرور برہانپور کو سب سے زیادہ شہرت ہوئی۔

دور حاضر میں اگر یہی لقب نئے شہروں میں جمشید پور کو بھی دیا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ اس شہر کی تاریخ ایک پارسی تاجر جمشید جی سے شروع ہوتی ہے۔ مسلم ثقافت سے ہم آہنگی کی وجہ سے یہ مسلمان نام معلوم ہوتا ہے اور یہ سچ ہے کہ پارسی سے زیادہ مسلمان ہی یہ نام رکھتے ہیں۔ ایران میں ایک چھوٹی سی بستی جمشید آباد کے نام سے اب بھی موجود ہے۔

بہر حال جمشید جی کے نام پر اس شہر کا نام جمشید پور پڑا اور ان کی مشہور کمپنی ٹاٹا کی وجہ سے اسے ٹاٹا نگر بھی کہا جاتا ہے ، اسٹیشن پر یہی نام نظر آتا ہے۔ لوہے کے کارخانوں کی وجہ سے اسے شہر آہن کا لقب بھی دیا گیا ہے،جو اپنی ادبیت ومعنویت میں اس کے لیے بالکل موزوں ہے ۔۔ ۱۹۱۹ میں ساکچی نامی ایک چھوٹی سی بستی میں جمشید جی نے ایک اسٹیل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی پھر لوہے کے کاروبار کا آغاز کیا، اس وقت یہ بستی جو اب شہر کی مرکزی جگہ ہے ضلع سنگھ بھوم میں تھی، اور اس کا ایک حصہ کالی ماٹی کے نام سے مشہور تھا۔ ٹاٹا صاحب کو معدنیات کے ذخائر کی وجہ سے یہ جگہ پسند آئی اور انہوں نے اس کو آباد کیا اور دیکھتے دیکھتے یہ ایک آباد شہر میں تبدیل ہو گیا۔

راقم کو اس ہفتہ اسی شہر میں چار دن گذارنے کا موقع ملا اور علمی وتعلیمی حالات سے واقفیت حاصل ہوئی۔

جھارکھنڈ کا علاقہ جو انگریزوں کے دور میں چھوٹا ناگپور کے نام سے مشہور رہا مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ یہاں بہت قدیم نہیں ہے، خود رانچی کو انگریزوں نے ترقی دی تھی اور خوشگوار موسم کی وجہ سے اسے عہد سرما میں صوبہ کا دارالحکومت بنایا تھا۔

بہر حال جمشید پور میں ستر کی دہائی میں سخت فساد بھی ہوا، اس وقت یہاں مسلمانوں کی اتنی تعداد نہیں تھی لیکن اس کے بعد الحمد للہ اس شہر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ یہاں کے معروف اہل علم جناب عبدالکبیر صاحب تھے جنہیں اس شہر کا سرسید کہا جاتا ہے، انہوں نے کبیریہ ہائی اسکول کی بنیاد رکھی پھر نسواں کالج اور مسلم اسکول بھی قائم کیا، اور سب سے بڑھ کر الکبیر ٹیکنیکل ادارہ قائم کیا جو آج ملک کے اہم مسلم تکنیکی تعلیم کے اداروں میں شامل ہے، اس کا نظم ونسق ہر طرح قابل تعریف ہے۔ مسلم کالجز میں کریم سٹی کالج بہت مشہور ہے، اس کے علاوہ یہاں اٹھارہ کالج ہیں۔ کئی اہم اسکول ہیں، ایک مدرسہ حسینیہ اور ایک مدرسہ مدینۃ العلوم بھی ہے۔ جس میں اب ایم او اکیڈمی کے نام سے ایک اسکول قائم ہے، اور شہر میں مسلمانوں کا بہت ہی اہم اسکول ہے،اس کے بالائی حصہ میں علامہ سید سلیمان ندوی ہال بھی ہے۔ اس کے بانی سید حسن عثمانی تھے جو سملہ ضلع اورنگ آباد کے مشہور علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور شہر کے ان بزرگوں میں ہیں جنہوں نے یہاں تعلیم کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیاہے، پہلے انہوں نے مدرسہ قائم کیا تھا پھر اس اسکول کی بنیاد ڈالی۔

ان کے چچا زاد بھائی مولانا شاہ علی احمد عثمانی نے یہاں خانقاہ الشرف کی بنیاد رکھی اور ایک مدت تک لوگوں کو فیض یاب کرتے رہے، اور شہر کے بہت سے لوگ سے ان سے وابستہ ہوکر دینی تربیت حاصل کرتے رہے۔ اب بھی یہ خانقاہ آباد ہے۔

کبیریہ ہائی اسکول کے سابق ہیڈ ماسٹر الحاج سید مظفر حسین صاحب جن کا آبائی وطن سیوے ضلع جموئی تھا اس شہر میں اس اسکول کے حسن انتظام کی وجہ سے مشہور رہے اور یہاں تعلیم کے فروغ میں ان کا بہت ہی اہم حصہ تھا۔ انہوں نے مخلوط تعلیم کے بجائے یہاں لڑکے لڑکیوں کے درمیان پردہ کا ایسا نظم کیا تھا جو اس دور میں کہیں اور نہیں نظر آتا۔

شہر میں ایک مسلم لائبریری بھی ہے لیکن وہ اہتمام سے نہیں کھلتی۔

اس کے علاوہ یہ شہر مسجدوں کے شہر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہاں کئی اہم مساجد ہیں جو اس دور میں مسلمانوں کے عہد ترقی کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ چنانچہ ساکچی کی جامع مسجد جو شہر کی سب سے بڑی مسجد ہے بہت پرشکوہ ہے، اسی طرح دھتکی دیہ کی مسجد کی بھی بہت شہرت ہے لیکن اسے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ پچاسوں اہم مساجد ہیں، جو یہاں کے مسلمانوں کے ہی تعاون سے تعمیر ہوئی ہیں۔

تبلیغی جماعت کا کام بھی یہاں مضبوط ہے، اور اس کی وجہ سے یہاں دینی مزاج نظر آتا ہے۔ یہاں علماء کی بھی بڑی تعداد ہے، جن میں پچیس سے تیس صرف ندوی فضلاء ہوں گے۔ ان میں بزرگ ندوی فاضل مولانا عبدالعزیز صاحب ندوی اور ممتاز فاضل مولانا ابودجانہ عثمانی ندوی سجادہ نشیں خانقاہ سملہ ضلع اورنگ آباد کا وجود غنیمت ہے، مولانا موصوف ندوہ میں استاد بھی رہ چکے ہیں۔

مولانا عبدالعزیز صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی اور انہوں نے یہاں کے علمی وتعلیمی حالات تفصیل سے بتائے۔ ہمارے دیرینہ کرم فرما مولانا زاہد ندوی بھی اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ شہر سے دوررہتے رہیں اس لیے ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔

مسلمان مجموعی حیثیت سے یہاں خوش حال ہیں، لیکن ضرورت ہے کہ اتنی بڑی تعداد کی دینی وفکری رہنمائی کا نظم بھی ہو اور دینی شعور کے ساتھ ان کی فکر وثقافت بھی بلند ہو۔ کیوں کہ مسلم تمدن ایسے ہی جگہوں پر فروغ پاتا ہے۔ اس کے لیے اہل علم کو اس شہر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہاں کے اہل علم کو خاص طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare