حماس کے معروف قائدین جن کو اسرائیل نے نشانہ بنایا
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے
✒️ ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
عالم اسلام کے عظیم عسکری قائد ڈاکٹر اسماعیل ہنیہؒ بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوگئے، مقام شہادت پر فائز ہوکرعمر بھر کی جد وجہد اور جہاد ومزاحمت کا صلہ پا گئے، اور قافلۂ سخت جاں کے ان حدی خوانوں میں شامل ہوگئے، جو سفاک دشمنوں کا نشانہ بنے، یہ قوم یہود کی قدیم خباثت رہی ہے کہ قائدین کو ٹارگٹ کرکے مزاحمت ختم کردی جائے، لیکن یہاں کا دستور دوسرا ہے، ہر سردار اپنے پیچھے کئی کفن بردوش سپاہی محاذ پر چھوڑ جاتا ہے، اب بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا، اور طوفان اقصی کا آپریشن کامیابی سے ہم کنار ہوگا، اس موقع پر ہمیں یاد آتی ہے ان قائدین حماس کی جن کو اس سے قبل مختلف مراحل میں صہیونیوں نے کبھی غیروں، کبھی اپنوں کی مدد سے شہید کیا، حماس کی بنیاد دسمبر1987 میں رکھی گئی تھی، اسرائیل ابتدا سے ہی اس کے سرکردہ قائدین کو فلسطین کے اندر اور باہر جان سے مارنے کی متعدد کوششیں کرتا رہا ہے، ’’تو ان میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے اپنا ذمہ پورا کردیا اور بعض وہ ہیں جو انتظارکررہے ہیں‘‘(الاحزاب:23) ، ان میں کچھ اہم شہداء کےاسماء گرامی درج ذیل ہیں:
شیخ احمد یاسین: اسرائیل نے شیخ یاسین کو کئی بار گرفتار کیا، آخری بار وہ 1989 میں گرفتار کئے گئے جب انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی، وہ 1997 میں خالد مشعل پر حملہ کی کوشش کے بعد اردن اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے باہمی معاہدہ کے تحت رہا ہوئے، اسرائیل نے انہیں کئی بار قتل کرنے کی کوشش کی، اور بالآخر 22 مارچ 2004 کو عین اس وقت جب وہ اپنے گھر کے قریب واقع مسجد میں فجر کی نماز ادا کرکے واپس آ رہے تھے، انہیں شہید کر دیا گیا، ایک اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے ان کے وہیل چیئر پر میزائل داغے، جس کے نتیجہ میں شیخ یاسین اور ان کے سات ساتھی شہید ہو گئے، جب کہ ان کے دو بیٹے زخمی ہوئے، اس وقت ان کی عمر 68 سال تھی۔
عبد العزیز الرنتیسی: اسرائیل نے عبد العزیز الرنتیسی کو کئی بار گرفتار کیا، 1992 میں انہیں جنوبی لبنان کے مرج الزھورکی جانب دیگر فلسطینی رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ جلاوطن کر دیا، واپسی پر انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور وہ 1997 تک جیل میں رہے، 2003 میں اسرائیل نے غزہ میںان کی گاڑی پر میزائل داغا، جس میں وہ زخمی تو ہوئے لیکن جان بچ گئی، بالآخر، 17 اپریل 2004 کو، اسرائیل نے غزہ کے شمال میں الجلاء اسٹریٹ میں جاتی ہوئی ایک گاڑی پر حملہ کیا، جس میں عبد العزیز الرنتیسی اور ان کے دو ساتھی شہید ہو گئے،رنتیسی کا قتل اس وقت ہوا جب شیرون اور اس کے فوجی حکام نے اعلان کیا تھا کہ’’حماس کے تمام رہنماؤں کی فہرست تیار ہے، یکے بعد دیگرے ان کو نشانہ بنایا جائے گا‘‘۔
صلاح شحادہ: 23 جولائی 2002 کو اسرائیلی افواج نے حماس کے بانی اور پہلے عسکری سربراہ صلاح شحادہ کو شہید کر دیا، یہ قتل ایک’’ایف۔16‘‘ جنگی طیارہ کے ذریعہ کیا گیا، جس میں شحادہ کے ساتھ 12 دیگر فلسطینی بھی شہید ہوئے، جن میں ان کی بیوی اور ایک بیٹی بھی شامل تھیں، اس حملہ میں 140 سے زائد افراد زخمی ہوئے اور ایک پورا رہائشی بلاک تباہ ہو گیا، اسرائیلی افواج نے اس کارروائی میں ایک ٹن سے زائد دھماکہ خیز مواد استعمال کیا، یہ واقعہ’’حي الدرج‘‘ کے نام سے معروف غزہ کے گنجان آبادی والے علاقہ میں پیش آیا، یہ آپریشن’’حي الدرج قتل عام‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔
محمود المبحوح: حماس کے ایک اہم رہنما محمود المبحوح 19 جنوری 2010 کودبئی کے ایک ہوٹل میں قتل کر دیے گئے، حماس نے اس قتل کا الزام اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد پر لگایا، دبئی پولیس نے انکشاف کیا کہ قتل کی کارروائی ایک 17 افراد پر مشتمل ٹیم نے انجام دی تھی۔
ابراہیم المقادمہ: حماس کے سیاسی دفتر کے رکن اور ایک مشہور عسکری رہنمادانتوں کے ڈاکٹر ابراہیم المقادمہ کو 8 مارچ 2003 کو اسرائیلی افواج نے قتل کیا، ایک اپاچی ہیلی کاپٹر نے وسطی غزہ میں ان کی گاڑی پر پانچ میزائل داغے، جس کے نتیجہ میں المقادمہ اور ان کے تین ساتھی شہید ہو گئے، جب کہ متعدد راہ گیر اور اسکول کے طلبہ زخمی ہوئے، ’’جدیون اِزرا‘‘ نائب سربراہ شاباک نے بیان دیا تھا کہ المقادمہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے سب سے خطرناک فلسطینیوں میں سے ایک تھے، المقادمہ محض ایک فلسطینی تنظیم کے رہنما نہیں تھے، بلکہ ایک مکمل فکری دبستان کی حیثیت رکھتے تھے جو فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کی بہت تاکید سے ترغیب دیا کرتے تھے۔
عماد عقل: عماد عقل 24 نومبر 1993کو شمالی غزہ کے محلہ الشجاعیہ میں شہید ہوئے، اس وقت ان کی عمر 22 سال سے کم تھی، اسرائیلی افواج کی 60 بکتر بند گاڑیوں پر مشتمل فورس نے ان کااور ان کے ساتھیوں کا محاصرہ کیا، انہوں نے خود سپردگی سے انکار کر دیا اور اسرائیلی افواج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ کیا، عماد عقل اور ان کے ساتھیوں نے ایک اینٹی ٹینک گولہ کے حملہ میں جام شہادت نوش کیا، جس سے ان کے چہرہ پر شدید زخم آئے، اسرائیل نے انہیں ایک سے زائد بار قتل کرنے کی کوشش کی تھی، مگر ناکام رہاتھا، عقل اکثر اسرائیلی فورسز اور سیکورٹی چیک پوائنٹس سے بچ نکلنے میں کامیاب رہتے تھے، وہ اسرائیل کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھے، جس کی وجہ سے اسرائیل نے ان کے قتل کو ایک اہم کامیابی قرار دیا تھا۔
یحی عیاش: شاباک نے حماس کے عسکری برانچ کے رہنما اور فدائی حملوں کے ماہریحی عیاش کو 5 جنوری 1996کو شہید کیا تھا، اسرائیل نے ایک ایجنٹ کی مدد سے عیاش کے اس موبائل فون میں دھماکہ خیز مواد رکھا، جسےوہ اپنے والد سے رابطہ کے لیے استعمال کر رہے تھے، وہ اپنے والد سے بات ہی کر رہے تھے، جب اسرائیلی طیارہ کے ذریعہ اس فون کو دھماکہ سے اڑایا گیا، نومبر 2019 کے آخر میں، اسرائیلی چینل 13 نے عیاش کی آخری کال کے دوران ان کی شہادت کا صوتی ریکارڈ نشر کیا، فلسطینی اتھارٹی نے اعلان کیا کہ کمال حماد (اسامہ حماد کے ماموں، جو عیاش کے دوست اور یونیورسٹی کے ساتھی تھے) نے اسرائیل کے ساتھ مل کر اس قتل کی کارروائی میں مدد فراہم کی، حماس کے ایک راکٹ کا نام ’’عیاش250‘‘ اسی مرد مجاہد کے نام پر ہے۔
عدنان الغول: 21اکتوبر 2004 کو اسرائیل نے ایک فضائی حملہ کیا جس میں عدنان الغول اور شہید عماد عباس کو قتل کردیا، جو کہ عزالدین القسام کے دھماکہ خیز مواد اور راکٹ سازی کے ماہر تھے، اس حملہ میں کئی راہ گیر بھی زخمی ہوئے، عدنان الغول پر اسرائیل نے نو قاتلانہ حملے کئے، پہلی کوشش 1996 میں ہوئی، جب وہ شام سے واپس آئے تھے، ایک ایجنٹ نے انہیں ایک ریسٹورنٹ میں کافی پیش کی، جہاں اس نے ایک کلاشنکوف اور پستول بیچنے کا جھانسہ دے کر انہیں زہر دیا، اگست 2001 میں، ایک اپاچی ہیلی کاپٹر نے ان کی گاڑیوں کے قافلہ پر میزائل داغے، جس میں محمد الضیف بھی موجود تھے، ایک گاڑی میں ان کا بیٹا بلال بھی تھا، جو اس حملہ میں براہ راست میزائل سے شہید ہو گیا، اس وقت بلال کی عمر 18 سال تھی۔
محمد الزواری: محمد الزواری، جو ایک تیونسی نژاد ایرو اسپیس انجینئر اور’’عزالدین القسام ڈرونز پروجیکٹ‘‘ کے سرپرست تھے، ان کو 15 دسمبر 2016 کو شہید کر دیا گیا، دو نقاب پوش افراد نے الزواری پر 20 گولیاں چلائیں جب وہ اپنے گھر کے سامنے اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے، 8 گولیاں ان کے جسم میں لگیں، جن میں سے 5 گولیاں ان کے سر میں لگیں۔
نزار ريان: اسرائیل نے 1 جنوری 2009 کو حماس کے عسکری رہنما اور حدیث نبوی کے اکسپرٹ ڈاکٹر نزار ريان کو شہید کر دیا، اسرائیلی فضائیہ نے ان کی رہائش گاہ پر حملہ کیا، یہ حادثہ 2008 کے آخر اور 2009 کے آغاز میں غزہ پر کی گئی ایک کاروائی کے دوران پیش آیا، اس حملہ میں ريان کے ساتھ ان کے 11 بچے اور ان کی 4 بیویاں بھی شہید ہوئیں۔
سعيد صيام: 2006-7 کے دورانیہ میں اسماعیل ہنیہ کے وزارت عظمی کے زمانہ میں وزیر داخلہ رہے سعيد صيام 15 جنوری 2009 کو اسرائیل کی طرف سے ان کے سگے بھائی کے گھر پر کی گئی ایک فضائی کاروائی میں شہید کئے گئے، اس حملہ میں ان کا ایک بھائی، ایک بیٹااور دیگر 6 افراد بھی شہید ہوئے، سعيد صيام نے پہلے بھی جون 2006 میں ایک ناکام قتل کی کوشش کا سامنا کیا تھا، جب ان کے دفتر پر اسرائیلی طیاروں نے بمباری کی تھی۔
احمد الجعبری: القسام کے نائب جنرل سکریٹری اور اس کے اہم منصوبہ سازاحمد الجعبری کو ا سرائیل نے 14 نومبر 2012 کو ایک فضائی حملہ میں شہید کر دیا، جب ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، ان کی شہادت اسرائیل کے ایک خاص حملہ کی ابتدائی کارروائی تھی، یہ کاروائی تقریباً 10 دن جاری رہی، احمد الجعبری پر 2004 میں بھی ایک ناکام قاتلانہ حملہ کیا تھا جب ان کے گھر پر بمباری کی گئی تھی۔
اسماعیل ابو شنب: اسرائیل نے 21 اگست 2003 کوسول انجینئر اسماعیل ابو شنب کو ان کے دو معاونین سمیت شہید کر دیا، اس حملہ میں اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے ان کی گاڑی کو میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔
ابو مجاہدجمال سليم دامونی اور جمال منصور: جمال سليم 31 جولائی 2001 کو نابلس میں ایک امریکی ساختہ اپاچی پیلی کاپٹر کے ذریعہ کئے گئے اسرائیلی بمباری میں شہید ہوئے، اس بمباری میں حماس کے ایک اور رہنما ’’فلسطین کے سید قطب‘‘ کے لقب سے مشہورجمال منصور بھی شہید ہوئے، جنہوں نے فلسطینی حکومت اورالفتح کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کی تھی، اس حملہ میں دیگر 8 افراد بھی شہید ہوئے۔
محمد ابو شمالہ: القسام کے اہم اور سرگرم رکن محمد ابو شمالہ 21 اگست 2014 کو رفح میں ایک اسرائیلی حملہ میں شہید ہوئے، یہ حملہ ان کی رہائشی عمارت پر کیا گیا، جس میں ان کے ساتھی محمد حمدان برھوم اور رائد العطار بھی شہید ہوئے۔
خليل خراز: اہم عسکری رہنما خليل خراز کو 21 نومبر 2023 کو اسرائیلی ڈرون کے حملہ میں شہید کر دیا گیا، جو لبنان کے جنوبی علاقہ میں ہوا، اس حملہ میں خليل خراز کے ساتھ ان کے 3 ساتھی بھی شہید ہوئے۔
جميلہ الشنطي: حماس کےپولیٹیکل بیورو کی اولین خاتون رکن جميلہ الشنطي 18 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی فضائی حملہ میں شہید ہو گئیں،یہ حملہ ان کے گھر پر کیا گیا، اور اس میں ان کی بھابھی اور دو دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔
ايمن نوفل: ايمن نوفل 17 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی حملہ میں شہید ہو گئے، وہ 2006 میں اسرائیلی فوجی گلاد شالیط کی اسیری کے منصوبہ میں شامل تھے اور اس وقت کی جنگ میں فعال کردار ادا کر رہے تھے۔
عز الدين الشيخ خليل: عز الدين الشيخ خليل 26 ستمبر 2004 کو شام میں اسرائیلی حملہ میں شہید ہو گئے، موساد کے ایجنٹوں نے ان کی گاڑی کو دھماکہ سے اڑایا۔
فادی البطش: فادی البطش 21 اپریل 2018 کو ملیشیا میں موساد کے ایک زر خرید ایجنٹ کے ذریعہ کئے گئے اسرائیلی حملہ میں شہید ہوئے، ان پر دس گولیاں چلائی گئیں جب وہ نماز فجر کے لیے مسجد جا رہے تھے۔
صالح العاروری: حماس نے 2 جنوری 2024 کو اعلان کیا کہ حماس کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ صالح العاروری کو بیروت میں حماس کے دفتر پر اسرائیلی ڈرون حملہ میں شہید کر دیا گیا، اس حملہ میں عزالدین القسام بریگیڈ کے مزید دو رہنما بھی شہید ہوئے، اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے اسرائیلی فوج کی داخلی سیکیورٹی ایجنسی (شاباک)، اور بیرونی انٹیلی جنس ایجنسی (موساد) کو العاروری کے قتل پر مبارکباد دی، جب کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کے دفتر نے وزراء کو ہدایت دی کہ اس واقعہ پر کوئی تبصرہ نہ کریں۔
اسماعیل ہنیہ: 31 جولائی 2024 کی صبح حماس نے اعلان کیا کہ ان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں ان کی فرود گاہ ایران کےسابق فوجیوں کے ہیڈ کوارٹر پر ایک فضائی حملہ (ائیر اسٹرائک) کے دوران شہید کر دیا گیا، ایران وہ صدر مسعودپزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے، ہنیہ پر اس سے قبل بھی حملوں کی کوششیں ہو چکی ہیں، 6 ستمبر 2003 کو اس اسرائیلی حملہ کے دوران ان کے ہاتھ میں زخم آئے تھے، جو حماس کے دیگر رہنماؤں بہ شمول شیخ یاسین پر کیا گیا، اسی طرح، اسرائیل نے غزہ پر اپنے حملوں کے دوران کئی بار اسماعیل ہنیہ کے گھر کو نشانہ بنایا، اور ان کے خاندان کےدرجنوں افراد کو شہید کردیا، اللہ تعالی ان تمام نفوس قدسیہ کی قبروں پر شبنم افشانی کرے اور نور کی بارش کرے:
اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں