حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی لکھنوی

مفتی ناصر الدین مظاہری
مناظر اسلام، داعی دین، ترجمان اہل سنت اور دارالعلوم دیوبند کے لائق فخر سپوت حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی لکھنوی اپنی حیات مستعار پوری کرکے راہی داربقاہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
بلاشبہ حضرت کی ذات حنفیت کی ترجمان، دیوبندیت کی پشتیبان اور علم و ادب کی آن بان شان تھی، میں نے جب سے ہوش سنبھالا حضرت کی تقریرات کے تذکرے، تحریرات اور مضامین، لکھنؤ میں حق و حقانیت کی تحریکات، دارالمبلغین کے ذریعہ دعاۃ و مبلغین کی تیاری اور دنیا کے مختلف ملکوں خاص کر عالم اصغر میں مسلم امت کے دینی رخ اور مسلکی مزاج کی حفاظت وصیانت کے لئے جو جلسے، پروگرام، خطابات اور اظہار خیال فرمائے ہیں ان کی تفصیل کے لئے کتابچوں کی نہیں کتابوں کی ضرورت ہے، رسالوں کی نہیں رسائل کی ضرورت ہے، جلسہ کی نہیں سیمیناروں کی ضرورت ہے، مضمون کی نہیں خصوصی شماروں کی ضرورت ہے، تعزیتی پروگراموں کی نہیں مستقل ادارہ کی ضرورت ہے۔
آپ خانوادہ امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکورلکھنوی کے چشم وچراغ اور مظاہرعلوم، دارالعلوم اور ندوۃ العلماء کے سپوت تھے، مظاہرعلوم کی سادگی کا نمونہ، دارالعلوم کی شوکت وحشمت کا مظہر اور ندوے کی زبان ہوشمند کا پیکر تھے، میری پہلی اور آخری ملاقات ابھی سات فروری 2024کو مادرعلمی مدرسہ امدادالعلوم زیدپور ضلع بارہ بنکی کے جلسہ میں ہوئی تھی، حضرت نے میرے استاذ حضرت مولانا محمد سلیم قاسمی مدظلہ زید پوری سے میری بابت پوچھا تو حضرت نے میری طرف اشارہ کیا کہ یہ ہیں، حضرت کے قریب لوگوں کی بہت بھیڑ تھی، بھیڑ ہونی ہی تھی کہ آپ چراغ تھے اور چراغ کے ارد گرد پروانوں کا ہجوم لابدی ہے، حضرت شجر سایہ دار تھے اور اس سایہ کے نیچے مسافرین ومقیمین کا پہنچنا یقینی ہے، حضرت وہ گلاب تھے جس کو ہر شخص حاصل کرنا چاہتا ہے، استاذ محترم نے مجھے اشارہ سے قریب بلایا، مجمع نے وہاں تک پہنچنے کا راستہ دیا، میں قریب پہنچا ادب اورعقیدت سے سلام و مصافحہ کیا، حضرت نے سینہ ملایا، سرپر دست شفقت پھیرا، میرے ہاتھ پکڑے رہے، مسکراتے رہے، میری تحریرات کی تعریف کرکے حوصلہ بڑھاتے رہے، بعض مضامین کے عنوان بتاتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ تمہاری ہر تحریر پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں پھر فرمایا کہ آج میرا ارادہ آنے کا نہیں تھا لیکن تمہاری تحریرات پڑھ پڑھ کر محبت ہوگئی ہے اس لئے تم سے ملاقات کے لئے ترجیحی طور پر حاضری ہوئی ہے۔
بہرحال برجستہ اردو عربی فارسی کے اشعار پڑھتے رہے، فرمایا مظاہر میں چار سال تعلیم حاصل کی ہے، اس دوران میراقیام حضرت مولانا محمد اسعداللہ رام پوری کے حجرہ میں رہتا تھا، میرے ناناجان حضرت مولانا عبدالشکور کی وجہ سے بڑی توجہ فرماتے تھے، مجھے بڑی مشکل سے اپنی خدمت کا موقع عنایت فرمایا تھا، پھر مولانا رونے لگے اور فرمایا کہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے میں نے ایسا استاذ ومربی نہیں دیکھا، ایک بار بہت سے مہمان آگئے، میں تو خادم تھا ہی میں نے جو ہوسکا خدمت کی، پھر مہمانوں کے جانے کے بعد فرمایا کہ عبدالعلیم تم حضرت مولانا عبدالشکور کے پوتے ہو، عام لوگوں کی موجودگی میں میری خدمت نہ کیا کرو ورنہ لوگ سوچیں گے کہ اتنے بڑے بزرگ عالم کے نواسے سے خدمت لے رہاہوں۔
فرمایا کہ مظاہرعلوم میں میں نے حضرت مولانا مفتی مظفرحسین سے بھی تعلیم حاصل کی ہے بڑی خوبی کے عالم اور بڑے مشفق استاذ تھے، بہت دیر تک حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی مظاہراوراہل مظاہر کا ذکر خیر کرتے رہے، کبھی پیڑ میں لگے گلاب کی طرح کھل جاتے ، کبھی پیڑ سے ٹوٹے گلاب کی طرح کمہلا جاتے۔
امدادالعلوم زیدپور کے پروگرام کی نظامت میرے ذمہ تھی حضرت نے فرمایا کہ کتنی دیر وقت ملے گا عرض کیا جتنی دیر آپ چاہیں فرمایا کہ میں علیل ہوں وقت کم لوں گا میں پھر عرض کیا کہ جو مناسب سمجھیں چنانچہ نصف گھنٹہ سے اوپر بڑی علمی رواں دواں تقریر کی، آپ کی تقریریں بڑی عالمانہ، انداز بڑا مشفقانہ اور دلائل میں بڑا اعتماد پایا جاتا تھا، ہر بات کی دلیل اور ہر دلیل پر بات کا ہنر جانتے تھے، تقریریں پہلے بھی سنی تھیں لیکن ملاقات کا موقع امدادالعلوم میں ہی ملا۔فرمایا کہ لکھنؤ جب بھی آنا جانا ہوا کرے میرے مہمان رہا کریں، ہامی بھی بھرلی، ارادہ بھی کرلیا لیکن آہ! ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچاننے اور ذات حق جل وعلا پر ایمان میں مزید استحکام پیدا ہوا، ارادے تو اسی ذات کے ہیں باقی کی کوئی حیثیت نہیں، فیصلے اسی کے اختیار میں ہیں باقی تو سب چنیں اور چناں ہیں، حکومت تو اسی کی ہے باقی سب تاش کے پتے بلکہ پیڑ کے پتے ہیں ہیں کیا پتہ کب ٹوٹ کر گرجائیں، کب گرکر مرجھا جائیں۔ کل میری بچی کا نکاح تھا یہاں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے اور ادھر غموں کے بادل چھاچکے تھے، یہی تو نظام قدرت ہے، یہی تو فیصلہ خداوندی ہے۔
الہا! حضرت کی دینی خدمات کو اپنے فضل و کرم سے قبول فرما، ہم سب کو اپنی رضا، اپنا قرب اپنا فضل اور اپنا کرم نصیب فرما۔