سنبھل میں مسلمانوں کے خلاف پولیس کا ظالمانہ رویہ
اسلم رحمانی
وطن عزیز میں مسلمانوں کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، جان، مال اور آبرو حملوں کی زد میں ہیں، مساجد کی بے حرمتی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ آر ایس ایس اور ہندوتوا کی سوچ پر مبنی مودی حکومت کے زیر سایہ مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مودی حکومت کی مسلمانوں سے نفرت کی ایک شرمناک مثال سامنے آئی ہے، تادم تحریر چوبیس نومبر دو ہزار چوبیس کو دو بج کر چالیس منٹ پر مکتوب میڈیا ایکس کی رپورٹ کے مطابق یوپی کے سنبھل میں تین جواں سال مسلم نوجوانوں کو پولیس کی گولی لگ گئی جس کے نتیجہ میں یہ نوجوان شہید ہوگئے۔ اتوار کو ان پر آنسو گیس کے گولے داغ کر پولیس نے ثابت کیا ہےکہ مودی اور یوگی کی بے لگام پولیس کو مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ پولیس انتظامیہ کے اس ظالمانہ رویے سے یہ بات سمجھنے میں قدرے آسانی ہو جاتی ہے کہ بھارت میں کس طرح ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ کیلا دیوی مندر کے مہنت رشی راج گری اور دیگر مدعین کے ذریعہ سنبھل کی جامع مسجد کو ہریہر مندر بتائے جانے کا دعوی چندوسی میں واقع سول جج سینئر ڈویژن سنبھل کی عدالت میں پیش کئے جانے پر عدالت نے جامع مسجد کا سروے کر رپورٹ عدالت میں داخل کئے جانے کا حکم دیا تھا اگلی سماعت کے لئے 29 نومبر کی تاریخ طے کی گئی ہے۔
عدالت کے حکم پر کورٹ کمشنر رمیش راگھو کی ٹیم 19 نومبر کو جامع مسجد کا سروے کیا تھا۔ اتوار کی صبح تقریبا ساڑھے 6 بجے ٹیم دوبارہ جامع مسجد کا سروے کرنے کے لئے جامع مسجد پہنچی۔ ڈی ایم راجندر پینسیا اور ایس پی کرشن کمار سنگھ وغیرہ افسر بھی جامع مسجد پر پہنچے تھے اور بھاری پولیس فورس بھی جامع مسجد پر تعینات تھی۔ جامع مسجد کا سروے کرنے کے لئے ٹیم کو مسجد پہنچنے کی اطلاع پر مسلم سماج کی بھیڑ بھی جامع مسجد کے نزدیک پہنچ گئی، میڈیا رپورٹس کے مطابق انتظامیہ کا دعوٰی ہے کہ: بھیڑ کی طرف سے صبح ہی صبح سروے کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے شور شرابہ کیا جانے لگا۔ اسی دوران بھیڑ نے پتھربازی شروع کردی۔
شور شرابہ اور پتھراؤ کو دیکھ کر پولیس نے بھی فورس کا استعمال کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے اور نوجوانوں پرفائرنگ کردی۔ اس دوران پولیس نے کچھ افراد کو موقع سے گرفتار بھی کیا۔ جامع مسجد کی سیکورٹی عدالت کے فیصلے کے بعد بڑھا دی گئی تھی اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے تھے لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے اب جامع مسجد کی سیکورٹی مزید بڑھا دی گئی ہے۔
دراصل، اتر پردیش میں، پولرائزیشن کی نیت سے مسلمانوں کے خلاف مسلسل اشتعال انگیز کارروائی کی جا رہی ہے۔ ہندو تنظیموں کی شکایت پر تمام مساجد کے کاغذات کی جانچ کی جا رہی ہے۔ انہیں نوٹس بھیجے جا رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ ماحول کو کس طرح خراب کیا جا رہا ہے اس کی ایک مثال دارالحکومت لکھنؤ کے استی گاؤں کا واقعہ ہے۔ الہ آباد یونیورسٹی طلبہ سیل کے سابق صدر لال بہادر سنگھ کی رپورٹ کے مطابق استی گاؤں میں ستر فیصد ٹھاکر ہیں اور صرف 32 گھر مسلمان ہیں۔ ایک دفعہ گاؤں کے ہندوؤں نے مسلمانوں کو زمین کا ایک ٹکڑا دیا تھا جس پر مسجد بنی تھی۔بارہ وفات کے دن مسلمانوں نے پولیس کی اجازت سے ایک چھوٹا سا پروگرام منعقد کیا تھا۔ پروگرام جاری تھا کہ بی جے پی کے جھنڈے والی گاڑیاں وہاں پہنچنا شروع ہوگئیں اور پولس کی موجودگی میں وہ ہنگامہ کرتے رہے۔ مسلمانوں پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔درحقیقت یہ ایک نمونہ بن چکا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ضمنی انتخابات کے دوران کئی مقامات پر پولس انتظامیہ نے جس طرح مسلم ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکا وہ جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔ تاہم عوام اپنے طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں۔مظفر نگر کے میراپور میں انسپکٹر کا اپنی پستول ان پڑھ غریب خواتین کی طرف اشارہ کرنے کا ویڈیو وائرل ہو گیا ہے جو بہادری کے ساتھ اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے پرعزم تھیں۔ محنت کش پسماندہ طبقات کا اپنے ووٹ کے بنیادی جمہوری حق کے تحفظ کا یہ جذبہ اور حوصلہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو زندہ رکھے گا۔
اس جنونیت کے خلاف آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں، لیکن وہ ابھی تک طوفان کا رخ موڑ نہیں پا رہیں، یہ صورتِ حال بھارت کے مستقبل اور داخلی استحکام کے لیے بھی انتہائی پریشان کن ہے، جو آگ جلائی جا رہی ہے، اگر وہ پھیلتی گئی تو جنونی بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ باقاعدہ ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت مسلمانوں کی تعداد کم سے کم کرنے کی کوشش مقصود ہے، لیکن شاید نریندر مودی اور یوگی اس فاشسٹ سوچ کے مضمرات سے واقف نہیں ہیں۔ ملک میں آنے والے دِنوں میں کمزور اقلیتوں کی جانب سے رد عمل دیکھا جا سکتا ہے، جس کا نتیجہ ہندو مسلم فسادات اور خونی تصادم کی شکل میں سامنے آئے گا، بات یہیں رکتی نظر نہیں آ رہی۔ ظلم و بربریت کا سلسلہ نہ رکا تو ملک کی وحدت متاثر ہو سکتی ہے۔
مضمون نگار انصاف منچ نامی تنظیم سے وابستہ ہیں۔