حضرت مولانا عبد العلیم صاحب فاروقیؒ : حالات و تاثرات
محمد روح الامین بن قاری محمد نور الامین(میوربھنج، اڈیشا)
جانشینِ امامِ اہل سنت حضرت مولانا عبد العلیم صاحب فاروقی علیہ الرحمہ ان شخصیات میں سے تھے جن سے بندہ اپنے والد محترم یعنی حضرت قاری محمد نور الامین صاحب کے توسط سے واقف ہوا اور ۲۰۰۸ء میں بارہ سال کی عمر میں ہی پہلی بار زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا، دوسری بار ۲۰۱۱ء میں ملاقات ہوئی، جب آپ اڈیشا ہمارے مدرسہ تشریف لے گئے تھے پھر والد صاحب کے توسط سے دیوبند میں کئی بار ملاقات کا موقع ملا، یہ مضمون بھی والد صاحب کے ایما پر لکھ رہا ہوں؛ گویا والد صاحب کے جذبات و تاثرات بصیغۂ غائب یا بشکل حکایت اس تحریر میں پڑھے جا سکتے ہیں، اب ان کے مختصر حالات پھر اپنے اور والد محترم کے تاثرات پیش کرتا ہوں۔
مختصر سوانحی خاکہ:
ولادت: مولانا مرحوم ۱۹۴۸ء میں نوابوں کے شہر لکھنؤ میں امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ (متوفی: ۱۹۶۲ء) کے فرزند مولانا عبد السلام فاروقیؒ (متوفی: ۱۹۷۳ء) کے یہاں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت: ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم و دادا جان کے زیر سرپرستی مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ میں حاصل کی، ایک نابینا استاذحضرت قاری عبد السلام سہسپوری بجنوریؒ کے زیر نگرانی ۲۸ پارے حفظ کیے، عربی و فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد اور دادا سے پڑھیں، چودہ سال کی عمر میں تراویح میں پہلی بار آپ نے قرآن سنایا، عربی تعلیم کے لیے مدرسہ محمدیہ لکھیم پور میں داخلہ لیا، اور عربی سوم تک وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۶ء میں مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا اور شرح جامی سے مشکوۃ تک کی کتابیں وہاں پڑھیں اور ناظم مدرسہ مولانا اسعد اللہ رامپوریؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے بھی مستفید ہوتے رہے، مولانا محمد یونس جونپوریؒ (متوفی: ۲۰۱۷ء) بھی آپ کے اساتذۂ مظاہر علوم میں شامل تھے۔
زمانۂ طالب علمی سہارنپور کی قابل ذکر باتیں: زمانۂ طالب علمی مظاہر کے زمانے کے تعلق سے خود مولانا مرحوم نے حضرت مولانا اسعد اللہ رامپوری سے اپنے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: راقم آثم محمد عبد العلیم فاروقی کو بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ تین سال تک حضرت مرحوم کے پاس استفاضہ کی غرض سے حاضر ہوتا رہا ہے جب کہ وہ وہاں زیر تعلیم تھا۔ اس زمانے میں کئی کتاب کے اوائل پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، اور اکثر و بیشتر درسی مشکلات کے حل کے لیے حضرت ہی سے مراجعت کی توفیق ہوئی، چناں چہ ایک مرتبہ مقامات حریری کے ایک شعر کے سمجھنے کے لیے حاضر ہوا وہ شعر حسب ذیل ہے:
لقد أصبحت موقوذا بأوجاع وأوجالي
اس شعر کو سن کر حضرت نے برجستہ حسب ذیل اشعار سنائے:
أخي عبد العليم! جهِّد بتكميلٍ وَّ إكمالٖ
وأنفِق في سبيل الله يا أخي بأموالٖ
فجِئ أنت مختاري فخُذْ ما شِئتَ من مالي
فإنّ الصدقَ يُنجِينا بِلا ريبٍ وَّ إشكالٖ
(حیات اسعد از نسیم احمد غازی، طبع اول: ۱۹۸۶ء، ص: ۷۲۹ تا ۷۳۰)
یعنی مولانا مرحوم نے مولانا اسعد اللہ صاحب ناظم اعلیٰ مظاہر علوم کے سامنے مقامات حریری کا ایک شعر سمجھنا چاہا تو ناظم صاحب نے اسی شعر پر مولانا مرحوم کو مخاطب کرکے ایک رباعی کہ دی، اس واقعے سے مولانا مرحوم کے ناظم صاحب سے تعلق خاطر اور ناظم صاحب کی ان پر نظر عنایت کا پتہ چلتا ہے۔
ایک اور بات مولانا محمود حسنیؒ (متوفی: ۲۰۲۲ء) شیخ یونس جونپوریؒ (متوفی: ۲۰۱۷ء) کی سوانح میں ان کے غیر دورۂ حدیث تلامذہ میں مولانا مرحوم کا نام لکھتے ہوئے ان کا یوں تذکرہ کرتے ہیں: حضرت مولانا اسعد اللہ ناظم مظاہر علوم سہارن پور ان کی خدمت و سعادت مندی سے اتنا خوش تھے کہ یہ شعر کہا:
مجھ کو کافی ہیں بفضل ایزدی
مولوی عبد العلیم لکھنوی
(شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ از مولانا محمود حسنیؒ ص: ۵۶۴ و ۵۶۵)
دار العلوم دیوبند کی فضا میں: مظاہر علوم میں مشکوٰۃ پڑھ کر دورۂ حدیث کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں داخلہ لے کر مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ (متوفی: ۱۹۷۲ء) سے صحیح البخاری پڑھ کر ۱۳۸۹ھ مطابق ۱۹۶۹ء میں وہاں سے سند فضیلت حاصل کی۔ ان کے شرکائے دورۂ حدیث میں مولانا عبد الخالق مدراسی کا نام بھی درج ہے، جن کے اساتذۂ حدیث میں شیخ نصیر احمد خان بلند شہریؒ (متوفی: ۲۰۲۰ء) کا نام بھی درج ہے یعنی اس طرح شیخ نصیر احمد خاں مولانا مرحوم کے بھی استاذ ہوئے۔
عملی زندگی: تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹۷۰ء میں انھوں نے دار المبلغین لکھنؤ کی تدریس سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، ۱۹۷۳ء میں اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد دار المبلغین کا منصب اہتمام ان کے حوالے کیا گیا، جسے انھوں نے دفاع صحابہ کے محاذ اور پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا اور اپنے دادا جان اور اپنے والد ماجد کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے آپ کو تحفظ ناموس صحابہ کے لیے وقف کر دیا۔ آپ مجلس تحفظ ناموس صحابہ، لکھنؤ کے صدر تھے۔ جمعیۃ علماء ہند کے لیے اپنی نصف زندگی وقف کر دی، ۱۹۹۸ء سے دار العلوم دیوبند اور ۲۰۱۸ء سے دار العلوم ندوۃ العلماء کے تاوفات رکن مجلس شوریٰ رہے۔ مختلف اداروں اور تنظیموں سے ان کا مربیانہ تعلق تھا۔
تحریک مدح صحابہ اور مولانا مرحوم: اس سلسلے میں ۲۷ اپریل ۲۰۲۴ء کو دوحہ، قطر میں منقعدہ تعزیتی پروگرام میں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صدیقی ندوی نے اپنی تقریر میں کیا ہی خوب فرمایا ہے، اسی کا خلاصہ یہاں ذرا سی ترمیم کے ساتھ نقل کرتا ہوں: تعلیم سے فراغت کے بعد جب آپ نے تحریک مدح صحابہ کی قیادت سنبھالی تو اس وقت لکھنؤ میں شیعہ سنی فسادات کا زور تھا، شیعوں کا جلوس دار المبلغین کے سامنے سے گزرتا تھا جو فساد کا سبب بنتا تھا تو آپ نے بڑی ہی حکمت کے ساتھ انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس کا راستہ تبدیل کروایا جس کے سبب فسادات کا سلسلہ تھم گیا۔
دوسرا کام آپ نے یہ کیا کہ امام اہل سنت نے محرم الحرام میں دس روزہ اجلاس مدح صحابہ کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کو دوبارہ جاری کیا اور ہر محرم الحرام میں پورے ملک سے بڑے بڑے علماء کو لکھنؤ بلاتے اور عظمت صحابہ کے عنوانات پر تقریریں ہوتیں جس کے سبب لکھنؤ اور گرد و نواح کے تمام مسلمانوں کے عقائد ونظریات میں پختگی پیدا ہوتی گویا کہ یہ دس روزہ اجلاس پورے علاقے کے اہل سنت کے لیے سال بھر کی بیداری کے لیے کافی ہوتے یہ سلسلہ ۱۰۳ سال سے تقریباً مسلسل جاری ہے اور لوگ اس قدر شوق اور جذبہ سے اس میں شریک ہوتے ہیں کہ مولانا نے خود ایک بار بتایا کہ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی کہنے لگے ۵۰ سال سے ان اجلاسوں میں شریک ہو رہا ہوں اور ایک ہی جگہ بیٹھتا ہوں یہ عامۃ المسلمین کے لگاؤ اور دلچسپی کی دلیل ہے۔
