دفاع سیرتِ طیبہﷺ ایك تعارف
از قلم: محمد رضی قاسمی
کتاب کا نام: دفاع سیرتِ طیبہ
صفحات : 150
مولفِ کتاب: مفتی محمّد اشرف عباس قاسمی، استاذ دارالعلوم دیوبند
اشاعت: اول
ناشر: مکتبہ ابنِ عباس دیوبند
زیر نظر کتاب اشرف الکائنات، فخر موجودات، سرور عالم، مقدس ومطہر حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عظیم الشان شخصیت پر مستشرقین ومتجددین کی طرف سے کیے جانے والے چھ(٦) اعتراضات اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے، مؤلف کتاب،صاحب البیان والبنان حضرت مفتی اشرف عباس صاحب قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند نے "حرف آغاز” میں اپنی اس کتاب کے بارےمیں لکھا ہے: "اس رسالے میں خصوصیت کے ساتھ رسولِ مطہر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر معاندین و مستشرقین اور نام نہاد مؤرخین نے مختلف پہلوؤں سے چھینٹا کشی کرکے حق کا گلا گھونٹنے کی مذموم حرکت کی ہے، اس کا جائزہ لے کر علم وتحقیق کو راہنما بناتے ہوئے حقیقت حال آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے”(ص١١)
*طرزِ کتاب*
کتاب کا عمومی طرز وانداز یہ ہے کہ اعتراض کے متعلق ایک واضح عنوان قائم کیا جاتا ہے پھر اپنے الفاظ میں اعتراض کو ذکر کیا جاتا ہے، اور معترض کی اصل عبارت (جو بیشتر انگریزی میں اور کبھی عربی میں ہوتی ہے) مع ترجمہ اصل کتاب کے حوالہ کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے، پھر اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے عقل ونقل کی روشنی میں تشفی بخش رد کیا جاتا ہے، جوابات: تحقیقی، الزامی دونوں قسم کے ہوتے ہیں، بالعموم جواب کے اختتام پر کسی مستشرق کے حوالےسے ’’اعتراف حقیقت‘‘ بھی ذکر کیا جاتا ہے۔
*اندازِ نگارش*
اندازِ نگارش، معروضی، علمی، سنجیدہ اور شائستہ ہے، عبارت حشو و زوائد سے پاک، عام فہم، دلنشیں اور ادبی چاشنی لیے ہوئے ہے۔
اب ہم پوری کتاب پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں :
ابتدائی ٨ صفحات میں فہرست مضامین ہے،صفحہ ٩ سے ٢٠ بیس تک مصنف کا ’’حرف آغاز‘‘ اور ہندوستان کی تین جلیل القدر، عظیم المرتبت شخصیتوں: حضرت مولانا ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند کی تقریظ ، مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند کی تبریک اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تقدیم شامل ہے، تینوں بزرگوں نے مصنف کے کام اور ان کی کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے، ان میں سب سے مختصر حضرت مہتمم صاحب اور سب سے مفصل (ساڑھے چار صفحات پر مشتمل) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی تحریر ہے۔
مصنف نے اصل اعتراضات وجوابات شروع کرنے سے قبل معترضین یعنی مستشرقین اور تحریک استشراق کی حقیقت سے نقاب کشائی کی ہے،ایک مختصر تمہید کے بعد استشراق کے لغوی، اصطلاحی معنی، تحریکِ استشراق کا پس منظر، اس تحریک کے اہداف ومقاصد کو اختصار کے ساتھ واضح کیا ہے۔ یہ گفتگو صفحہ ٢٠ سے ٢٦ تک ہے۔
پھر اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے:
*پہلا اعتراض آپ ﷺکے نسب پر ہے*
نسب مبارک پر دو طرح سے اعتراض ہے (١) عربوں کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں ہونا ثابت نہیں، اس کا علم عربوں کو یہود سے رابطہ کی بنا پر ہوا ہے (٢)اولادِ اسماعیل علیہ السلام کی کوئی فضیلت نہیں۔
پہلے اعتراض کا جو جواب دیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا مکۃ المکرمہ میں زندگی گزارنا اور قبیلۂ جرہم میں نکاح کا ہونا اور اس کے نتیجہ میں آپ کا ’’ابو العرب‘‘ کہلانا قرآن مجید ، توریت اور تاریخی حوالوں كی روشنی میں ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس کا اعتراف بعض مغربی مصنفین کو بھی ہے، علاوہ ازیں تاریخی کتابوں اور انبیاء علیہم السلام کے بیانات عربوں کے اولاد اسماعیل ہونے کے سلسلے میں واضح ہیں، پھر حسب ونسب کے معاملے میں عربوں کی حساسیت، مزید برآں حسب ونسب کا ان کے لیے وجہ افتخار واعزاز، باہمی فخر و مباہات یہانتک کہ جانوروں کے نسب کو بھی یاد رکھنے کا اہتمام:یہ وہ چیزیں ہیں جن کے پیشِ نظر اس طرح کا دعویٰ کرنا کہ عربوں کو اپنے نسب کا علم یہودیوں کے رابطے کی وجہ سے ہوا ہے نہایت مضحکہ خیز ہے۔
دوسرے اعتراض کا مدار مستشرقین کے اس مفروضے پر ہے کہ حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہ عنہا باندی تھیں اور باندی کی اولاد کو کوئی نسبی فضیلت نہیں ہوا کرتی۔
مصنف نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے یہود کی طرف سے حضرت ہاجرہ کو باندی کہنے کا پس منظر اور پھر خود بعض یہودی مفسرین کے حوالے سے اس بات کا اعتراف کہ حضرت ہاجرہ باندی نہیں بلکہ شہزادی تھیں، شاہ مصر نے حضرت سارہ کی عظمت سے متاثر ہوکر ان کی خدمت کے لیے حضرت ہاجرہ کو انہیں عطاء فرمایا تھا(مصنف نے اس کو ثابت کرنے کے لیے دو صفحوں کے بعد بخاری شریف کی ایک روایت ذکر کی ہے اس سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے) مصنف نے الزامی طور پر توریت کے حوالے سے بعض انبیاء بنی اسرائیل کی امہات و زوجات کا باندی ہونا ذکر کیا ہے، پھر اخیر میں مستشرق مؤرخ گبن کی شہادت پر اس مضمون کو ختم کیا ہے جس میں وہ آپ کے خاندان کی عظمت و فیاضی کا ذکر کررہے ہیں۔ان دونوں اعتراضات و جوابات کا سلسلہ ص٢٦ تا ٣٥ تک دراز ہے۔
*وحیِ ربانی کا انکار اور اس کی غلط تشریح*
مستشرقین نے جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لیے وحیِ ربانی کو بھی دائرۂ تشکیک میں لانے کی مذموم کوشش کی ہے، انہوں نے وحی پر تین طرح سے اعتراض کیا ہے (١)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ مرگی کا اثر تھا (٢)قرآن مقدس توریت و انجیل سے ماخوذ و مستفاد ہے(٣)جناب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بحیرا راہب اور ورقہ بن نوفل سے تعلیمات حاصل کرکے انہی کو آگے بڑھایا ہے۔
مصنف نے ان سوالات کے جواب میں اولا وحی کے لغوی، اصطلاحی معنی ومفہوم اوراس کی اقسام کو ذکر کرکے مرگی کی حقیقت و کیفیت، وحی و مرگی میں فرق کو مدلّل واضح کیا ہے اور دکھایا ہے کہ دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں، پھر آپ کو مرگی کا اثر نہ ہونے پر بعض مستشرقین کا اعتراف حقیقت بھی نقل کیا ہے۔
دوسرے اعتراض کے جواب کے طور پر مصنف نے قرآن مجید اور دیگر کتب سماوی کے مابین موازنے کی ایک جھلک پیش کرکے قرآن کریم کی معقولیت، اور دیگر کتب سماوی کی بے سروپا، عقل سے ماوراء باتیں ذکر کی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ قرآنِ مجید کو ان محرفہ کتب سے ماخوذ قرار دینا ہٹ دھرمی ہے۔
تیسرے سوال کے جواب میں مصنف نے بحیرا اور ورقہ کا آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا معلم نہ ہونا مدلّل ثابت کیا ہے اور اس پر بعض مستشرقین کا اعتراف حقیقت بھی لکھاہے ۔
یہ مکمل بحث اس کتاب کے ص٣٦سے ٥٦تک پھیلی ہوئ ہے۔
*اشاعت اسلام میں تلوار کا کردار*
یہ مشہورِ زمانہ اعتراض ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، مصنف نے اولا یہ بیان کیا ہے کہ مستشرقین نے اس مفروضے کو کیوں گھڑا؟ اس کا پس منظر کیا ہے اور پھر ہندو مؤرخین کے مستشرقین کی ہاں میں ہاں ملانے بلکہ ان کے اس مفروضے کو آگے بڑھانے اور پھیلانے کا ذکر کرنے کے بعد نقل ، عقل، تاریخی حقائق وواقعات کی روشنی میں اس کا مفصل جواب دیا ہے کہ اسلام اپنی فطرت سے ہم آہنگ تعلیمات، اہل اسلام کے بلند اخلاق وکردار کے نتیجے میں پھیلا ہے، تلوار کا استعمال بہ وقتِ ضرورت ضرور کیا گیا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اسلام کی اشاعت تلوار كے زور كی رہینِ منت ہے ، پھر متمدن دنیا کی خون آشام جنگوں اور اسلامی جہاد کے مابین طریقۂ کار، مقاصد وانجام کے اعتبارسے فرق واضح کرتے ہوۓ دیگر جنگوں کی ہلاکت خیزیاں اور اسلامی جہاد میں کام آنے والے نفوس کی تعداد کاذکر کرکے معترضین کو آئینہ دکھایا گیا ہے اور پھر بہ طور تتمہ اشاعت اسلام کے چار اسباب و ذرائع : دعوت ، ہجرت، مصالحت، مکاتبت کا تذکرہ کرکے اس بحث کو ختم کیا ہے، یہ بحث ص٥٦ سے ص٨١ تک پھیلی ہوئی ہے ۔
*رسولِ اکرم ﷺکے متعدد نکاح اور مستشرقین کے بے جا اعتراضات*
مستشرقین کی طرف سے ایک اعتراض آپ کی ذات اقدس پر یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے محض جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے گیارہ نکاح کیے ہیں(نعوذباللہ )۔
اس سلسلےمیں مصنف نے معترضین کی عبارتیں نقل کرکے اصل جواب سے قبل اسلام میں تعددِ ازواج ، تعددِ ازواج کی شرائط و قیود، اس کی حکمتیں، اسباب اور پھر اس سلسلے میں مغرب کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کا امتیاز اور تعددِ ازواج کے حوالےسے معاصر دنیا کے رویہ پر روشنی ڈالتے ہوئے اس اعتراض کی بھی وضاحت کردی ہے کہ عورت کو بیک وقت ایک سے زائد شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
پھر اصل اعتراض کے جواب کے طور پر اولا حضور ﷺ کے چار سے زیادہ نکاح کی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے متعدد نکاح اللہ کا خصوصی حکم اور تمام ازواجِ مطہرات کی رضا ورغبت کے مطابق تھے اور پھر یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کا متعدد نکاح فرمانا (نعوذ باللہ)خواہش نفسانی کی وجہ سے نہیں؛ بلکہ ان کے پس پشت دینی ، علمی ، معاشرتی ، اور دعوتی متعدد مصلحتیں تھیں۔ (جن کا تذکرہ مصنف نے اختصار کے ساتھ کیا ہے) پھر الزامی جواب کے طور پر یہود و ہنود اور نصارٰی کی مقدس شخصیات کے تعدد نکاح پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ، اخیر میں بعض مستشرقین کے تعددِ ازواج کی مصلحتوں کے اعتراف حقیقت پر اس بحث کو ختم کیا ہے۔یہ بحث ص ٨٢ تا ص ١٠٨ تک پھیلی ہوئ ہے ۔
*ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللّٰہ عنہا سے نکاح*
مستشرقین نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ نے حضرت زینب کے حسن وجمال سے متاثر ہوکر اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کیا ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں مصنف نے چار ابواب کے تحت گفتگو کی ہے، (١) وہ روایات جو مستشرقین کے اعتراض کا ماخذ ہیں (٢) صحیح روایات سے ان غلط روایات کا بطلان (٣)سورہ احزاب کی آیت ٣٧ کی صحیح تفسیر (٤)دلائل عقلیہ سے الزامات کی تردید۔
ان پر گفتگو کرنے سے قبل حضرت زینب بنت جحشؓ اور حضرت زید ابن حارثہؓ کے احوال اور ان کے باہمی نکاح کا بیان اختصار کے ساتھ کیا گیا ہے اور پھر مذکورہ چاروں امور پر عمدہ انداز میں بحث کی گئی ہے اور اخیر میں بعض مستشرقین کے "اعتراف حقیقت” پر یہ بحث ختم ہوئی ہے۔
یہ مکمل بحث ص١٠٩ تا ص ١٣٣ تک ہے۔
*حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے کم سنی کے باوجود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح*
اس عنوان کے تحت أولاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کا تعارف، آپ کے علم وفضل، زہد و عبادت کا ذکر ہے، پھر رسول اللّٰہ کی زوجیت میں آنے کا واقعہ اور اس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر کی تحقیق کرتے ہوئے بہ وقتِ رخصتی ١٨ سال عمر کہنے والوں کے قول کی تردید کی ہے اور نو سال والے قول کو مدلّل ذکر کیا ہے،پھر اس قول پر مستشرقین ومتجددین کے اعتراض کا ذکر کرکے اس کا جائزہ لیا گیا ہے، حاصل جواب یہ ہے کہ یہ نکاح بہ امر الٰہی ہواتھا نیز اس وقت کے معاشرے میں کم سنی کا نکاح رائج تھا اور یہ ایک عام بات تھی ؛ یہی وجہ ہے کہ اس وقت آپ کے نکاح پر آپ کے کسی بھی دشمن کی زباں پر حرف اعتراض نہیں آیا جبکہ وہ اس طرح کے مواقع کے متلاشی رہتے تھے، اگر یہ کوئی قابل اعتراض بات ہوتی، تو وہ اس موقع کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے مزید بر آں عرب کی گرم آب وہوا کی وجہ سے وہاں کی نشوونما نسبتاً جلد ہوجایا کرتی تھی،اورخود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کو اس نکاح سے کبھی شکایت نہیں رہی؛ بلکہ وہ اس پر نازاں تھیں ، نیز اس عمر میں حضرت عائشہؓ سے کم سنی میں نکاح کرنے کی علم دین کی اشاعت جیسی عظیم مصلحت بھی پوشیدہ تھی جس کا مشاہدہ کتب احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی احادیث وفتاویٰ کی تعداد دیکھ کر کیا جاسکتاہے۔
اخیر میں الزامی جواب کے طور پر یہودیت و نصرانیت اور یورپی معاشرہ میں کم سنی کے نکاح کی نظائر کی نشاندہی کی گئی ہے؛ تاکہ معترضین دوسروں پر خوردہ گیری کرنے سے قبل اندرونِ خانہ اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں، اخیر میں اس بحث میں جو متعدد جوابات دیے گیے ہیں ان کا خلاصہ تحریر ہے۔
یہ بحث ص١٣٤ تا ص١٥٠ ہے۔
*”بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر”*
اس کتاب پر یہ مشہور مقولہ پوری طرح صادق آتا ہے، کتاب اپنے اہم اور عمدہ مضامین کے ساتھ ساتھ ،کاغذ، کتابت، طباعت اور ظاہری حسن وجمال میں بھی پرکشش ہے، اس کتاب سے لائیبریری میں ایک اچھی کتاب کے اضافے کے ساتھ علم وایمان میں بھی ان شاءاللہ اضافہ ہوگا۔