سلام بِن رزاق کے ساتھ ایک ’کہانی‘ بھی تمام ہوگئی
ندیم ؔصدیقی (ممبئی)
عروس البلاد ممبئی ،دورِ قدیم سے ادب کا ایک آسمان تھا، جس میں واقعتاً کیسے کیسے ستارے، آفتاب و ماہتاب روشن تھے، اُن کی شہرت و مقبولیت میں آج کی طرح ذاتی کوششیں نہیں بلکہ اُن کے فن کو دخل تھا، منٹو، راجندر سنگھ بیدی، راما نند ساگر، کرشن چندر، عادل رشید، سریندر پرکاش، گلشن نندہ، اکرم الہ آبادی جیسے بہت سے نام ہیں، ان سِنیئر لوگوں کے بعد جو فکشن نگار یہاں اپنے ادب کے سبب معروف ہوئے اُن میں انور خان، انور قمر، سلام بن رزاق، مُقدّر حمید، محمود ایوبی، ساجد رشید، علی امام نقوی،یوسف منّان،واجدہ تبسم، مشتاق مومن،خالد اگاسکر، م۔ ناگ، معین الدین جینابڑے اور عبد العزیز خان کے اسمائے گرامی ہم جیسوں کے ذہن میں ہیں(ہو سکتا ہے کہ کوئی نام ہم بھول رہے ہوں.)، ان سب میں جن کا نام دور تک گونجا وہ سلام بن رزاق تھے۔
افسوس کہ اوپر جو نام درج ہوئے ہیں اس فہرست میں اپنے ہم عمروں میں سلام بن رزاق ہی بچے تھے باقی رُخصت ہوچکے ہیں۔اِدھر ایک عرصے سے اُن کی علالت کی خبر سُنی جا رہی تھی با لآخر گزشتہ منگل سات مئی کی صبح زندگی نے انھیں ’وعلیکم السلام‘ کہہ دیا ، ایک زندہ کہانی ختم ہوئی اور اس طرح ایک دَور اپنے اختتام کو پہنچا۔
1970 ع کا دور تھا کہ روزنامہ اُردو ٹائمز کے ادبی صفحے کے مدیر انجم رومانی کی زبان سے سُنا تھا :
’’ یہ نوجوان (سلام بن رزاق) دور تک جائے گا، اس کے ہاں خاصی کشش ہے۔‘‘
اگر ہمارا حافظہ خطا نہیں کرتا تو عرض ہے کہ سلام بن رزاق کی شہرت میں اُن کے تراجم کا بھی خاصا نہیں بلکہ بنیادی کردار ہے۔ ان کے تراجم کی پہلی کاوش ’ماہم کی کھاڑی‘ تھی، جس نے ادبی حلقے کو اُن کی جانب متوجہ کیا اور پھر وہ دیکھتے دیکھتے روشن ہوتے چلے گئے۔ یہ وہ دَور تھا جب شہر میں علی سردار جعفری، ظ انصاری، باقر مہدی، فضیل جعفری،عزیز قیسی، سریندر پرکاش جیسے اہل ِادب کی روشنی آفتاب کی مانند تھی اور ان اشخاص کے جونِئیرس میں انور خان، انور قمر، مقدرحمید، ساجد رشید اور علی امام نقوی معروف ہو رہے تھے جبکہ ان میں سلام بن رزاق اور ساجد رشید سبقت رکھتے تھے چونکہ ساجد رشید اخبار سے وابستہ تھے جس کے سبب اُن کی شہرت سلام بن رزاق سے زیادہ تھی وہ سرحد پار تک معروف تھے مگر خالص ادبی تناظر میں اگر بات کی جائے تو انورخان، انور قمر کے بعد سلام بن رزاق ہی کو ایک وقار و احترام حاصل تھا اور اُن کی یہ اقبال مندی آخر آخر تک اُن کے ساتھ رہی۔
سلام بن رزاق کا تعلق سرزمین مہاراشٹر ہی سے تھا۔ وہ ممبئی سے قریب پنویل نامی ٹاؤن میں15نومبر1941 ع کو پیدا ہوئے، روایت ہے کہ انہوں نے7برس کی عمر میں قرآن ختم کر لیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرحوم نے ایک مولوی سےاُردو کی تعلیم حاصل کی تھی مگر سچ یہ بھی ہے کہ مولوی اُن کا کبھی استاد نہ بن سکا، ممبئی کو انہوں نے اپنا مستقل مستقر بنایا اور یہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
کوئی نصف صدی قبل ممبئی شہر کے مضافات میں کُرلا جو آہستہ آہستہ بہت سے لکھنے والوں کا ایک مرکز بن گیا تھا ان میں سلام بن رزاق بھی شامل ہیں، اسی کرلا سے شہرت اور مقبولیت کی انہوں نے نجانے کتنی منزلیں طے کیں ، وہ نواح ِ ممبئی میرا روڈ اور پھر وہاں سے نوی ممبئی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے سات مئی کی صبح آخری سانس لی۔
سلام بن رزاق کے ذہن میں قِصّے کہانی کا بیج ان کے والد کی قصہ گوئی کے سبب پڑا تھا، روایت ہے کہ اُن کے والد اپنے محلّے میں ہر جمعرات کو دِینی تاریخ، قصے کہانی کے انداز میں بیان کرتے تھے۔ یہ بیان کسی اور کے ہاں اثر انداز ہوا یا نہیں مگر سلام کے ہاں اُس نے کہانی کا ایک دلکش پیرایہ اختیار کر لیا۔
کوئی 25 برس قبل وہ درس وتدریس جیسے شاہی منصب سے وظیفۂ حسنِ خدمت کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔ وہ اپنی فکشن نگاری اور تراجم کے سبب ممبئی کے حوالے سے ایک یادگار تشخص رکھتے تھے۔ ان کی تخلیقات اُردو ہی کے میگزین میں نہیں بلکہ ہندی کے رسائل میں بھی اہتمام سے شائع ہوتی رہی ہیں۔
ہم بڑھتی ہوئی عمر میں ٹوٹتے پھوٹتے حافظے کی بنیاد پر عرض کر رہے ہیں کہ سلام بن رزاق اپنے ترجمے کی پہلی کتاب ’ماہم کی کھاڑی‘ سے متعارف ہوئے اور پھر اِس ’ کھاڑی‘ کے بعد ادب کا سَمُندَر اُن پر کُھلتا چلا گیا ۔ وہ شب خونی دَور میں بھی ابہام کے دریا میں نہیں اُترے اور اُن کا یہی طریق اُن کا مقبول اسلوب بن گیا۔ ان کی کہانی ،قصّے سے زیادہ ایک روداد لگتی تھی، اپنے آس پاس کے ماحول کی روداد ، عام آدمی کی بیتی ،گزرے ہوئے عصر کی سرگزشت کو وہ ایک ایسا ماجرا بنانے پر قادر تھے کہ پڑھنے والا اپنے زمانے کی’ کہانی‘ سمجھنے پر مجبور اور اس کے فسوں میں کھو جاتا تھا۔ یاد آتا ہے کہ روزنامہ انقلاب(ممبئی) میں اُن کی کہانیوں کی کتاب’معبّر‘ پر ہم نے تبصرہ کیا تھا اس مجموعے کی کئی کہانیوں کا تاثر اب تک ذہن پر ہے’ یک لویا‘ جیسی کہانی میں کسی جگہ اُن کےکسی لفظ پر ہم نے اشارتاً کچھ لکھ دیا تھا کہ ایک دِن مکتبہ جامعہ(ممبئی) میں آمنا سامنا ہوا تو مرحوم نے راست ہم سے تو نہیں مگر مشتاق مومن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تم لوگ ہماری کتاب پر کچھ نہ لکھوگے تو پھر لوگ ’ نمک‘ تو چِھڑکیں گے ہی۔
ممبئی میں سلام بِن رزاق کے اِردگرد، عمر کے آخری دنوں میں ان کے جونِئیر مداحوں کا ایک حلقہ بن گیا تھا، اسی کے ساتھ بیرون ِممبئی بھی انھیں عزت و احترام حاصل رہا۔ انہوں نے بچّوں کے لیے بھی لکھا اور اُن کی کوئی چودہ کتابیں منظر ِ عام پر آئیں۔ جن میں چند کے نام اس طرح ہیں :ننگی دوپہر کا سپاہی، مُعبّر، زندگی افسانہ نہیں, تذکرے، شکستہ بتوں کے درمیان۔ 2004 ع میں اُنھیں آخرالذکر کتاب پر ساہتیہ اکادیمی کا ایوارڈ بھی تفویض کیا گیا بلکہ یہ ایورڈ انھیں دوبار ملا۔ اس کے علاوہ بھی انھیں کئی مؤقر اعزازات ملے جن میں غالب انعام ( غالب انسٹی ٹیوٹ ،دہلی)اور مہاراشٹر اُردو اکادیمی کا ’گیانیشور ایوارڈ بھی شامل ہے، ان کی تحریریں نصاب کا بھی حصّہ بنیں، ان پر جامعات میں مقالے بھی لکھے گئے،انہوں نے نجی اور ادبی دونوں سطح پر ایک باوقار زندگی گزاری۔
منگل کی شام جب ممبئی میں سورج غروب ہو چکا تھا تب عروس البلادکے بڑے قبرستان (واقع میرین لائنس) میں اُن کے جَسَدِ خاکی کو سپردِ لحد کیا جا رہا تھا اور ہم نے جب انھیں تین مُٹھّی مِٹّی نذر کی تو انہی کی ایک تحریر کی یہ سطریں ہمارے ذہن کے اسکرین پر نمودار ہوئیں :
’’۔۔۔ عمر خیام نے کسی رُباعی میں آرزو کی تھی کہ جب وہ مَر جائے، مِٹّی میں مِٹّی ہوجائے تو اُس مِٹّی سے جام بنایا جائے تاکہ اس کا محبوب اس جام میں جب شراب پیے تو وہ بعد از مرگ اس کے لبِ لعلیں کا بوسہ لے سکے۔ شاید ہم سب مِٹّی کے کلہڑوں کی مانند ہیں جس میں وقت جرعہ جرعہ شراب پیتا ہے جب جام خالی ہوجاتے ہیں تو ایک طرف اُچھال دِیے جاتے ہیں، پھر مِٹّی میں مِٹّی مِل جاتی ہے اور کوزہ گر اِس مِٹّی سے نئے جام بناتا ہے۔۔۔.یا پھر مجھے لگتا ہے کہ ہم سب وہ جزیرے ہیں جو زمین کی ایک ہلکی سی جنبش سے وجود پاتے ہیں اور پھر زمین ہی کی ایک جنبش سے غرقِ تہِ آب ہو جاتے ہیں، زندگی اور موت کی آنکھ مچولی پتہ نہیں کب سے چل رہی ہے اور نجانے کب تک چلتی رہے گی؟”
مگر زندگی اور مَوت کے اس کھیل میں کچھ کِھلاڑی ایسے بھی ہوتے ہیں جو موت کو جُل دینے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اُن میں لکھنے پڑھنے والوں کو فضیلت حاصل ہے۔ اس کھیل کو بھی سلام بن رزاق نے سادہ سے لفظوں میں بیان کیا ہے :
’’۔۔۔ ایک عام آدمی کی مَوت اور ایک ادیب کی مَوت میں فرق ہے کہ جب ایک عام آدمی مرتا ہے تو واقعتاً مَر جاتا ہے اور اُس کی یادوں کی عمر اُس کی طبعی عمر سے بھی مختصر ہوتی ہے مگر سچّا ادیب اپنے لفظوں کے ساتھ زندہ رہتا ہے.” اُردو میں ایک محاورہ ہے’’ زندہ درگور ہونا‘‘ ایسے لوگ بھی ہمارے ادبی معاشرے میں مِلتے ہیں جو زندہ تو ہیں مگر ’ حیات‘ اُن سے دور دور رہتی ہے، وہ اِس محاورے کی تجسیم بن جاتے ہیں مگر سلام بن رزاق کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ اپنے سچّے افکار و الفاظ کے بطن میں اپنی زندگی و تابندگی خود دیکھ کر رُخصت ہوئے, یہ زندہ منظر بھی سب کو نصیب نہیں ہوتے۔٭