رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے

حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینیؒ –  جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی

عبید انور شاہ قیصر

جھوٹ، دھوکہ، منافقت، لالچ، بے ایمانی، مفاد پرستی، حق تلفی، تعصب کی گندگی ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، ہمارے گھر، ہماری مجلسیں، کوئی جگہ اس سے محفوظ نہیں ہے. اجلے کپڑوں، بلند و بالا عالیشان عمارتوں، چمچاتی گاڑیوں کے پردے میں یہ گندگی نہیں چھپتی اور نہ مہنگی خوشبوؤں کے استعمال سے اس کے تعفن میں کمی ہوتی ہے. یہ صورت حال دیکھ کر ایک حساس طبیعت اور زندہ ضمیر شخص بہت جلد اس دنیا سے اکتا جائے گا، زندگی اس کے لیے قابلِ نفرت بن جائے گی اور اس کے نزدیک مرنا اس کریہہ دنیا میں جینے سے زیادہ آسان ہوگا. مگر یہ بھی سچ ہے کہ اسی دنیا میں سچائی، ایمانداری، شرافت، نیکی، اصول پسندی، سخاوت، صداقت، خلوص جیسے پاکیزہ اوصاف بھی ہیں، ان چیزوں کو دیکھ کر امید بندھتی ہے، حوصلہ ملتا ہے، زندگی کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے اور جینا با معنی و با مقصد لگتا ہے. مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس میں یہ ساری خوبیاں تھیں، جو راستی، امانت داری، پرہیزگاری، حسنِ معاملہ، بلند اخلاقی، پختگیٔ علم، خلوصِ عمل جیسی کمیاب صفات کا مجموعہ تھا، جس کی صحبت میں بیٹھ کر اور جس کے قال و حال کو دیکھ کر وہ کیفیت ہوتی تھی جو تاریک مہیب رات میں بھٹکتے مسافر کی روشنی کی کرن دیکھ کر ہوتی ہے. یہ دلفریب شخصیت حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ کی تھی. وہ اپنی اچھائیوں اور کمالات کے لحاظ سے فردِ فرید تھے. انہیں دیکھ کر جینے کا صحیح مطلب اور مقصد سمجھ میں آتا تھا، زندگی سے پیار ہو جاتا تھا.

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

حضرت سے متعلق میری ابتدائی یاد اور تاثر

مولانا کے منجھلے صاحبزادے ‘عمارہ نور’ اسکول کے زمانے کے میرے ساتھی ہیں، ہم نے چھٹی سے بارہویں کلاس تک ایک ساتھ پڑھا ہے، اس زمانے میں مولانا کے یہاں میرا آنا جانا رہا. مہینے پندرہ دن میں ایک بار ان کے یہاں جانا ہوتا، اس وقت مولانا کے بارے میں صرف اتنا علم تھا کہ یہ میرے دوست کے والد ہیں اور عربی زبان میں مہارت رکھتے ہیں. اس سے زیادہ جاننے کی نہ کوئی دلچسپی تھی، نہ اُس وقت اِس کی ضرورت محسوس ہوئی. ادھر عمارہ نے مزید تعلیم کے لئے دیوبند سے باہر کا رُخ کیا اور ادھر میں بالکل غیبی طور پر مدرسہ کی انجان اور نئی دنیا میں جا پہنچا. مدرسہ میں آنے کے بعد سے حضرت مولانا کا نام کانوں میں پڑنے لگا تھا۔

ضرت کے ممتاز شاگردوں میں سے ایک مفتی وصی صاحب بستوی ہیں. جامعہ امام محمد انور میں مجھے ان سے عربی سوم کے تعلیمی سال میں پڑھنے کا موقع ملا ہے، وہ مختلف اوقات میں مولانا کا ذکر کرتے رہتے تھے. مولانا نور عالم صاحب کی عربی زبان میں غیر معمولی مہارت اور ان کی شخصیت کے دیگر بہت سے پہلوؤں پر دلنشیں انداز میں روشنی ڈالتے تھے. ہم طلبہ میں مفتی وصی صاحب کی عربی استعداد و مہارت مسلّم تھی، جب ان کی زبانی ان کے استاذ کے کمالات کا تذکرہ سنا تو دل میں ان کی عظمت کا نقش قائم ہو گیا. ایک دن مفتی صاحب میری کاپی چیک کر رہے تھے، اس میں کسی جگہ لفظ "خوبصورت” لکھا ہوا تھا. مفتی صاحب نے اسے قلم زد کر دیا اور سمجھایا کہ اس لفظ کو الگ الگ کرکے "خوب صورت” لکھنا چاہیے. پھر مرکب حروف کے املا کے بارے میں ایک مختصر تقریر کی، جس میں بطور خاص طلبہ کو نصیحت کی کہ "حرفِ شیریں” کا مطالعہ ضرور کریں. میں سالِ دوم میں اس کتاب کا مطالعہ کر چکا تھا اور اس کی کئی باتوں سے سخت اختلاف رکھتا تھا.

اس اختلاف کی وجہ بھی سن لیجیے، جامعہ امام محمد انور شاہ میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (Ncpul) سے منظور شدہ کمپیوٹر کا شعبہ بھی تھا. اس شعبے میں داخل طلبہ کے لیے ہر ماہ ماہنامہ اردو دنیا آتا تھا. ان دنوں اس میں شمس الرحمن فاروقی مرحوم کا نہایت معلوماتی مضمون چھپ رہا تھا، جس کا موضوع تھا "اچھی اردو: روز مرہ، محاورہ، صرف”، اس کی کل کتنی قسطیں آئیں درست عدد تو یاد نہیں، لیکن یہ مضمون کم و بیش ایک سال (بارہ قسطوں) تک چھپتا رہا. پورے رسالہ میں مجھے یہ چیز سب سے زیادہ دلچسپ نظر آتی تھی اور میں بغور اس کا مطالعہ کرتا تھا. بس اسی مطالعہ کے زعم میں حرفِ شیریں کی کئی باتوں سے اتفاق نہیں تھا. مفتی صاحب نے املا کے تعلق سے جو تقریر کی، اس میں ہم طلبہ کو سمجھانے کے لیے یہ بھی کہا کہ اگر مرکب لفظوں کو الگ الگ کرکے لکھا جائے تو ان کے غلط پڑھنے کا امکان نہیں رہتا. اردو میں لفظ کا آخری حرف ساکن ہوتا ہے، مثلاً خوب صورت کو جب الگ الگ لکھا جائے گا تو پڑھنے والا اسے خوبْ صورتْ ہی پڑھے گا. اس کے بر عکس اگر اسے ملا کر لکھا جائے تو کوئی خوبَصورت یا خوبُصورت بھی پڑھ سکتا ہے. جی میں آیا کہ مفتی صاحب سے عرض کروں کہ جو خوبصورت کو درست نہیں پڑھ سکتا اسے اردو پڑھنے کا حق ہی نہیں ہے. لیکن مفتی صاحب کا رعب اتنا تھا کہ اس قسم کا اعتراض (جواب) کبھی بھی ذہن سے زبان پر نہیں آ سکتا تھا.

بہرحال مفتی صاحب کی تقاریر سے مولانا کی خوبیوں سے کچھ نہ کچھ واقفیت ہوتی رہی، اور ان کی عظمت دل میں بڑھتی گئی. ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب عربی کے ساتھ اردو میں بھی ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور املا کے تعلق سے ان کی اپنے اختیارات و ترجیحات ہیں. عربی پنجم میں املا نامہ (مرتبہ گوپی چند نارنگ) اور رشید حسن خان کی چند کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا، تب سمجھ میں آیا کہ املا کے تعلق سے مولانا نور عالم صاحب کے جو اختیارات ہیں وہ از قبیلِ تفردات نہیں ہیں، بلکہ یہ تو وہ گزارشات اور تجاویز ہیں جو اردو کے ماہرین لسانیات نے پیش کی ہیں، لیکن انہوں نے تجاویز پیش تو کر دیں مگو خود ان پر عمل نہ کر سکے. یہ مولانا نور عالم صاحب کی قوتِ فیصلہ اور اردو کے املا کی اصلاح کے حوالے سے اخلاص اور بیداری تھی جو انہوں نے ان تجاویز کو عملاً اختیار کیا۔

الداعی سے پہلا تعارف

دارالعلوم آنے کے بعد مولانا نور عالم صاحب کا نام بکثرت کانوں میں پڑنے لگا. ہر طالب علم کی زبان پر مولانا کی عربی دانی کا چرچا تھا. ابھی تک مولانا کہ کوئی عربی کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا. عربی پنجم میں مقامات شروع ہوئی. علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی رحمہ اللہ نے اصلاحِ نصاب کے تعلق سے تفصیلی مضامین لکھے ہیں. علامہ بنوری کا مضمون "ترجمان دارالعلوم” (دہلی) اور مولانا اکبر آبادی کا مضمون "ماہنامہ برہان” میں پڑھ چکا تھا اور اس کے نتیجے میں مقامات سے دل نہیں ملتا تھا. اس کتاب کے بارے میں یہ بات دل میں بیٹھ گئی تھی کہ اب یہ اسلوب متروک ہو چکا اور محض لغت کے لیے اس پر محنت کرنا اور ذہن کو تھکانا زیادہ مفید نہیں. لغت تو کسی بھی اچھی ادبی کتاب میں مل سکتی ہے جس کا اسلوب جدید اور قابلِ تقلید ہو. پھر کتاب کا جو عام طرزِ تدریس ہے وہ خود الجھن کا باعث تھا، بغیر مشق و تمرین اور عملی تطبیق کے اس کتاب کا کوئی حاصل سمجھ میں نہیں آتا تھا. یہی تاثر تھا جس کے تحت میں نے مشورہ کے بعد الداعی خریدنا شروع کیا اور کسی نہ کسی حد تک پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔

مولانا نور عالم صاحب اور مولانا ساجد صاحب ہردوئی کے مضامین مرکزِ توجہ رہتے تھے. جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ مولانا نور عالم صاحب سے عقیدت و محبت کا رشتہ پہلے ہی قائم ہو چکا تھا، اب الداعی کی دید اور ٹوٹے پھوٹے مطالعہ نے اس رشتے کو مزید گہرا کر دیا تھا، آئندہ سال مولانا نور عالم صاحب سے متنبی پڑھنے کا شرف حاصل ہوگا، یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہتا تھا. ہوتے ہوتے عربی ششم کا سال بھی آ گیا. اسباق فلاں تاریخ سے شروع ہوں گے اس کا اعلان بھی آویزاں ہو گیا. درسگاہ میں ایک رسمی الیکشن کے بعد مولوی مجاہد الاسلام، بمبئی ترجمان منتخب ہو چکے تھے. مولوی مجاہد جامعہ امام محمد انور ہی سے میرے بہت مخلص ساتھی تھے. انہوں نے جب یہ کہا کہ مولانا نور عالم صاحب کو لانے کے لیے میرے ساتھ کون چلے گا؟ تو میں فوراً تیار ہو گیا اگر آپ جائیں گے تو میں ساتھ چلوں گا۔

میں اور مولوی مجاہد مولانا کے گھر پہنچے. کنڈی کھٹکھٹائی تو داخل ہونے کی اجازت مل گئی. اندر داخل ہوئے تو دو طالب علم وہاں پہلے سے موجود تھے اور مولانا شیروانی میں ملبوس کالے رنگ کے چمچماتے جوتے پہنے ہوئے بالکل تیار بیٹھے تھے. ہم سلام کرکے ایک کونے میں خاموش کھڑے ہو گئے. مولانا نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ اب کھڑے کیا ہو، چلو جلدی چلو. ایک تو دیر سے آئے ہو اور مزید دیر لگا رہے ہو. کل سے دس منٹ پہلے آنا. مولانا نے چھڑی سنبھالی اور ہم آہستہ آہستہ پیچھے چلنے لگے. مولانا کو دارالعلوم کی جانب سے جو مکان ملا ہوا ہے وہ چھتہ مسجد کے قریب افریقی منزل میں واقع ہے. اسی منزل میں مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی، مولانا احمد صاحب، مولانا مجیب اللہ صاحب گونڈوی اساتذہ دارالعلوم کی بھی رہائش ہے. مولانا نور عالم صاحب کو اوپری منزل میں جگہ مل ہوئی تھی. وہ ایک زمانے سے شوگر کے مریض تھے، پاؤں کا زخم اسی بنا پر بھرتا نہیں تھا. چلنے میں مشقت ہوتی تھی. جب مولانا زینے سے اترنے لگے تو دل بہت گھبرایا کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے. مولانا بہت آرام سے ٹھہر ٹھہر کر اترے اور درمیانی چال سے دارالعلوم کی طرف چلنے لگے. تب اندازہ ہوا کہ مولانا کے لیے عام راستہ پر چلنا بھی دشوار ہے، چہ جائیکہ اوبڑ کھابڑ راستوں پر. اسی دھیمی رفتار کے ساتھ درسگاہ پہنچ گئے. مولانا درسگاہ کے دروازے پر رکے اور ان دو طالب علموں میں سے ایک نے جوتے اتارنے میں ان کی مدد کی تو معلوم ہوا کہ مولانا کے لیے از خود جوتے اتارنا بھی مشکل ہے۔

متنبی کا سبق اور تمہیدی گفتگو

حضرت نے سب سے پہلے حاضری لی، اس کے بعد عربی زبان کی اہمیت و فضیلت، دیگر زبانوں پر اس کی فوقیت، عربی زبان کی ترویج، اس کی گرامر (صرف و نحو) کی تدوین، حفاظت اور ترقی میں علماء کرام کی بے مثل جانفشانیوں اور قربانیوں پر سیر حاصل کلام کیا. عربی زبان کی وسعت اور اس کی فصاحت و بلاغت پر روشنی ڈالی اور یہ نکتہ سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری کلام اسی زبان میں کیوں نازل کیا؟ اس ضمن میں ایک جملہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کلامِ الہی اس قدر پُر شکوہ، پر جمال اور اس درجہ فصیح و بلیغ ہے کہ کوئی اور زبان اس کا تحمل ہی نہیں کر سکتی. اگر کوئی زبان یہ ارادہ کرے کہ میں قرآن کی کسی آیت کو اس کی تمام تر جمالیات اور معنویت کے ساتھ ادا کروں تو وہ زبان کبھی ایسا نہ کر سکے گی بلکہ اس کوشش میں اس کے پرخچے اڑ جائیں گے. امام شافعی، امام ابن تیمیہ وغیرہ متعدد علماء کے اقوال سنائے کہ وہ عربی جاننے والے کے لیے بلا ضرورت غیر عربی میں کلام کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور مکروہ قرار دیتے ہیں. نیز فرمایا کہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں احادیث موجود ہیں، حدیث کے سینکڑوں مجموعے ترتیب دئے گئے ہیں، کسی ایک حدیث میں بھی یہ بات نہیں ملے گی کہ فلاں صحابی نے غیر عربی میں کلام کیا ہو. طلبہ آپس میں اپنی مادری زبان میں بات کرتے ہیں، کبھی اس زبان کو نہ جاننے والے بھی بطور تفریح اپنے ساتھی سے کہتے ہیں کہ اپنی زبان میں بول کر بتاؤ. لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ انہوں نے بطور تفریح ہی اپنی زبان میں کلام کیا ہو. کسی راوی نے نہیں کہا کہ میں فلاں صحابی کے یہاں گیا تو وہ اپنی مادری زبان میں گفتگو کر رہے تھے. یہ تقریر نہایت مبسوط، مدلل اور جذبات سے لبریز تھی جو کہ تین دنوں میں پوری ہوئی.

پہلے دن گھنٹا کب ختم ہوا اس کا ہلکا سا بھی احساس نہ ہو سکا. اگلے دن مولانا تشریف لائے تو جہاں بات چھوڑی تھی وہیں سے آغاز کیا اور پھر تیسرے دن جا کر اس کی تکمیل ہوئی.

سچ یہ ہے کہ عربی زبان کے حوالے سے ایسی تقریر میں نے کبھی نہیں سنی. اس تقریر کا ہر لفظ سوزِ دروں کی بھٹی میں تپا ہوا سونا اور ہر جملہ تراشے ہوئے ہیروں کی ایک حسین لڑی تھی. خلوص سے بھرا ہوا دینی جوش، اعتماد سے بھری پُر وقار من موہنی آواز، مقرر کی دلنواز شخصیت کا رعب اور حسن و جمال، سلاست و روانی کا دریائے لطافت، ایک سچے عاشق کا سوز و گداز، اس تقریر میں کیا نہیں تھا!

درس اور درسگاہ کی کچھ جھلکیاں

حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ سے راقم نے متنبی اور دیوان حماسہ کا باب الادب پڑھا ہے. مولانا کے پڑھانے کا طریقہ سب سے الگ تھا. وہ لغت بتاتے، مشکل تراکیب سلجھاتے، ترجمہ سمجھاتے اور ہر پہلو سے کتاب حل کراتے لیکن ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ یہ سب کام اس قدر دلچسپ انداز میں کرتے کہ اکتاہت، بوجھ، سستی کا گزر بھی نہ ہوتا. میں نے دسیوں اساتذہ سے پڑھا ہے اور بہت بار یہ دیکھا ہے کہ طلبہ گھنٹہ ختم ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، ان کی نگاہیں گھڑی کا طواف کرتی رہتی ہیں. اس میں اساتذہ کے درس کی کوئی کمی نہیں ہوتی، درس تو معیاری اور تحقیقی ہوتا ہے لیکن اندازِ بیان میں ندرت نہیں ہوتی، جو مطالعہ کیا ہے بس اسے کسی طرح آ کر دوہرا دیا جائے یہ ذہن میں ہوتا ہے ایسے میں اگر طلبہ اکتاہت محسوس کرنے لگیں تو وہ بالکلیہ موردِ الزام نہیں ہیں. مولانا نور عالم رحمہ اللہ کے بیان میں ندرت ہوتی تھی، تازگی اور جوش ہوتا تھا. موقع بہ موقع لطیفوں اور مزاحیہ جملوں کی پھلجھڑی چھوٹتی رہتی تھی. مولانا کا ایک ایک جملہ ایسا ہوتا تھا کہ درسگاہ قہقہہ زار ہو جاتی. غیر محنتی، کام چور طلبہ، نام نہاد علماء اور پیشہ ور مہتمموں کی مولانا کے یہاں خیر نہیں تھی. ان پر مولانا کے چٹکلے نہایت کاٹدار اور جاندار ہوتے تھے۔

سبق میں ترتیب یہ تھی کہ ہر طالب علم کھڑے ہو کر بلند آواز سے دو تین شعر کتاب میں دیکھ کر پڑھتا، پھر اس سے اگلا طالب علم کھڑا ہوتا اور وہ اگلے اشعار پڑھتا. جتنا سبق مولانا کو پڑھانا ہوتا اتنے اشعار اسی طرح آٹھ دس طلبہ سے پڑھوائے جاتے. چھ یا آٹھ اشعار سے زائد سبق کبھی کبھی ہی ہوتا. دو باتوں کی مولانا کی جانب سے تاکید تھی، ایک تو اعراب بالکل درست ہو اور دوسرے لہجہ زوردار ہو. مری ہوئی آواز اور اردو لہجہ میں عربی پڑھنے سے مولانا کو بڑی کوفت ہوتی تھی. جو طالب علم اچھا پڑھتا اسے "جمیل جمیل” کہہ کر داد دیتے اور جو ان دو اصولوں کے خلاف کرتا اس کی سخت گرفت کرتے. ہمارے نہایت محنتی با صلاحیت اور نیک ساتھی فضل الرحمن بہرایچی عام گفتگو میں بھی پر جوش آواز اور جھٹکے دار لہجے میں بات کرنے کے عادی تھے، وہ جب عبارت پڑھتے تو اکثر جمیل کا تمغۂ تحسین انہیں مل جاتا. ایک ساتھی تھے وہ غالباً اینگزائٹی (گھبراہٹ) اور اسٹیج فوبیا کے شکار تھے. جب بھی ان کا نمبر آتا تو ان کے لیے عبارت پڑھنا ناممکن ہوتا، آواز بکھرنے لگتی اور جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی. ایک دن انہوں نے عبارت پڑھی، مولانا نے بلند آواز سے پڑھنے کو کہا، انہوں نے دوبارہ پڑھنے کی کوشش کی مگر مرتعش لہجہ نے مولانا کا موڈ خراب کر دیا. کہنے لگے : "اسے دیکھو! یہ ناتھو رام ہے، ابھی نیا نیا مسلمان ہوا ہے، اسے عربی پڑھنی نہیں آتی”۔

اسی طرح ایک طالب علم نے اپنی باری آنے پر شعر پڑھا، کتاب میں اعراب غلط لگا ہوا تھا، مولانا نے ٹوکا کہ دیکھ کر پڑھو. انہوں نے پھر سے وہی پڑھا. دو بار متوجہ کرنے کے بعد بھی وہ اپنی غلطی نہ سمجھ سکے اور غلط اعراب پڑھتے رہے. اس وقت مولانا کو جو جلال آیا اللہ کی پناہ. غصہ سے ان کا بدن کانپنے لگا. خوب ڈانٹا، برا بھلا کہا، اس وقت کا یہ جملہ یاد رہ گیا ہے کہ : "تم جیسے طلبہ کے لیے مدرسہ کا کھانا حرام ہے. قوم کی محنت کی کمائی سے یہ مدرسہ چل رہے ہیں. یہاں تم جیسوں کی گنجائش نہیں. لوگ اس لیے چندہ نہیں دیتے کہ تم یہاں پڑے کھاتے اور سوتے رہو”۔

مولانا نے درس شروع ہوتے وقت کئی دن یہ بات دہرائی کہ "جس طالب علم کو میرے بتائے طریقہ پر محنت سے نہیں پڑھنا ہے اسے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جا کر کوئی اور کام کر لے. عالمیت کی ڈگری حاصل کرنا لازم نہیں، حلال کمانا فرض ہے. جا کر کوئی کام سیکھ لو. حلال کماؤ، نماز روزہ کی پابندی کرو، کافی ہے. لیکن مدرسہ میں رہ کر حرام کھانے کی عادت نہ ڈالو. جب محنت سے نہیں پڑھو گے تو فارغ ہونے کے بعد طلبہ کو دھوکہ دو گے اور اگر چالاک ہوئے تو مہتمم بن کر پوری قوم کو دھوکہ دوگے”۔

مولانا کے یہاں "غیر حاضری” کا جرم بڑا سنگین شمار ہوتا تھا. جس وقت مولانا جوان تھے اس وقت ان کے گھنٹے میں غیر حاضری کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، اس سلسلے میں کسی طرح کا عذر قابلِ قبول نہیں تھا. اس زمانے کے پڑھنے ہوئے طلبہ (جن میں سے اکثر اب استاذ بن چکے) مولانا کے غیض و غضب کے واقعات سناتے ہیں، درسگاہ میں جو ڈانٹ پڑتی تھی وہ شیر دل سمجھے جانے والے طلبہ کو میمنا بنا دیتی تھی اور اس کے بعد مولانا کا فرمان جاری ہوتا تھا کہ دو ماہ تک درسگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں. دروازے پر کھڑے رہ کر سبق سنو. اور اگر ان دو ماہ میں دروازے سے ایک دن بھی غائب ہوئے تو سزا دوبارہ شروع ہوگی، گویا کہ شھرین متتباعین کا منظر ہوتا تھا. جرم کی شدت کے حساب سے سزا کی میعاد دو کی جگہ تین ماہ بھی ہو جاتی تھی. جس وقت ہم نے مولانا سے پڑھا تو بڑھاپے کا آغاز ہو چکا تھا، شب و روز کی انتھک محنت، جسم کو گھلا دینے والی طویل بیماری، زندگی کی حل نہ ہونے والی پیچیدگیوں، علم کے گرتے ہوئے معیار، طلبہ کے عمومی لاابالی پن، دیگر متعدد اعذار اور ذہنی الجھنوں نے مزاج میں نرمی، بیزاری، جھنجلاہٹ، بے بسی کی کیفیات پیدا کر دی تھیں. جب کوئی طالب علم غیر حاضری کرتا یا وہ غلطیاں اس سے صادر ہوتیں جو مولانا کے نزدیک جرم کے زمرے میں آتی تھیں تو وہ غصہ، افسوس، لاچاری کی ملی جلی کیفیت سے پُر آنکھوں سے چند سیکنڈ اسے گھورتے، تھوڑا بہت ڈانٹتے اور پھر شاید یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے کہ یہ لوگ سدھرنے والے نہیں ہیں. اسی حسرت کے موقع پر ان کی زبان سے یہ جملہ بارہا سنا کہ ” ہم نے جوانی کے دنوں میں بڑے بڑے سرکشوں کو سیدھا کیا ہے”. پھر عجیب مزاحیہ لہجے میں کہتے : "ڈرو اس دن سے جب میری جوانی لوٹائی جائے گی” اور قہقہہ لگا کر اپنا غصہ اور درد چھپانے کی کوشش کرتے۔

مولانا کے طنزیہ جملے شاہکار ہوتے تھے. ان جملوں کے پسِ پردہ رمز، اشارہ، ایک پوری کہانی اور ایک مکمل تاریخ ہوتی تھی. جو لوگ ان جملوں کے پس منظر سے واقف نہ ہوں وہ ان کا صحیح لطف نہیں اٹھا سکتے. ایک مشہور خاندان کے چند افراد کو مولانا نے پائجامہ اس قدر اونچا پہنے ہوئے دیکھا کہ شاید وہ نصف ساق سے بھی اوپر تھا. اس دن درس میں یہ جملہ ارشاد فرمایا : ” ٹخنوں سے اوپر پائجامہ پہننا سنت ہے لیکن حدیث میں نیکر پہننے کو نہیں کہا ہے”.درسگاہ کا رنگ و روغن پرانا ہو چکا تھا، کئی جگہ سے پلاسٹر اتر رہا تھا، دیواریں بد رنگ اور بے رونق ہو گئیں تھی، مولانا نے دیکھا تو یہ جملہ کہا: ” بنا بنایا مدرسہ مل گیا ہے اس لیے اس کا یہ حال ہو رہا ہے. باپ دادا نے کوئی عمارت تعمیر کرائی ہو تو اولاد ایک ایک اینٹ پر نظر رکھتی ہے اور اس کی حفاظت کرتی ہے، یہاں سب بنا بنایا مل گیا ہے. اس لئے کسی کو پروا نہیں”. مولانا کو جو بات اچھی لگتی اس کی اچھائی بیان کرنے میں اور جو بات بری لگتی اس کی مذمت و قباحت کے بیان میں کوئی مصلحت، مفاد ان کے آڑے نہ آتا تھا. جو دل میں ہوتا وہی زبان پر رہتا۔

مولانا سبق پڑھاتے تو ان کا جوش و شوق دیدنی ہوتا تھا. ایک ایک شعر چٹخارے لے کر پڑھتے اور جھوم جھوم کر دہراتے. میں نے زندگی میں انہیں کو عربی اشعار گنگناتے اور والہانہ انداز میں ان سے حظ اٹھاتے دیکھا ہے. میں نے بارہا محسوس کیا کہ وہ پڑھانے کے اس عمل سے خوشی اور آسودگی کشید کر رہے ہیں اور لطف اندوزی کے مدراج طے کر رہے ہیں۔

مولانا کے بارے میں ایک مشاہدہ یہ ہوا کہ انہیں اردو الفاظ کے لغوی مفاہیم اور مترادفات ذہن نشین تھے. جب کوئی ایسا لفظ آتا جو اردو نہ جاننے والے طلبہ کے لیے مشکل ہوتا تو مولانا اس کی تشریح بہترین انداز میں کرتے. مثال کے طور پر اگر اردو لکھنے پڑھنے والے کسی شخص سے پوچھا جائے کہ لگام کسے کہتے ہیں؟ تو اکثر جواب اس نوعیت کا ہوگا کہ لگام.. ارے وہی جو گھوڑے کی منھ میں ڈلی ہوئی ہوتی ہے. مولانا اس کا جواب اس طرح دیتے کہ لگام وہ لوہے کی بنی ہوئی چیز جس میں تسمہ باندھ کر گھوڑے کے منھ میں اسے قابو رکھنے کے لیے لگاتے ہیں، اسے باگ اور عنان بھی کہتے ہیں. اس قسم کی تشریح دسیوں بار مولانا کی زبان سے سنی اور ان کی اس خوبی کا بار بار مشاہدہ کیا۔

مولانا کو اردو اشعار بھی کافی یاد تھے. کبھی کبھی سبق میں اشعار کی تشریح کے ساتھ اس کے ہم معنی یا اس سے مناسبت رکھنے والا کوئی بہترین اردو شعر پڑھتے تو لطف دو بالا ہو جاتا. اکثر غالب کے اشعار سننے میں آئے، ایسے موقع پر مولانا شعر سنا کر طلبہ کے چہروں سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے کہ انہوں نے کچھ سمجھا بھی یا نہیں، اور اکثر انہیں مایوسی ہی ہاتھ لگتی. میری نگاہ مولانا کے سراپا، ان کے چہرے پر آتے جاتے رنگ، ہاتھوں کی گردش، ہونٹوں کی جنبش اور نگاہوں کی ہر حرکت کو فوکس کئے رہتی تھی اور یہ باریک باریک باتیں احساس کا حصہ بنتی رہتی تھیں… (جاری)

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply