جنوب ہند کا پانچ روزہ سفر (پہلی قسط)
تحریر : بدرالاسلام قاسمی
والد گرامی کی سوانح بالکل ہی آخری مرحلے میں تھیں، پختہ ارادہ تھا کہ شش ماہی امتحان کی تعطیل میں اس کام کو مکمل کر لیا جائے گا اور جملہ کتب طباعت کے لیے بھیج دی جائیں گی، اسی دوران والد مرحوم کے خاص شاگرد، راقم کے مشفق و مکرم استاذ، فاضل دارالعلوم وقف، محترم جناب مولانا حمید اللہ قاسمی صاحب (کرنول، آندھراپردیش) کی شدید علالت کی اطلاع ملی، جس سے طبیعت نہایت بے چین ہو گئی، ان کا ایک قدیم مرض نہایت خطرناک انداز میں لوٹ آیا تھا، جس کے تعلق سے معالجین نے کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا تھا. وہ تقریباً ہفتہ بھر حیدرآباد کے ایک بڑے ہاسپٹل میں خصوصی نگہداشت (ICU) میں رہے، اس کے بعد طبیعت کچھ بحال ہونے لگی. ہم قدیم فیض یافتگانِ معھد الانور کے لیے یہ خبر صاعقہ اثر تھی، ان کے لیے شب و روز اپنے اپنے حلقوں میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا گیا، اللہ کا فضل بھی رفتہ رفتہ صحت کی صورت میں ظاہر ہونے لگا۔
استاذ گرامی کی شفقتیں ہم کچھ احباب پر اتنی زیادہ تھیں کہ اس موقع پر ان سے ملاقات کے بغیر دل کو قرار نہ آیا اور تعطیل شش ماہی میں ان کی عیادت کے لئے کرنول جانے کا ارادہ کر لیا گیا۔
راقم الحروف کے ساتھ تین احباب اس سفر میں شریک ہیں جس کی روداد یہاں بیان کرنا مقصود ہے. تینوں کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں :
1. مفتی محمد اسلم قاسمی: ضلع ہریدوار کے ایک گاؤں "سکروڈہ” سے تعلق رکھنے والے، عربی دوم میں معھد الانور میں داخل ہوئے اور نہایت دلجمعی کے ساتھ حصول علم میں منہمک ہو گئے، شبانہ روز جدوجہد سے طلبہ کے درمیان فائق ہوئے اور اساتذہ کی بے لوث خدمت سے ان کی مقبول و مستجاب دعاؤں کا مصداق بنے. عربی پنجم میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور یہاں بھی اپنی سابقہ روش برقرار رکھی. تکمیل افتاء بھی دارالعلوم سے کیا اور اس کے بعد اپنے خاص مربی و سرپرست، شارح ھدایہ حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈوی کی ہدایت کے مطابق ضلع میرٹھ کی ایک بڑی بستی اغوان پور کے نہایت قدیم ادارے "مدرسہ اسلامیہ حسینیہ” میں انتظامی خدمت انجام دینے لگے اور تا دم تحریر اپنی خطیبانہ صلاحیتوں، فقہی مسائل کے استحضار، عوام کی دینی رہنمائی، ماتحتوں سے برادرانہ رویے اور عوام کی مزاج شناسی کے نتیجے میں اس پورے گاؤں، بلکہ قرب و جوار کی بستیوں میں بھی کافی مقبولیت حاصل کر چکے ہیں، ساتھ ہی ادارے کو تعلیمی اور تعمیری ترقیات کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں. چند سال قبل راقم نے ایک واقعہ قارئین کے سامنے پیش کیا تھا جس میں روزے کی حالت میں روزانہ تقریباً تیس کیلو میٹر سائیکل چلا کر لوگوں سے ادارے کے لیے تعاون جمع کرنے کا تذکرہ کیا گیا تھا، وہ واقعہ ہمارے رفیق درس مفتی محمد اسلم قاسمی صاحب ہی کا ہے۔
2. مفتی محمد علی پنجابی : عربی اول سے میرے درسی ساتھی، معھد الانور کے فیض یافتہ، دارالعلوم وقف دیوبند سے فاضل، تکمیل افتاء بھی وہیں سے کیا. کم گو، سنجیدہ، صالحیت ان کی سرشت اور لوگوں کی خدمت کے لیے ہمہ تن تیار رہنا ان کی شناخت، کوئی بھی ساتھی بیمار ہو تو اس کے تیمار دار، ہر استاذ کی خدمت ان کے لیے باعث فخر، بالخصوص استاذ گرامی حضرت مولانا محمد سکندر صاحب قاسمی کے خادم خاص، صابر و شاکر اور قناعت پسند، پنجاب کے مشہور قصبے "مالیر کوٹلہ” سے تقریباً بارہ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع "دُگنی” نامی بستی سے تعلق رکھنے والے. فراغت کے بعد ایک سال استاذ گرامی، محترم جناب مولانا حمید اللہ صاحب قاسمی کے قائم کردہ ادارے "دارالعلوم انوار انوری، لکشمی پورم” کرنول میں ایک سال انتظامی و تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے بعد اپنے علاقے میں ہی امامت و خطابت اور ایک مقامی اسکول میں دینیات کے استاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں. اللہ تعالیٰ انھیں خوش و خرم رکھے. آمین
3. مولانا محمد حامد بستوی : میں معھد الانور میں عربی چہارم کا طالب علم تھا جب دو بھائیوں کا داخلہ ہوا، حامد اور ساجد، معلوم ہوا کہ دونوں اصلاً بستی کے ہیں اور اقامتاً ممبئی سے تعلق رکھتے ہیں. بڑے بھائی حامد سے ہی میرا تعلق رہا، اگرچہ ہم دونوں میں تعلیمی اعتبار سے دو سالوں کا فصل تھا، تاہم ایک بہت مضبوط وجہِ مناسبت موجود تھی "کرکٹ”. اس کھیل سے مجھے مناسبت بلکہ لاؤبالی پن کے اس دور میں محبت تھی اور یہ گمان بھی تھا کہ شاید ہی کسی کو اس کھیل سے اتنا تعلق ہو، رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ حامد میاں تو اس کھیل کے عاشق اور چیمپئن ہیں. ہماری بیٹری تو جمعہ کے دن صبح دو میچ کھیلنے کے بعد ڈاؤن ہو جاتی اور بعد جمعہ کھیلنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا، وہیں دوسری جانب حامد میاں تو جمعہ سے پہلے دو میچ اور جمعہ کے بعد دو میچ بآسانی کھیل لیتے، واضح ہو کہ اس زمانے میں جمعہ کے دن چھ چھ اوور کے میچز کا کوئی تصور نہ تھا جیسا کہ آج کل طلبہ چھ یا آٹھ اوور کھیلتے ہیں، بلکہ جمعہ کو کبھی بارہ کبھی سولہ اوور کے میچ کھیلنے جاتے. ان کی کرکٹ سے یہ وابستگی بلکہ وارفتگی اس وقت دیوبند بھر میں کافی مشہور ہوئی، یہ تو بس ہمارے تعلق کی وجہ کا ذکر ہے، ورنہ وہ ایک بہترین حافظ ہیں، ان کے لیے دس دن کی تراویح ہو یا تین دن کی، وہ ہمہ وقت تیار، بسا اوقات اچانک کال آئی کہ حافظ صاحب کی طبیعت ناساز ہے، اتنے پارے یہاں سے یہاں تک پڑھانے ہیں تو بھی برجستہ حاضر خدمت. بہر حال وہ دارالعلوم زکریا دیوبند سے فارغ ہوئے اور اب ممبئی میں کاروبار سے وابستہ ہیں۔
ادارے کی چھٹی ہو اور سفر میں قدیم و بے تکلف احباب، تو سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے، بہر حال ہم تینوں الگ الگ جگہ سے روانہ ہوئے، دیوبند کے ریلوے اسٹیشن پر ترقیاتی کام کو تزیین کے بجائے "سوندریہ کرن” سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، دہلی میں ہماری ملاقات ہوئی، ایئرپورٹ پر ایک کونے میں مغرب کی نماز پڑھنے کے "جرم” میں ایک سیکورٹی اہلکار سے تھوڑی "گفتگو” بھی ہو گئی، چیک اِن کے وقت ایک سیکورٹی اہلکار معمول کی چیکنگ کے دوران مجھ سے کچھ سوالات کرنے لگا، کہاں کے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟ کیوں جا رہے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ میں نے آخری سوال کا جواب دیا کہ میں ایک مدرسہ میں عربی ٹیچر ہوں. اس نے فوراً سوال کیا کہ عربی پڑھنے پڑھانے سے ہندوستان میں آپ کا معاشی مستقبل کیسے بہتر ہوگا؟ یہ سوال میرے لیے نہایت غیر متوقع تھا، میں کچھ تفصیلی جواب دیتا اتنے میں اس کو کسی دوسرے کام پر جانا پڑا. وہ تو چلا گیا، لیکن میرے ذہن میں کئی سوالات چھوڑ گیا کہ عربی تعلیم، مدارس یا مولوی نما لوگوں کے تعلق سے پروپیگنڈوں سے ایک عام ہندوستانی شخص ہی متاثر نہیں ہوا، بلکہ خواص کا طبقہ بھی رفتہ رفتہ اس زہر کو اپنے اندر جذب کر رہا ہے۔
رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے ہم حیدرآباد ایئرپورٹ پر تھے، ایک خامی جو یہاں کے نظام میں نظر آئی کہ سب کا سامان ایک جگہ ملتا ہے، سب اپنا اپنا سامان اٹھا کر چل بھی دیتے ہیں، لیکن یہ چیک نہیں ہوتا کہ کیا سب نے اپنا ہی سامان اٹھایا ہے. بہر حال اس نظام کو مزید مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔
حسن اتفاق کہ مولانا حامد صاحب بھی اسی وقت پہنچ گئے، باہر نکلے تو استاذ گرامی جناب مولانا حمید اللہ صاحب قاسمی شفاہ اللہ تعالیٰ اپنے ہم درس مولانا محمد توفیق قاسمی کے ساتھ موجود تھے، والہانہ انداز میں مشفق استاذ نے سب کو گلے لگایا، مختلف امراض کے اثرات ان کے جسم پر ظاہر ہو رہے تھے، تاہم چہرے کی بشاشت اور لبوں پر موجود مشفقانہ و بے تکلفانہ مسکراہٹ حسب سابق برقرار تھی. اللہ ان کو مکمل صحت یاب فرمائے، صحت کے ساتھ عمر میں برکت عطا فرمائے. آمین
حیدرآباد میں ہمارا تین مدرسوں میں جانا ہوا جن کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں :
1. دارالعلوم سبیل السلام
یہ ادارہ آج سے تقریباً پچاس سال قبل 18 /شوال 1393ھ کو معروف عالم دین حضرت مولانا محمد رضوان قاسمی صاحب نے قائم کیا تھا، آج اس کا شمار ہندوستان کے چند بڑے اور مرکزی اداروں میں ہوتا ہے، مدرسہ کی اپنی وسیع و عریض اور نہایت کشادہ جگہ ہے جس میں ہر شعبہ کے لیے الگ الگ عمارتیں قائم ہیں، مثلاً شعبۂ عالمیت، شعبۂ تحفیظ القرآن، شعبۂ کمپیوٹر وغیرہ، اساتذہ کی قیام گاہیں اور بہت ہی عالیشان و خوب صورت مسجد اس کے علاوہ ہے. یہاں ہماری ملاقات مدرسہ کے قدیم ترین استاذ، حضرت مولانا عبد الودود مظاہری صاحب سے ہوئی جو تقریباً 48 سال سے ادارہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، مختلف امراض شوگر، بی پی، ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف اور مسلسل ڈایلیسس کے باوجود تدریس سے ان کی وابستگی برقرار ہے، دوران گفتگو انھوں نے فرمایا کہ انتظامیہ و اراکین یہی کہتے ہیں کہ اب آپ آرام کر لیں، لیکن مجھے اسی تدریس سے سکون ملتا ہے. ان کی روحانی گفتگو بہت ہی مؤثر تھی، دوران طالب علمی کے کئی اہم واقعات انھوں نے ذکر کیے، اور میرے والد مرحوم سے اپنے دیرینہ تعلق کا اظہار بھی فرمایا۔
جناب مولانا مفتی سراج الہدی ندوی ازہری سے بھی یہاں ملاقات ہوئی، ادارے میں ششماہی امتحان جاری تھا، انہیں کی معیت میں ہر جگہ جانا ہوا، مفتی سراج الھدی بھی لکھنے پڑھنے والے آدمی ہیں، اردو ادب کا بھی عمدہ ذوق رکھتے ہیں، ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھی کافی ایکٹو رہتے ہیں، اپنی خطیبانہ صلاحیتوں کی وجہ سے انھیں بھی کافی مقبولیت حاصل ہے اور قرب و جوار کے دینی پروگراموں میں ان کی شرکت ہوتی رہتی ہے۔
ان کے علاوہ ادارے کے ناظم مولانا محمد نعمان قاسمی صاحب و دیگر اساتذہ سے بھی ملاقات ہوئی۔
معلوم ہوا کہ ادارے میں پہلے پانچ سو سے زائد طلبہ رہتے تھے، لیکن اب تقریباً تین سو طلبہ ہیں، لاک ڈاؤن کے اثرات سے کئی چھوٹے ادارے تو موقوف ہی ہو گئے، بڑے ادارے بھی اب تک متاثر ہیں، چنانچہ طلبہ کی گھٹتی تعداد کا مسئلہ خدا جانے کب تک رہے گا.
2. المعھد العالی الاسلامی :
دارالعلوم سبیل السلام سے ہمارا رخ، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائم کردہ ادارہ "المعھد العالی الاسلامی” کی جانب ہوا، نشیب و فراز سے بھرپور رستے سے ہوتے ہوئے کچھ فاصلے پر حضرت مولانا کے آستانے "بیت الحمد” پر بھی نظر پڑی۔
المعھد العالی الاسلامی میں محترم جناب مولانا مفتی محمد شاہد قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔
یہ ادارہ 25 سال پہلے 1999ء میں تخصصات کے لیے قائم کیا گیا تھا، وسیع و عریض زمین پر چند خوبصورت اور کثیر المقاصد عمارتوں پر مشتمل اس ادارے کا تخصص فی الفقہ کا دو سالہ کورس طلبہ و علماء میں کافی اعتبار کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، تعلیمی امور کے ناظم مولانا شاہد صاحب قاسمی نے بتایا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ تخصصات یہاں قائم ہیں، مثلاً شعبۂ تخصص فی التفسیر، تخصص فی الحدیث، مطالعۂ مذاہب اور مرکز المعارف سے مربوط دو سالہ انگریزی ڈپلومہ. مطالعہ مذاہب میں یوں تو تمام مذاہب کی بنیادی معلومات فراہم کی جاتی ہے، تاہم ہندوستان میں پائے جانے والے مذاہب پر خاص توجہ کے ساتھ مطالعہ کرایا جاتا ہے جس میں گیتا اور راماین وغیرہ کے اہم مباحث کا ہندی ترجمہ بھی شامل نصاب ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر، بانیٔ ادارہ، فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے بھی اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا. چند مہمانانِ کرام کی موجودگی میں ان کی مجلس میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا، انھوں نے فرداً فرداً ہر ایک سے مختصر تعارف معلوم کیا، اس کے بعد ہماری درخواست پر کچھ نہایت قیمتی نصیحتوں سے نوازا، جن کا خلاصہ سفرنامہ کی دوسری قسط میں پیش کیا جائے گا. ان شاء اللہ۔
(اگلی قسط میں : حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی قیمتی نصیحتیں، جامعۃ الطاھرات ہاشم آباد اور کرنول کے کچھ مدارس کا تعارف، استاذ گرامی حضرت مولانا حمید اللہ قاسمی صاحب کا تعارف، اور بھی بہت کچھ…….
ان شاء اللہ دو تین دن میں.)
فی الحال کرنول سے بنگلور کی جانب ہمارا شش نفری قافلہ رواں دواں ہے، دونوں جانب ہریالی، نہایت خوشگوار موسم اور وسیع شاہ راہ. فی امان اللہ