سید محفوظ عالم اور ان کی ادبی خدمات
انوار الحسن وسطوی
سید محفوظ عالم جمشید پور (جھارکھنڈ) کے مشہور "کریم سٹی کالج” میں اردو کے استاد ہیں – موصوف کی تحریر و تصنیف کا سلسلہ تقریبا 40 سال پر محیط ہے – یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ایک پختہ مشق اور مستند ادیب، ناقد اور صحافی ہیں – ان کا آبائی وطن شکرپور، مہوا(ویشالی) ہے – جو راقم السطور کے آبائی موضع حسن پور وسطی سے دو کلومیٹر پورب کی جانب واقع ہے – ان دونوں بستیوں کے درمیان موضع غوث پور، چک مجاہد ہے جہاں نصف صدی قبل طب یونانی کے مستند حکیم اور اردو و فارسی کے کہنہ مشق شاعر سید محمد احسن عسکری گزرے ہیں جو معروف ادیب و ناقد اور محقق و شاعر پروفیسر منظر اعجاز (مرحوم) کے خالو جان تھے – حکیم صاحب موصوف حکمت کے ساتھ ساتھ فن خطاطی کے بھی ماہر تھے – فارسی دانی ایسی تھی کہ اچھے اچھے فارسی داں کی پالکی رکھا جاتی تھی – جب وہ فارسی بولنے لگتے تو لگتا کہ یہ ان کی مادری زبان ہے – اسی خطہ سرزمین کی پیداوار سید محفوظ عالم ہیں جن کی تاریخ پیدائش 31 جولائی 1956 ہے – سید محفوظ عالم کے والد گرامی کا نام سید مقصود عالم ہے جو درس و تدریس سے وابستہ تھے – 1956 عیسوی میں ہی وہ تلاش معاش کی غرض سے کلکتہ چلے آئے اور یہاں کے ” اسمعیل اسٹریٹ” کی لال مسجد میں اپنا ذاتی مدرسہ قائم کیا – 1962 میں وہ اپنے صاحبزادے محفوظ عالم کو بھی کلکتہ لے ائے اور ان کا داخلہ "مدرسہ عالیہ” کلکتہ میں کرا دیا – 1974 میں محفوظ عالم نے ہائر سکنڈری کا امتحان پاس کیا اور آگے کی تعلیم کے لیے اپنا داخلہ بنگلہ باسی مارننگ کالج کے بی ایس سی درجے میں کرایا مگر چند نامساعد حالات کے سبب پارٹ ون کرنے کے بعد پڑھائی ترک کر دی – پھر حصول تعلیم کی راہ میں آئی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے انہوں نے 1978 میں پرائیویٹ طور پر بی اے پاس کر لیا-
1980 میں جب مغربی بنگال اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا تو اس کے شعبہ کتابت میں تربیت حاصل کرنے کے لیے اپنا داخلہ کرا لیا- ان کے ساتھ کلیم حاذق، عنبر شمیم، اکبر حسین اکبر، عبداللہ سنجر، مشتاق احمد جامی، سید حسین احمد زاہدی، عبدالغفار نظر، غلام اسیر اور مختار الحق نے بھی داخلہ لیا تھا – فن کتابت سے بہرہ ور ہونے کے بعد سید محفوظ عالم روزنامہ "اخبار مشرق” کلکتہ میں بحیثیت کاتب ملازم ہو گئے لیکن دوسرے ہی سال اس ملازمت کو چھوڑ کر ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرنے لگے- وہ ملازمت انہیں راس نہیں آئی چنانچہ ایک سال کے اندر ہی استعفا دے کر اس سے الگ ہو گئے اور ذاتی طور پر کتابت و طباعت سے منسلک ہو کر پیشہ ورانہ کام انجام دینے لگے – پھر 1982 میں کلکتہ کے مشہور اردو روزنامہ” آزاد ہند” سے وابستہ ہو گئے – اس اخبار میں کتابت کی ملازمت کرتے ہوئے انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے 1987 میں اردو میں ایم – اے کیا – اعلی تعلیم سے بہرہ ور ہونے کے باوجود انہوں نے سرکاری ملازمت سے منسلک ہونے کے بجائے کاروبار کو ہی ترجیح دی – انہوں نے اپنے ہم جماعت نامور طنز و مزاح نویس سید احمد زاہدی کے اشتراک سے ایک پریس کھولا – لیکن کچھ ہی دنوں بعد وہ پریس بند ہو گیا- لیکن محفوظ عالم اس پیشے سے حسب سابق جڑے رہے – اسی اثنا 1985 میں وہ جمشید پور کے سید ریاست حسین کی صاحبزادی رضیہ سلطانہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور یکے بعد دیگرے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ ہو گئے – تقریبا 30 برسوں تک کتابت کمپوزنگ اور طباعت کے کام کو ذریعہ معاش بنائے رکھا – 2016 میں سید محفوظ عالم کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا جب وہ اپنے دیرینہ رفیق اور "مدرسہ عالیہ” کلکتہ کے ہم جماعت ڈاکٹر محمد زکریا، پرنسپل، "کریم سٹی کالج” جمشید پور کی نظر عنایت سے کریم سٹی کالج کے انٹر سیکشن میں اردو کے استاد مامور کیے گئے- اس طرح کالج میں درس و تدریس کا سید محفوظ عالم کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا- جس کی خواہش ان کے دل میں برسوں سے انگڑائی لے رہی تھی- آج وہ اپنی اس ملازمت سے مطمئن ہیں- خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں اور خاموشی سے گیسوئے اردو سنوارنے میں منہمک ہیں- دعا ہے کہ ان کا یہ ذوق ہمیشہ باقی رہے- ادبی خدمات :- سید محفوظ عالم حصول معاش کی خاطر خواہ جتنا بھی کاروباری رہے ہوں لیکن وہ ہمیشہ اندر سے سرتاپا ادیب رہے – مدرسہ عالیہ کے زمانہ طالب علمی کے دوران انہوں نے 1971 میں اسکول میگزین کے لیے اپنا اولین مضمون بعنوان "ایاز” لکھا- پھر 1976 میں فلم ویکلی کے لیے "انٹرویو” عنوان سے افسانہ لکھا- آگے چل کر ان کا رجحان ادب اطفال کی طرف مائل ہو گیا اور ان کی کہانیاں ماہنامہ "نور” رام پور ماہنامہ "امنگ” دہلی اور ماہنامہ "نرالی دنیا” دہلی میں بھی شائع ہونے لگیں – انہی دنوں انہوں نے” آج کا سکندر” نام سے بچوں کے لیے ایک ماہنامہ ذاتی طور پر نکالنا شروع کیا جس کا پہلا شمارہ مارچ 1994 میں منظر عام پر آیا اور آخری شمارہ اسی سال نومبر میں نکل کر بند ہو گیا- اس رسالے کی اشاعت کے دوران سید محفوظ عالم نے خود بھی کئی مضامین قلم بند کیے- یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رسالہ کی اشاعت بند ہوتے ہی ان کا قلم بھی رک گیا اور یہ سکوت برسوں پر محیط رہا – پھر 2013 میں جناب محفوظ عالم میں حرکت اس وقت پیدا ہوئی جب انہوں نے ادبی ادارہ” بزم نثار” کلکتہ سے وابستگی اختیار کی-” بزم نثار” کے ماہانہ جلسوں کے لیے انہوں نے نہ صرف تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے بلکہ افسانہ نگاری پر بھی طبع آزمائی شروع کی- اسی دوران ان کی پہلی کتاب” عجوبہ مشین اور دوسری کہانیاں” 2015 میں مغربی بنگال اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی – اس میں کل 12 کہانیاں ہیں جو برائے اطفال ہیں اور دلچسپ و سبق آموز ہیں –
سید محفوظ عالم کے ادبی مضامین کا پہلا مجموعہ "نگارشات محفوظ” کے نام سے 2018 میں منظر عام پر آیا جس میں ان کے 16 ادبی مضامین شامل ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر کلکتہ کے اخبارات و رسائل میں شائع شدہ ہیں – ان کے یہ مضامین دو نوعیت کے ہیں- اول” تحقیق و تنقید” اور دوم "حیات و شخصیت” – اول الذکر کے زمرے میں مولانا محمد اسحاق حسن عرفی، حشمت کمال پاشا، سعید پریمی، صادق رائے بریلوی، شائق مظفر پوری، احمد الیاس اور جاوید نہال ہاشمی پر لکھے مضامین آتے ہیں – جبکہ آخری الذکر کے ضمن میں اقبال کرشن، سید منیر نیازی، قاضی نذر الاسلام، عطاء الرحمن اور محب الرحمن کوثر پر لکھے مضامین شامل ہیں – 2022 میں محفوظ عالم کی دوسری کتاب "ابوالکلام رحمانی کی ادبی خدمات” منظر عام پر آئی – یہ کتاب ابوالکلام رحمانی کی ادبی خدمات پر لکھے گئے مختلف مضامین اور تبصروں کو مرتب کر کے ایک مفصل مقدمہ کے ساتھ شائع ہوئی – ابوالکلام رحمانی کا تعلق بھی کلکتہ کی صحافت سے رہا ہے – ادب سے بھی ان کی گہری وابستگی تھی- ان کے انشائیے اور ادبی تذکرے کتابوں کی شکل میں قاری کی توجہ کا مرکز بنتے رہے ہیں – سید محفوظ عالم کی تیسری کتاب جو ان کے شخصی، تنقیدی اور تبصراتی مضامین کا دوسرا مجموعہ ہے وہ بنام "مقالات محفوظ” 2023 میں منصئہ شہود پر آئی ہے- یہ کتاب بھی مغربی بنگال اردو اکادمی کے مالی تعاون سے ہی شائع ہوئی ہے – اس مجموعہ مضامین میں ان کے کل 20 مضامین شامل ہیں جن میں چند مضامین شخصیت پر تحریر کردہ ہیں جبکہ چند مضامین تنقیدی اور کتابوں کے تبصرے پر مشتمل ہیں – جن مرحوم شخصیات پر مضامین شامل کتاب کیے گئے ہیں ان میں احمد سعید ملیح آبادی، وکیل اختر، نور الہدی، اقبال جاوید اور تابش عظیم آبادی کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں – مضامین کی فہرست میں ایک اہم مضمون انیس رفیع کی افسانہ نگاری پر بھی ہے – جدید افسانہ نگاروں میں انیس رفیع اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں- موصوف کا تعلق بہار کے ضلع ویشالی کی ایک بستی سلیم آباد، پھلہرا، حاجی پور سے ہے – اب وہ مستقل طور پر کولکاتہ میں مقیم ہیں-زیر تذکرہ کتاب میں جن قلم کاروں، ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں پر مضامین شامل ہیں ان میں سید احمد شمیم، مہتاب انور، ناصر راہی، تنویر اختر رومانی، صابرہ خاتون حنا، ڈاکٹر سید حسین احمد زاہدی، ڈاکٹر محمد زکریا، اشرف علی اشرف اور خورشید ازہر کے نام شامل ہیں –
سید محفوظ عالم کے مضامین کی ادبی معنویت کو مثالوں سے ثابت کرنے کی گنجائش اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں ہے- پھر بھی ان کے مضامین کے تعلق سے یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے مجموعہ مضامین” نگارشات محفوظ” اور "مقالات محفوظ” کے مطالعے سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہوتی ہے کہ موصوف کے سارے مضامین و مقالات زبان و بیان کے اعتبار سے معیاری، مواد کے اعتبار سے معلومات افزا اور نفس مضمون کے لحاظ سے بہت ہی دلچسپ اور فرحت بخش ہیں- جس کا اندازہ قاری از خود ان کتابوں کے مطالعے سے لگا سکتے ہیں- سید محفوظ عالم کے تعلق سے یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے ان مضامین کے ذریعہ چند ایسی شخصیتوں کی ادبی خدمات سے قاری کو متعارف کرایا ہے جو اردو حلقے میں گرچہ کم معروف یا غیر معروف رہی ہیں لیکن خاموشی کے ساتھ اردو شعر و ادب کی خدمت کی ہے- ایسے ادیبوں، قلم کاروں اور شاعروں کی خدمات کو اجاگر کر کے سید محفوظ عالم نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے – محفوظ عالم کے ان مضامین کے مطالعہ سے ان کے وسعت مطالعہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے- موصوف کے وہ مضامین جو تبصرے اور تجزیے پر مبنی ہیں اس میں انہوں نے ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے جس سے ان کی تنقیدی بصیرت کا بھی پتہ چلتا ہے- توقع ہے کہ ان کی نگارشات اور تصانیف ادب کی دنیا میں پذیرائی حاصل کریں گی اور مستقبل میں وہ ایک مشہور نثر نگار کی حیثیت سے جانے جائیں گے- آخر میں سید محفوظ عالم کے لیے میری یہ دعا ہے کہ” اللہ کرے زور قلم اور زیادہ” –