حضرت مولانا محمد اسحاق برونوی : جنگ آزادی کے عظیم مجاہد
✍️مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
ہمارا پیارا وطن ہندوستان تقریباً سات سو سال کی مسلم حکمرانی کے بعد اپنوں کی سادگی، غیروں کی عیاری اور ابن الوقتوں کی مفاد پرستی اور غداری کے نتیجے میں انگریزوں کی غلامی میں چلا گیا تھا. ہمارے اسلاف واکابر کے جہد مسلسل اور ان کی عظیم قربانیوں کے نتیجے میں انگریز کے ظالمانہ و جابرانہ تسلط سے1947 ء میں آزاد ہوا۔
استخلاص وطن کے لیے بے مثال قربانی پیش کرنے اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ان بزرگوں میں ایک اہم نام بہار کے عظیم سپوت، ممتاز مجاہد آزادی، شیخ الہند مولانا محمود حسن اور مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ کے خاص معتمد، مایۂ نا ز عالم دین حضرت مولانا سید محمد اسحاق برونی (خلیفۂ اجل قطب عالم مولانا سید محمد علی مونگیری) کا بھی ہے۔
مولا نا محمد اسحاق برونی ایک شریف اور اعلی خاندان کے چشم و چراغ تھے. آپ کی پیدایش شمالی بہار کے وسط میں دریا گنگا کے اتری ساحل پر واقع ہندستان گیر شہرت کے حامل شہر اور بہار کی موجودہ صنعتی راجدھانی بیگو سراۓ کے برونی میں ہوئی۔قبل میں اس خطے کو "ترہت” کہا جاتا ہے. اس خطے سے بڑے بڑے آفتاب ماہتاب پیدا ہوئے. عارف باللہ، ولی کامل حضرت شاہ شیخ سلطان لکھمنیاوی ( خلیفہ اجل حضرت سید آدم نبوری ) امیر المومنین حضرت سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے دست راست اور مرید خاص حافظ مولوی سید عبدالرحمن باروی (والدِبزرگ سید احمد دہلوی مصنف ” فرہنگ آصفیہ ) مشہور محدث اور ماہر اسماء رجال حضرت علامہ محسن بن یحییٰ ترہتی ( خضر چک ) جیسی نابغہ روزگار شخصیتیں اسی مردم خیز خطہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
تحریک آزادی کے حوالے سے گفتگو کی جائے؛ تو اسی ضلع میں واقع تاریخی مقام گڑھ پورا سے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے اپنی انقلابی تحریک” نان کو پریشن موومنٹ ” کی شروعات کی . اسی ضلع میں واقع سمر یا نامی بستی سے ملک کے مشہور قومی و انقلابی شاعر رام دھاری سنگھ دنکر پیدا ہوئے.
بہر حال اسی زرخیز خطے میں مولانا سید محموداسحاق برونوی بھی پیدا ئش ہوئی ؛ جب آپ نے آنکھیں کھولیں؛ تو اس وقت ہندوستان انگریزوں کی غلامی کے شکنجہ میں جکڑا ہواتھا اور آزادی کی تحریک اپنے شباب پر تھی. خود آپ کی حویلی جو برونی اسٹیشن سے مغرب میں بریار پور محلہ میں واقع ہے؛ وہ تحریک آزادی کا اہم مرکز بنی ہوئی تھی؛ اس لیے کہ انقلابی مزاج ومذاق آپ کو ورثے میں ملا تھا. آپ کے دادا سید یارعلی بن محمود علی محدث برونوی پر انقلابی رنگ غالب تھا.
مولانا یار علی کو ن ہیں؟ ان کا مقام ومنزلت کیا ہے؟ان کی عظمت کا ادراک آسان نہیں. یوں تو وہ ایک گمنام شخصیت ہیں؛ لیکن تاریخ کے دھندلے نقوش کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا وہ عظیم المرتبت اور ممتاز محدث ہیں، مولانا یارعلی کے مقام ومرتبہ کا اندازہ لگانے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ مسند ہند حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے بلند پایہ شاگرد تھے…اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بھی شرفِ تلمذ حاصل تھا. مولانا یار علی کے سلسلے میں آپ کے رفیق درس شیخ الکل فی الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی بڑے رطب اللسان رہا کرتے تھے انھیں محبت میں "ہم وطن من” کے جملے سے خطاب کیا کرتے تھے ،، سید نذیر حسین محدث دہلوی کے سوانح نگار جناب افضل حسین مظفر پوری نے اپنی کتاب” الحیاۃ بعد المماۃ "میں عنوان قائم کیا ہے :”مولوی یار علی ساکن بارو ضلع ترہت کا ذکر خیر.” اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
"میاں صاحب(مولانا سید نذیر حسین) اکثر نہایت حسرت انگیز لہجے میں فرماتے ۔ خدا پیادوں سے وہ کام لیتا ہے جو شہسواروں سے نہیں ہوسکتا ورنہ آج مولوی یار علی بارو ضلع ترہت والے (جومولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کے شاگرد رشید تھے ) اگر دہلی میں بیٹھ کر درس دیتے تو ان کے سامنے کس کا چراغ جل سکتا! ، مگر افسوس کہ خدا نے پورنیہ میں ان سے وکالت کرائی۔”
الحیاۃ بعد المماۃ ص :157. شائع کردہ :المکتبۃ الاثریہ)
نزھۃ الخواطر میں حضرت علامہ عبد الحی حسنی نے مختصر اور وقیع انداز میں مولانا یار علی کا تذکرہ کیا ہے.
مولانا یار علی نے کئی انگریز حکام کو عربی فارسی اردو وغیرہ پڑھایا تھا. جن میں وائسرائے ہند لارڈ کرزن بھی شامل ہے چونکہ مولانا یار علی خانوادہ ولی اللہی کے خوشہ چین تھے اس لیے شاہ عبد العزیز کے فتوی جہاد کا اثر آپ پر بھی تھا اور اس کے زیر اثر انگریز کے خلاف مجاہدانہ سرگرمیوں میں مولانا یارعلی بھی شامل تھے.
مولانا یار علی پر آپ کے اساتذہ حضرت شاه عبدالعزیز دہلوی اور شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کے ذوق اور ان کے مزاج ومذاق کا گہرا اثر تھا؛ اس لئے وہ انگریز وں کے تسلط واقتدار کے سخت خلاف تھے۔ اور انگریزوں کے مظالم سے سخت نالاں رہا کرتے تھے.. دہلی رہتے ہوئے انگریز اعلی حکام کو اس کی بھنک لگ گئی،، آپ کے خلاف منصوبہ بندی ہونے لگی. قریب تھا کہ آپ کے ساتھ ہنگامہ دار وگیر بپا ہوجائے کہ آپ کے ایک انگریز شاگرد نے آپ کوبروقت خطرہ سے آگاہ کردیا … آپ نے ہنگامی طور پر دہلی کو خیر باد کہہ دیا اور برونی پہنچ گئے…اس زمانے میں شمالی بہار کے دو مرکزی مقام تھا. پورنیہ اور ترہت (دربھنگہ) آپ کو پورنیہ کا مفتی اعظم مقرر کیا گیا. بعدہ پورنیہ کورٹ میں منصف کے عہدے پر فائز ہوئے .
انگریزوں سے دشمنی مولا نا سید اسحاق کو بھی اپنے دادا بزرگوار سید یار علی سے بطور وراثت ملی تھی. پھر اپنے شیخ ومرشد قطب عالم مولانا سید محمدعلی مونگیری کی معیت اور سرپرستی نے نیزاس زمانے کے پر جوش رہنمایان قوم اور مجاہدین آزادی کی معیت نے ان کے دل میں سلگ رہی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ بنادیا.
حضرت مولانا اسحاق برونوی، حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی کے ابتدائی عہد کے شاگرد رشید اور مدرسہ امینہ دہلی سے بالکل شروعاتی عہد کے فارغ التحصیل تھے، آپ کی سند فضیلت پر حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کے بھی دستخط ثبت ہیں..آزادی کے ان سپہ سالاروں نے آپ کی دستاربندی کی تھی.
اب سوال یہ ہے کہ جب مولانا محمد اسحاق برونی مدرسہ امینیہ دہلی میں تعلیم حاصل کرتے تھے. تو پھر آپ کی سند فضیلت پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور صدر مدرس کے دستخط ومہر ثبت ہونے کا کیا مطلب ہے… جستجوئے بسیار کے بعد بالآخر اس حیرت انگیز راز سے بھی پردہ اٹھا… مختصر تاریخ مدرسہ امینیہ دہلی کے مصنف مولانا حفیظ الرحمن واصف تحریر فرماتے ہیں :
"دارالعلوم دیوبند کا جلسہ دستاربندی ۱۳۲۸ھ میں منعقد ہوا، اس کے پوسٹر کی عبارت مندرجہ ذیل ہے:۔ مدرسہ امینیہ دہلی کے فارغ التحصیل طلبہ کی مدرسہ اسلامیہ دیوبند میں دستاربندی مدارس اسلامیہ کے اتحاد کا پہلا عملی نمونہ بالخص مذکورہ عنوان بالا دونوں مدرسوں کے اتفاق کا دلکش نقش عنقریب ہمدردان قوم و مذہب کے پیش نظر ہونے والا ہے۔ جن لوگوں کے پاک دل عرصے سے اتحادواتفاق کے مشتاق اور آنکھیں نظر اتحاد کی منتظر تھیں ۔ انہیں اراکین مدرسہ دیوبند و مدرسہ امینیہ نہایت مسرت سے یہ مژدہ سناتے ہیں کہ دیوبند کے اس عظیم الشان جلسے میں جو 6’7’8′ ربیع الثانی ۲۲ ١٣ھ مطابق 17 ،18، 19 اپریل 1910 ء کو ہونے والا ہے. آپ کی آنکھیں ٹھنڈی اور دل مسرور ہوجائیں گے ۔ جلسہ جس طرح اور خصوصیات کی وجہ سے ممتاز ہوگا اسی طرح اتحاد و اتفاق کے مبارک سلسلے کی ابتدا کرنے کے لحاظ سے بھی بے مثال وبے نظیر ہوگا ۔ مدرسہ امینیہ دہلی جو خوبی تعلیم وحسن انتظام کی جہت سے مدارس دہلی میں ایک ممتاز مدرسہ ہے ، اس کے فارغ التحصیل طلبہ میں سے منتخب علماء کی دستار بندی اسی جلسے میں ہوگی۔ اراکین مدرسہ دیوبند تمام اہل اسلام اور بالخصوص ان حضرات کو جو خاص مدرسہ امینیہ سے دلچسپی رکھتے ہیں؛ مبارک باد دیتے ہوئے اس مسرت بخش جلسے میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں، اور امید کرتے ہیں کہ وہ قدوم میمنت لزوم سے جلسے کو عزت بخشیں گے ۔”
المكلف:- محمد احمد غفرلہ مہتمم مدرسہ اسلامیہ دیوبند ضلع سہارنپور (ابن حضرت مولانا محمد قاسم نورالله مرقدہ. ) ربیع الثانی ۱۳۲۸) مختصر تاریخ مدرسہ امینیہ ص ۴۰)
بہرحال ان عظیم شخصیات کے ہاتھوں آپ کی دستاربندی ہوئی اور انھیں سند ملی…یہ آپ کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ آپ کو مہتمم دارالعلوم کی طرف سے خصوصی طور پر مدعو کر کے ایک مجمع عام میں آپ کی پذیرائی کی گئی … پھر ان بزرگوں نے جو مشن آپ کے سپرد کیا تھا. اس کی انجام دہی میں دل وجان سے سرگرم عمل ہوگئے.
حضرت مولانا محمد اسحاق برونوی ملک کے ممتاز مجاہد آزادی کی رہنمائی میں تحریک ریشمی رومال اور آزادی کی دیگر تحریکوں کے سرگرم رکن کے طور پر کام کرتے رہے . مولانا کے صاحب زادے جناب سید محمود کی تحریر کردہ اور حضرت مولانا عبد الرب نشتر مدنی کی تصدیق کر دہ خود نوشت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریشمی رومال تحریک کے درمیان مولانا کے سر کو مونڈھ کر اسے گود کر اس میں سر مہ سے خفیہ پیغام لکھا گیا تھا..ایک روایت یہ ہے کہ مدرسہ امینیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے استاذ مفتی کفایت اللہ کے زیر اثر اور مرکز عقیدت حضرت شیخ الہند کے مشورے سے حجاز مقدس چلے گئے اور وہاں اس خفیہ تحریک کے ایک رکن کے طور پر حجام کے طور پر کام کرتے رہے اور سر میں گودے ہوئے پیغام کو متعلقہ شخصیات تک پہنچاتے تھے… اسی نتیجے میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور قید کرکے مالٹا بھیج دیا گیا… لیکن چونکہ ان کے والد سبحان علی صاحب علاقے کے بڑے زمین دار تھے اس لیے ان تمام خبروں کو آپ نے خفیہ رکھا تھا اور اس کو افشاء کرنے سے انھوں نے سختی سے منع کر دیا تھا…کہ کہیں والد کی پر عتاب نہ آجائے اور ان کی زمین داری سلب نہ ہو جائے؛ البتہ قابلِ اعتماد مجاہدین آزادی کو اس کا علم تھا..
قید بامشقت کی سزا کاٹ کر جب لوٹے تو ہندستان کو انگریزوں کے پنجۂ ظلم و استبداد سے آزاد کر انے کو انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے اہم مقصد بنالیا اور اس عظیم مقصد کے حصول کے مقصد کے لئے پوری زندگی سرگرم رہے راستہ میں بے شمار مشکلات مصائب اور اورپریشانیاں آئیں لیکن چونکہ آپ کے رگوں میں ایسے باکمال آباء واجداد کا خون گردش کر رہا تھا، جو عزم واستقامت کے کوہ گراں تھے ۔لہذا یہ عزم واستقامت آپ کے حصے میں بھی آئی آپ نے مصائب کے چٹانوں کو کبھی بھی سدراہ بننے نہیں دیا ۔ اور نہ کبھی اپنے حوصلے وہمت کو پست ہونے دیا.
تحریک آزادی میں قائدانہ کر دار اور سرگرم رول کی وجہ سے آپ کے لیے انگریزوں نے دوبارہ قید و بند کی صعوبتیں تجویز کی اور انہیں ایک زمانہ تک مونگیر کے سنٹرل جیل میں قید رکھا گیا؛ پھر بھاگل پور کے سنٹرل جیل اور کراچی کے تنگ و تاریک قید خانے میں قید و بند کی شدید صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ۔
شدید سے شدید مظالم کے باوجود آپ کے پائے ثبات میں ارتعاش پیدا نہیں ہوا آپ تمام مصائب کو ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے برداشت کرتے رہے .
آپ پر استقامت کے رنگ کا غلبہ اس لیے تھا کہ آپ نجیب الطرفین تھے. آپ کی پردادی حضرت خواجہ باقی باللہ دہلوی۔(شیخ و مرشد حضرت مجدد الف تاثی) کی نواسی تھیں اور ان کی والدہ بہار کی مشہور بزرگ حضرت مخدوم احمد چرم پوش بہاری (چھوٹی خانقاہ بہار شریف ) کی اولاد میں سے تھیں.
امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری آپ کے خالہ زاد بھائی تھے ۔
آپ کی عظیم قربانیوں کو ہندستان کے بڑ ے بڑے قائدین آزادی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ہندستان کے اکثرنا م ورقائدین اور مجاہدین آزادی مثلا امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، اسیر مالٹا شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی، باباۓ قوم مہاتما گاندھی ہندستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد آپ کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے جب کہ بہار کے پہلے وزیر اعلی شری کرشن سنہا، لوک نایک جے پرکاش نارائن اورام چتر سنگھ وغیرہ آپ کے قریبی ساتھیوں میں تھے ۔
آپ ہمیشہ ان کے قدم سے قدم ملا کر چلتے رہے یہاں تک کہ تقریبا ۵۰ سال کی عمر غالبا ۱۹۳۳ء میں آپ نے جان جاں آفریں کے سپرد کر دی، لیکن آپ نے اور آپ کے باکمال رفقاء کار اور بزرگوں نے آزادی کا جوشجر لگایا تھا وہ برابر پھلتا پھولتا اور برگ و بار لاتا رہا اور آزادی کا قافلہ مسلسل محو سفر رہا، یہاں تک کے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کی رات کو ملک کو آزادی مل گئی از ادی کے بعد نئی حکومت نے مولانا سید محمد اسحاق برونوی کی خدمات جلیلہ کے اعتراف کے طور پر فریڈم فائٹر کا وظیفہ جاری کر دیا، اور آپ کو کئی یادگار سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا… ان میں سے ایک یادگار تحریر اس عاجز کے پاس موجود ہے.. فریڈم فائٹر کا وظیفہ تاحیات ان کی اہلیہ بی بی سلمی خاتون کو ملتا رہا. آزاد ہند برونی 2 میں ایک سڑک "مولانا اسحاق روڈ” بھی آپ کے نام سے معنون ہے. آپ کے بعد آپ کے نام ور اور عالی مرتبت صاحب زادہ حضرت مولانا عبد الرب نشتر مدنی نے مختلف تحریکوں میں سرگرم اور فعال شمولیت اختیار کے والد کی روایات کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے. ( مولانا عبد الرب نشتر کے سلسلے میں بھی ایک مضمون زیر ترتیب ہے.)
کتنے لوگ ہیں جنہیں بزرگوں کی عظیم قربانیاں یاد ہیں ان لوگوں کا نام بھی بھلا دیا. لیکن یہ بھی یادر ہے کہ جو قوم اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہے وہ بھی اپنی عظمت رفتہ کو آواز نہیں دے سکتی اور تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرتی ضرورت ہے کہ ان بزرگوں کا نام یادرکھا جائے اور کم از کم یوم آزادی کے موقع پر تو انہیں ضرور خراج عقیدت پیش جائے۔