خلیق ٹونکی اور ان کی خطاطی

معصوم مرادآبادی

مایہ ناز خطاط محمد خلیق ٹونکی کا نام آتے ہی ذہن میں حسین وجمیل الفاظ کے ایسے پیکر اترنے لگتے ہیں، جنہیں دیکھ کر خطاطی کے دلدادہ عش عش کر اٹھتے تھے۔ استاد گرامی محترم خلیق ٹونکی جن کے قدموں میں بیٹھ کر راقم الحروف نے برسوں خطاطی سیکھی ، ہندوستان میں فن خطاطی کے بے مثال فن کار تھے۔ انہوں نے ایک ایسے دور میں اس فن کو جلا بخشی، جب اس کے قدر دانوں کی تعداد قلیل تر ہوگئی تھی۔ کمپیوٹر نے اردو خوشنویسی کے دروازے پر دستک دے دی تھی اور بیشتر لوگ اس فن کے مستقبل سے مایوس ونامراد ہونے لگے تھے۔ تمام تر اندیشوں کو درکنار کرکے انہوں نے آخری دم تک خوشنویسی اور خطاطی کا دامن نہیں چھوڑا۔ حالانکہ انہیں وہ قدرو منزلت حاصل نہیں ہوسکی، جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی اور خاموشی کے ساتھ لفظوں کے گیسو سنوارنے اور نکھارنے میں منہمک رہے۔

خلیق ٹونکی اور ان کی خطاطی
خلیق ٹونکی اور ان کی خطاطی

خلیق ٹونکی، انتہائی راست باز، کم سخن، نفاست پسند اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ روایتی وضع قطع، رکھ رکھاؤ اور ربط وضبط ان کی شخصی خصوصیات تھیں۔ گفتگو میں نپے تلے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ اپنے شاگردوں سے ان کا تعلق دوستانہ ہوتا تھا۔ فنی تربیت کے علاوہ زبان وبیان کی غلطیوں کی اصلاح بھی کرتے تھے۔

محمد خلیق ٹونکی نے اپنی عمر کے 50 برس فن خطاطی کی خدمت میں صرف کئے اور حروف کو ایسی حسین وجمیل نشستیں عطا کیں کہ فن کے قدردان ان کے ہاتھوں کے بوسے لیا کرتے تھے۔ نازک بیل بوٹوں کی مدد سے وہ لفظوں کے گرد حسن کا ایسا جادو جگاتے تھے کہ بس دیکھتے ہی بن پڑتا تھا۔ انہوں نے نہ صرف اعلیٰ معیار کے فن پارے تخلیق کئے، بلکہ بے شمار طالبان فن کو تربیت بھی دی جو آج بھی ہندوستان کے مختلف حصوں میں تمام نامساعد حالات کے باوجود فن کی خدمت میں مصروف ہیں۔

محمد خلیق ٹونکی 1932ء میں ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ موصوف نے ابتدائی خوشخطی اپنے والد محترم حافظ محمد صدیق خاں اور اپنے دادا محمد خاں سے حاصل کی۔ اس طرح خداداد صلاحیت آپ کو ورثے میں ملی۔ موصوف آٹھ سال کی عمر ہی سے ذوق ولگن سے خوش خط لکھنے لگے اور سب سے پہلے آپ نے اپنے والد کے پاس پتھر پر معکوس لکھائی اردو، ہندی، عربی سیکھی اور بہتر کارکردگی کی بنا پر 13سال کی عمر میں ٹونک کے چھاپہ خانہ میں فریزر انگریز کے خصوصی حکم سے ملازمت مل گئی۔ 1944میں والی ٹونک نواب سعادت علی خان نے ایک نمائش میں آپ کی نقاشی اور خطاطی کے نمونے دیکھ کر آپ کو چاندی کے تمغے اور توصیفی سند سے نوازا۔

اسی دوران 1947 ء کا خونیں دور آیا اور ملک تقسیم ہوگیا۔ ٹونک کا چھاپہ خانہ بھی کئی جگہوں پر تقسیم ہوا۔ 1948 ء میں آپ بمبئی چلے گئے اور وہاں سلطانی پریس (بھنڈی بازار) محمدی پریس اور کریمی پریس (مجگاؤں) کے علاوہ مختلف اخباروں میں کام کیا۔ 1949 ء میں آپ احمد آباد (گجرات) چلے گئے۔ وہاں مختلف کارخانوں میں نقش ونگار، گلکاری کی ڈیزائننگ کی۔ 1950ء میں جمعیۃ علماء ہند نے موصوف کو دہلی بلالیا اور اسی زمانہ سے 1994 ء تک دہلی میں مقیم رہے۔ دہلی چونکہ فنکاروں، خوشنویسوں سے خالی ہوچکی تھی، صاحب ذوق ونظر نیز مقتدر اداروں کو اچھے خوشنویسوں کی شدید ضرورت تھی، لہٰذا خلیق ٹونکی کے پاس مختلف کاموں کے ڈھیر لگ گئے اور موصوف نے آفسیٹ اور بلاک کے کتابی کام شروع کردیے۔ جن میں دینی تعلیم کے رسالے (الجمعیۃ بک ڈپو) کشف الرحمن (ایک ضخیم تفسیر قرآن، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلویؒ) مصباح اللغات، صدیق اکبر، قصص القرآن (چہار جلد) ندوۃ المصنفین دہلی کی ضخیم ووقیع ہزاروں صفحات کی کتابیں لکھ کر داد و تحسین حاصل کی۔ نیز ٹائٹل، پوسٹر، سپاس نامے ودیگر ہمہ قسم کے کام انجام دے کر ملک و بیرون ملک میں ممتا ز مقام حاصل کیا۔

