جمعیۃ علماء ہند : ایک مختصر تعارف

ڈاکٹر عبدالملك رسول پوری

چلو آج كی گفتگو میں جمعیۃ علماء ہند كی تاریخ وتعارف پر كچھ روشنی ڈالی جائے۔ تو سب سے پہلے ہمیں اس سوال كا جواب تلاش كرنا ہوگا كہ جب ملك میں ایك نظام قائم ہے‏، ملك كا ایك دستور ہے اور ہر شہری كی بنیادی ضرورتوں كو پورا كرنے كے لیے ایك چاق وچوبند انتظامیہ ہے تو ان سماجی تنظیموں كی ضرورت ہی كیا ہے؟!! تو سمجھنا چاہئے كہ حكومتیں اپنے شہریوں كی تعلیمی ‏،اقتصادی اور تہذیبی وتمدنی ہر قسم كی ضرورتوں كی تكمیل كے لیے ارادے تو ركھتی ہیں اور منصوبے بھی بناتی ہیں؛لیكن بسا اوقات وسائل كے فقدان كی وجہ سے اور كبھی كسی عصبیت اور كسلمندی كی وجہ سے یہ منصوبے حقیقت كا جامہ زیب تن نہیں كرپاتے ہیں۔ ایسے میں یہ تنظیمیں ایك طرف حكومت پر دباؤ بناتی ہیں اور دوسری طرف مائل بہ احتجاج عوام اور حكومت كے درمیان گفتگو كا ایك پُل بھی قائم كرتی ہیں۔ اس كے علاوہ اپنی كمیونٹی اور اپنے سماج كی ہمہ جہت ترقی كے لیے ایك راہی ورہبر كا كردار بھی اداكرتی ہیں جہاں یہ تنظمیں عوام كےصاحب ثروت مخیر حضرات كو اپنے ہی سماج كے نچلے طبقے كی جملہ ضروریات كی تكمیل كے لیے قانع كرتی ہیں اورانھیں وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ‏، لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ جیسی آیات سناكر ان كی ذمہ داریوں كا احساس دلاتی ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند : ایک مختصر تعارف
جمعیۃ علماء ہند : ایک مختصر تعارف

اسلامی مآخذ كا جائزہ لیں تو وہاں بھی انسانی فلاح وبہبود كی ذمہ داری حكومتوں پر نظر آتی ہے؛ لیكن جہاں اسلامی حكومتیں نہیں ہیں یا جہاں حكومتوں كا كوئی خاص مذہب نہیں ہے‏، وہاں مسلمانوں كے لیے لازمی ہوجاتا ہے كہ اپنے مذہبی امور اور معاشرتی فلاح وبہبود كے لیے اپنی خود كی تنظیمیں بنائیں‏، جس كا خاكہ مسجد نبوی كی تعمیر سے حاصل كیا جاسكتا ہے‏، جو نہ صرف ادائیگی نماز كے لیے ایك معمولی جگہ تھی؛ بلكہ تمام مسلمانوں كو باہم مربوط كرنے والی ایك تنظیم كا صدر دفتر بھی تھی؛ چناں چہ اس مسجد میں تعلیم وتدریس‏،قضاو جزا‏، علاج ومعالجہ‏، ضیافت ومہماں داری‏ اور بینك كاری جیسے معاشرے كی فلاح وبہبود كے ضامن تمام ہی كام ہواكرتے تھے۔

قیام جمعیۃ

مسجد نبوی كے اسی خاكے كو پیش نظر ركھ كر ہمارے اكابرین نے 1919ء میں ایك جماعت قائم كی جسے جمعیۃ علماء ہند كے نام سے موسوم كیا گیا۔ ایسا نہیں ہےكہ اس جمعیۃ كے قیام سے پہلے یہ بانی اكابرین جد وجہد آزادی یا اسلامی شعائر كے تحفظ كے تئیں غافل یا كسلمندی و سست روی كے شكار تھے ‏، نہیں بلكہ یہ اپنی جگہوں پر كانگریس وخلافت كےپرچم تلے ہمہ طور كوشاں اور متحرك تھے؛ بس یہ سوچ كر كہ انفرادی كاوشوں كی بہ نسبت جماعتوں او رتنظیموں پر اللہ رب العزت كا خاص فضل ہوتا ہے اور ان كے ذریعہ اٹھائی جانے والی آوازوں میں غیبی طاقت بھی شامل ہوجاتی ہے جس كی وجہ سے فرد كی نحیف آواز ایك دوسرے سے مل كر مضبوط دہاڑ اور ایك آوازہ بن جاتی ہے‏،ان اكابرین نے اپنی كاوشوں اور مساعی كے لیے ایك پلیٹ فارم اور میدان عمل قائم كرلیا۔ اس كے نام میں یہ جو علماء كا لفظ ہے اس سے یہ نہیں سمجھا جانا چاہئے كہ یہ محض عالموں كی كوئی جماعت ہے نہیں ہرگز نہیں یہ ان تمام مسلمانوں كی جماعت ہے جو اللہ كی وحدانیت اور حضور كے آخری رسول ہونے پر یقین ركھتے ہیں‏، محض علماء كے لاحقے پر اس لیے اكتفاء كیا گیا ہے كہ عالم اپنے علاقے اور خطے میں رہنےوالے دیگر مسلمانوں كا راہی ورہبر ہوتا ہے ‏، وہ ذی علم اور با شعور ہونے كی وجہ سے صاحب رائے اور صاحب مشورہ ہوتا ہے۔

آزادی سے پہلے كےمقاصد

قیام جمعیۃ كے وقت اكابرین جمعیۃ كے پیش نظر دو مقصدتھے: اول ‏،وطن عزیز كی آزادی‏‏۔ اس سے پہلے بھی ہمارے پیش رؤوں نے حصول آزادی كے لیے بالاكوٹ اور شاملی میں جہاد كیا تھا؛ لیكن ناكامی كی صورت میں آئندہ كی پالیسی یہ بنائی كہ اس مہم میں برادران وطن كو ساتھ لے كر متحدہ طور پر انگریزوں سے مقابلہ كیا جائے‏، جس كے لیے گاندھی جی كے خاموش نظریے كو اپنایا گیا اور كانگریس میں شركت كو گوارا كیا گیا؛ چناچہ كانگریس كے بینر تلے عدم موالات‏‏،نمك ستیہ گرہ اور سول نافرمانی جیسی جتنی بھی تحریكیں چلیں سب میں جمعیۃ علماء ہند كے اكابر كانگریس اور گاندھی جی كے شانہ بہ شانہ ساتھ نظر آئے۔ كانگریس كے ساتھ یہ اشتراك كلی نظریاتی نہیں تھا ؛بلكہ حصول مقصد كے لیے جزوی تھا ؛چناچہ سن 1928 میں جب نہرو رپورٹ آئی ‏،جس میں مكمل آزادی كی جگہ جزوی آزادی كی بات كی گئی تھی تو ہمارے اكابرین نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق كا مظاہرہ كیاكیوں كہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنی بنیاد ہی مكمل آزادی كےمطالبے پر ركھی ہوئی تھی۔ سول نافرمانی كی تحریك میں جب انگریزوں كا بائیكاٹ ہوا تو پیش بندی كے طور پر جمعیۃ نے ادارہ حربیہ قائم كیا اورجماعت كے تنظیمی ڈھانچے كو ختم كركے ڈكٹیٹر شپ كا نظام بنایا تاكہ قید وبند كی صورت میں مشورے كے عمل میں زیادہ قانونی دشواریاں نہ پیش آئیں ‏، اس نظام میں ایك شخصیت كو ڈكٹیٹر بنایا جاتا تھا جو جماعت كا پورا نظام اپنے ہاتھ میں لے لیتاتھا اور پھر سول نافرمانی كے لیے عوام كو برانگیختہ كرتا تھا اور خود بھی انگریزوں كے بنائے ہوئے قانون یا لگائی ہوئی دفعات كو توڑ تا تھا نتیجے كی صورت میں انگریز انتظامیہ میں ہلچل برپا ہوجاتی تھی اور پھر وہ اس ڈكٹیٹر كوگرفتار كركے جیل بھیج دیتے تھے اس طرح پوری تحریك كے دوران حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا نعیم لدھیانوی اور مولاناعبدالحلیم صدیقی اور مولانا محمد میاں جیسے دسیوں ڈكٹیٹر حضرات یكے بعد دیگرے گرفتار كر كے جیل بھیجے گئے ۔

قیام جمعیۃ كا دوسرا مقصد اسلا م اور شعائر اسلام كا تحفظ تھا‏، جس كے لیے قیام جمعیۃ كے معا بعد شدھی تحریك كےدوران جماعت تبلیغیہ كے نام سے ایك شعبہ قائم كیا گیا ‏،جس كے بینر تلے اكابرعلماء كو جماعت میں بھیجا گیا اور تحریك كے نتیجے میں مرتد ہوجانے والے مسلمانوں كو دوبارہ اسلام میں داخل كیا گیا اور تحریك سے متاثر علاقوں میں دینی تعلیم كے مكاتب قائم كیے گیے۔ ساتھ ہی مختلف جگہوں پر قائم شدہ مساجد كے تحفظ كے لیے كوششیں كی گئیں۔قبل آزادی قانون سازی كے دورا ن مسلم پرسنل لا‏، میرج ایكٹ ‏، حج ایكٹ اور وقف ایكٹ جیسے قوانین بنوائے گئے تاكہ ملك سے اسلامی تہذیب وتمدن كے آثار مٹنے نہ پائیں۔ غرضے كہ ہروہ كام جس سے أسلام اور اسلامی احكام یا ان كے ماننے والے مسلمان متاثر ہورہے تھے ان كی حفاظت وصیانت كے لیے جمعیۃ علماء ہند نے ہر ممكن كوشش كی ۔

آزادی اور ملك كی تقسیم

وطن عزیز كی آزادی سے اولین مقصد تو حاصل ہوگیا ؛لیكن ملك دو قومی نظریے كے تحت تقسیم ہوگیا۔ جمعیۃ علماء ہند نے اپنی دور اندیشی كی وجہ سے میثاق مدینہ اور قرآن پاك میں مذكور قوم وملت كے معنوی تصور كے پیش نظر اس دوقومی نظریے كی پرزور مخالفت كی تھی‏، اولا ان كی فراست انھیں بتارہی تھی كہ مذہب كے نام پر جذبات برانگیختہ كرنے والے لوگ‏، اپنی نیتوں اور ارادوں میں سچے نہیں ہیں‏، جو اپنے اختیاری اعمال میں اسلامی احكام كو نہیں نافذكر سكے وہ مذہب كے نام پر بننے والے ملك میں اسلامی شریعت كو كیسے نافذ كریں گے۔ ثانیا انھیں یہ بھی نظر آرہا تھا كہ ملك اگر تقسیم ہوا تو ہندوستان كے تمام مسلمانوں كا پاكستان منتقل ہونا ناممكن ہوگا ‏ اور پھر ایك طرف باقی رہ جانے والے مسلمان كس مپرسی كی حالت میں زندگی گزاریں گے ‏ اور دوسری طرف اسلامی دعوت كے تمام راستے بند ہوجائیں گے۔ یہ وہ سیاست تھی جس كی وجہ سے ان اكابرین نے تقسیم كے بعد جمہوریت كو پسند كیا اور اپنی تمام تر كاوشیں ملكی انتظامیہ كو كسی خاص مذہب كے تئیں نہ ركھ كر سیكولر اور جمہوری بنانے میں صرف كیں اوربحمد اللہ وہ كامیاب بھی ہوئے۔ ملك نے جب ایك انتخابی جمہوریہ كی صورت اختیار كر لی تو اكابرین جمعیۃ نے خود بحیثیت تنظیم مسلم پارٹی نہ بنا كر مسلمانوں سے كہا كہ وہ انتخابی عمل میں آگے بڑھ كر حصہ لیں۔ انھیں اندیشہ تھا كہ مسلم اقلیت كے لیے اگر كوئی انتخابی مسلم پارٹی بنائی گئی تو ملك میں پھیلی ہوئی فرقہ واریت اور مذہبی نفرت كی دبیز چادر كبھی تار تار نہیں ہوسكے گی‏؛ اس لیے اكابرین جمعیۃ نے خود تو كانگریس كے ساتھ مل كر جمہوریت كو مضبوط كرنے اور ملك كے گوشے گوشے میں اسے فروغ دینے كا كام شروع كیا اور ساتھ ہی جمعییت كی صوبائی اكائیوں كو اختیار دیا كہ وہ انتخابی مشن میں حصہ لے كر نظریات اور مفادات كی بنیاد پر كسی بھی پارٹی كو ووٹ اور سپورٹ كرسكتے ہیں‏؛ چناں چہ كئی ایسے جمعیتی قائدین نظر آتے ہیں جنھوں نے كمیونسٹ پارٹیوں میں شركت كی اور اچھی خدمات انجام دیں۔

مابعد آزادی مقاصد

آزادی كے بعد جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اغراض ومقاصد كا ایك بار از سر نو جائزہ لیا اور اپنی تمام تر توجہات كو مسلمانوں كی علمی واقتصادی اور تہذیب و تمدنی فلاح وبہودكے ضامن منصوبوں پرمركوز كردیا‏، چناں چہ تعلیمی منصوبے كے طور پر“ ‏دینی تعلیمی بورڈ بنایا ”‏،جس كے ماتحت صباحی و شبینہ اور ساتھ ہی كل وقتی نظام تعلیم مرتب كیا ‏،جس میں طلبہ كی شخصیت سازی اور تعمیر ملت پر زوردیا گیا تاكہ ایك مسلم طالب علم اپنے دین كی بنیادی اور حلال وحرام میں تمیز كرنے والی شرعی اور اسلامی تشخص اور پہچان كو قائم ركھنے والی واجبی چیزیں سیكھ كر اسلامی فكر میں پختہ ہوجائے ‏،جس میں بعد كی تعلیم اور بعد كی زندگی میں فكر ی كجی اور ارتداد وبے دینی جیسی گمرہی سے محفوظ رہ سكے اوراسلامی امور میں مہارت كے ساتھ وطن عزیز كے لیے ایك مفید شہری بھی بن سكے۔

دنیاوی تعلیم كے لیے اہل ثروت اور مخیر حضرات كو مہمیز كیا كہ وہ ایسے اسكول اور كالجز بنائیں‏، جہاں اسلامی ماحول میں معیاری عصری تعلیم دی جاسكے اور خود غریب ونادرا طلبہ كے لیے وظائف كی اسكیم جاری كی‏‏۔ ساتھ ہی ہر قصبہ و بڑے گاؤں میں ایسے دارالمطالعے اور لائبریریاں قائم كرنے كی منصوبہ بندی كی‏، جس میں دینی وعصری كتابوں كی دستیابی كے ساتھ قرب وجوار كے طلبہ كے لیے اعلی تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحانات كی كوچنگ كا انتظام كیا جاسكے اور اسلامی علوم وفنون ‏، مسلمانوں كی سائنسی ایجادات‏ اور اسوہ وآئیڈیل بنائے جانے كے لائق عظیم شخصیات كی حیات وخدمات پر سیمنار منعقد كیے جاسكیں‏‏، تاكہ مسلم طلبہ اپنے بڑوں كے كارناموں سے واقف ہوكر خود اپنے لیے بھی كوئی عظیم منصوبہ بناسكیں اور بڑے ہوكر قوم وملك كی ترقی میں اپنا مطلوبہ كردار اداكرسكیں۔

اقتصادی میدان میں مسلمانوں كی ترقی كے لیے منصوبہ بندی كرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند نے مسلمانوں كے مابین صنعت وحرفت اور چھوٹی تجارتو ں كے فروغ كی بات كی۔ صاحب ثروت لوگوں كو اس بات كے لیے آمادہ كیا كہ وہ كوئی تجارتی كارپوریشن بنائیں‏، جس كے ذریعہ گھریلو دست كاری اوردیگر صنعتوں كو فروغ دیں۔ خود جمعیۃ نے غیر سودی نظام والے بینكوں كا نظام بنایا اور متعدد جگہوں پر ایسے مسلم فنڈ اور مسلم بیت المال قائم كردیے جہاں لوگ روزآنہ كی بنیاد پر اپنی آمدنی كا كچھ حصہ جمع كرتے ہیں اور ضرورت مند حضرت زیورات كے عوض چھوٹے قرضے حاصل كر كے اپنی ضروریات كو پورا كرتے ہیں اور تجارت كو فروغ دیتے ہیں۔

حفظان صحت كے لیے قومی بیداری مہم كے ساتھ چھوٹے بڑے كلینك اور نرسنگ ہوم قائم كیے جانے كا منصوبہ بنایا اور لوگوں كواس بات كی ترغیب دی اور جہاں وسائل حاصل ہوئے اور موقع میسر ہواتو آگے بڑھ كر خود بھی اسپتال قائم كیے‏، جیسا كہ كانپور میں مولانا اسعد مدنی صاحبؒ كے ذریعہ قائم شدہ اسپتال كی باقیات سے سمجھا جاسكتا ہے۔

غرضے كہ جمعیۃ علماء ہند نے مسلمانوں كی فلاح وبہبود كے لیے متعدد زاویوں سے منصوبے بنائے ‏،بس جہاں وسائل میسر ہوے ان منصوبوں كو عملی جامہ پہنا دیا گیا اور جہاں وسائل نہیں میسر آئے وہاں وہ منصوبے تشنہ رہے۔ آج كی تاریخ میں جمعیۃ علماء ہند كے بینر تلے ‏ مسلم بچوں كو دینی تعلیم سے آراستہ كرنے كے لیے “دینی تعلیمی بورڈ”‏، عصری تعلیم كے لیے“ ‏جمعیۃ اوپن اسكول”‏،جسمانی طور پر قوی مومن اور ایثار كا جذبہ ركھنےوالا خادم ملت تیار كرنے كے لیے “جمعیۃ یوتھ كلب”‏‏ ‏، نئے مسائل میں بحث وتحقیق كے لیے“ ادارہ مباحث فقہیہ‏”، مسلمانوں پر ظلم وجوراور نفرتی سب وستم كی دستاویز تیار كرنے اور حكومت كو اس بابت متنبہ كرنے كے لیے “جسٹس اینڈ ایمپاور آف مائناریٹرز” نامی متعدد شعبے مصروف عمل ہیں۔

اور سب سے اخیر میں جمعیۃ علماء ہند كے اس شعبے كا تذكرہ كیا جاتا ہے جو باقی شعبوں كی نسبت سب سے زیادہ متحرك اورفعال ہے حتی كہ لوگ جمعیۃ كا اصل مقصد اسی عمل كو سمجھتے ہیں اوروہ ہے امداد رسانی كا شعبہ‏‏‏‏، اس شعبے كی خدمات جگ ظاہر ہیں ‏، مسلمانوں پر كہیں بھی كوئی آسمانی یا شیطانی مصیبت نازل ہوتی ہے ‏،جمعیۃ علماء كایہ شعبہ متحرك ہوجاتا ہے اور فوجی سطح پر كام كر كے مسلمانوں كو امداد رسانی كی مہم میں مصروف نظرآتا ہے۔

جلسوں كی اہمیت

تنظیموں كو ہمہ وقت اور ہمہ طور متحرك ركھنے كے لیے ضروری ہوتا ہے ان كے كاركنان میں نئی امنگیں جگائی جاتی رہیں‏ اور ان كے جوش وخروش كو ٹھنڈا نہ ہونے دیا جائے‏؛ اس لیے جس طرح قرآن پاك میں انبیاے كرام كے قصے بار بار سنائے گئےہیں‏، اسی طرح قائدین جمعیۃ كاركنان جمعیۃ اور مسلمانان ہند كے سامنے اپنے منصوبے باربار سناتے رہتے ہیں اور عزائم میں پختگی پیداكرنےكی كوشش كرتے ہیں مبادایہ كاركنان كہیں اپنا سبق بھول نہ جائیں یا كسلمند ی كے شكار ہوكر ان كی رفتار سسست نہ پڑجائے۔ ساتھ ہی ایك یہ تصور بھی پیداكرنا رہتا ہے كہ ملك كےتمام مسلمان ایك خاندان كی حیثیت ركھتے ہیں ‏، ان كے كسی فرد پر كوئی آنچ آئے گی تو پورا خاندان اٹھ كھڑا ہوگا۔ خود قرآن پاك میں حضرت شعیب علیہ السلام كے واقعے میں مذكور ہے كہ ان كی قوم نے ان سے كہا تھا كہ ائے شعیب اگر آپ كا خاندان بڑا نہ ہوتا تو ہم تم پر لعن طعن بھی كرتے اور تم پر سنگ باری بھی كرتے۔

قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ.

اس آیت سے سمجھا جاسكتا ہے كہ خاندانوں كے باہم متحد رہنے اور پھر كسی فرد كے كسی تنظیم سے وابستہ رہنےكے كیا فائدے ہوسكتے ہیں۔ اسی تصور كو شاعر اسلام علامہ اقبال نے بھی اپنے اس شعر میں پیش كیا ہے:

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا كچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا كچھ نہیں

ان اجتماعات اور اجلاسوں كی اہمیت جمعے كی نماز كے سلسلے میں اسلامی نظریے سے بھی سمجھی جاسكتی ہے‏، آخر كیا وجہ ہے كہ محلے كی مسجدوں كو بند كر كے پورے شہر میں جمعہ كی نماز ایك ہی جگہ ادا كی جارہی ہے ‏، بظاہر ا س میں دشواری نظر آئے گی كہ ایك شخص اپنے گھر سے دو قدم كی دوری پر واقع محلے كی مسجد كو چھوڑ كر ہزار میٹر كی دوری پر جاكر جامع مسجد میں نماز ادا كررہا ہے اور اس كے لیے اسے اپنے كاروباور كو دو چار گھنٹے پہلے ہی بند كرنا پڑ رہا ہے ‏‏، مناسب تھا كہ ان دشواریوں كے پیش نظر محلے كی ہی مسجد میں جمعہ كی نماز اداكرلی جاتی ؛ لیكن اسلامی سیاست كا تقاضہ یہی تھا كہ پورے شہر اور متعدد قریوں كے مسلمان كسی ایك جگہ ہی جمعہ كی نماز اداكریں ‏،جس سے مسلمانوں كے باہمی روبط مضبوط ہوں اور ساتھ ہی ان كی اجتماعیت كامظاہرہ بھی ہو تاكہ كوئی انھیں كمزور اور بے معنی سمجھنے كی غلطی نہ كر بیٹھے۔

ان اجتماعات كا یہ ایك فائدہ یہ بھی ہوتا ہے كہ جس علاقے اور جس خطے میں اجتماع منعقد كیا جاتا ہے اس خطے میں جماعت كا پیغام گھر گھر اور كونے كونے میں پہنچ جاتا ہے ‏، جمعیتوں كےمقامی یونٹ قائم ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں كو بھی معلوم ہوتا ہے كہ ان پر ان كے دیگر مذہبی اور وطنی بھائیوں كے بھی كچھ حقوق ہیں جن كی ادائیگی كے لیے انھیں اپنے ذہن كو تیار كرنا ہوتا ہے تاكہ مسلم خاندان ‏،مسلم معاشرہ اور پھر وطن عزیز كی ترقی میں وہ اپنے اوپر واجب ذمہ داریاں ادا كرسكیں۔

آج یہ جو ہم آپ كے سامنے تنظیموں كی اہمیت بتلارہے ہیں اور جمعیۃ علماء ہند كا تعارف پیش كررہے ہیں یہ بھی یہ انھیں اجلاسوں كا ثمرہ ہے اگر یہ اجلاس نہ ہوتا ہے شاید نہ ہمیں خیال آتا ہے كہ ہم جمعیۃ علماء ہند كی تاریخ بیان كرتے اور نہ ہی آپ كے اندر اتنا جذبہ پیدا ہوتا ہے كہ آپ ملك كے بڑے علماء كی قائم كردہ اس تنظیم كی تاریخ كو بغور سنتے اور اس كے دست وبازو بننے كی كوشش كرتے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare