گوشۂ قبر میں سوتے ہیں جگانے والے
حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر
مفتی اشرف عباس قاسمی
حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ خاندانی نجابت، علمی صلاحیت، خطابت کی جولانی اور قلم کی روانی کے حوالے سے ممتاز شناخت کی حامل شخصیت کا نام ہے، گزشتہ 11/ستمبر2022ء کی شام ان کی اچانک وفات دلوں کو بہت زیادہ غم زدہ کرگئی ۔ إنا لله و انا اليه راجعون.
مولانا کی وفات کی خبر ملتے ہی ان کے سینکڑوں چاہنے والوں کی طرح ہم نے بھی افسردگی کے ساتھ مولانا کی قیام گاہ کا رخ کیا،اور آخری زیارت کی۔ زائرین کا تانتا بندھا ہوا تھا،اسی دوران دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور جمعیت علماء ہند کے صدر حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم بھی عصا ٹیکتے ہوئے اپنے پوتے کے سہارے تشریف لائے اور سوگوار لواحقین سے تعزیت کی، مولانا مرحوم تقریباً گیارہ بجے شب میں مزار انوری میں دفن کردیے گئے ۔ رحمه الله تعالى رحمة واسعة
مولانا ایک اچھے خطیب تھے جن کی خطابت میں ان کے عم محترم حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا رنگ و آہنگ خوب نمایاں تھا ، اس سے بڑھ کر ایک منفرد انشاء پرداز اور صاحب طرز ادیب و مصنف تھے، رجال گری اور افراد سازی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ،چنانچہ مولانا تدریسی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ طلبہ کی تعلیمی اور تحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے اور نوآموز قلم کاروں کی تراش خراش اور قرطاس و قلم سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے آپ نے باضابطہ مرکز نوائے قلم کے نام سے تربیتی ادارہ قائم کررکھا تھا۔
مولانا تا دم آخر محلہ خانقاہ میں واقع اپنے جدی مکان میں ہی رہے، بڑی سادگی کے ساتھ پرانی وضع کے اسی مکان میں زندگی گزاردی بلکہ آستانہ انوری کے ایسے مکین بنے کہ آخری سانس بھی وہیں لی اور وہیں سے آپ کا جنازہ بھی اٹھا۔
سن 2012ء میں جب احقر کو دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمت تفویض ہوئی اور ہانسوٹ گجرات سے دیوبند منتقلی ہوئی تو محلہ خانقاہ میں مولانا کے پشتینی مکان سے قریب ہی کرایے کے ایک مکان میں رہنا نصیب ہوا، نماز بھی ایک ہی مسجد میں ادا ہوتی تھی، جس سے مولانا سے بھی مراسم اور تعلقات بڑھے۔ مولانا بڑے با وضع اور خوردنواز انسان تھے، تقریباً روز ہی ملاقات ہوتی لیکن اتنے تپاک اور اہتمام سے ملتے جیسے عرصے بعد ملاقات ہوئی ہو۔ مولانا کی یاد داشت بھی بڑی اچھی تھی اور جب یادوں کا پٹارہ کھلتا تو بہت سی تلخ یادیں بھی ان کے ذہن پر مرتسم ہوجاتیں۔
اپنے بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت کے حوالے سے بھی بڑے فکر مند رہتے تھے، اپنے بڑے فرزند عزیز مکرم مولانا عبیدانور(حال استاذ حدیث جامعۃ الامام انور، دیوبند) کو بڑے اہتمام سے دارالعلوم دیوبند میں داخل کروایا اور ہمیشہ تعلیمی وفکری سرپرستی فرماتے رہے، جس کا نتیجہ تھا کہ فرزند عزیز اپنی محنت اور غیر معمولی فہم و ذکا کے اعتبار سے طلبہ دارالعلوم میں ہمیشہ ممتاز رہے ، دورہ حدیث شریف، ادب عربی، افتاء اور شعبہ تخصص فی الحدیث میں پوزیشن کے ساتھ کامیابی حاصل کی، اور قابل فخر آباء کے لائق قدر سپوت ثابت ہوئے، اور ظاہر ہے ان سب کامیابیوں میں حضرت مولانا کی فکرمندیوں کا بڑا دخل تھا، اسی فکر مندی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے اپنے فرزند عزیز کا ایک خاص وقت عربی ادبیات کے مطالعے الداعی و دیگر عربی مجلات کے اداریے حل کرنے کے لیے مختص کردیا تھا اور اپنے حسن ظن کی بناپر اس حقیر راقم السطور کو نگراں مسلط کر رکھا تھا ، چنانچہ مولانا عبید انور صاحب پابندی سے مقرر وقت پر گھر پہنچ کر بہ حسن وخوبی اپنا کام کیا کرتے تھے، جس سے ان کے والد مرحوم کو بڑی خوشی ہوتی تھی۔
بعض اسفار میں بھی مولانا کے ساتھ رہنے اور مولانا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، لاک ڈاؤن سے قریبی ایام میں مولانا کی سرپرستی میں سہارنپور کا سفر ہوا، سفر کا محرک علم و کتاب کی رسیا شخصیت، اور اس نام سے تشکیل پانے والے گروپ کے روحِ رواں محترم مولانا عبد المتین منیری حفظہ اللہ ورعاہ کی کتاب ’’دہلی اور اطراف کا مختصر علمی سفر‘‘ کی تقریب رونمائی تھی، مولانا عبد المالک مغیثی اور مفتی ساجد صاحب کھجناوری کی کوشش اور توجہ نے اس مختصر تقریب کو نافع اور یادگار بنادیا تھا۔ پورے سفر میں مولانا مرحوم نے بے انتہا خرد نوازی کا مظاہرہ کیا اور جہاں اجتماعی دعا کی نوبت آتی تو یہ کہہ کر احقر کو بہ اصرار آگے کردیتے کہ مختصر دعا کا ہنر جانتے ہیں۔
مولانا تقریباً دو درجن تصانیف اپنی یادگار چھوڑ گئے ہیں، ان تصانیف میں زبان وبیان کی حلاوت، قلم کی روانی اور تعبیرات کی ندرت کے ساتھ جس گہرائی و گیرائی سے حقایق وواقعات کی عکاسی اور ظروف واحوال کی ترجمانی کی گئی ہے اس سے آپ کی درمندی اور فکر وخرد کی بلندی خوب نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے ۔ جہاں آپ نے ماضی کی حسین یادوں کی ورق گردانی کی ہے وہاں آپ کا اشہب قلم سرپٹ دوڑتا نظر آتا ہے۔
مولانا مرحوم جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے وہ ملک کے محسن خاندانوں میں سے ہے، جس کی برکت سے عرصے تک بر صغیر کا ایک بڑا خطہ حدیث اور علم حدیث کی زمزمہ سنجی سے گونجتا رہا، اور اس وقت بھی ان نقوش کی تابندگی باقی اور چراغ سے چراغ جلانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ دارالعلوم دیوبند اور اس کے فیض یافتگان کی علمی و فکری تشکیل میں آپ کے خاندانی بزرگوں بالخصوص محدث جلیل امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کااہم کردار رہا ہے۔ مولانا مرحوم اسی محسن خانوادے کے فرد اور اپنی خاندانی روایات کا تسلسل تھے۔
مولانا نے جب آنکھیں کھولیں اور شعور کی وادی میں قدم رکھا تو سب سے پہلے جس ادارے کو آنکھوں سے دیکھا اور دل میں بسایا، جس کی محبت اور عشق کا سودا عقل و خرد سے گذر کر دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گیا، وہ صرف اور صرف دارالعلوم دیوبند تھا ۔ بچپن اور لڑکپن کا بیش تر وقت گھر کی دہلیز اور محلے کی گلی میں گزرنے کے بجائے دارالعلوم دیوبند کی علمی و ودینی فضاؤں میں گزرا اور اسی کی روحانی چھاؤں میں پلے بڑھے، اس لیے دارالعلوم ان کی سانسوں میں رچا بسا اور ان کے خواب وخیال کی دنیا کا حسین شاہ کار تھا۔ یوں تو دارالعلوم کا ہرفاضل اپنی مادرعلمی سے جذباتی تعلق اور قلبی وابستگی رکھتا ہے تاہم عشق وعظمت کے آمیزے سے تیار ہونے والاخمار جس طرح مولانا موصوف پر چڑھا اور حالات کی نا مساعدت کے باوجود چڑھتا ہی چلا گیا وہ منفرد بھی ہے اور حسین وحیرت انگیز بھی، مولانا نے اپنی کتاب ’’میرے عہد کا دارالعلوم‘‘ میں دارالعلوم سے بے پناہ تعلق ومحبت کے حوالے سے اپنا سینہ چیر کر رکھ دیا ہے ۔
’’اپنی یادیں کیا ہیں؟‘‘ سب ایک نام کے اردگرد گھومتی ہیں ،پیشانی پر بھی وہ نام درج ہے،دل میں بھی وہی نقش اور روح بھی اسی کے سحر میں گرفتار ، دارالعلوم اپنا گھر بھی اور مادرعلمی بھی، ابتدائی تعلیم کا مکتب بھی، انتہائی تعلیم کا مرکز بھی، فکر کا پاسبان بھی ، اخلاق وتربیت کا نگہبان بھی ، بڑوں کے عزم و عمل کا عنوان بھی اور خدا رسیدہ انسانوں کی جہد وسعی کا چلتا پھرتا نمونہ بھی، اعتدال اور میانہ روی کا نقیب بھی ،علوم ولی اللہی کا امین بھی، جذبہ حریت کا محور بھی ، انگریز دشمنی میں شمشیر براں بھی ، آزادی وطن کا قائد اور داعی بھی۔۔۔۔۔طوفان باد و باراں کا سامنا بھی ہوا، اغیار کے تیر بھی چلے ،اپنوں کے فتنوں نے بھی نگل لینا چاہا؛ مگر دارالعلوم سخت جان بھی ثابت ہوا اور مستقل مزاج بھی ، وہ نہ لرزا ،نہ کانپا،نہ اس کے قدم ڈگمگائے اور نہ وہ راہ مستقیم سے ہٹا۔”(میرے عہد کا دارالعلوم،ص 21،23)۔
اس طرح مولانا کی وفات سے دارالعلوم دیوبند نے اپنے ایک ایسے سپوت کو کھودیا ہے جس نے مادر علمی سے محبت کا خوبصورت راگ چھیڑ رکھا تھا جس سے اس میکدہ علمی کا ہر بادہ خوار محو خرام تھا۔ لیکن افسوس نہ وہ ساز رہا اور نہ ہی وہ ساقی رہا ۔
رب ذوالجلال مولانا کو کروٹ کروٹ سکون عطا کریں اور جانشینوں کو قابل فخر خاندانی روایات کا نقش جمیل بنائیں! آمین یارب العالمین