تیسرا بڑا کارنامہ آپ نے یہ انجام دیا کہ مدح صحابہ کا جلوس جسے اہل تشیع نے بند کروا دیا تھا اس کو دوبارہ شروع کرایا اور اس کے لیے بہت کوششیں کیں، بڑی حکمت عملی کے ساتھ یہ جلوس شروع ہوا اور آج تک بڑے تزک و احتشام کے ساتھ نکل رہا ہے یہ جلوس لکھنؤ کے اہل سنت میں نئی روح پھونکنے کے مترادف ہے اس جلوس کی اپنی افادیت ہے جسے لکھنؤ میں رہنے والے ہی زیادہ سمجھ سکتے ہیں یہ جلوس اہل سنت لکھنؤ کی زندگی کی ضمانت ہے ان کی بیداری کا ثبوت ہے۔
جمعیۃ علماء ہند اور مولانا مرحوم: مولانا مرحوم اپنی پوری عملی زندگی میں جمعیۃ علماء سے نہ صرف وابستہ رہے؛ بلکہ اپنی تقریباً نصف سے زائد زندگی اس کی خدمت میں مصروف رہے۔ جمعیۃ علماء کے اتار چڑھاؤ اور اس کے سرد و گرم حالات ان کے سامنے آئے؛ مگر ہمیشہ انھوں نے اس کے اصل مقصد کو سامنے رکھا اور اپنا رشتہ ہمیشہ اس سے سرشتہ رکھا۔ مشکل سے مشکل حالات آئے؛ مگر ان کے جمعیت سے تعلق و ربط میں تزلزل نہ آیا؛ بلکہ اس میں مزید استحکام پیدا ہوتا چلا گیا۔
جمعیۃ علماء ہند کے بااثر شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ۲۳ جنوری ۱۹۹۵ء میں انھیں مفتی عبد الرزاق بھوپالیؒ (متوفی: ۲۰۲۱ء) کے بعد جمعیۃ علماء کا ناظم عمومی منتخب کیا گیا اور اس حیثیت سے آپ نے ۲۳ دسمبر ۲۰۰۱ء تک سات سال تک خدمات انجام دیں۔ پھر کچھ عرصے بعد سنہ ۲۰۰۶ء میں فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء میں غیر متوقع اور ناخوشگوار واقعات سامنے آئے، جس کے بعد بھی آپ نے جمعیت سے اپنا تعلق برقرار ہی نہیں؛ بلکہ مزید استواری کے ساتھ اسے برقرار رکھا اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی حفظہ اللہ کے ہم قدم و ہم رکاب رہ کر جمعیت کے لیے خود کو وقف کر دیا اور ۸ اپریل ۲۰۰۸ء سے ۱۵ اکتوبر ۲۰۲۰ء تک تقریباً تیرہ سال جمعیۃ علماء ہند (الف) کے ناظم عمومی کی حیثیت سے بے لوث اور بے لاگ خدمات انجام دیں۔ سنہ ۲۰۲۰ء میں انھیں ممبئی کے ایک اجلاس میں نائب صدر کا عہدہ تفویض کیا گیا، جس پر وہ تاوفات فائز رہے۔
تصنیفات: اس میدان میں مولانا مرحوم کی باقاعدہ تصنیفات نہیں ہیں، بس مجموعی طور پر تین کتابوں اور رسالوں کا علم ہوا: (۱) امیر معاویہ اور معاندین کے اعتراضات، (۲) آئینۂ مرزا، (۳) مذہب شیعہ کا علمی محاسبہ۔ ان کے علاوہ مولانا مرحوم کا ایک مضمون عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان سے شائع رد قادیانیت کی انسائیکلوپیڈیا "احتساب قادیانیت” کی جلد نمبر: ۵۵ میں "عقیدۂ ختم نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی” کے عنوان سے ایک مضمون بھی نظر آیا تھا، جسے میں نے ویکیپیڈیا مضمون میں بھی لکھا تھا۔ اس کے علاوہ اندازہ ہوا کہ مولانا مرحوم کے مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں؛ جیسا کہ اسی مضمون میں ناظم اعلیٰ مظاہر علوم مولانا اسعد اللہ صاحب کی سوانح حیات "حیاتِ اسعد” (مرتبہ: مولانا نسیم احمد غازی مظاہریؒ) کے حوالے سے مولانا اسعد اللہ صاحب کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جو اصل میں مولانا فاروقیؒ کی تحریر ہے جو دار المبلغین، لکھنؤ کے سابق ترجمان ہفت روزہ ندائے سنت (جو بعد میں ماہنامہ ہوا اور پھر اس کی اشاعت موقوف ہو گئی) کے ۲۵ جون ۱۹۷۹ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی اور مولانا اسعد اللہ صاحب ؒ کی تعزیت پر مشتمل تھی۔
میرے والد محترم اور صوبہ اڈیشا سے مولاناؒ کا تعلق: حضرت مولانا مرحوم کا والد محترم حضرت قاری محمد نور الامین صاحب (اڈیشا) سے بہت گہرا تعلق تھا، والد صاحب کا مولانا مرحوم سے ربط سنہ ۱۹۹۴ء سے تھا جب وہ لکھنؤ میں مقیم تھے۔ والد صاحب کو چند مہینوں آپ کے ادارے دار المبلغین میں تدریسی خدمت کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔ دار المبلغین سے والد صاحب کے آ جانے کے بعد بھی عمر بھر مولاناؒ ان کے ساتھ ہمیشہ نہایت شفقت و محبت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ جب بھی ملاقات یا بات ہوتی تو اکثر لکھنؤ آنے کی دعوت دیتے اور وہاں پہنچنے پر بارہا شہدائے اسلام کے جلسوں اور لکھنؤ میں منقعدہ جمعیۃ علماء کے اجلاس میں والد صاحب کی تلاوت سے جلسے کا آغاز کرواتے اور بہت زیادہ شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔ دسیوں مرتبہ صوبہ اڈیشا کے کئی مقامات جیسے کٹک، کیندرا پاڑہ، بالو بیشی، بڑبل، بنجھار پور، بارہ بٹیہ (ضلع جگت سنگھ پور) اور چڑئی بھول (ضلع میُوربھنج) والد صاحب کی دعوت پر مولانا مرحوم تشریف لائے اور اجلاس عام میں خطاب بھی فرمایا۔
کٹک شہر میں مفتی انیس صاحب (امام و خطیب مدینہ مسجد، دیوان بازار) کی دعوت پر ”عظمت صحابہ” کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں علماء و عوام کے کثیر مجمع سے ان کا زبردست خطاب ہوا تھا اور امیر شریعت رابع اڈیشہ مولانا محمد فاروق قاسمی کی دعوت پر جامعہ اشرف العلوم کیندرا پاڑہ میں”تحفظ ختم نبوت” کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں حاضری کے موقع پر طلبہ اور عوام سے آپ کا پُرمغز خطاب ہوا تھا، جس میں مولانا جسیم الدین صاحب قاسمی دربھنگوی نے والد صاحب کے حوالے سے مولانا مرحوم کا تعارف کروایا تھا۔ جامعہ عمر فاروق بڑبل میں مفتی محمد زاہد قاسمی کے یہاں بھی تشریف لائے تھے۔ جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ کے سالانہ اجلاس میں مولانا عبد الحمید صاحب مرکزی صدر مہتمم و مولانا سید نقیب الامین برقی قاسمی موجودہ مہتمم کی دعوت پر ان کی تشریف آوری ہوئی تھی، جس میں ایک بڑے مجمع سے ان کا قیمتی خطاب ہوا تھا، ایک اور بار نواجوانانِ سونگڑہ کی دعوت پر یوم جمہوریہ کے موقع پر بھی تشریف لائے تھے۔ مولانا محمد ادریس قاسمی بالوبیشی( مقیم حال دوحہ، قطر) کی دعوت پر بھی اڈیشا تشریف لائے تھے، والد محترم کے ہمراہ مولانا ادریس صاحب اور دیگر دانشوران نے بھوبنیشور ائیرپورٹ (بیجو پٹنائک ائیرپورٹ) پر استقبال کیا اور ساتھ لے کر کئی مقامات پر حاضری دیتے ہوئے بالوبیشی کے لیے روانہ ہوئے اور بعد نماز عشاء مجمع عام میں آپ نے شاندار خطاب فرمایا۔ ان کی اڈیشا تشریف آوری کے دوران ان کے ہم راہ ان کے برادر اصغر حافظ عبد العظیم صاحب فاروقی اور ان کے فرزند و جانشین مولانا عبد الباری صاحب فاروقی بھی ہمارے یہاں اور دیگر مقامات پر تشریف لا چکے ہیں۔
مولانا مرحوم اڈیشا کے علماء سے بھی بہت محبت فرماتے تھے، مناظر اسلام حضرت مولانا سید محمد اسماعیل کٹکیؒ (متوفی: ۲۰۰۵ء) و مولانا سید سراج الساجدین کٹکیؒ (متوفی: ۲۰۰۶ء) کے ہم راہ شہر بنگلور کے تحفظ ختم نبوت کے تربیتی جلسوں میں شریک رہ چکے تھے، جس کا والد صاحب سے کئی مرتبہ آپ رحمہ اللہ نے تذکرہ بھی فرمایا تھا۔ مادر علمی اڈیشا جامعہ اسلامیہ مرکز العلوم سونگڑہ، ضلع کٹک اور اس کے روحِ رواں مولانا مفتی سید نقیب الامین قاسمی اور اڈیشا کے بڑے علماء کے بارے میں خود والد صاحب اور دیگر متعلقین علماء سے بھی خیریت دریافت کیا کرتے تھے۔
ان کا تعلق ہر ایک سے بے حد مخلصانہ، عاجزانہ اور مشفقانہ رہا کرتا تھا۔ والد صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بڑے متقی تھے، کئی مرتبہ سفر کے دوران گاڑی کے اندر میں نے ذکر اللہ اور تلاوت کلام اللہ سے انھیں رطب اللسان دیکھا۔ آپ ہمارے ادارے دار العلوم حسینیہ مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میُوربھنج، اڈیشا کے سرپرست رہے۔ وقتاً فوقتاً اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہا کرتے تھے، دار المبلغین سے میرے آ جانے کے بعد بھی بارہا دیوبند اور دیگر مقامات پر میری ان سے ملاقات ہوئی، بارہا ملاقات کے لیے دہلی و لکھنؤ بھی حاضری ہوئی۔
راقم التحریر کو بھی مولانا مرحوم سے والہانہ محبت و مناسبت تھی اور ہے، بچپن سے میرے سامنے مولانا مرحوم کا تذکرہ ہوتا رہا ہے اور بچپن ہی سے کئی بار مولانا مرحوم سے ملاقات کی شرف یابی حاصل ہوئی ہے۔ حضرت مولانا مرحوم کی وفات سے چند ماہ قبل بندے نے مولانا مرحوم کے پوتے مولانا ابو الحسن فاروقی سے رابطہ کرکے مولاناؒ پر انگریزی و اردو ویکیپیڈیا پر سوانحی خاکے کے طور مضامین تیار کیے تھے۔ ان کی وفات سے کئی دنوں تک والد صاحب کو بہت متاثر دیکھا، ان کی وفات کی خبر یا اس سے متعلق کوئی تعزیتی تحریر آئے اسے پڑھنا اسے شیئر کرنا؛ یہاں تک کہ اپنی طرف سے اپنے تاثرات بتا کر مجھے ایک تحریر لکھنے کے لیے فرمایا، چناں چہ یہ تحریر والد صاحب کے تجربات و تاثرات سے پُر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اختصاراً حالات زندگی بھی اس میں قلم بند کر دیے ہیں۔
وفات: آپؒ کا انتقال مورخہ ۱۴ شوال المکرم ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۴ اپریل ۲۰۲۴ء کو چہار شنبہ کے دن تقریباً صبح چھ بجے ہوا اور نماز جنازہ اسی دن بعد نماز عصر دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے وسیع و عریض میدان میں مولانا مرحوم کے فرزند و جانشین مولانا عبد الباری صاحب فاروقی نے پڑھائی اور ہزاروں نم آنکھوں کے ساتھ مولانا مرحوم کو لکھنؤ کے عیش باغ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا، ہزاروں عوام کے علاوہ نماز جنازہ میں حضرت مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی، حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی اور حضرت مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی جیسی شخصیات بھی شریک تھیں، حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مد ظلہ اُن دنوں رابطہ عالم اسلامی کی سپریم کونسل کے ایک اہم اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں تشریف فرما تھے، اور نماز جنازہ میں شرکت نہ فرما سکے اور وہیں سے تعزیتی پیغام جاری کیا تھا اور ہندوستان واپسی کے بعد تعزیت کے لیے لکھنؤ بھی تشریف لے گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ان کے لواحقین و پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