حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ کی عبقریت اور دارالعلوم دیوبند
مفتی اشرف عباس قاسمی
20شعبان المعظم1442 ھ3؍اپریل 2021ء کو جو مدرسہ ثانویہ دارالعلوم دیوبند کے کورونا سے بری طرح متاثرتعلیمی سال کا آخری دن تھا،عین ظہر کی جماعت کے وقت آنے والی اس وحشت ناک خبرنے پورے ماحول کو اشکبار کر دیا کہ ملت کے بابصیرت قائد دارالعلوم دیوبند کے فکر و مشن کے امین ’’امیر شریعت حضرت مولانا سید محمدولی رحمانیؒ ‘‘ بھی اپنے رب کے حضور وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا اور ولی صفت لوگ تو آنا بھی نہیں چاہتے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
کس کس کا ماتم کیجیے: یوں تو گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں جب سے اس وبا نے پیر پسار ے ہیں ،علم و عمل کی ایک کہکشاں افق سے غائب ہو کر زیر زمین دفن ہو چکی ہے ، اور کئی صورتیں ، جن سے ملت کی تابندگی قائم تھی ، خاک میں پنہاں ہو چکی ہیں اور اپنے گنج ہائے گراںمایہ کو کھو دینے پر ہم صبر کے عادی ہو چکے ہیں ؎
اٹھ گئی ہے سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کا ماتم کیجیے
اس کے باوجود اس حادثے نے ایک بار پھر قلب و جگر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا،ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا ہے اور ظاہری آنکھوں سے بھی نظر آرہا ہے کہ ایک قیمتی متاع امت سے چھن گئی ہے اور ملت ایک بار پھر یتیم و بے آسرا ہو گئی ہے ،خصوصیت کے ساتھ ہمارے صوبۂ بہار کی کل کائنات تو وہی تھے،وہ کیا گئے ،بہار کی بَہار چلی گئی،روشنی مدھم پڑ گئی تاریکی بڑھ گئی ؎
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ؟ ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
علالت کی خبر سے اکابر ملت کی تشویش:۔ وفات سے ہفتہ عشرہ قبل جب علالت کی خبر آئی تو حضرت امیر شریعت ؒ کے قریبی متعلقین و تیماداروں سے فون پر رابطہ کرکے خیریت دریافت کی گئی،انہوں نے اطمینان دلایا،میں نے ان قریبی ذرائع کے نمبرات مخدوم ملت حضرت مولانا سید ارشد مدنی اور حضرت مولانا سید اسجد مدنی دامت برکاتہم تک بھی پہنچا دیئے تھے ،حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب تقریبا روزانہ عصر کے بعد احوال دریافت کرتے ،فون سے خیریت معلوم کرتے ،جس سے ہمیں محسوس ہوا کہ حضرت مولانا کے دل میں امیر شریعتؒ کی کس قدر قدر و منزلت ہے اور آپ کو امیر شریعت کی علالت سے کتنی زیادہ تشویش ہے،حضرت مولانا کو تشویش اس بات سے بھی تھی کہ انہوں نے ابھی ویکسین لی ہے ،پھربھی ہم دل کو تسلی دیتے رہے کہ امیر شریعت فولادی عزم و حوصلے کے آدمی ہیں،وہ اس بیماری کو بھی جھیل جائیں گے؛لیکن وقت موعود آ پہنچا،تدبیرپر تقدیر غالب آگئی۔
جرأت و عزیمت کا استعارہ:۔ امیر شریعت حضرت مولانا سید ولی رحمانیؒ بابصیرت عالم دین،روشن دماغ مفکر و مدبر، با حوصلہ قائد و مربی اور راہ نوردگان طریقت کے لیے زبردست مصلح و مربی تھے،وہ جرأت و عزیمت کا استعارہ،یاس و قنوطیت کا شکار ہوئے بغیر اپنے کردار و عمل سے کوہ پاٹنے والے،اولو العزم ،دانش مند، اردو کے صاحب طرز ادیب ،باکمال خطیب و اسپیکر اور قدیم صالح وجدید نافع کے سنگم تھے، مشرق سے قلب ونظر کوجلا بخشنے کے ساتھ انہیں مغرب سے بھی حذر نہیں تھااور وہ فطرت کا اشارہ پاکر ہر شام کو سحر کرنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوتے،ملک کے اعلی تعلیمی اداروں اور تنظیمی عہدوں پر مسلم نمائندگی کی قلت کا رونا رونے کے بجائے ’’رحمانی ۳۰‘‘ کے ذریعے خاموش مؤثر تعلیمی انقلاب لانے میں کامیاب رہے ،وہ شش جہت شخصیت کے مالک تھے اور ان کی شخصیت کا ہرپہلو اتنا روشن تھا کہ وہی ان کا نشان امتیاز نظر آتا تھا،سرگرم سیاست میں بھی حصہ لیا اور بہار اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے ؛لیکن ان کے اپنے اصول اور بلند اقدار پر سیاست کبھی غالب نہیں آسکی،ارباب اقتدار سے مرعوب ہوئے بغیر جرأت و بصیرت کے ساتھ ملت کی قیادت کرتے رہے،پرآشوب حالات میں بھی ملت کی نیا کے کھیونہار اور اس کی امیدوں کا مرکز رہے۔
دارالعلوم دیوبند سے جذباتی لگاؤ: حضرت مولانا کو دارالعلوم دیوبند سے خاص لگاؤ اور تعلق تھا، اور دارالعلوم دیوبند سے یہ لگاؤ آپ کو ورثے میں ملا تھا،آپ کے والد گرامی قدر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رح دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ اور دارالعلوم دیوبند کی ہیئت حاکمہ مجلسِ شوریٰ کے معزز رکن تھے،اور 1954ء سے 1991ء تک مسلسل37 سال اس اہم عہدے پر فائز رہ کر دارالعلوم کے انتظام و انصرام میں اپنی خدمات پیش کرتے رہے،مجلس میں ان کی اصابت رائے کو اہم مقام حاصل تھا۔(دارالعلوم دیوبند کی جامع ومختصر تاریخ ص :618) دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رح لکھتے ہیں: جب میں 85ء میں شوریٰ کا ممبر ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ مجلسِ شوریٰ میں مولانا رحمانی کی معاملہ فہمی،اصابت رائے اور قوت استدلال کا خاص وزن ہے،پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا رہا،آخرمیں ایسا بھی ہواہے کہ شوریٰ کی بعض مجلسوں میں ان کی ذات روح رواں کی حیثیت اختیار کر لیتی تھی۔”(حضرت امیر شریعت نقوش و تاثرات:45)
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ: اپنے قابل فخر دادا قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کے قائم کردہ دونوں اداروں جامعہ رحمانی مونگیر اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے اکتساب فیض کے بعد شوق وولولہ اور مزید کی طلب نے آپ کو دارالعلوم دیوبند پہنچا دیا،جہاں آپ نے سن1383ھ میں باضابطہ داخلہ لیا ،اور مسلسل دوسال اس منھل علمی سے باقاعدہ اپنی تشنگی بجھاتے رہے، اس زمانے میں شناخت کے لیے داخلہ فارم میں تصویر چسپاں کرنے کا نظام نہیں تھا،بلکہ چہرے کے خدو خال اور کوئی خاص قسم کی علامت لکھ لی جاتی تھی، چنانچہ داخلہ رجسٹر میں آپ کے شخصی خاکے کے سلسلے میں درج تعارف اس طرح درج ہے: ’’رنگ سانولا، چہرہ کتابی، آنکھ وناک متوسط، ناک پھیلی ہوئی، ریش سبزہ آغاز اور بائیں رخسار پر تل ہے،‘‘ پہلے سال آپ نے ہدایہ اخیرین، مشکاۃ المصابیح، بیضاوی شریف، ملاحسن اور نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر پڑھی۔ فطری ذوق و شوق کے ساتھ جہد مسلسل اور اسباق کی پابندی سے بہت جلد طلبہ میں نیک نام اور اساتذہ کے منظور نظر بن گئے۔
علمی و ادبی سرگرمیاں: اسباق کی پابندی کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے ماحول میں زبان وقلم کی صلاحیتوں کو مہمیز کرنے کے لیے جو علمی و ادبی انجمنیں قائم تھیں، آپ نے ان سے بھی بھرپور استفادہ کیا. النادی الادبی سے آپ کا خاص ربط ہی نہیں بلکہ اس کے ذمہ داروں میں تھے، اور النادی کے اخباری نشریہ "النھضۃ”کے ایڈیٹر بھی رہے، شروع سے آپ کا خط عمدہ اور ممتاز رہا ہے؛ اس لیے کسی خطاط اور خوشنویس کی مدد لینے کے بجائے آپ خود ہی اس صحیفے کی کتابت کرتے اور اسے احاطہ مولسری میں نمایاں مقام پر آویزاں کرتے جسے بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا۔
مطالعاتی ذوق اور محسن اساتذہ : تقریبا ساڑھے تین سال دیوبند میں رہے،عربی اردو ادب کے علاوہ حدیث وفقہ کی کتابوں کو دیکھتے اور پڑھتے رہے۔ دارالعلوم دیوبند کی زندگی میں آپ کی کیا مصروفیات تھیں اور آپ کن اساتذہ سے متاثر تھے اور یہاں کے ماحول سے آپ کے علمی و مطالعاتی ذوق پر کیا اثرات مرتب ہوئے،اس کا تذکرہ کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں: دارالعلوم دیوبند میں سب سے زیادہ علامہ محمد ابراہیم صاحب رح سے متاثر رہا،وہ حکمت شریعت اور حدیثوں کے درمیان تطبیق میں بڑی دسترس رکھتے تھے اور غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے،کئی عربی،فارسی اور اردو کی کتابیں،ان کے مشورے سے پڑھیں،حضرت مولانا فخرالدین احمد صاحب رح شیخ الحدیث اور حضرت مولانا فخرالحسن صاحب رح بھی بڑی قیمتی شخصیت کے مالک تھے،دوسرے اساتذہ کرام کے علاوہ ان دو بزرگوں کا بھی مجھ پر بڑا احسان ہے۔ "(النخیل،کراچی مطالعہ نمبر۔ص:118)”۔
دورطالب علمی میں رجال ابی داؤد پر کام: دور طالب علمی سے ہی آپ کی بلند ہمتی کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے جو آپ کے روشن مستقبل کی نوید سنا رہے تھے۔ خالص فنی اور علمی کتابوں سے بھی آپ کو خاص انس ہوگیا تھا اور رجال واسناد کی وادیاں سرکرنے نکل کھڑے ہوئے، اور اپنے اساتذہ کی تشجیع و تائید سے حوصلہ پاکر سنن ابی داؤد کے رجال پر ہی کام کی ٹھان لی۔چنانچہ خود فرماتے ہیں: "حضرت مولانا فخرالحسن صاحب رح سے سنن ابی داؤد پڑھتا تھا،ان کے مشورے سے”المنھل العذب المورود”کا مطالعہ کیا جس سے حدیث کی کتابوں کے مطالعہ کا ذوق تیز ہوگیا، انہی کے مشورے سے میں نے رجال أبی داؤد پر قیام دیوبند کے زمانے میں تحقیق کی اور تقریباً دو تہائی حصے پر کام ہوا۔ اسی زمانے سے میں نے مطالعہ کا بھرپور اہتمام کیا اور برسہا برس تک مطالعہ میری زندگی کا بنیادی حصہ بنا رہا،مجھ میں اگر لالچ ہے تو صرف اور صرف کتابوں کے لیے۔”(النخیل،کراچی مطالعہ نمبر۔ص:118)”۔
مطالعہ علومِ قرآنی سے وابستگی اور بعض تحقیقی مقالے : دارالعلوم دیوبند کے قیام کو آپ نے خوب وصول کیا اور تحریری صلاحیتوں کو خوب پروان چڑھایا۔نایاب حسن لکھتے ہیں: اسی زمانے میں اردو میں ایک مفصل مقالہ "دارالعلوم کا کتب خانہ اور اس کا دارالمطالعہ” کے زیر عنوان لکھا،جس میں دارالعلوم کے کتب خانے کا بہترین تعارف اور اس میں پائے جانے والے ذخائر کتب پر بصیرت افروز روشنی ڈالی گئی تھی، فراغت کے بعد مزید ڈیڑھ سال دارالعلوم میں رہے اور اس عرصے میں جہاں حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ سے دوبارہ ترمذی شریف کا درس لیا اور فن حدیث میں دست گاہ حاصل کی،وہیں شعبہ مطالعہ علومِ قرآنی سے وابستہ رہ کر مفتی ظفیر الدین مفتاحیؒ کے زیر نگرانی "ربطِ آیات اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ” کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا،جسے اہل علم کے حلقے میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔”(دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ: 231)
نیک نام طالب علم : دارالعلوم دیوبند کے دورے کے نمایاں درسی ساتھیوں میں حضرت مولانا قاری محمد عثمان منصورپوریؒ سابق معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب سنبھلیؒ، حضرت مولانا یونس صاحب بنارسیؒ وغیرہم ہیں۔ ان کے علاوہ بھی دیگر کئی اکابر ملت آپ کے دیوبند کے ساتھیوں میں ہیں اور انھوں نےاس دور طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے آپ کی صلاحیت ونجابت اور ممتاز ونمایاں حیثیت کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین امیر الہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم اپنے ایک بیان میں طالب علمی کے دوران مولانا ولی رحمانی کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم کی طالب علمی کے دوران وہ میرے ساتھی بھی تھے اور ان کی صلاحیت اسی زمانہ سے اجاگر ہورہی تھی، فراغت کے بعد مجھے ان کے ساتھ رہنے کا موقع نہیں ملا لیکن بعد میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی میٹنگوں میں مولانا مرحوم جس زمانہ میں اس کے جنرل سکریٹری تھے انہیں دیکھنے اورسننے کا موقع ملااورتب یہ عقدہ بھی ہم پر کھلاکہ وہ ایک بہترین منتظم بھی ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ مولانا مسلم پرسنل لاء بورڈکی پالیسی کے مطابق ہی بورڈکی میٹنگ کو بہت ہی اچھے اندازمیں چلاتے تھے، تمام لوگوں سے گفتگوکرنابورڈ کے پروگراموں کومؤثرطریقہ سے چلانا اورلوگوں کے سوالوں کا جواب دینا یہ تمام خوبیاں ان کے اندر بہ درجہ اتم موجود تھیں”۔
دورے کے امتحان سالانہ میں پوزیشن : آپ کی محنت اور جہد مسلسل کا نتیجہ تھا کہ دورہ حدیث شریف میں نمایاں نمبرات کے ساتھ پوزیشن حاصل کی، اور بہ طور خصوصی انعام فتاویٰ دارالعلوم دیوبند آپ کے حصے میں آئی، اور اس سے پہلے موقوف علیہ کے سال میں شرحِ تہذیب، کافیہ، قصائد قاسمی، بیان القرآن، شرح نخبۃ الفکر اور علماء ہند کا شاندار ماضی ج 4 جیسی کتابیں آپ کو انعام میں مل چکی تھیں۔ دارالعلوم کے ریکارڈ کے مطابق دورے کے سال پہلی پوزیشن حضرت مولانا مولانا قاری عثمان صاحب منصورپوری ؒسابق معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر جمعیت علماء ہند نے حاصل کی، دوسری پوزیشن آپ کے نام رہی جبکہ آپ کے بعد تیسرا نمایاں نمبرجناب مولانا عبد السمیع گونڈوی رح سابق مبلغ دارالعلوم دیوبند کا ہے۔
دورے کے سال مختلف کتابوں میں آپ کے نمبرات کچھ اس طرح ہیں:
بخاری شریف 46
ترمذی شریف 43۔
ابوداؤد شریف 43
مسلم شریف 50
نسائی شریف 44
ابن ماجہ 50
شمائل ترمذی 45۔
طحاوی شریف 43
موطا امام مالک 50
موطا امام محمد 44۔ (روداد سالانہ دارالعلوم دیوبند بابت 1385ھ ص:707)
دارالعلوم کے سفیر اور فکر ومشن کے امیر : حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رح دارالعلوم دیوبند کی فکر اور اس کے مشن کے امین تھے، دارالعلوم دیوبند کے دورطالب علمی کا آپ کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار رہا ہے ،اور پوری زندگی آپ نے اپنے دارالعلوم کے سپوت اور قابل فخر فرزند ہونے کا ثبوت دیا ہے ، بعض بڑی بڑی کانفرنسوں میں جب دارالعلوم دیوبند کی بیجا تنقیدیا اس کی تنقیص کی گئی تو آپ نے اسی وقت اسٹیج پر دارالعلوم دیوبند کا بھر پور دفاع کیا اور اس کی زبردست ترجمانی کی ہے،چنانچہ ملک کی ایک مؤقر دینی دانش گاہ میں اصلاح نصاب کے عنوان سے منعقد ایک نمائندہ اجلاس میں موضوع پر گفتگو کے بجائے ایک خاص ادارے کی بیجا مدح سرائی اور دارالعلوم کی خدمات سے آنکھ موند کر اس پر تنقید وتعریض کے نشتر چلائے جانے لگے تو کئی انصاف پسند محبین علم و فضل کے قلوب مسوس کر رہ گئے اور خاموشی کے ساتھ اس کو جھیل گئے؛ لیکن مولانامحمد ولی رحمانی جیسے جری اور حق گو فرزند کو اپنی مادرعلمی اور اسلامیان ہند کے دلوں کی دھڑکن دارالعلوم کی یہ برملا توہین برداشت نہیں ہوسکی،چنانچہ کھڑے ہوگئے اور دارالعلوم کی عظمت اور اس کی بے لوث دینی و علمی خدمات کے حوالے سے ایسی مدلل اور مسکت گفتگو کی کہ تنے ہوئے سر خم ہوگئے اور بہی خواہان دارالعلوم بھی مادرعلمی کے تئیں آپ کی محبت وعقیدت پر عش عش کر اٹھے۔
دارالعلوم سے متعلق حضرت مولانا رح کی ایک تحریر کا اقتباس: دار العلوم سے محبت اور تعلق کا اظہار آپ نے اپنی زبان وقلم سے بھی کیا ہے اور فکر وعمل سے بھی،آپ کے کاغذات میں آپ کے قلم سے دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے تحریر کیے گئے جو بعض مضامین دستیاب ہوئے ہیں،ان میں ایک مضمون جامعہ رحمانی کی متحرک وفعال شخصیت اور حضرت مولانا رح کے معتمد رہے حافظ امتیاز صاحب رحمانی کی عنایتوں سے ہمیں بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے،اس میں ایک مقام پر حضرت مولانا رح دارالعلوم کے مآثر و خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں:”دارالعلوم دیوبند ایک سو چار سال سے علومِ دینیہ کی اشاعت کا مرکز ہے،اس نے اس طویل عرصے میں اسلام کی زبردست خدمت نہایت ٹھوس اور خاموش انداز میں انجام دی ہے۔جب بھی اسلام کے خلاف کوئی تحریک اٹھی،یا دین کی غلط توجیہ وتعبیر کی گئی، دارالعلوم نے اصلاح کی بہ راہ راست کوشش کی ہے، خواہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ، مبلغین کے واسطے سے ہویاتصنیف و تالیف کا شعبہ قائم کرکے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام کی نگاہیں اس کی طرف احترام کے ساتھ اٹھتی ہیں، اپنے اور پرائے اس کی عظیم الشان خدمات کا اعتراف کررہے ہیں،اور بہ راہ راست ایک دنیا اس کے فرزندوں سے فایدہ اٹھا رہی ہے یا بلواسطہ ان کی تحریروں اور کتابوں سے استفادہ کر رہی ہے”۔
دارالعلوم کے لیے فکرمندی اور ہرممکن تعاون : جب بھی دارالعلوم دیوبند کو آپ کی ضرورت پڑی اور کوئی خدمت آپ کے سپرد ہوئی،آپ نے ہمیشہ فکرمندی کے ساتھ اس کے لیے کسی قسم کے تعاون سے گریز نہیں کیا اور وسائل استعمال کرکے دارالعلوم کو راحت پہنچانے کی کوشش کی،چنانچہ چند سال قبل دارالعلوم دیوبند کارگزار مہتمم حضرت مولانا غلام رسول خاموش رح کی دل چسپی اور گزارش پر یوگا ایکسپریس کا جو پہلے دہلی میں ہی رک جاتی تھی،دہلی سے آگے بہ ذریعہ دیوبند ہری دوار تک چلا یاجانا منظور کروایا،جس سے واردین وصادرین کو بڑی راحت ہوگئی،حالاں کہ اس گاڑی کے ایکسٹینشن اور ایک اور گاڑی کے دیوبند اسٹیشن پر ٹھہراؤ کے لیے آپ کو کافی تگ و دو کرنی پڑی۔ سال گزشتہ ۲۲/ مارچ۲۰۲۰ء کو کسی تیاری اور پیش بندی کے بغیر حکومت کی طرف سے مسلط لاک ڈاؤن کے اعلان سے عام لوگوں کے ساتھ مدارس میں زیر تعلیم مقیم طلبہ کے لیے بڑی پریشانی کھڑی ہو گئی تھی، خود دارالعلوم دیوبند میں صرف بہار کے تقریباً سات سو طلبہ رہ گئے تھے، طلبہ کے مطالبے پر انہیں اپنے گھروں تک بہ حفاظت پہنچانے کے لیے بہ راہ راست وزیر اعلی سمیت اعلی انتظامی افسران سے حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند نے بات چیت کی؛لیکن سب نے ہاتھ کھڑے کر دیے، اس حوالے سے حضرت مہتمم صاحب نے امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی ؒ سے بھی رابطہ کیا ،جس کا امیر شریعتؒ نے بڑے اہتمام سے جواب دیا ، مسلسل مہتمم صاحب سے رابطے میں رہے اور طلبہ کی فہرست منگواکر اپنی سطح پر کوشش کرتے رہے اور جب ماہ مبارک کے اخیر میں دیوبند کی مقامی جمعیت کی کوشش سے طلبہ کی بسوں کے ذریعے روانگی عمل میں آئی اور بہار سرکار باقاعدہ اجازت میں آنا کانی کر رہی تھی تو حضرت امیر شریعتؒ نے خود پیغام بھجوایا کہ ساری بسوں کو گوپال گنج بارڈر سے بہار میں داخل کریں ،طلبہ کی فہرست اور بسوں کے نمبرات مجھے بھیج دیں !الحمد للہ بارڈر پر کسی بس کو زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؛البتہ اس سے بڑا مسئلہ لاک ڈاؤن میں بسوں کے ذریعے شہروں تک پہنچنے والے طلبہ کو دور دراز ان کے گھروں تک پہنچانے کا تھا ؛اس کے لیے امیر شریعتؒ نے جہاں ہمارے طلبہ کو ضرورت تھی ،امارت کے کارکنان کو متحرک کردیا اور قائم مقام ناظم محترم مولانا شبلی القاسمی کو اس کی ذمہ داری تفویض کر دی ، ان حضرات کی محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اگر بارہ بجے رات میں بھی کسی شہر میں پیشگی اطلاع کے بعد طلبۂ دارالعلوم کی بس پہنچی تو ان کے استقبال و رہنمائی ؛بلکہ انہیں اپنے اپنے گاؤں تک پہنچانے کے لیے امارت کے کارکنان اپنی گاڑیوں کے ساتھ مستعد نظر آئے ۔فجزاہم اللہ تعالی احسن الجزاء۔
حضرت مولانا کی آخری زیارت اور دارالعلوم کے وفد کے لیے اہتمام: حضرت مولانا سے آخری ملاقات رحمانی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام قطب عالم حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمہ اللہ کی حیات و خدمات پر منعقد سیمینار کی مناسبت سے ہوئی، اس موقع پر بھی دارالعلوم دیوبند سے نسبت کی وجہ سے بڑا اعزاز و اکرام فرمایااور دارالعلوم دیوبند سے مؤقر اساتذہ کا جو وفد سیمینار میں شریک ہوا تھا، اس کے لیےجناب مولانا مقیم الدین صاحب ناظم مہمان خانہ دارالعلوم دیوبند اور اپنے معتمد جناب مولانا امتیاز رحمانی صاحب کے ذریعے خاص انتظامات فرمائے ، رات کو دیر تک اس وفد سے ملاقات کے لیے اپنے حجرے میں انتظار کرتے رہے اور صبح کی نشست میں حسب وعدہ سب سے پہلے اس وفد کو فارغ کرکے رخصت کردیا، اس سیمینار کے روح رواں حضرت امیر شریعت ہی تھے اور مہمانوں کے اکرام میں بچھے جا رہے تھے ؛لیکن تواضع اور بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ اسٹیج پر مسند نشینی کے بجائے اصرار کے باوجود سامعین کی آخری قطار میں بیٹھے رہے اور اسٹیج پر اس وقت تشریف لائے جب خود ان کے خطاب اور پروگرام کا موقع آیا۔
حضرت مولانا اپنی ذات سے ایک انجمن اور رجال ساز شخص تھے ، آپ کی رحلت سے علم و ادب اور معرفت و دانش کی گرم بازاری سرد پڑ گئی ہے ، خدمت خلق،تزکیہ و احسان اور جرأت و بسالت کی شان دار روایت رخصت ہو گئی ہے ، کیا بورڈ کیا خانقاہ جامعہ رحمانی اور کیا امارت ہر جگہ خلا پیدا ہوگیا ہے۔ لیکن خود دار العلوم دیوبند اپنے اس مایہ ناز سپوت کو کھودینے کی وجہ سے غم وحزن کی تصویر بنا ہوا ہے۔دارالعلوم دیوبند کے مہتمم عالی قدر دارالعلوم کی طرف سے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے: مولانا ولی رحمانی کے انتقال نے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ،اےک دن ہم اور آپ بھی چلے جائیں گے،باقی رہنے والی ذات تو اللہ کی ہے۔ لیکن کچھ جانے والے اپنے اچھے کاموں اورنیک خصلتوں کی وجہ سے یادوں کا ایک قافلہ چھوڑ جاتے ہیں ، مولانا مرحوم کی ذات بھی اسی طرح کی تھی جسے لمبے وقت تک یاد کیا جا تا رہے گا، ان کی نیکی، خدا ترسی، مزاج کی سادگی، علم کی گہرائی ، عمل کی پختگی، فیصلے کی قوت ، رائے کی درستگی، وقت کی پابندی، خوش اخلاقی، نرم گفتاری،عاجزی ، انکساری ، نگاہ وفکرکی بلندی ، دور اندیشی ؛ سب چیزیں یاد کی جائیں گی اور مدتوں یاد کی جا تی رہیں گی۔”۔ حضرت امیر شریعت رح نے اپنے قابل فخر آباؤ و اجداد کی روایات اور دارالعلوم کے فکر ومشن کو آگے بڑھانے اور چراغ سے چراغ جلانے کا جو کام کیا ہے ،ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کی روشنی کو مدھم نہ پڑنے دیں! اللہ رب العزت حضرت امیر شریعت کی جملہ خدمات و حسنات کو قبول فرما کر اعلی علیین میں مقام عطا فرمائیں اور ملت کی زبوں حالی و خستہ بالی پر رحم کریں۔
“حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ کی عبقریت اور دارالعلوم دیوبند” پر 2 تبصرے
بہت عمدہ تحریر ہے ۔
لکھنے والے اور شائع کرنے والے دونوں کو اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ عطا فرمائے
ماشاءاللہ ❤️ بڑا بصیرت افروز ، معلومات افزاں تحریر ہے ، جزاکم اللہ خیرا احسن الجزاء ۔ محمد حارث قاسمی غازی آبادی