1976ء میں پروفیسر نورالحسن (سابق وزیر تعلیم حکومت ہند) نے موصوف کے لئے خطاطی کی کلاس یعنی (ایڈوانس کیلی گرافی) غالب اکیڈمی نئی دہلی میں قائم کرکے اس کا سربراہ بنایا۔ جہاں موصوف محنت اور فراخ دلی سے مختلف خطوط مثلاً خط نستعلیق ،خط نسخ، خط ثلث، خط دیوانی، خط رقعہ، خط ٹائپ (نسخ جدیدہ) خط طغرا نیز خطاطی سے متعلق لوازمات کی ٹریننگ دے کر طالبان فن کو اس قابل بنا رہے تھے کہ ہند اور بیرون ہند عرب ممالک میں نام روشن کریں اور معقول روزی حاصل کرسکیں۔ چنانچہ کئی شاگرد عرب گئے اور اکثر ترقی اردو بیورو کی قائم کردہ خوشخطی کے مراکز میں استاد کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ اس وقت موصوف کو ہندوستان میں اردو اور عربی کے مروجہ خطوط اور ڈزائننگ کی حیثیت سے ممتاز وماہر اساتذہ میں منفرد مقام حاصل تھا۔

خلیق ٹونکی مرحوم کے یادگار کاموں میں چودھویں صدی ہجری کے آغاز پر حکومت ہند کی طرف سے جاری کردہ خوبصورت طغرے والا ڈاک ٹکٹ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے فن کا سب سے بڑا شاہکار بمبئی کے حج ہاؤس پر خط ثلث میں کی گئی خوبصورت خطاطی ہے۔ یہ عمارت آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی طرف سے تعمیر کی گئی ایک منفرد اور قیمتی عمارت ہے۔

اس کام کی خاطر آپ نے 1988 ء میں تین فٹ چوڑی گرنائٹ (Granite) کی سلوں پر خط ثلث میں خوبصورت خطاطی کی۔اس عمارت پر خطاطی کا کل رقبہ اٹھارہ سو مربع فٹ ہے۔ خطاطی جس مخصوص پتھر پر کی گئی ہے، اس کی خاصیت یہ ہے کہ کٹائی کے بعد اندر سے سنہرا نکلتا ہے۔ خلیق ٹونکی مرحوم کی ڈبل پنسل سے کی گئی خطاطی کے بعد پتھر کی کٹائی کی خاطر سوئزر لینڈ سے ماہرین کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے مخصوص مشینوں کے ذریعہ انتہائی احتیاط سے کٹائی کی، تاکہ خطاطی متاثر نہ ہو۔ خلیق ٹونکی مرحوم عربی خطوط روایتی طرز میں لکھتے تھے مگر بعد میں ترک اساتذہ خطاطی کے معیاری کام سے آپ بے حد متاثر ہوگئے، چنانچہ حج ہاؤس پر لکھاگیا خط ثلث ترک اساتذہ کی روش کے مطابق ہے۔

1984 ء میں آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی نے غالب ایوارڈ اور توصیفی سند نیز نادر رقم کا خطاب عنایت فرمایا۔ 1985 ء میں مرکزی وزیر اطلاعات ونشریات مسٹر وی۔ این گیڈگل نے 25واں نیشنل ایوارڈ عنایت فرمایا۔ 1986 ء میں ترکی (استنبول) کے انٹرنیشنل کیلی گرافی کمپٹیشن میں ہندوستان کی نمائندگی کرکےداد وتحسین حاصل کی۔ 1988 ء میں حکومت عراق نے بغداد میں عربی کیلی گرافی کی عالمی نمائش میں حصہ لینے کے لئے سرکاری طورپر بغداد بلایا اور انعام واکرام سے نوازا۔

موصوف نے حیدرآباد میں دارالعلوم حیدرآباد کے حج سمینار کے موقع پر کیلی گرافی کی نمائش کی۔ جس کا افتتاح شاہ فہد کے نمائندے جناب عبداللہ محسن ترکی نے فرمایا اور خلیق ٹونکی کو "سلطان القلم” کا خطاب اور توصیفی سند سے سرفراز فرمایا۔ پھر ملکی سطح پر اندرا گاندھی نیشنل سینٹر آف آرٹس کی طرف سے ورلڈ کیلی گرافی میں حصہ لیا۔ 1990 ء میں کوالالمپور (ملیشیا) کے صد سالہ جشن میں خطاطی آل ورلڈ کمپٹیشن میں حصہ لیا۔ 1991 ء میں ماریشس کی کیلی گرافی نمائش میں سرکاری دعوت پر بلایاگیا لیکن ناسازی طبیعت کی وجہ سے خود نہ جاسکے مگر اپنی کیلی گرافی کے نمونے ماریشس بھیج کر حصہ لیا۔ 1992 ء میں اردو اکیڈمی دہلی نے ایوارڈ و توصیفی سند سے نوازا۔ 1993 میں ”رہنمائے اردو خوش نویس“ کتابت ترتیب دی، جسے ترقی اردو بیورو نے شائع کیا۔ آپ عرصے سے دمے کے مریض تھے۔آخری ایام میں سرطان کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ یہ مشکل وقت آپ نے اپنے وطن ٹونک میں گزرا اور 25جون 1994 کو وہیں وفات پائی۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply