خادم قرآن کی رحلت
مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کی وفات
عبید اللہ شمیم قاسمی
(ولادت: 1950ء، وفات: 2025ء)
4/مئی 2025ء بروز اتوار خادم قرآن حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی رحمہ اللہ بھی اپنی حیات مستعار کے 75 برس مکمل کرکے خالق حقیقی سے جاملے
إنا لله وإنا إليه راجعون إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى

یوں تو دنیا کی ہر شی کو فنا ہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العزت کی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:{كل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام} [الرحمن: 26 ،27 ].
حضرت مولانا وستانوی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی زندگی قرآن کریم کی خدمت کے لئے وقف رکھی تھی اور وہ بجا طور پر اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں خادم القرآن کا لقب دیا جائے، حضرت مولانا نے اپنے جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا میں حفظ کا ایک منظم اور مثالی نظام قائم فرمایا اور ملک کے دیگر اداروں کے لئے ایک جہت دی۔
قرآن کریم کو تجوید کے ساتھ پڑھنے اور اس پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے آپ نے پورے ملک میں مسابقہ قرآن کریم کی طرح ڈالی، جس میں شرکت کرنے کے بعد مساہمین کو آگے بڑھنے اور کتاب اللہ سے اپنے ربط کو مزید مستحکم کرنے میں بھرپور مدد ملتی ہے۔
جو لوگ اس مسابقے اور اس کی فروعات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس میں شرکت کرنے اور حکم حضرات کے جوابات دینے کے لئے کس قدر تیاری کی ضرورت پڑتی ہے۔
حضرت مولانا وستانوی صاحب دل درد مند اور فکر ارجمند کے مالک تھے، آپ نے سورت کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھیں کھولی اور چند سال بعد آپ کا گھرانہ ہجرت کرکے وستانہ آگیا، جو کہ بالکل غیر معروف جگہ تھے مگر آپ نے اللہ کے فضل وکرم اور اپنی جد وجہد نیز اساتذہ اور اپنے شیخ کی دعا کی برکت سے اس غیر معروف علاقے کو گل گلزار بنادیا اور یوں کہیں کہ جنگل میں منگل کا سماں کردیا تو غلط نہیں ہوگا، آج بہت سے ایسے افراد ہوں گے جنہیں اکل کوا کس ضلع میں واقع ہے اس کا علم نہیں ہوگا مگر اکل کوا کا نام سنتے ہی فورا حضرت مولانا وستانوی صاحب کی شخصیت اور ان کا مدرسہ ذہن میں آجاتا ہے، یہ ساری برکتیں حضرت وستانوی صاحب کے دم سے قائم تھی۔
حضرت مولانا نے حفظ کلام اللہ مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں مکمل کیا اس کے بعد آگے کی تعلیم کے لئے مدرسہ شمس العلوم بروڈہ تشریف لے گئے اور بعد ازاں 1964ء میں مدرسہ فلاح دارین ترکیسر میں داخل ہوئے جہاں 1972ء تک عربی کی تعلیم حاصل کی، آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی کا نام نمایاں طور پر شامل ہے، اسی زمانے میں فلاح دارین مدرسہ میں بخاری شریف پڑھانے کے لیے استاذ کی ضرورت پڑی تو وہاں کے مہتمم حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی نور اللہ مرقدہ کے یہاں سہارن پور تشریف لے گئے اور ایک شیخ الحدیث طلب کیا تو حضرت شیخ نے مولانا تقی الدین ندوی صاحب دامت برکاتہم کو گجرات بھیجا جو اس سے پہلے تقریبا دس سال تک دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ میں تدریسی خدمات انجام دے چکے تھے، اس طرح 1967ء میں وہاں دورہ حدیث شریف قائم ہوا جس کے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاكٹر تقی الدین ندوی صاحب دامت برکاتہم ہوئے، حضرت مولانا سے مولانا وستانوی صاحب کو شرف تلمذ تو نہیں تھا البتہ مولانا وستانوی صاحب ڈاکٹر صاحب دامت برکاتہم کی خدمت کیا کرتے تھے اور چائے وغیرہ بنایا کرتے تھے جسے بعد میں دونوں حضرات بیان کرتے تھے، مولانا وستانوی صاحب اواخر 1972ء میں دورہ حدیث شریف کے لئے مظاہر علوم سہارن پور تشریف لے گئے اور مولانا تقی الدین ندوی صاحب دامت برکاتہم حضرت شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بذل المجہود کے کام کے سلسلے میں ایک سال کے لئے سہارن پور تشریف لے گئے جس کے بعد وہ جامعہ ازہر اور پھر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔
مولانا وستانوی صاحب نے 1973ء میں سہارن پور سے فراغت حاصل کی، آپ کے اساتذہ میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جون پوری، حضرت مولانا عاقل صاحب سہارن پوری، حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رام پوری، اور حضرت مولانا سلمان صاحب سہارن پوری رحمہم اللہ وغیرہم تھے۔
رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا وستانوی صاحب نے تدریسی میدان میں قدم رکھا اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد 1979ء میں مدرسہ اشاعت العلوم کے نام سے اکل کوا میں مدرسہ قائم کیا جو آپ کی جد وجہد کی برکت سے اس وقت عالمی منظر نامے پر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔
اللہ رب العزت نے حضرت مولانا وستانوی صاحب کے اندر بہت سی خصوصیات کو ودیعت فرمائی تھیں، ان میں سب سے خاص وصف کتاب اللہ سے محبت تھی، یہی وجہ ان کے جگہ جگہ مکاتب قائم کرنے اور قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی بنی۔
حضرت مولانا وستانوی صاحب کا ایک خاص وصف اپنے اساتذہ سے محبت تھی، زمانہ طالب علمی میں بھی آپ اپنے اساتذہ سے بہت قریب رہے اور ان کی خدمت بجا لایا کرتے تھے، قیام سہارن پور میں خاص طور پر حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری رحمہ اللہ کی خدمت انجام دیتے تھے۔
آپ کو اپنے اساتذہ وبزرگوں سے محبت تھی یہی وجہ تھی کہ جب مشرقی یوپی میں مسابقہ منعقد کرنا ہوا تو جامعہ حسینیہ جون پور اور جامعہ شرقیہ اسلامیہ لونیہ ڈیہ کے بعد جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ کو بھی اس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
جامعہ اسلامیہ مظفر پور میں دو مسابقہ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کی جانب سے منعقد ہوا، پہلے مسابقے میں حضرت مولانا وستانوی صاحب بنفس بنفیس تشریف لائے تھے اور انعامی مجلس میں شرکت فرمائی، اس موقع پر مسابقہ قرآن کریم کی ابتدا اور اس کے نتائج نیز اس سے ہونے والے فوائد پر آپ نے تفصیلی روشنی ڈالی۔
اسی مسابقہ کے بعد جامعہ اسلامیہ کے صحن میں ایک عظیم الشان اجلاس عام منعقد ہوا تھا اس میں بھی آپ کا خطاب ہوا تھا، گرچہ آپ نے صرف 25 منٹ گفتگو فرمائی مگر بہت ہی والہانہ انداز ميں خطاب فرمايا جس کا سامعین نے بہت اچھا اثر لیا۔
دوسرے مسابقہ میں آپ کی شرکت تو نہ ہوسکی مگر اس میں آپ کے صاحب زادے مولانا سعید احمد صاحب متوفی 2019ء تشریف لائے تھے اور آخری نشست میں ان کا پرمغز خطاب ہوا تھا، دونوں مسابقوں میں اس کے میر کارواں مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی رحمہ اللہ کی تشریف آوری ہوئی تھی، بعد میں ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ رحمہ اللہ رحمة واسعة
حضرت مولانا وستانوی صاحب مسلم قوم کی پسماندگی کو دور کرنے اور انہیں مختلف میدانوں میں ترقی دلانے اور اعلی تعلیم کے دلانے کے لئے فکر مند تھے، اس کے لئے انہوں نے میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج قائم کئے جس کا نظام بھی اعلی درجہ کا رکھا، جس کے فوائد آج دنیا کے سامنے آشکارا ہیں۔
حضرت مولانا وستانوی صاحب رحمہ اللہ گذشتہ دو سال سے بیمار تھے اور انہیں مختلف بیماریوں نے گھیر لیا تھا مگر اس عرصے میں جب کبھی افاقہ ہوتا تو طاب علم کے ذریعے آپ قرآن کریم سنا کرتے تھے۔
آپ نے کئی ہزار مکاتب قائم فرمائے، مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر کرائی، میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج بھی قائم فرمائے، آپ کے صاحبزادگان اور روحانی اولادیں اور مدارس ومساجد کا قیام آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہوگا۔
آپ دارالعلوم دیوبند کی شوری کے موقر رکن تھے 1419ھ میں آپ کو رکن شوری منتخب کیا گیا جس پر اپنی وفات تک برقرار رہے۔ اسی طرح آپ ملک کے مختلف ارادوں کے بانی ورکن شوری تھے۔
آپ کی خدمات پر لکھنے والے لکھیں گے، اس مختصر مضمون میں اس کا احاطہ ممکن نہیں، یہ چند ٹوٹے پھوٹے غیر مرتب کلمات آپ کے انتقال پر لکھ دئے گئے، اللہ تعالٰی حضرت مولانا وستانوی صاحب کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کے لگائے ہوئے گلشن کو قیامت تک سرسبز وشاداب رکھے۔ آمین یا رب العالمین
آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے