دربھنگہ کا علمی و ادبی سفر

اسلم رحمانی

رخصت پذیر موسم سرما کی نرم و لطیف صبح تھی، جب محسن و مشفق استاد محترم صدر شعبۂ اردو نتیشور کالج مظفرپور اسسٹنٹ پروفیسر کامران غنی صبا اور نور اردو لائبریری گنگھٹی، بکساما ویشالی کے جنرل سیکریٹری مولانا نظر الہدی قاسمی کی سربراہی میں 7/ فروری 2025 کو علم و ادب کی سرزمین دربھنگہ کا علمی و ادبی سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، مظفرپور شہر کے قلب مٹھن پورہ کے واقع امیر خسرو نگر سے سفر کا آغاز ہوا قومی شاہراہ 57 کو عبور کرتے ہوئے جیسے ہی سفر کا یہ کارواں تاریخی شہر دربھنگہ میں داخل ہوا، شہر کی قدیم اور جدید فضا نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ شہر کی گلیوں میں قدم رکھتے ہی محسوس ہوا کہ یہاں کی،ہر گلی، ہر دروازہ، کسی نہ کسی ادبی گزرے لمحے کی گواہ ہے۔ دربھنگہ، جو علم و ادب کا گہوارہ ہے، یہاں کی سرزمین نے ہمیشہ ادب کے نئے راستے کھولے ہیں اور ہر زبان و ادب کے طالب علم کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے،دربھنگہ کا سفر ایک یادگار اور دل کو خوش کرنے والا تجربہ تھا۔ محسن و مشفق استاد محترم صدر شعبۂ اردو نتیشور کالج مظفرپور، اسسٹنٹ پروفیسر کامران غنی صبا اور نور اردو لائبریری گنگھٹی کے جنرل سیکریٹری مولانا نظر الہدی قاسمی کی سرپرستی اور رفیق محترم انجنیئر ظفر اعظم ربانی کی بے لوث محبتوں کی عنایت سے یہ سفر آسان ہوا جو نہ صرف تعلیمی لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا، بلکہ ثقافتی لحاظ سے بھی کافی دلچسپ تھا۔

دربھنگہ کا علمی و ادبی سفر 
دربھنگہ کا علمی و ادبی سفر

دربھنگہ کی ہوا میں ایک خاص کشش تھی، جہاں قدیم عمارات اور تاریخی جگہوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ شہر کا ماحول بھی ایک خاص رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ راستے میں اردو کتبوں سے مزین دکانوں اور مکانات سفر کو مزید دلکش بنا دیا۔یہ سفر نہ صرف علمی و ادبی لحاظ سے فائدہ مند تھا بلکہ یہاں کی ثقافت، تاریخ اور روایت سے قریب سے واقف ہونے کا موقع بھی ملا۔کئی مشہور ادباء، شعراء، اور علماء سے ملاقاتیں ہوئیں جنہوں نے نہ صرف ادب کی گہرائیوں میں غوطہ لگایا بلکہ ہم سے علم کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی۔ ان ملاقاتوں نے نہ صرف ہمارے علمی افق کو وسیع کیا بلکہ دلوں میں ادب کی محبت کو اور زیادہ جلا بخشی۔اس ادبی سفر کے دوران، ہم نے جابجا مختلف ادباء اور شعراء اور علماء سے روبرو ہونے کا موقع ملا اس ملاقات کے درمیان علمائے ادب نے اپنے تجربات اور تحریروں سے ہمارے علمی ذخیرے میں مزید اضافہ کیا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے سفر کی صورت میں ہوا جو ہمیشہ یادگار رہے گا۔اس سفر نے ہمیں یہ سکھایا کہ ادب صرف کتابوں میں نہیں بلکہ لوگوں کے درمیان، ان کی گفتگو، ان کی تخلیقات اور ان کے نظریات میں زندہ رہتا ہے۔ ہم نے اس سفر کے دوران یہ بھی محسوس کیا کہ دربھنگہ کی سرزمین علم و ادب کے ایک نئے دور کی طرف گامزن ہے اس کا حصہ بننا ہمارے لئے خوش نصیبی کی بات ہے۔

ڈاکٹر منصور خوشتر کی میزبانی: ادب اور محبت کا سنگم

دربھنگہ کے معروف علاقے، پرانی منصفی، لال باغ میں واقع شوکت علی ہاؤس کی سادہ لیکن خوبصورت عمارت نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ گلی کی سناٹے میں ایک بڑی چھت والے دروازے سے داخل ہو کر ہال کی جانب قدم بڑھائے، جہاں دلی مسکراہٹ کے ساتھ سہ ماہی رسالہ دربھنگہ ٹائمز دربھنگہ کے مدیر اعلٰی ڈاکٹر منصور خوشتر نے ہمارا استقبال کیا۔ ان کی شخصیت میں سادگی اور محبت کا ایک خاص تاثر تھا، جس سے ہمیں احساس ہوا کہ ہم نہ صرف ایک ادبی مقام پر ہیں بلکہ ایک دلکش مہمان نوازی کا حصہ بھی بن گئے ہیں۔

ادبی محفل کا آغاز: ادب اور صحافت پر تبادلہ خیال

اس دن کی نشست کا آغاز خوشگوار گفتگو سے ہوا، جس میں ادب، صحافت اور اردو زبان و ادب کے مسائل پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ ڈاکٹر منصور خوشتر نے ہمیں دربھنگہ ٹائمز کے مشرف عالم ذوقی نمبر کا ایک ایک نسخہ دیا، جو ان کی محبت اور ادب کے تئیں لگاؤ کا غماز تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی نئی کتاب "پیارا بچپن پیاری نظمیں” بھی ہمیں پیش کی، جس میں بچوں کے لیے خوبصورت اور دل کو چھو لینے والی نظمیں شامل ہیں ۔

انور آفاقی کی میزبانی: ادب کا ایک نیا رنگ

منصور خوشتر سے ملاقات کے بعد راج ٹولی (بھیگو) میں معروف شاعر انور آفاقی نے والہانہ استقبال کیا، جس میں محبت اور ادب کی روح جھلک رہی تھی۔ انور آفاقی نے اپنی مشہور کتابیں میزان فکر، اداس موسم اور انبساط عترت تحفے میں پیش کیں، جو ادب کے شائقین کے لیے قیمتی تحفے سمجھی جاتی ہیں۔ انور آفاقی کا علم و ادب کے تئیں عزم اور محبت ان کی ہر بات میں جھلکتی نظر آئی۔

پروفیسر عبد المنان طرزی کا مرکز ادب: کاشانہ طرزی کی زیارت

انور آفاقی کے ہمراہ پروفیسر عبد المنان طرزی کی رہائش گاہ، "کاشانہ طرزی” میں حاضری ایک دل نشین لمحہ تھا۔ کاشانہ طرزی میں ادب کی روح بستی ہے، جہاں ہر کمرہ اور کتاب ادب کا ایک نیا باب کھولتا ہے۔ پروفیسر طرزی کی سادگی اور عاجزی نے ان کی عظمت کو اور بھی بڑھا دیا تھا۔ استاد محترم کامران غنی صبا اور پروفیسر طرزی کے درمیان ادبی گفتگو کا سلسلہ ایک دلکش اور بھرپور تجربہ تھا، جسے ہم سب نے دلوں میں محفوظ کر لیا۔

پروفیسر عبد الودود قاسمی کی مہمان نوازی: ایک علمی اور روحانی تجربہ

صدر شعبۂ اردو (کے، ایس، کالج) لہریا سرائے دربھنگہ ڈاکٹر و مولانا عبد الودود قاسمی کے یہاں حاضری ایک روحانی اور علمی تجربہ تھا۔ ان کی شخصیت میں علم اور ادب کا ایسا امتزاج تھا جو ہمیشہ یادگار رہےگا۔ ان کی باتوں میں گہرائی اور وسعت تھی، جو ہر ادیب اور محقق کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر قاسمی نے بھی ہمیں اپنی ترتیب و تدوین کتاب زندگی پیش کی۔ ڈاکٹر قاسمی اور ان کے لائق و فائق فرزند ارجمند حافظ محمد ثاقب ضیاء نے خوبصورت میزبانی کی.

مجاہد مظفر شفیع سلفی کی پرخلوص دعوت پر،دارالعلوم احمدیہ سلفیہ کی تکمیل بخاری شریف میں شرکت

مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ کے سابق استاد وصاحب طرز ادیب عالم دین مولانا شفیع احمد اصلاحی کے حفید مجاہد مظفر شفیع سلفی کی پرخلوص دعوت پر مولانا نظر الہدی قاسمی کے ہمراہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ میں حاضری ہوئی، یہاں نماز جمعہ کی ادائے گی کے بعد تکمیل درس بخاری شریف میں بھی شرکت ہوئی، بعدازاں مجاہد مظفر شفیع سلفی اور محمد لقمان سلفی نے بہترین اور عمدہ میزبانی کی۔اس موقع پر ماموں جان یعنی مظفر شفیع اصلاحی اور یعقوب سلفی سے بھی خوشگوار ملاقات ہوئی،دارالعلوم احمدیہ سلفیہ کی تکمیل بخاری شریف کی تقریب میں شرکت ایک روحانی تجربہ تھا۔ اس محفل کی علمی فضا نے اس دن کی اہمیت اور بڑھا دی تھی۔ اس روز کی روحانی فضا میں ہمارے دلوں کو سکون اور تسکین ملی، اور ہم نے اس محفل کو ہمیشہ کے لیے اپنے دلوں میں محفوظ کر لیا۔

استاد محترم کامران غنی صبا کی برادر صغیر صفوان غنی کے یہاں حاضری: ایک خوشگوار ملاقات

استاد محترم کامران غنی صبا کی برادر صغیر صفوان غنی کے یہاں حاضری ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ صفوان غنی کے گھر پہنچنے پر ایک نرم سی مسکراہٹ اور محبت بھرا استقبال ہوا۔ چائے کی محفل اور خاص طور پر بنائی ہوئی مٹھائیاں اس ملاقات کو مزید خوشگوار بنا رہی تھیں۔ ان کی گفتگو میں محبت کی مٹھاس اور مزاح نے محفل میں ایک خوشگوار ماحول پیدا کیا۔

واپسی کا لمحہ: محبتوں کی یادیں

مظفرپور واپسی کا وقت آیا تو دل میں ایک خوشگوار احساس تھا۔ صفوان غنی کی محبت بھری باتیں اور منیبہ غنی کی چنچل حرکتیں ہمیشہ کے لیے ذہن میں براجمان رہیں گی۔ ان لمحوں کی یادیں ہمیشہ کے لیے دل میں بس گئیں، جیسے ایک حسین اور چمکدار لمحہ۔

یہ روداد سفر نہ صرف ادبی تجربات کا عکاس ہے بلکہ ادب، محبت، اور مہمان نوازی کی ایک شاندار مثال بھی پیش کرتی ہے۔اس سفر کی روداد ایک یادگار لمحہ ہے، جو ہمیشہ دل و دماغ میں تازہ رہے گا، اور جو اس علم و ادب کی محبت میں مزید اضافہ کرے گا جس کا آغاز اس خوبصورت سرزمین سے ہوا۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare