حضرت مولانا ولی رحمانی اور ہفت روزہ نقیب
مولانا محمد اسعداللہ قاسمی
کئی دماغوں کا ایک انساں میں سونچتا ہوں کہاں گیاہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے زباں سے زور بیاں گیا ہے
گزشتہ ۳/اپریل ۱۲۰۲ء کو ملک کی ایک نامور شخصیت، قلم وقرطاس کے دھنی،مصلح قوم وملت، شیخ طریقت اور ولی ابن الولی امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی نوراللہ مرقدہ نے داعیئ اجل کو لبیک کہا،”انا للہ وانا الیہ راجعون“ قدرت نے حضرت امیر شریعت سابع رحمۃ اللہ علیہ کوہمہ جہت خصوصیات و کمالات سے نوازا تھا، جرأت و بے باکی اور علم ودانائی کا ایک وافر حصہ عطا فرمایا تھا، جس کے ذریعہ اس مرد مجاہد نے مختلف پلیٹ فارم سے ملت کی اصلاح اور ان کی زندگی سنوارنے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کا گر سکھایا،غرض کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے کئی دماغوں کا ایک انسان بنایا تھا، وہ جو فیصلہ کرتے تو اس پر مضبوطی سے جم جاتے، کسی سے کوئی وعدہ کرتے یاکراتے تو اسے یاد رکھتے، کسی کو کوئی کام کا حکم دیتے تو اس سے استفسار کرتے رہتے، گویا ایک امیر اور قائد کا جو کام ہوتا ہے،اس پر وہ پورے طور پر صادق آتے تھے، کبھی بھی پست ہمتی سے کام نہیں لیتے تھے اور ماتحتوں کو بھی ہمیشہ اس بات کی تاکید فرماتے۔
حضرت امیر شریعت سابع ؒکی زبان و تہذیب کی حفاظت کے لیے کی جانے والی کوششیں بھی لائق تقلید رہی ہیں،رحمانی تھرٹی ملک میں اس کا زندہ ثبوت ہے، امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے بنیادی دینی تعلیم اور زبان اردو کی ترویج واشاعت کے لیے چلائی جانے والی ان کی تحریک لوگوں کو ہمیشہ یاد رہے گی،اردو کی بقا اور اس کی ترویج کی غرض سے اپنے عہد امارت میں انہوں نے ملک کا قدیم اردو اخبار اور امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کاترجمان ہفت روزہ نقیب کی طرف ان کی خصوصی توجہ رہتی،وہ فرمایا کرتے تھے کہ امارت شرعیہ کا ترجمان اخبار نقیب یہ امارت شرعیہ کا آئینہ بھی ہے اور اس کے کاموں کا رکارڈ بھی ہے،حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی کہ امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے جب بھی کوئی چھوٹا یا بڑا کام انجام پائے اس کے ترجمان اخبارنقیب میں اسے ضرور جگہ دی جائے تاکہ وہ بطور رکارڈ اس میں محفوظ رہے،جب امارت شرعیہ کا کوئی وفد کسی علاقہ میں جاتا تو
اس کے ذریعہ انجام پانے والے کام اور شرکاء خواہ وہ امارت شرعیہ کے کارکن ہوں یا علاقہ کے لوگ ہوں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نقیب کے مدیر اور نائب مدیر کو یہ حکم دیتے کہ خبریں تو ہر روز آ رہی ہیں کام کے اختتام پرآپ حضرات ایک ایسا مضمون لکھیں جس میں اس کام کے تعلق سے اور کام کرنے والے کے تعلق سے مختصراً ہی صحیح ساری چیزیں آجائیں تاکہ وہ رکارڈ میں محفوظ رہیں۔
ویسے توحضرت امیر شریعت سابع ؒاپنے طالب علمی کے زمانہ سے ہی جریدہ نقیب سے جڑے رہے،ان کے قلم سے لکھے ہوئے بے شمار دینی و ادبی اور تأثراتی نوعیت کے مضامین ہفت روزہ نقیب کے ذخیروں میں بھرے پڑے ہیں،حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا نقیب میں لکھنے کا سلسلہ بہت پہلے سے تھا اور ایڈیٹر کی موجودگی میں بھی وہ کئی سالوں تک ادارتی صفحات لکھتے رہے، وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ”والد محترم امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں میں نے نقیب میں بہت سی تحریریں لکھیں“،جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بحیثیت منیجر مجھے نقیب کی ذمہ داری سونپی تو نقیب کے رکارڈ میں محفوظ ان کے کئی مضامین میں نے مدیران کے مشورہ سے دوبارہ نقیب میں شائع کیاتاکہ نئی نسل کو ان سے استفادہ کا موقع مل سکے،ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بعد نماز مغرب مجھے فون پر بات کرنے کا حکم دیا،تعمیل حکم میں میں نے بعد نماز مغرب فون کیا تو انہوں نے نقیب کے تعلق سے کئی چیزیں مجھ سے دریافت کیں،ان میں سے اکثر کا جواب میرے پاس نہیں تھا،اس دن حضرت رحمۃ اللہ علیہ اکتالیس (41)منٹ تک فون پر مجھے نقیب کے فلاں سن کے شمارے فلاں سن کے شمارے نکالنے کا حکم دیا اور ان جگہوں کی نشاندہی بھی کی کہ اس سن کے اس مہینے میں یہ واقعہ پیش آیا،نقیب کے صفحات میں اضافہ فلاں سن میں ہوا،نقیب کے فلاں مدیر اس سن میں بنائے گئے وغیرہ وغیرہ اسی درمیان حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرمایا کہ”وہ اداریہ میرا ہی لکھا ہے“تو میں نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ حضرت اس میں آپ کا نام نہیں ہے اس پر انہوں نے نقیب سے متعلق منظروپس منظر بیان فرمایا وہ بہت پسندیدہ اورکارآمد ہے،انہوں نے فرمایاکہ
”1956 ء سے 1967 ء کے درمیان نقیب کے بہت سے اداریے میرے لکھے ہوئے ہیں؛اور میں دو ٹوک، صاف شفا ف بولنے اور لکھنے کا عادی ہوں اس لئے نقیب کے مدیر محترم کو اس سے ڈر لگنے لگا؛کیونکہ میں تو ایڈیٹر نہیں تھا،جوصاحب ایڈیٹر تھے ان کا نام اخبار کے پہلے صفحہ پر جلی حروف سے لکھا ہوتا تھا،میری سخت تحریر سے خوف زدہ ہوکر کہ کہیں میں حکومت کی گرفت میں نہ آجاؤں میرے والد محترم (سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ)سے انہوں نے اس کی شکایت کردی کہ محمد ولی رحمانیؔ صاحب کی ان تحریر وں سے مجھے ڈرلگ رہا ہے،میں صاحب اولاد آدمی ہوں اس لئے یا تو انہیں اس سے روکیں یا پھر میں اس کام سے دستبردار ہوتا ہوں،ان کی شکایت پروالد محترم سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒنے مجھے اس کام سے الگ کر کے جامعہ رحمانی مونگیر میں درس وتدریس کے لئے بھیج دیا،ساتھ ہی مجھے ہر ہفتہ نقیب کے لئے تحریریں بھیجنے کا بھی حکم فرمایا،میں وہاں سے نقیب کے لئے تحریریں تو بھیجتا رہا؛لیکن حالات کے اعتبار سے میرا دل اس پر مطمئن نہیں ہوتا(یہ واقعہ 1967ء میں رانچی کے اس بھیانک فساد کے وقت کا ہے جب مسلمانوں نے اردوکے لئے تحریک چلائی تھی) کہ سنگھیوں کی ان حرکتوں پر خاموشی اور نرم گفتگو سے کام لیا جائے؛چنانچہ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے اس کا تذکرہ کیا تو والد صاحبؒ نے مجھے حکم دیا کہ اس کام کے لئے وہ کسی اچھے لکھنے والے کو تلاش کریں،میں نے والد محترم کے سامنے شاہد رام نگری صاحب کا نام پیش کیا،اور ان کی تحریریں انہیں دکھلائیں تووالد صاحب نے انہیں بلانے کا حکم دیا،جب وہ آگئے تو والد صاحبؒ نے(30/رجب المرجب 1387ھ مطابق 4/نومبر 1967ء سے) جناب شاہد رام نگری صاحب کو جریدہ”نقیب“کا ایڈیٹربنادیا“شاہد رام نگری کا اصل نام سراج الدین تھا،رام نگر بنارس کے علمی خانوادہ سے ان کا تعلق تھا،اردو صحافت کے ایک مضبوط ستون تھے،انہوں نے 1925 ء میں روز نامہ ”ساتھی“ کی ادارت سے اپنی صحافت کا آغا ز کیا اور آخری دم تک ا ردو صحافت کی خدمت کرتے رہے،ان کی وفات 30/اکتوبر 1991ء کو ہوئی، درمیا ن گفتگو حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ حالات ایسے تھے کہ خاموش نہیں رہا جاسکتا تھا اس لئے مجھے جو لکھنا ہوتا میں اسے لکھتا؛ لیکن میں اپنے ہم عصروں سے بھی اس طرح کے مضامین لکھنے کو کہتا،مجھے حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ اکتوبر 1967ء کے نقیب کا شمارہ نکالئے، جب میں نے نکالا تو انہوں نے فرمایا کہ اگست 1967ء میں اردو زبان کی مخالفت کرتے ہوئے رانچی اور اس کے گردو نواح میں فساد کا سلسلہ شروع ہوااور اس میں کئی قیمتی جانیں گئیں،اس فساد کے بعد مسٹر جے پرکا ش نارائن نے کولکاتا میں ایک طویل بیان جاری کرتے ہوئے اس دل دہلانے والے فساد کی شدت کو کم کرنے کے لئے اسے محض لسانی فساد قرار دیا تھا،اس پر لوگوں نے سخت اعتراض جتلایاتھا،میں نے دارالعلوم دیوبند کے استاذ حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری ؒ کو اس کے متعلق ایک مضمون لکھنے کو کہا،انہوں نے سرودیہ لیڈر شری جے پرکاش نارائن کے اس بیان کے خلاف ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا”پوچھا جا سکتا ہے شری جے پرکاش نارائن سے“ (یہ مضمون21 / اکتوبر 1967ء کے جریدہ”نقیب“ میں شائع ہوا ہے)میرے کہنے پر انظر شاہ کشمیری ؒ نے یہ مضمون لکھا جوکہ حالات کے اعتبار سے بہت سخت تھا،اس لئے مدیر محترم کو اور بھی ڈر لگنے لگا“۔
ہفت روزہ ”نقیب“میں شائع ہونے والے مضامین پر حضرت امیر شریعت ؒ کی گہری نگاہ رہتی تھی،وہ کہا کرتے تھے کہ نقیب امارت شرعیہ کا آئینہ ہے اس میں لو گ آپ کا چہرہ دیکھتے ہیں اس لئے آپ حضرات اس کے مضامین کے انتخاب میں حساس رہیں اور ایسے مضامین کے انتخاب سے گریز کریں جو غیر معیاری ہو،ہمیشہ اصلاحی اور تجزیاتی مضامین شائع کریں،کبھی کسی مضمون میں کوئی جملہ یا کوئی لفظ ایساہوتا جوکسی کے کردار کشی کے لئے استعمال کیا گیا ہویا وہ اس لائق نہ ہو اور اسکی تعریف میں مبالغہ آرائی کی گئی ہو، اسی طرح اردویا عربی کے سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہوں تو نشان زد کرکے اس کی اصلاح فرماتے،حضرت رحمۃ اللہ علیہ امارت شرعیہ کے کارکنان سے نقیب کو پڑھنے اور اس کے لئے مضامین لکھنے پر توجہ دلاتے۔
امیر شریعت سابع ؒ بالغ نظر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ قانونی داؤ پیچ اور اس کے نشیب وفراز سے اچھی طرح واقف تھے،اس لئے دینی و ملی اداروں اور تنظیموں کے سلسلہ میں جو قانونی پریشانیاں کھڑی ہوسکتی تھیں اس کی طرف وہ قبل از وقت توجہ فرماتے تھے،اپنے عہد امارت میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ نقیب کے رجسٹریشن کے بارے میں دریافت کیا کہ نقیب کا رجسٹریشن تو 1961ء میں ہوا ہے،کیا دوبارہ اس کا رینول (Renwal)کرایا گیا؟جب انہیں بتلایاگیا کہ اس کا دوبارہ رینول نہیں ہوا ہے تو انہوں نے فوراًرینول کرانے اور اس کے لئے مولانا رضوان احمد ندوی صاحب کو دہلی جاکر کام مکمل کرانے کا حکم فرمایا،حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے مولانا رضوان احمد ندوی صاحب معاون مدیر ہفت روزہ نقیب نے اس کام کو ایک ہفتہ میں مکمل کر اکر حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اس کی تحریری رپورٹ پیش کی جس پر حضرت نے دلی مسرت کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں،رینول کرانے کے بعد آر این آئی نے بذریعہ خط دفتر نقیب کو اس کی اطلاع دی کہ نقیب کے آخری صفحہ پر انگریزی میں لکھا جانے والا”دی نقیب“(The Naqueeb)غلط ہے،رجسٹریشن کے مطابق یہ صرف نقیب(Naqueeb) ہے،اس کی اصلاح کر لی جائے،اس کے بعد وہاں سے ”The“ ہٹا دیا گیا،جولمبے عرصہ سے نقیب پر لکھا جاتا رہا۔
دراصل امارت شرعیہ کا ترجمان ہفتہ وار ”نقیب“یہ حکومت ہند سے رجسٹرڈ ہے،اور ہر ماہ اس کی فائلیں پی آئی بی میں جمع کی جاتی ہیں،جو حکومت کے پاس رکارڈ ہوتی ہیں،اسی طرح محکمہئ ڈاک اور آر این آئی دہلی کی ہندوستان میں جہاں جہاں دفاتر ہیں انہیں ہر ہفتہ اس کی ایک کاپی بذریعہ ڈاک بھیجی جاتی ہے اور پھر سال کے آخر میں مکمل پرنٹ شدہ کاپیوں کی فہرست اور شائع ہونے کی تاریخ نیز اس کی تعداد کی رپورٹ چارٹر اکاؤنٹنٹ سے تصدیق کراکر دہلی آراین آئی کو بھیجی جاتی ہے،تاکہ اس اخبار پر حکومت کوکسی طرح کے بہانے بنا کر قانونی شکنجہ میں پھنسانے کا موقع نہ مل سکے،جیسا کہ آئے دن اس طرح کے معاملات پیش آتے رہتے ہیں۔
نقیب کی معیاری طباعت اورظاہری ومعنوی اعتبار سے پُر کشش بنانے کے لئے بھی حضرت ؒ بہت فکر مند رہا کرتے تھے،وہ جب بھی مجلس میں بیٹھتے اور نقیب کے سلسلہ میں کوئی بات آتی تو اس سے متعلق لوگوں کو تاکید فرماتے کی آپ لو گ کوشش کریں کہ نقیب کیسے دیدہ زیب ہو،اس کے مضامین کی ترتیب ایسی ہو کہ دیکھنے میں خوبصورت لگے،ہمیشہ ایک ہی ترتیب میں مضامین شائع نہ کریں،اس میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش کریں،بسا اوقات حضرت ؒ خودقلم سے ڈیزائن بنا کر بھیجتے اور اس میں مضامین سیٹ کر کے اپنے بھیجنے کا حکم فرماتے،دسمبر 2020ء کاسب سے آخری شمارہ،شمارہ نمبراکاون (51)آپ اُٹھا کر دیکھ لیں،اس کے صفحہ چار(4)پر کانگریس کے سنیئر لیڈر جناب احمد پٹیل مرحوم کی وفات پر حضرت ؒ کا مضمون ہے،حضرت نے خود اس کی ترتیب قلم سے بنا کر دی اور جب مضمون ٹائپ کر دیا گیا تو انہوں نے اسے منگا کر دیکھ لیا،پھر وہ پریس کو بھیجاگیا،اسی طرح جب بہار میں امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے حضرت ؒ نے اردو کی تحریک چلائی اوراس کے لئے المعہدالعالی امارت شرعیہ کے کانفرنس ہال میں اردو داں طبقہ کے ساتھ ایک کانفرنس کیا،اس وقت اردو اور ہندی اخبارات نے حضرتؒ کی اس تحریک کی تصاویر کو مختلف انداز میں شائع کیا،ان اخبارات کے تراشوں کو جمع کرکے حضرت ؒ نے بطور رکارڈ نقیب میں شائع کر نے کا حکم فرمایا،جب وہ تراشے جمع ہوگئے،امارت شرعیہ کے میٹنگ ہال میں فرش پر بیٹھ کر خود اپنے دست مبارک سے ان تراشوں کوسنوارا سجایااور فرمایا کہ اسی انداز میں بیچ کے دونوں صفحات پر ان تراشوں کو شائع کیا جائے،22/فروری 2021ء،شمارہ نمبرآٹھ(8) میں حضرت ؒ کی دی ہوئی اس ترتیب کو آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں،نقیب حضرت ؒ کے دور امارت سے قبل تک صرف ایک کلر (Black In White)میں طبع ہوا کرتا تھا،آپ نے پہلے یکم فروری۶۱۰۲ء سے اول اور آخر صفحہ کو دو کلر میں کرنے کا حکم فرمایا،پھرمزید دیدہ زیب کرنے کی غرض سے 2/جمادی الثانی 1439ھ مطابق 19/فروری 2018ء سے اول اور آخر صفحہ کو چارکلر (Multi Color) میں طباعت کرانے کا حکم فرمایا،حضرت ؒ کے حکم کے مطابق آج بھی نقیب چار کلر میں پابندی سے شائع ہورہا ہے۔عمدہ کاغذ، عمدہ طباعت اور وقفہ وقفہ سے کی جانے والی تبدیلیوں کی وجہ سے نقیب کا معیار پہلے کے بالمقابل بہت بلند ہو گیا اور قارئین کو بھی دلچسپی پیدا ہونے لگی ہے۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نقیب کے سلسلہ میں اس بات پر بھی فکر مند رہتے کہ جس طرح ادارتی صفحہ مرحومین اور نو آمدہ کتابوں پر تبصرہ اوراسی طرح دیگر چیزوں کے لیے نقیب کے بعض صفحات خاص ہیں اور قارئین اسے دلچسپی سے پڑھتے ہیں اسی طرح نقیب میں ادب،عالم اسلام اور ہندی و انگریزی اخبارات میں شائع ہونے والے تجزیاتی مضامین کے ترجمے بھی شائع کئے جائیں تاکہ قارئین نقیب کی دلچسپی بڑھے اورنئی نسل کو ادب اورتازہ معلومات سے روشناس کرایا جا سکے،ساتھ ہی نئی نسل کی ذہنی وفکری آبیاری کرنے،ان کے ایمان ویقین میں نورانیت وروحانیت پیدا کرنے کے لئے ”حکایات اہل دل“کا کالم شروع کروایااور اس کی ذمہ داری مولانا رضوان احمد ندوی صاحب کے سپرد کی، ظاہر ہے ان چیزوں کے لیے نقیب کے بارہ صفحات ناکافی تھے، اس کے لئے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے صفحات کے اضافہ کا حکم فرمایا؛ چنانچہ تقریباًپچاس(50) سالوں بعد حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر22/فروری2012ء شمارہ نمبر آٹھ (8)سے دوبارہ نقیب کے صفحات میں اضافہ کر کے بارہ(12)کے بجائے سولہ (16)کر دیا گیا، اس سے قبل امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دور امارت میں ان کے حکم سے 1957ء سے1975ء کے درمیان کئی مرتبہ صفحات میں اضافہ ہوا، کبھی بارہ تو کبھی سولہ صفحات ہوتے رہے،22/فروری2012ء سے جب نقیب کے صفحات میں اضافہ کیا گیا تو اس کی اطلاع اور اس سلسلے کی ضروری کاروائی کے لئے معاون مدیر جناب مولانا رضوان احمد ندوی صاحب کو آر این آئی نئی دہلی بھیجا،ساتھ ہی محکمہ ڈاک کو بھی اس کی اطلاع بھیجنے کا مجھے حکم دیا اور فرمایا کہ قانونی طور پر کسی طرح کی کوئی پریشانیاں بعد میں نہ اٹھانی پڑے اس لیے ان کاموں کو فوراً کر لیا جائے،تعمیل حکم میں میں نے فوراً محکمہ ڈاک کو اس کی اطلاع دے دی،زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کے پہونچانے کی غرض سے موجودہ زمانہ میں مختلف سوشل سائٹ پر ہر ہفتہ پابندی سے اسے شئیرکرنے اورنقیب کے ویب سائٹ www.imaratshariah.com پر پابندی سے آپ لوڈ کرنے کا بھی حکم دیا،جس کے بعدمحرم الحرام 1439ھ سے اب تک کے تمام شمارے پی ڈی ایف فائل میں بالترتیب اس سائٹ پر موجودہیں۔
حضرت امیر شریعت سابعؒ کی نقیب کے سلسلہ میں یہ فکر مندی رنگ لائی اور ملک و بیرون ملک میں اس کے قارئین کی آج ایک معتدبہ تعداد ہے، جو ہر ہفتہ اسے پابندی سے پڑھتی ہے،،اور حال یہ ہے کہ لوگ اس کے منتظر رہتے ہیں،اس کے علاوہ چھوٹی بڑی اور بھی کئی تبدیلیاں نقیب میں ہوئیں جن کا احاطہ اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں،بس اللہ تعالی حضرت کی اس راہنما ہدایات اور بتائے ہوئے سلیقہ کے مطابق کام پرہم سب کو گامزن رکھے اور کامیابی کے ساتھ اس کارواں کو آگے بڑھانے کی توفیق بخشے آمین۔