خدارا ! دیوبند کو اپنا مقصود نہ بنائیں!!
بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
دارالعلوم دیوبند کے تعلق سے والد مکرم حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :
"جی ہاں! وہی دارالعلوم دیوبند جو ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا نشان، علمی تحریک کا عنوان، دینی و روحانی پہچان، حق و باطل کی میزان اور اللہ کی جانب سے امت مسلمہ پر ایک احسان ہے ۔جو تاریخ بھی ہے تاریخ ساز بھی، اور اسلامیان ہند کی اجتماعی آواز بھی ۔بر صغیر میں اسکی علمی ضیا پاشیاں روز روشن کی طرح اسکا ثبوت، پھر تمام براعظموں میں اسکے فرزندوں کے علمی و دینی کارنامے اسکی بین دلیل ہیں.” (درخشاں ستارے)
یقیناً دارالعلوم دیوبند مذکورہ تمام خوبیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، بر صغیر میں علم دین کی نشر و اشاعت اور معتدل فکر کی تشکیل میں اس کا اہم ترین کردار ہے، طلبہ کے لیے امیدوں کا مرکز اور عوام کے لیے عقیدتوں کا محور ہے. چنانچہ شعبان کے اخیر میں تعلیمی سال کے اختتام پر دیوبند میں نئے طلبہ کی آمد شروع ہو جاتی ہے، جو رمضان المبارک میں یہیں قیام کرتے ہیں، شبانہ روز جدوجہد کر کے دارالعلوم اور دارالعلوم وقف میں امتحان داخلہ دیتے ہیں. یہاں تک تو سب ٹھیک ہے! لیکن لیکن لیکن……. مذکورہ دونوں مرکزی اداروں میں امتحان داخلہ کا نتیجہ آنے کے بعد جو طلبہ ان اداروں میں داخل نہیں ہو پاتے یہ مختصر سی تحریر انھیں کے لیے لکھی گئی ہے۔
بعض طلبہ اتنے مایوس ہو جاتے ہیں کہ تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا چاہتے ہیں، یا احساس کمتری اور ٹینشن کا شکار ہو جاتے ہیں. یہ طریقہ بالکل غلط ہے، یقینا جن طلبہ نے امتحان کی بھرپور تیاری کی ہو اور اس کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے انھیں افسوس تو ہوتا ہے، جو ایک فطری تقاضہ ہے، تاہم اپنے اوپر اتنا ذہنی دباؤ بنا لینا نہایت غلط اور – معذرت کے ساتھ – اپنے مقصود سے غافل ہونے کی بین دلیل ہے. طلبہ کا مقصد رضائے الٰہی کے لیے حصولِ علم دین ہے، اس کے لیے کوئی ادارہ مخصوص ہرگز نہیں، کسی مرکزی ادارے سے فارغ ہو کر اگر کوئی شخص حسبِ صلاحیت دین کی خدمت میں مصروف نہیں تو اس کے مقابلے میں کسی گمنام ادارہ سے علم حاصل کرنے والا کسی بھی شعبے میں خدمت دین میں مصروف عالم بدرجہا بہتر اور افضل ہے. اسی طرح کسی مرکزی ادارے سے فارغ ہونے والا ہر شخص صلاحیت و صالحیت کے اعلی مرتبے پر فائق ہو؛ یہ بھی ضروری نہیں، راقم مرکزی اداروں سے فارغ ہونے والے بہت سے ایسے فضلاء سے واقف ہے جو علمی لحاظ سے نہایت کمزور ہیں اور بہت سے ایسے علماء سے بھی شناسائی ہے جنھوں نے مکمل تعلیم گاؤں دیہات کے چھوٹے موٹے مدرسے میں حاصل کی، لیکن صلاحیت و صالحیت میں نہایت باکمال، خدمت دین کے جذبے سے سرشار اور اپنی حیات مستعار کو راہ خدا میں وقف کرنے کے لیے پر عزم، لہذا مایوسی کا شکار بالکل نہ ہوں، پر امید اور پر عزم ہو کر حصول علم میں منہمک ہو جائیں، ایک نئی شروعات کریں، کوتاہیوں کا جائزہ لیں اور رضا بالقضا کو اپنا شعار بنائیں۔
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گریں جو گھٹنوں کے بل چلیں
دوسری بات!
دیوبند ہی کو اپنا مقصود نہ بنائیں، یعنی اگر دارالعلوم، دارالعلوم وقف یا دیوبند و سہارنپور کے کسی "معتبر” ادارے میں داخلہ نہیں ہوا ہے تو یہاں نومولود اور نوخیز اداروں میں اپنا مستقبل تباہ نہ کریں (کہ ایسے اکثر اداروں کی تعلیمی و تربیتی صورت حال ناقابل ذکر، بلکہ غضب الہی کو دعوت دینے والی اور قیامت کی علامات میں سے ایک علامت ہے) ، بلکہ اولا تو اپنی سابقہ تعلیم گاہ کو ترجیح دیتے ہوئے وہیں لوٹ جائیں، کہ اس مدرسے کی چہار دیواری، ذمہ داران اور اساتذہ سے ذہنی مناسبت ہوتی ہے، نئے ادارے سے انسیت پیدا ہونے میں وقت لگتا ہے. اگر واپس نہ جانا چاہیں اور تعلیم بھی عمدہ حاصل کرنی ہو تو دیوبند کی سہولیات، عمدہ ہوٹل، چائے خانوں، جامع مسجد دہلی کے زرق برق ریسٹورنٹ کو ٹکر دینے والے مغلئی ریستوران اور احباب کی رفاقت کو قربان کر کے قرب و جوار کے دیہات میں مصروف عمل اداروں کا رخ کریں جہاں تعلیمی معیار عمدہ، اساتذہ تجربہ کار و جید الاستعداد اور حصول علم کے لیے شور شرابے سے محفوظ ماحول فراہم ہے۔
مثلاً رشید العلوم گنگوہ، مفتاح العلوم جلال آباد، خادم العلوم باغوں والی، ناشر العلوم پانڈولی، حیات العلوم نلہیڑہ، کاشف العلوم چھٹمل پور، فیض الرحیم ستاریہ نانکہ، مدرسہ قاسم العلوم گاگلہیڑی، دارالعلوم اسعدیہ ایکڑ خورد، ضلع ہریدوار، امداد الاسلام لنڈھورہ ضلع ہریدوار وغیرہ
یہ ادارے دیوبند سے نہایت کم مسافت پر واقع ہیں.
تیسری بات:
جب تک بچوں میں شعور پیدا نہ ہو، خدارا والدین ان معصوموں کو اپنے سے دور نہ کریں، یہ ان کی فکری صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے، بلا سبب مادری و پدری شفقتوں سے محروم کر دینا کوئی اچھی بات نہیں. زمانہ قدیم میں بچوں کا دور دراز کے لیے سفر کرنا ایک مجبوری کے سبب تھا، کہ مدارس و جامعات بہت کم تھے، اب تو تقریباً ہر علاقے میں معیاری و مرکزی مدرسہ موجود ہے، تو ابتدائی تعلیم کے لئے بھی دور دراز سے فقط عقیدت کے چکر میں دیوبند کا رخ کرنا، اور پھر یہاں کے آزادانہ ماحول سے متاثر ہو کر اپنا مستقبل تباہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے. لہٰذا ابتدائی تعلیم (حفظ، اور ثانویہ) کے لیے علاقائی اداروں کا رخ کریں، انھیں زندہ رکھنے کے لیے جہاں مالی تعاون درکار ہوتا ہے وہیں افرادی قوت بھی لابدی ہے، نہایت با صلاحیت اور ذی استعداد علماء اپنے علاقوں میں نورانی قاعدہ یا ابتدائی مکتب پڑھا رہے ہیں، میرا مقصد ان کی اہمیت سے انکار نہیں، بس یہ کہنا کہ صلاحیت کا صحیح استعمال تبھی ہو سکتا ہے جب اس کا مصرف موجود ہو. مشہور مقولہ ہے
Talent is nothing without opportunity.
مواقع کے بغیر صلاحیت کوئی فائدہ نہیں دیتی.