شبیر شاد : تم سے شرمندہ ہوں

معصوم مرادآبادی

”بھائی معصوم، السلام علیکم، آپ کی لکھی چند سطریں میرے جیسے کے لیے بہترین تحفہ ہوں گی، زندگی میں لکھ دیں گے تو مجھے بھی پڑھنے کا موقع مل جائے گا۔

آپ کا

شبیر شاد

یہ دوسطریں واٹس ایپ پر لکھ کر شبیر شاد نے مجھے ایک سال پہلے بھیجی تھیں۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ اپنی کچھ تحریریں بھیجیں تاکہ میں ان کی روشنی میں کچھ لکھ سکوں، لیکن انھوں نے کہا کہ ”میں نے اپنے مضامین اور تحریریں محفوظ نہیں رکھی ہیں۔ ایک مجموعہ کلام شائع ہوا تھا، وہ بھی دستیاب نہیں ہے۔“میں سوچ ہی رہا تھا کہ شبیر شاد پر کیا لکھوں کہ اب انھوں نے یہ موقع مجھے بہ انداز دگر فراہم کیا ہے۔

شبیر شاد : تم سے شرمندہ ہوں
شبیر شاد : تم سے شرمندہ ہوں

مجھے افسوس ہے کہ میں ان کی زندگی میں ان پر کچھ لکھ نہیں سکااور آج مجھے ان کے انتقال پر یہ تعزیتی تحریر لکھنی پڑرہی ہے۔ اس کااندازہ قطعی نہیں تھاکہ وہ اتنی جلدی ہم سے رخصت ہوجائیں گے، مگر موت برحق ہے اور ہر ذی روح کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔ بہرحال شبیر شاد کی فرمائش پوری نہ کرپانے پر میں شرمندہ ضرور ہوں۔

آج صبح جب سوشل میڈیا سے شبیر شاد کے انتقال کی خبرملی تو مجھے اس پر یقین نہیں آیا۔ تصدیق کرنے کے لیے پہلا فون ” انقلاب ” کے ایڈیٹر برادرم ودود ساجدکو کیا تو وہ بھی میری ہی کیفیت سے دوچار تھے۔شبیر شاد، ودود ساجد کے قریب ترین دوست اور معتمد خاص تھے۔ وہ روزنامہ ’انقلاب‘ سے وابستہ تھے اور سہارنپور سے بطور نامہ نگار خدمات انجام دے رہے تھے۔ میں نے انھیں ہمیشہ ہشاش بشاش اور تراشیدہ دیکھا۔ ان کے چہرے اور جسم پر بیماری اورآزاری کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔ ایسا ہنستا مسکراتا ہوا انسان جب اچانک بچھڑتا ہے تو غم کچھ سِوا ہو ہی جاتا ہے۔شبیرشاد میرے ہم عمر تھے اور انھوں نے اسی دور میں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا جب میں اس راہ کا مسافر ہوا تھا۔ ان سے گاہے بہ گاہے دہلی کے اخباری کوریڈور میں ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔ مجھے ان پر رشک آتا تھا کہ صحافت کی دنیا سے وابستہ ہونے کے باوجود وہ بڑے اطمینان کی زندگی گزارتے ہیں۔ انھیں سیروسیاحت سے دلچسپی تھی۔ صحافت ان کا شوق ضرور تھا، لیکن انھوں نے کبھی اس پر انحصار نہیں کیا، بلکہ گزراوقات کے لیے کچھ دیگر ذرائع اختیار کئے۔یوں بھی اردو صحافت پر انحصار کرکے کوئی شخص فارغ البال نہیں ہوسکتا۔

شبیر شاد جب دہلی کی اردو صحافت سے وابستہ ہوئے تھے تو اس دورمیں ان ہی کی طرح کئی اورصحافی بھی سرگرم عمل تھے۔ ان میں شاہد زبیری (سہارنپور) محمداحمدشیون (علی گڑھ) کامران زبیری (میرٹھ)فضل شاہ فضل (رامپور) اورخلیل احمدخلش (مرادآباد)کے نام قابل ذکر ہیں، جو اپنے اپنے ضلعوں سے بہترین رپورٹنگ کرتے تھے۔آج ایسی مرصع رپورٹنگ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔’قومی آواز‘ کے بعد ’راشٹریہ سہارا‘اور اس کے بعد ’انقلاب‘ ان کی صحافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ ان میں شبیر شاد سب سے زیادہ بھاگ دوڑ کرنے والوں میں تھے اور ان سے کوئی خبر چھوٹتی نہیں تھی۔شبیر شاد کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ دہلی کے سرکردہ صحافیوں کے رابطہ میں تھے اور ان کا دہلی آنا جانا برابر لگا رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے سینئر صحافیوں سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا۔ ان میں ان کے ہم وطن اور روزنامہ ’الجمعیۃ‘ کے ایڈیٹر ناز انصاری کا نام خاص طورپر قابل ذکر ہے، جو ان کے والد مقبول قریشی کے دوست تھے او ر اس رشتے سے وہ انھیں ’چچا محترم‘کہا کرتے تھے۔ ’قومی آواز‘ سے بطور نامہ نگار وابستگی کے دوران انھوں نے سینئر سب ایڈیٹر مولانا رحمت اللہ فاروقی سے بھی صحافت کے اسراررموز سیکھے۔ میں نے جب مولانا رحمت اللہ فاروقی کے انتقال پر تعزیتی مضمون لکھا تو اسے پڑھ کر شبیر شاد نے مجھے واٹس ایپ پر ایک خط لکھا تھا، جس میں ان کی صحافتی زندگی کی داستان بڑی حدتک سمٹ آئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”مولانا رحمت اللہ فاروقی صاحب سے مجھے بھی کچھ سیکھنے کا موقعہ’قومی آواز‘میں ملا تھا۔میں نے بھی قومی آواز میں 2008تک (لگ بھگ18 سال)رپورٹنگ کی۔ مولانا فاروقی سے آخری گفتگو ڈاکٹر فاروق کے گھر جناب منصور آغا کی جانب سے منعقدہ ایوارڈ تقریب میں ہوئی تھی۔وہ میرے والد (حاجی مقبول قریشی)کے قریبی دوست (میرے محترم چچا)ناز انصاری صاحب کی وجہ سے بھی مجھ سے شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔ بے شک جو اوصاف آپ نے بیان کیے ہیں وہ سب مرحوم میں نمایاں تھے،اللہ درجات بلند کرے(آمین)

میں بھی لگ بھگ18 برس (1990) سے’قومی آواز‘ کا رپورٹر رہا۔ اس سے قبل آٹھ برس روزنامہ’مشرقی آواز‘ اور دوسرے اخبارات میں محترم ناز انصاری مرحوم کی سرپرستی میں رپورٹنگ کرتا رہا۔ کبھی وقت نکال کر بندہ پر بھی کچھ تحریر فرمادیں، گو کہ میں 40 سالہ صحافتی سفر میں کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دے سکا جس کو داد و تحسین سے نوازا جا سکے ، مگر آپ جیسے معتبر اور سینئر صحافی کی سند مجھے بھی مل جائے تو کرم ہوگا۔ پچھلے گیارہ سال سے’انقلاب‘ سے وابستہ ہوں۔ یہ سب آپ بخوبی جانتے بھی ہیں۔

آپ کا شبیر شاد "

مجھے واقعی شبیر شاد کی فرمائش ان کی زندگی میں پوری نہ کرپانے کا ہمیشہ قلق رہے گا۔ خدا ان کی قبر کو نور سے بھردے۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare