یوم وفات 8 دسمبر پر خصوصی
حفیظ نعمانی : تم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے
معصوم مرادآبادی
آج جید صحافی حفیظ نعمانی کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے پانچ سال قبل یعنی 8 دسمبر 2019 کو وفات پائی تھی۔ راقم نے انھیں خراج عقیدت کے طورپر جو مضمون لکھا تھا وہ یہاں کچھ اضافوں کے ساتھ حاضر خدمت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
حفیظ نعمانی صاحب ہم سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلے گئے۔کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی ہم سے جدا ہوجائیں گے۔ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے ان کا پرانا رشتہ تھا اور اکثر ان کا وہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔اس مرتبہ بھی وہ شدید بیماری کے بعد صحت یاب ہو کر گھر آگئے تھے لیکن انہیں دوبارہ اسپتال میں داخل کروایا گیا۔اسپتال سے جو خبریں آرہی تھیں وہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھیں۔ان کی صحت بگڑتی چلی گئی اور اتنی بگڑی کہ وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ صحت تو ان کی برسوں سے خراب تھی لیکن انہوں نے صحت کے مسائل کو قلم کی نوک سے سنبھال رکھا تھا۔1991میں پیس میکر لگا تو اس کا رابطہ دل سے ٹوٹ گیا۔
2006 میں داہنی ٹانگ کی ہڈی ایسی ٹوٹی کہ ڈاکٹروں کی تمام کوششوں کے باوجود دوبارہ جڑ نہیں سکی۔وہ عرصہ سے وہیل چیئر اور واکر کی مدد سے چلتے پھرتے تھے۔ لیکن انہوں نے صحت کے ان تمام مسائل کوپس پشت ڈال کر اپنا رشتہ ملک و ملت کے مسائل سے جوڑ رکھا تھا۔ یہی شاید ان کے جینے کا سبب بھی تھا۔ وہ ہر روز کسی سلگتے ہوئے موضوع پر ایک مضمون قلم بند فرما تے تھے لیکن اب مسائل کا ایسا انبار تھا کہ انہیں اپنا موضوع منتخب کرنے میں دشواری پیش آنے لگی تھی۔ جب معاشرے میں ہر روز نت نئے مسائل پیدا کئے جارہے ہوں اور یہ کام ان لوگوں نے اپنے ذمے لے رکھا ہو جن کا بنیادی کام مسائل کو حل کرنا اور عوام کو راحت پہنچانا ہے تو پھر آپ حالات کی سنگینی کا اندازہ خود ہی لگا سکتے ہیں۔آج اخبار کے پہلے صفحے کی ہر خبر اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ اس پر ایک مضمون لکھا جائے لیکن لکھنے والے کی بھی اپنی حدود ہوتی ہیں اور جب وہ ان حدود کو پار کرتا ہے تو خود اس کے ذہن میں ایک تلاطم برپا ہوتا ہے۔مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسی کشا کش نے ہی حفیظ صاحب کی جان لی ہے۔
حفیظ نعمانی کا اصل نام حفیظ الرحمن تھا۔ان کی پیدائش 20/اپریل1932کوسنبھل (ضلع مرادآباد)میں ہوئی۔ان کے والد مولانا منظور نعمانی معروف عالم دین‘مصنف اور ماہنامہ ’الفرقان‘ کے بانی مدیر تھے۔لیکن ان کی تعلیم وتربیت دادا صوفی احمد حسین کے زیر سایہ ہوئی۔سنبھل کے مدرسہ محمدیہ سے حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد درس نظامی کے لئے بریلی کے مدرسہ مصباح العلوم میں داخل کرایاگیا۔بعد کو مولانا علی میاں کے ایماء پر وہ ندوۃ العلما میں داخل ہوئے۔ صحافت سے انہیں ابتداء سے ہی عشق تھا۔1956میں انہوں نے روز نامہ ’تحریک‘ کاڈول ڈالا۔اس مہم میں شارب رودلوی اور حسن واصف عثمانی بھی شریک تھے۔لیکن اس کی مدت مختصر رہی۔ان کی ذہنی تربیت ماہنامہ’الفرقان‘ میں ہوئی۔ ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ سے بھی وابستہ رہے اور اس کے تاریخ ساز مسلم یونیورسٹی نمبر کی صورت گری کی جس کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں اٹھائیں۔وہ روزنامہ ’ان دنوں‘اور ’جدید عمل‘ کے بھی ایڈیٹر رہے۔روز نامہ ’اودھ نامہ‘ لکھنؤ اور روز نامہ’جدید خبر‘دہلی میں بھی کالم لکھتے رہے۔
حفیظ نعمانی کی شخصیت اور کردار کا سب سے بڑا حسن یہ تھا کہ وہ دوہری زندگی جینے کے عادی نہیں تھے۔اسی لئے ان کے دل ودماغ میں کبھی کوئی تصادم برپا نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں کسی قسم کی پیچیدگی یا الجھاؤ محسوس نہیں ہوتاتھا۔ان کا بڑا پن یہ تھا کہ اگر کہیں کوئی غلطی یا کوتاہی ہوتی تو اس سے فوراً رجوع کرلیتے تھے اور کبھی اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بناتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ 2015 میں یہاں دہلی میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی گولڈن جبلی تقریبات کی تیاریاں جاری تھیں۔مشاورت کے جنرل سکریٹری کے طور پر میں بھی اس میں سرگرم تھا۔حفیظ نعمانی صاحب کو جب مشاورت کی تقریبات اور اس کے افتتاحی جلسے میں نائب صدر محمد حامد انصاری کی شرکت کا علم ہوا تو انہوں نے بے ساختہ ایک مضمون لکھا کہ”کوئی حامد انصاری صاحب کو جا کر بتا دے کہ مشاورت تو کب کی ختم ہوچکی ہے۔اب یہ کون لوگ ہیں جو اس کی گولڈن جبلی منا رہے ہیں۔“
ان کا خیال تھا کہ دہلی میں کوئی اپنی دکان چمکانے کے لئے حامد انصاری صاحب کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔لیکن ان کی اطلاعات درست نہیں تھیں چونکہ مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں اور مشاورت کی پوری ٹیم بڑی تن دہی سے اس کام میں لگی ہوئی تھی۔گولڈن جبلی اجلاس میں شرکت کے لئے پورے ملک سے مشاورت کے نئے اور پرانے ممبران شرکت کررہے تھے۔ مشاورت کی تاریخ پر کئی اہم دستاویزی کتابیں انگریزی اور اردو میں شائع ہورہی تھیں۔حفیظ صاحب کا مضمون شائع ہونے کے بعد مشاورت کے عہدیداران کو بڑی ناگواری ہوئی اوراس سلسلے میں حفیظ صاحب کا ذہن صاف کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔میں نے ان سے رابطہ کرکے پوری صورتحال سے واقف کرایا تو انہوں نے اپنے مضمون پر افسوس کا اظہار کیا اور دوسرے مضمون میں اس کا ازالہ کردیا۔حفیظ نعمانی صاحب کی ناراضگی کچھ غلط بھی نہیں تھی۔وہ طویل عرصے بعد مشاورت کا نام سن کر بے چین ہو اٹھے تھے کیونکہ وہ خود مشاورت کے بنیاد گذاروں میں شامل تھے۔ لیکن دہلی مشاورت میں نئی جان ڈالنے کی جو جدوجہد ہورہی تھی ، اس کا انھیں علم نہیں تھا۔
حفیظ نعمانی صاحب ان صحافیوں کی صف اول میں تھے جس نے لکھنؤکے صحافتی منظر نامے کو خون جگر سے سینچا تھا۔لکھنؤمیں اردو صحافت کی تاریخ بڑی توانا اور حوصلہ مندانہ رہی ہے۔مولانا عبدالماجد دریابادی کے بعد حیات اللہ انصاری،عشرت علی صدیقی،جمیل مہدی،عثمان غنی،سلامت علی مہدی،خان غفران زاہدی اور حسن واصف عثمانی جیسے صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں سے بعض لوگوں کو حفیظ نعمانی صاحب نے’بجھے دیوں کی قطار‘ کے عنوان سے ایک کتاب میں جمع کیا ہے۔آج میں جب خود حفیظ نعمانی صاحب کو بجھے دیوں کی اس قطار میں کھڑا پاتا ہوں تو دل میں ایک درد سا ہوتا ہے اور یہ سوچ کر پریشان ہو اٹھتا ہوں کہ کیسے کیسے لوگ ہمارے درمیان سے اٹھ کر خاموشی سے چلے گئے اور ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس تک نہیں ہوا۔ان میں حیات اللہ انصاری، سلامت علی مہدی، خان غفران زاہدی اور آخر میں خود حفیظ نعمانی صاحب کے قدموں میں بیٹھ کر میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔لکھنؤکا دبستان صحافت دہلی سے ہمیشہ برتر رہا ہے اور وہاں کئی ایسے صحافی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اردو صحافت کو با م عروج تک پہنچایا۔اسی لئے مجھے ہمیشہ دہلی سے زیادہ لکھنؤمیں صحافت زندہ اور تابندہ نظر آتی ہے۔
حفیظ صاحب سے میرے تعلق کی داستان بہت طویل تو نہیں ہے لیکن اتنی مختصر بھی نہیں ہے کہ اسے ایک مضمون میں سمیٹ کر تمام کردیا جائے۔میں جب بھی لکھنؤ جاتا تو حفیظ صاحب کی دعائیں لینے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔وہ ایک مہمان کی طرح میری خاطر ومدارات کرتے تھے‘ جس پر مجھے شرمندگی بھی ہوتی تھی۔ان کی بزم میں پہنچ کر جو شفقت اور محبت حاصل ہوتی وہ کہیں اور نہیں ملتی تھی۔ان سے اکثر فون پر بھی باتیں ہوتی تھیں۔وہ مختصر اور بامعنی گفتگو کرتے تھے اور فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔وہ مجھ سے اپنی اولادوں کی طرح محبت کرتے تھے۔
حفیظ نعمانی صاحب نے تقریباً 63برس قلم سے اپنا رشتہ قائم رکھا اورہزارہا مضامین قلم بند کئے۔لکھنے لکھانے کا یہ سلسلہ ان کے لئے کسب معاش کا ذریعہ تو بالکل نہیں تھا بلکہ یہ ایک کمٹ منٹ کاحصہ تھا۔گھر چلانے کے لئے انہوں نے با قاعدہ ایک پریس قائم کیا تھا۔لکھنا لکھانا ان کے لئے عبادت وریاضت کے درجے میں تھا‘ اسی لئے وہ یہ کام اکثر با و ضو ہوکر کرتے تھے۔ان کی صحت پر پہلا بڑا حملہ 1991میں ہوا تھا جب ان کے دل میں پیس میکر لگایا گیا لیکن 2000میں اچانک پیس میکر کی ڈور ٹوٹ گئی اور اس کا رابطہ دل سے ختم ہوگیا۔ان کے معالج نے جب یہ حال دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔با الآخر ٹوٹی ہوئی ڈور بدلنے کی بجائے پورا پیس میکر ہی بدلنا پڑا۔لیکن جس حادثے نے انہیں چلنے پھرنے سے معذور کردیا وہ فروری 2006میں اس طرح پیش آیا کہ ان کی داہنی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور تمام کوششوں کے با وجود دوبارہ جڑ نہیں سکی۔یہ 13برس کا عرصہ انہوں نے وہیل چیئر پر گذارا لیکن اس عرصے میں انہوں نے قلم سے ایسا رشتہ جوڑا کہ پورے ملک میں ان کے مضامین کی دھوم مچ گئی۔
یوں تو وہ ’اودھ نامہ‘کے ادارتی بورڈ میں شامل تھے اور اسی کے لئے حالات حاضرہ پرروزانہ ایک مضمون قلم بند کرتے تھے لیکن جب باہر سے فرمائشیں آنے لگیں تو یہ مضمون لکھنؤ کے علاوہ دہلی،کلکتہ، ممبئی،بنگلور، سری نگر،حیدر آباد اور پٹنہ کے اخبارات کی بھی زینت بننے لگا۔ان کے قارئین کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ شاید ہی کوئی اردو صحافی اس کا مقابلہ کرسکتا۔یہ مقبولیت دراصل موضوعات پر ان کی مضبوط گرفت ذاتی مشاہدات اور قومی وملی تاریخ پر گہری نظر کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔آنجہانی کلدیپ نیر کے بعد وہی سب سے زیادہ شائع ہونے والے صحافی تھے۔حفیظ نعمانی صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اتنی مقبولیت حاصل کرنے کے باوجود وہ تمام زندگی خود نمائی اور خود پسندی سے دوررہے۔ "ندائے ملت ” کامسلم یونیورسٹی نمبر نکالنے کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد انھوں نے اس کی روئیداد ” روداد قفس ” میں بیان کی ہے۔ پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:
”1965سے آج تک نہ جانے کتنے ہزار صفحات لکھنا پڑے ہوں گے اور جو کچھ لکھا اور جب بھی لکھا اس کی عام قارئین کے علاوہ ایسے بزرگوں نے بھی ستائش کی ہے جن کا نام لکھتے ہوئے بڑے بڑوں کا قلم سجدہ میں گرجاتا ہے یا جن کا ذکر کرتے وقت عظمت کا ایک مینار آنکھوں کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے لیکن اللہ کا کرم ہے کہ ہر موقع پر صرف اللہ کا شکرادا کیا اور دل ودماغ کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا۔“
حفیظ صاحب نے اپنی صحافتی زندگی میں ان اردو صحافیوں کی روایت کو بھی زندہ کیا‘جنہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرکے اردو صحافت کا نام روشن کیا تھا۔ دور غلامی میں ہمارے متعدد اردو صحافیوں کو پابند سلاسل ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان میں سے کئی جیالے صحافیوں نے تختہ دار کو بھی بوسہ دیا۔لیکن آزاد اور جمہوری ہندوستان میں حفیظ نعمانی صاحب ان گنے چنے صحافیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے سچ لکھنے کی قیمت ادا کی۔
1965میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی تحریک کے دوران انہوں نے ہفت روزہ ’ندائے ملت‘کا مسلم یونیورسٹی نمبر شائع کیا تو سرکار نے نہ صرف اس شمارے کو ضبط کرلیا بلکہ حفیظ صاحب کو ان کے دو معاونین کے ساتھ گرفتار کرکے عادی مجرموں کے ساتھ قیدکردیا۔اس گرفتاری کا ان پر اتنا گہرا اثر تھاکہ اس کا عکس تمام عمر ان کی تحریروں میں نظرآیا۔1966میں گذارے گئے قید وبند کے 9ماہ کی داستان انہوں نے رہائی کے بعد ’ندائے ملت‘ میں سلسلہ وار تحریر کی جو بعدکو ’روداد قفس‘کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔یہ کتاب ان کے ہونہار بھانجے برادرم اویس سنبھلی کی کوششوں سے منظر عام پر آسکی۔حفیظ نعمانی صاحب کی جرأت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس ’ندائے ملت‘ کا مسلم یونیورسٹی نمبر شائع کرنے کی پاداش میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا‘ اسی شمارے کو انہوں نے 50سال بعد 2015میں اسی آب وتاب کے ساتھ دوبارہ شائع کیا۔ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس شمارے کو کہیں ایسی جگہ دفن کرتا کہ اس کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا لیکن حفیظ صاحب نے اس شمارے کو دوبارہ شائع کرکے اپنی جرأت رندانہ کا ثبوت پیش کیا۔وہ اس شمارے کا اجرأحامد انصاری صاحب سے کرانا چاہتے تھے اور یہ ذمہ داری انہوں نے میرے کاندھوں پر ڈالی تھی لیکن بوجہ یہ ممکن نہیں ہوسکا۔
حفیظ صاحب کی تحریروں کا سب سے بڑا حسن بے ساختگی اور سلاست تھا۔وہ کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مصلحت کا ملمع نہیں چڑھاتے تھے۔جو کچھ ان کے دل میں ہوتا تھا وہی دماغ میں بھی ہوتا تھا اور اسے جوں کا توں قرطاس پر اتار دیا کرتے تھے۔ صحافتی دیانت داری اسی کو کہتے ہیں۔ایک ایسے دور میں جب قلم پر پہرے بٹھائے جارہے ہیں اور سچ بولنے کی قیمت چکانی پڑرہی ہے، حفیظ صاحب ہمیشہ کی طرح قلم سے نشتر کا کام لے رہے تھے۔ان کی تحریر میں روانی اورتسلسل کے ساتھ ساتھ شگفتگی بھی تھی۔ان کے قلم سے جملے اس طرح ڈھل کر نکلتے تھے جیسے کسی سانچے میں ڈھل کر کوئی چیز نکلتی ہے۔الفاظ پر ان کی دسترس کمال کی تھی۔یوں لگتا تھا کہ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں۔کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ حفیظ صاحب یوں اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اور ان کے جانے کے بعد تاریکی اور بڑھ جائے گی۔لوگ ملک وملت کا نوحہ بڑی دلچسپی کے ساتھ ان کی زبان سے سن رہے تھے۔ان کے انتقال پر ایک مشہور شعر معمولی ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے۔ ؎
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
’تم‘ ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے