حیدر آباد اور بھوپال کے کتب خانوں کی سیر

طلحہ نعمت ندوی

حیدرآباد اور بھوپال دونوں ماضی قریب تک مسلم ریاستیں تھیں اس لیے وہاں اسلامی علوم وفنون اور ثقافت کو بھی فروغ ہوا، دونوں جگہ متعدد علمی کتب خانے وجود میں آئے، ان کے علاوہ اہل علم کے ذاتی کتب خانے بھی کچھ کم نہ تھے۔

حیدرآباد تو آج بھی اپنی علمی وثقافتی روایات میں اتنا ممتاز ہے کہ اس اعتبار سے اسے پورے ملک کا دارالحکومت قرار دیا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں وہ دہلی جیسے قدیم اسلامی شہر سے بھی ممتاز ہے۔

حیدر آباد اور بھوپال کے کتب خانوں کی سیر
حیدر آباد اور بھوپال کے کتب خانوں کی سیر

حیدر آباد میں معتدد دینی ادارے بھی ہیں اور عصری دانشگاہیں بھی، اور ان سب جگہ کتابوں کا بڑا ذخیرہ بھی ہے۔ جن میں دارالعلوم حیدرآباد، المعہد العالی للقضاء والافتاء، دارالعلوم سبیل السلام، اور یونیورسٹیوں میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور انگلش اینڈ فارن لینگویجز یونیورسٹی اور اقبال اکیڈمی قابل ذکر ہیں۔ لیکن مذکورہ بالا اداروں میں نئی کتابوں کا ذخیرہ زیادہ ہے۔ حیدر آباد کی قدیم کتابیں جن اداروں میں ہیں ان میں آصفیہ لائبریری سب سے بڑی ہے، جو حکومت حیدرآباد کی شاہی لائبریری تھی، اور اب صوبہ کی مرکزی لائبریری ہے، ان کے علاوہ کتب خانہ مدرسہ نظامیہ، کتب خانہ جامعہ عثمانیہ، اور کتب خانہ سالار جنگ میوزیم اہم ہیں، اور مسجد عامرہ عابد روڈ میں بھی قدیم مطبوعات کی چند الماریاں ہیں۔

راقم کو ایک ہفتہ قبل دونوں شہروں کے متعدد کتب خانوں کو دیکھنے کا موقع ملا، ۱۵ ذی الحجہ کو حیدر آباد میں اسٹیٹ لائبریری کی حاضری سے اس کا آغاز ہوا، یہ ریاست حیدرآباد کا شاہی کتب خانہ تھا اور کتب خانہ آصفیہ کے نام سے مشہور تھا، اس کی بلند وبالا پرشکوہ عمارت واقع علاقہ افضل گنج آج بھی اپنی عظمت رفتہ کی گواہ ہے۔ کتب خانہ بہت بلندی پر ہے، جہاں چڑھنے کے لیے اتنی ہی سیڑھیاں طے کرنی ہوتی ہیں جتنی آج کل کی عمارتوں میں کئی منزلوں پر پہنچنے کے لیے، دوسری طرف سے اندرونی زینے ہیں، اندر ایک بہت وسیع ہال اور اس سے متصل چند کمرے ہیں۔ یہاں دار الاخبار ہے اور دیگر زبانوں کی کتابیں ہیں۔

اردو کا شعبہ باب الداخلہ سے دائیں جانب دوسری سمت میں ہے جہاں ایک چھوٹا سا دروازہ ہے، اردو کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے اور جدید طرز کا کیٹلاگ بھی ہے لیکن جب بھی جانا ہوا کبھی کتابوں تک رسائی ممکن نہ ہوئی، اس سے پہلے کے اسفار میں بھی متعدد مرتبہ جانا ہوچکا ہے، اس مرتبہ بھی ناظم کتب خانہ نے یہی شکایت کی کہ ابھی کتابیں زیر ترتیب ہیں، جب کہ یہاں نئی شائع شدہ کتابیں مستقل پہنچتی رہتی ہیں۔قدیم ذخیرہ کے ساتھ جدید کتابوں کی بھی بڑی تعداد نظر آئی۔ عربی فارسی کتابوں کے بارے میں معلوم کیا تو بتایا گیا کہ دوسری سمت میں زینہ سے اوپر جائیے تو وہاں آن لائن مطالعہ کر سکتے ہیں، وہاں پہنچا تو بڑی بڑی اسکین مشینیں لگی ہوئی تھیں، کمرہ میں ایک صاحب موجود تھے ان سے گذارش کی کہ کچھ دیکھنا چاہتا ہوں تو انہوں نے کمپیوٹر کھول فہرست سامنے رکھ دی، فہرست میں سے ایک کتاب کے بارے میں دیکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو سی ڈی کمپیوٹر میں لگادی گئی جس میں مطلوبہ کتاب کے علاوہ کئی قدیم عربی مطبوعہ کتابیں تھیں۔ بعد میں ایک صاحب سے معلوم ہوا کہ یہ ذخیرہ ایران کے توسط سے اسکین ہوا ہے، اور عربی وفارسی کتابوں کا بڑا ذخیرہ تہ خانے میں یونہی پڑا ہوا ہے۔

عہد شاہی میں یہاں مخطوطات کا بھی بڑا ذخیرہ تھا جو اب دائرۃ المعارف کی عمارت کے سامنے عثمانیہ یونیورسٹی سے ملحق ایک چھوٹی سی عمارت میں ہے جو مستقل اسی کے لیے ہے، یہاں بہت سی چیزیں ضائع بھی ہوئی ہیں۔ یہ ادارہ اب ادارہ مشرقی مخطوطات کے نام سے قائم ہے اور دائرۃ المعارف کی عمارت کے بالکل سامنے ہے۔ اس سے پہلے یہاں آچکا تھا اور کچھ ہاتھ نہیں آیا تھا، اس بار بھی یہی خیال تھا لیکن پھر دل مین آیا کہ ایک بار دیکھ تو لیا جائے، معلوم کیا تو اوپر ایک کمرہ کی طرف رہنمائی کی گئی وہاں پہنچا تو ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی، بڑے باذوق اور مخطوطات سے دلچسپی اور نظر رکھنے والے، حبیب الدین نام ہے، جلد ہی تقرری ہوئی ہے، مزید فہرست کو منظم کررہے ہیں۔ بہت خوش ہوئے اور رابطہ رکھنے کا وعدہ کیا۔

دوسرے دن عابد روڈ پر موجود مسجد عامرہ کا کتب خانہ دیکھنے کا موقع ملا، اس مسجد کی قدیم عمارت بھی موجود ہے جو لب سڑک ہے اور اسی کے سامنے اسی احاطہ میں ایک وسیع مسجد تعمیر ہوگئی ہے، اس لیے اب وہیں نماز ہوتی ہے، قدیم عمارت دوسرے کاموں میں استعمال ہوتی ہے ۔ یہاں قدیم عربی وفارسی مطبوعات کا اچھا ذخیرہ ہے، چار پانچ الماریاں ہیں، پہلے دن گیا تو کتب خانہ گرد آلود تھا، مسجد کے امام صاحب سے اجازت لی گئی تو انہوں نے دوسرے دن آنے کو کہا تھا کہ صفائی کروادی جائے۔ دوسرے دن کے بجائے تیسرے دن وہاں حاضری ہوئی، کتابوں کو دیکھنا شروع کیا تو اکثر بزرگان دیوبند کی کتابوں کی قدیم طباعتیں تھیں، نیز حیدرآباد کی قدیم مطبوعات بھی بہ کثرت نظر آئیں جن میں اردو کے علاوہ عربی فارسی کی کتابیں بھی تھیں۔ بہت نادر ذخیرہ ہے، دو چار قلمی کتابیں بھی تھیں جن کو ہم نے الگ کرکے رکھ دیا۔ ہم نے امام صاحب سے گذارش کی کہ اگر اس کی فہرست بن جائے تو استفادہ آسان ہو گا، اور اس کتب خانہ کی اہمیت بڑھے گی۔ انہوں نے اس کا وعدہ کیا۔

ایک دن اقبال اکیڈمی میں بھی حاضری ہوئی، یہاں کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے لیکن بیشتر جدید مطبوعات ہیں، البتہ قدیم کتب واخبار کا بھی نادر ذخیرہ ہے۔

مدرسہ نظامیہ کا کتب خانہ جس دن حاضرا ہوا بند تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یوم شہادت کی مناسبت سے تعطیل تھی، گرچہ ایک بار اس کتب خانہ کو دیکھ چکا ہوں لیکن وہ سرسری سیر تھی۔

سب سے زیادہ منظم سالار جنگ میوزیم کا کتب خانہ نظر آیا۔ اور وہاں کا عملہ بہت معاون اور مستعد، دوسری منزل پر کتب خانہ ہے جہاں اجازت لے کر جانا پڑتا ہے۔ پہنچتے ہی فہرست دیکھ کر جن کتابوں کو دیکھنے کا ارادہ کیا گیا فورا پیش کردی گئیں، اس طرح بہت کم وقت میں بہت کچھ دیکھنے کا موقع ملا۔ ذمہ داران کتب خانہ کی مستعدی قابل تعریف ہے۔

عثمانیہ یونیورسٹی کا کتب خانہ بھی قدیم شاہی بلند وپرشکوہ عمارت میں ہے۔ جس پر اب امبیڈکر لائبریری کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ داخل ہوتے ہی وسیع ہال ہے جس کے دائیں بائیں کمرے ہیں اور سامنے وسیع دار المطالعہ ہے۔ یہاں بھی اور آصفیہ لائبریری میں بھی طلبہ کی بڑی تعداد نظر آئی لیکن بیشتر وہ تھے جو اپنی کتابیں لاکر امتحانات مقابلوں کی تیاری کرتے ہیں۔ مطبوعات کا ذخیرہ تہ خانہ میں ہے۔ اردو عربی اور فارسی ایک بڑے حصہ کو محیط ہیں،ان کے بعد دیگر ہندوستانی زبانوں کا ذخیرہ ہے۔ دوسری طرف انگریزی کتابیں موضوع وار بہت بڑے حصہ میں ترتیب کے ساتھ رکھی ہیں۔

ادارہ ادبیات اردو کا کتب خانہ بھی بہت نادر ہے لیکن اسے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوسکا۔

حیدرآباد سے واپسی میں ایک دن بھوپال میں قیام رہا، ٢١ذی الحجہ کو یہاں تاج المساجد کا کتب خانہ جو علامہ سید سلیمان ندوی کے نام سے منسوب ہے دیکھنے کا موقع ملا،۔ایک غیر سرکاری کتب خانہ ہونے کے باوجود بہت منظم ہے اور بالکل آراستہ اور صاف ستھرا رہتا ہے، جب بھی حاضری ہوئی اس کو ویسا ہی پایا، یہ حضرت مولانا عمران خان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں کا ثمرہ ہے، اوقاف شاہی کی کتابوں کا بڑا ذخیرہ بھی جو تقسیم ہند کے بعد ضائع ہو رہا تھا یہاں آکر محفوظ ہوگیا۔ ایک صاحب کے بقول شاید پورے صوبہ میں ایسا منظم کوئی دوسرا کتب خانہ نہیں۔

وہاں سے اسٹیٹ لائبریری پہنچا، یہ عہد شاہی کی قدیم عمارت ہے اور پرانے ہی طرز تعمیر کے مطابق وسیع ہالوں پر مشتمل ہے، الماریاں بھی اسی طرح مظبوط لکڑیوں کی قدیم طرز کی تھیں جن کی لمبائی عام الماریوں سے زیادہ تھی، اور اوپر کے حصہ میں بھی دالان ہیں جن میں پرانے انداز کی کے دروازے لگے ہوئے، ساری الماریوں پر جو نقوش نظرآئے وہ اور جگہ دیکھنے میں نہیں آئے۔ موٹی موٹی دیواروں میں چسپاں اونچی اونچی الماریاں حسن میں بھی بے نظیرہیں۔ معلوم کرنے پتہ چلا کہ یہ عہد ریاست میں میوزیم تھا، اور شاہی کتب خانہ قصر شاہی مین ہی کہیں تھا، آزادی کے بعد میوزیم کی کہیں دور الگ عمارت بنی اور کتب خانہ کا ایک حصہ یہاں منتقل ہو گیا، اور ایک حصہ کتب خانہ تاج المساجد میں۔

یہاں ایک کتب خانہ اقبال اکیڈمی کا بھی ہے جو ایک کمرہ میں ہے اور شام میں کھلتا ہے۔ زیادہ تر اردو ادب کی کتابوں پر مشتمل ہے۔

بھوپال میں ایک ہندو اہل علم نے اپنی ذاتی کوشش اور ذوق و شوق سے اخبارات کی قدیم فائلیں یکجا کرنی شروع کیں، اور ہندی اور انگریزی اور دیگر زبانوں کے ساتھ اردو اخبارات کا بھی بڑا اچھا ذخیرہ فراہم کرلیا ہے جو تقریبا ایک پورے کمرہ کو محیط ہے۔ یہاں جانے اور دیکھنے کی بہت آرزو تھی لیکن وقت میں اتنی گنجائش نہیں تھی۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare