حضرت کلیم عاجز رحمۃ اللہ علیہ
مولانا حافظ حشمت علی
ڈاکٹر کلیم عاجزؒ بہار کے مشہور و معروف شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں، غزل گوئی میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں، ان کے کلام میں میر تقی میرؔ کا سوز و غم پایا جاتا ہے، اس لئے وہ اس دور کے میر کہلاتے تھے۔ صوبہ بہار کے ایک چھوٹے سے قصبہ تیلہاڑا سے آپ کا تعلق تھا۔ اسی گاؤں میں شیخ کفایت حسین صاحب کے گھر میں ۱۱؍اکتوبر 1920ء میںانہوں نے آنکھیں کھولیں اور بعد میں’’ڈاکٹر کلیم احمد عاجز‘‘ کے نام سے اردو ادب اور شعر و سخن کی دنیا میں اور حضرت کلیم عاجز داعی الی اللہ کی حیثیت سے سارے عالم میں شہرت حاصل کی۔
آپ نازک طبع تھے، لباس میں بھی نزاکت تھی، ادھی کا کرتا پائجامہ اور رام پوری مخمل کی ٹوپی اور خوبصورت چشمہ پہنتے اوراتباع سنت میں ہمیشہ زلف رکھا کرتے تھے۔ زندہ شب اور آہ سحر گاہی کرنے والے تھے۔ راتوں کو اٹھ کر امت کی اصلاح و ہدایت کے لئے رونے والوں میں تھے۔ جہاں بھی جماعت جاتی وہاں دو تین روز بعد جا کرجماعت کاحال معلوم کرتے۔ بی این کالج کے سامنے ان کی رہائش گاہ تھی۔مکان کے باہری حصہ میں ایک دوکان تھی۔ اسی مکان کے باہر والے حصہ میں آپ آنے والوں سے ملاقات کرتے تھے۔
آپ سے میری پہلی ملاقات و زیارت اکتوبر ۱۹۷۶ء میں بہار شریف میں ہوئی۔ اکتوبر ۱۹۷۶ء میں بیرون کی ایک جماعت مرکز بہار شریف جامع مسجد میں آئی ہوئی تھی، اس جماعت میں بیرون ملک کے کچھ لوگ تھے، مغرب بعد بیرون جماعت کے ایک ساتھی کا انگریزی میں بیان ہو رہا تھاجس کا ترجمہ اقبال نّیر صاحب کر رہے تھے، بیان سننے کے لئے محمد جعفر صاحب سکریٹری مدرسہ محمدیہ،عبد الباری صاحب، حکیم عبد اللہ صاحب اور بندہ استھانواں سے آیا تھا۔ بیان کے بعد حکیم عبد اللہ صاحب نے بتایا کہ پروفیسر کلیم عاجز صاحب بھی آئے ہیں، مگر وہ نمایاں جگہ پر نہ تھے بلکہ ایک عام آدمی کی طرح مجمع میں بیٹھے ہوئے نظر آئے، دور سے ان کو دیکھا مگر پوری طرح نہ دیکھ سکا۔ طالب علمی کے زمانے میں اکثر ان کی نعت سنتا تھا،ان کی نعتیں ہمارے مدرسہ کے سنیئر طلبہ عبد الحلیم وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ ایک نعت کے اشعار ہیں:
اے باد صبا کہیو ان سے وہ جن کی کملیا کالی ہے
اب ان کے غلاموں کے گھر کی دیوار الٹنے والی ہے
کہیو کہ انہوں نے اپنی نظر کیوں ہم سے الگ فرمالی ہے
ہم نے تو انہیں کی زلفوں کی زنجیر گلے میں ڈالی ہے
کہیو کہ دلوں پر چھائی ہوئی ہر سمت شکستہ حالی ہے
دن بھی ہے بڑا سونا سونا اور رات بھی کالی کالی ہے
کہیو کہ ستم نے تیروں کی بوچھار ہمیں پر ڈالی ہے
ہر شام نیا ہنگامہ ہے ہر صبح نئی پامالی ہے
کہیو کہ یہ صورت حال ہے اب ہم منہ کو چھپائے پھرتے ہیں
چہرے تو ہیں گردن پر لیکن چہروں پہ کہاں اب لالی ہے
کہیو کہ وہی تو ساقی ہیں کہیو کہ وہ یہ بھی جانے ہیں
رندوں کو لگی ہے پیاس بہت اور سب کا پیالہ خالی ہے
(کلیم عاجز ؒ)
۱۹۸۱ء میں جب آئی۔اے میں پڑھنے کے لئے پٹنہ آیا تو ایک مسجد میں گشت کے بعد ان سے ملاقات ہوئی اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ململ کا کرتہ جس کا گریبان کھلا ہوا تھا، لنگی پہنے ہوئے تھے، چہرے پرخنجر نما مونچھیں اور شرعی داڑھی تھی۔اس کے بعد ۱۹۸۴ء کے فروری میں استھانواں میں ملاقات ہوئی، دیسنہ جاتے ہوئے کچھ دیر کے لئے مدرسہ محمدیہ استھانواں تشریف لا ئے تھے، میں نے مدرسہ کے گیٹ پران کا استقبال کیا ، مدرسہ لے کر آیا، مولانا رضا کریم صاحب ناظم مدرسہ محمدیہ نے اپنی کرسی پر ان کو بیٹھایا،کچھ ہی دیر میںحکیم عبد اللہ صاحب بھی آ گئے ان سے باتیں کرتے رہے۔ میں نے کہا ارریہ کورٹ کے اجتماع کی دعوت دیجئے مگر انہوں نے سکوت اختیار کیا پھر مولانا سید فصیح احمد صاحب کے مزار پر فاتحہ خوانی کی، میں نے چائے وغیرہ کا انتظام کیا مگر انہوں نے چائے سے انکار کیا کہ میں چائے کا عادی نہیں ہوں۔ آدھ گھنٹہ مدرسہ میں رکے پھر دیسنہ کے لئے خود ہی نکل پڑئے۔ غالباً علامہ سید سلیمان ندوی کے کچھ حالات معلوم کرنےتھے، اپنے اس سفر کا کسی کتاب میں تذکرہ بھی کیا جو میں نے پڑھا۔
اس کے بعد نوری مسجد پٹنہ میں کئی دفعہ ملاقات ہوئی۔ ۱۹۹۷ یا ۱۹۹۸ء میں صوبہ بہار کا جوڑ نوری مسجد میں تھا۔ اس میں نظام الدین مرکز سے میاں جی عبد الرحمن صاحبتشریف لائےتھے، انہوں نے ہی کارگذری سنی اور چھ نمبروں پرتفصیلی گفتگو کی، اگست کا مہینہ تھا، بارش بھی خوب ہو رہی تھی مگر مجمع خاموشی سے بیان سن رہا تھا۔ میاں جی عبد الرحمن نے اس موقع پر ایک واقعہ بیان کیا : یہ واقعہ باغپت یوپی کے اجتماع کے سلسلے میں تھا، وہاں حضرت جی کا اجتماع طے کیا گیا، جب اجتماع کا وقت قریب آیا تو جتنی جماعت نکالنے کا ان لوگوں نے عزم کیا تھا اتنی جماعتنکال نہ سکے جس سے حضرت جی نےوہاں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ وہاں کے ذمہ دار مولانا محمد قاسم کے چچا بہت فکر مند تھے کہ کسی طرح یہ اجتماع ہوجاتا، انہوں نے سرکار دو عالم کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرما رہے کہ انعام الحسن سے کہنا کہ میں اس اجتماع میں شریک ہو رہا ہوں، یہ صبح اٹھے اور مرکز نظام الدین کا سفر کر کے مرکز پہونچے۔ دن بھر موقع نہ ملا کہ اپنی بات اور اپنا خواب بیان کرتے۔حضرت جی کے سونے سے قبل حضرت جی سے ملنے گئے اور اپنا خواب بیان کیا، اس پر حضرت جی نے تمام اہل شوریٰ مولانا محمد عمر صاحب وغیرہم کو طلب کیا اور ان کا خواب دہرایااس پر مولانا عمر پالن پوری نے کہا کہ جب سرکار دو عالم ﷺ کی تشریف آوری ہو رہی ہے تو دیر کس بات کی ؟ مرکز کے ذمہ داروں نے سامان سفر باندھا اور اجتماع میں شرکت کے لئے روانہ ہوگئے، بالآخر اجتماع ہوا اور کامیاب رہا۔ یہ واقعہ درمیان میں آ گیا، کہہ یہ رہا تھا صوبہ بہار کے اس جوڑ میں حضرت کلیم عاجز صاحب نے بھی عوام سے زور دار خطاب کیا اور خاتمہ بالخیر پر توجہ دلائی اور سوء خاتمہ پر ایک عالم کا واقعہ سنایا کہ ایک عالم تھے جن کی پوری زندگی دین پر گذری، تعلیم و تدریس میں گذری مگر مرنے سے پہلے قرآن پاک کا انکار کر دیا، اس طرح ان کا خاتمہ بالسوء ہوا، اللہ حفاظت فرمائے۔ اسی لئے ان کے بھائی طواف بیت اللہ کرتے ہوئے ہر قدم پر یہ دعا کرتے یا اللہ خاتمہ بالخیر فرما۔
۱۹۹۶ء میں جب ہماری جماعت دانا پور میں کام کرکے نوری مسجد پہونچی تو بعد عصر وہ کچھ ذکر میں مشغول تھے، ذکر کے بعد ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، حافظہبڑا مضبوط تھا پہچان گئے کہ ضلع نالندہ بہار کی جماعت ہے۔ پھر ہم لوگوں سے خیر و خیریت لینے لگے، کام کے بارے میں ذکر کرتے کرتے انیس الرحمن مرحوم امیر ضلع نالندہ کے خط کا ذکر کیا کہ ایسا خط لکھا کہ دل کو خراش لگی ،کہا کہ ایسا پڑھے لکھے آدمیوں کو نہیں لکھنا چاہیے اور یہ بھی کہا کہ وہ خط اب تک میر ےپاس موجود ہے۔ ۹۹۶ا۔۱۹۹۵ کی بات ہے کہ کام کرنے والے ساتھیوں نے ایک دوسرے کی کمزوری کواچھال کر ایک دوسرے کو بد ظن کرنے کی مذموم سازش کی تھی۔
ایک دفعہ ۲۰۰۸ ء میں ناشتہ کے وقت ان سے ملنے گیا، اجازت چاہی تو حاضری کی اجازت مل گئی، ناشتہ تناول فرما رہے تھے، بہت تواضع سے کہا کہ تم بھی شریک ہو جاؤ، گھنگنی پیاز کے ساتھ کھا رہے تھے ،میں بھی شریک ہوگیا۔ پھر سادی چائے پیش کی اور خود بھی سادی چائے پی۔ پھر بندہ نے علامہ جمیل مظہری کی غزل’’ میرا زلف خم بہ خم ‘‘پر کچھ تشریح چاہی تو انہوں نے تشریح کی اور کہا کہ شاعر کا متن کچھ اور ہوتا ہے اور بطن میں کچھ اورمفہوم ہوتا ہے جس کوعام لوگ سمجھ نہیں پاتے۔پھر بہارشریف میں کام کے بارے میں گفتگو ہوئی۔
حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ کے انتقال کے بعد ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب نے مرشدی مولانا اشتیاق احمد صاحب خلیفہ مجازحضرت شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ سے رجوع کیا اور جس سے ان کی روحانی پرواز بہت بڑھ گئی۔ ہمارے حضرت نے ان کو خلافت بھی دی تھی۔ پتہ نہیں انہوں نے کسی کو مرید کیا یا نہیں۔
ایک بار غالباً ۲۰۱۲۔۱۳ء میں نوری مسجد پٹنہ میں ان سے ملاقات ہوئی بہت دیر تک باتیں کرتے رہے، کہا کہ بہارشریف کے بائیسی محلہ میں بہت سے کام کرنے والے بیٹھ گئے ہیں ،انہیں جوڑ کر کام میں لگاؤ۔ اسی سفر میں یا دوسرے سفر میں نوری مسجد میں ملاقات ہوئی، میں مظفر پور جا رہا تھا ان سے تذکرہ کیا تو کہا کہ حضرت سے میرا سلام عرض کردینا۔
ان کا انتقال نومبر ۲۰۱۴ء میں ہوا،وہ اپنیصاحبزادی کے یہاں ہزاری باغ گئے ہوئے تھے، وہیں بعد اشراق انتقال ہوا، جنازہ وہاں سے پٹنہ لایا گیا، جو لوگ وہاں موجود تھے میت کو بوسہ دیا، یہ شرف مجھے بھی حاصل ہوا۔ دوسرے دن ساڑھے دس بجے دن میں گاندھی میدان میں ان کے جنازہ کی نماز امیر شریعت حضرت مولانا نظام الدینؒ نے پڑھائی، تدفین سمن پورہ کے قبرستان میں ہوئی۔ چونکہ آپ پدم بھوشن اعزاز سےنوازے گئے تھے اس لئے سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔ دفن میں بھی میں شریک تھا۔