شمالی ہند کے مدرسہ بورڈ اور عربی و فارسی یونیورسٹی پر ایک نظر

  ( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی

میرا مطالعہ

مدارس کا مسلم سماج کے درمیان تعلیم کی ترویج و اشاعت میں اہم رول رہا ہے ، مسلمان جہاں جہاں گئے ، وہاں تعلیم کا انتظام کیا ، جس میں تمام طبقات کے لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے ، ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ہوئی ، تو انہوں نے یہاں بھی تعلیم کے فروغ کے لئے مدارس قائم کئے ، چنانچہ تقریبا 800 سال تک مدارس ہی تعلیم کے اہم ادارے تسلیم کئے جاتے رہے ، اسی کے تعلیم یافتہ ہر میدان کی ضروریات کو پوری کرتے رہے ، اس طرح ہندوستان میں تعلیم کی ترویج و اشاعت میں مدارس کا اہم رول رہا ،

شمالی ہند کے مدرسہ بورڈ اور عربی و فارسی یونیورسٹی پر ایک نظر
شمالی ہند کے مدرسہ بورڈ اور عربی و فارسی یونیورسٹی پر ایک نظر

ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد اس ملک پر انگریزوں کا تسلط ہوگیا ، تو انگریزوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے یہاں رائج زبانوں کو سیکھنے سکھانے کی جانب توجہ دی ، اسی مقصد کے تحت انہوں نے اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کے ساتھ مدارسِ ، سنسکرت پاٹھ شالے ، گروکل وغیرہ کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے بھی کام کیا ، چنانچہ اس کے لئے ایک منصوبہ کے تحت پہلے مدارس اور سنسکرت پاٹھ شالے کی تعلیم کو آگے بڑھانے پر کام کیا ، اور اس کے لئے حکومت کی جانب سے سنسکرت پاٹھ شالے اور مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کا منصوبہ بنایا گیا ، چنانچہ اسی منصوبہ کے تحت سب سے پہلے 1780 میں بنگال میں مدرسہ عالیہ کلکتہ سے اس کی شروعات کی گئی ، اس میں مخلوط دینی اور عصری مضامین پر مشتمل نصاب تعلیم کو جاری کیا گیا ، 1915 میں اس میں اصلاحات کی گئیں ، اور بنگال مدرسہ ایکزامینیش بورڈ بنایا گیا ، بنگال مدرسہ بورڈ خوب آگے بڑھا ، اس کو 1927 میں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا درجہ دیا گیا ، پھر 1950 میں اس کا نام بدل کر مغربی بنگال مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کردیا گیا ، اس سے بہت سے مدارس ملحق ہوئے ، سرکار نے مدرسہ بورڈ کی سرٹیفکیٹ اور ڈگری کو سرکاری ملازمت کے لئے منظور کیا ، اس لئے عوام و خواص کی دلچسپی مدرسہ بورڈ کی جانب بڑھی، یہ ہندوستان کا سب سے قدیم مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ہے ، جو ابھی تک جاری ہے ، گرچہ موجودہ وقت میں اس کے نصاب تعلیم میں بہت تبدیلی کردی گئی ہے

بنگال کے بعد انگریزی حکومت کی جانب سے دیگر مقامات پر بھی مدارس اور سنسکرت کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے منصوبہ تیار ہوا ، اس زمانہ میں پٹنہ میں جاری مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی کو بڑی شہرت حاصل تھی ، یہ مدرسہ پٹنہ سائنس کالج کے مدمقابل اشوک راج پتھ پر واقع ہونے کی وجہ سے بہت پرکشش ہے ، اس کے بانی جسٹس نور الہدیٰ رح نے اس مدرسہ کو 1919 میں حکومت کی تحویل میں دے دیا ، چنانچہ کاغذی کاروائی مکمل ہونے کے بعد 1920 سے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ نے سرکاری تحویل میں کام کرنا شروع کردیا ، اس میں دینی اور عصری مضامین پر مشتمل نصاب تعلیم جاری کیا گیا ، پھر 1922 میں بانی مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کی تحریک پر حکومت نے مدرسہ ایکزامینیش بورڈ بہار و اڑیسہ قائم کیا ، اس بورڈ سے بہت سے مدارس ملحق ہوگئے ، اس بورڈ کی سرٹیفکیٹ اور ڈگری کو ملازمت کے لئے سرکار نے منظوری دی ، اس طرح بورڈ کا نظام چلتا رہا ، پھر اڑیسہ میں مدرسہ بورڈ قائم ہوا ، تو بہار مدرسہ بورڈ صرف بہار کے لئے رہ گیا ، پھر ایکٹ 1981 کے ذریعہ مدرسہ ایکزامینیش بورڈ کو تحلیل کر کے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کردیا گیا ، اس کے نصاب تعلیم میں مزید عصری مضامین شامل کر دیئے گئے ، جس کی بنیاد پر حکومت بہار نے گزٹ کے ذریعہ اس کی سرٹیفکیٹ اور ڈگری کو سرکاری ملازمت اور اعلی عصری تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لئے منظوری دی ، مختلف یونیورسٹیوں نے بھی مدرسہ بورڈ کی سرٹیفکیٹ اور ڈگری کی مساوات کو منظوری دی ، جس کی وجہ سے یونیورسٹی میں بہار مدرسہ بورڈ کی اسناد پر داخلہ کا کام جاری رہا ،

بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ موجودہ وقت میں سے زیادہ اہم اور مقبول بورڈ ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں ریاستی حکومتوں کی جانب سے مدرسہ بورڈ کے قیام کی بات آئی تو ان ریاستوں نے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو اپنا ماڈل بنایا ، اور اسی کے انداز پر دیگر ریاستوں میں مدرسہ بورڈ قائم کئے گئے

یوپی میں 1916 سے مدارسِ کی تعلیم کے فروغ کے لئے عربی و فارسی بورڈ آلہ آباد کام کر رہا تھا ، مدارس کے نصاب اور نظام کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے وہاں بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے انداز پر یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام عمل میں آیا ، یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ابھی بھی کام کر رہا ہے ، اس سے یوپی کے بہت سے مدارس ملحق ہیں ، یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ایکٹ 1981 سے اخذ کیا گیا ہے

1998 میں مدھیہ پردیش حکومت کی جانب سے مدرسہ بورڈ کا قیام عمل میں آیا ، اور اس کا نام مدھیہ پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ رکھا گیا ، اس بورڈ کا خاکہ بھی بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے نہج پر تیار کیا گیا ، اور اس کا ایکٹ بھی بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے مستفاد ہے ،

جھارکھنڈ کے مدارس ملحقہ پہلے بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق تھے ، جھارکھنڈ الگ اسٹیٹ بننے کے بعد وہاں ایجوکیشن کونسل بنادیا گیا ، اسی کے تحت مدارس ملحقہ کے کام انجام پذیر ہوتے تھے ، خبر کے مطابق اب جھارکھنڈ میں باضابطہ مدرسہ بورڈ کا قیام عمل میں آرہا ہے ، توقع ہے کہ جھارکھنڈ مدرسہ بورڈ کے قیام میں بھی بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو ماڈل بنایا جائے گا

مذکورہ بالا تمام بورڈ کا نصاب تعلیم دینی اور عصری مضامین پر مشتمل ہے ، عصری مضامین تقریبا اسکول کے مطابق ہیں ، یہ نصاب تعلیم عصری تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم کے مطابق درجہ وار ہیں ، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے موجودہ نصاب تعلیم کے اعتبار سے درجات اور سال کی تفصیل حسب ذیل ہے

تحتانیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ 5/ سال ۔۔۔پرائمری

وسطانیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔3/ سال ۔۔ مڈل

فوقانیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔2/سال ۔۔۔۔ سکنڈری

مولوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔2/سال ۔۔۔۔انٹرمیڈیت

عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3/ سال ۔۔۔گریجویشن

فاضل ۔۔۔۔۔۔۔۔2/ سال ۔۔۔۔ایم اے

بقیہ بورڈ کے نام میں کچھ فرق ہے ، مگر سبھی سال میں عصری اداروں کے مطابق ہیں ، مدرسہ بورڈ کے نصاب تعلیم میں عصری مضامین شامل ہونے کی وجہ سے ان کی سرٹیفکیٹ اور ڈگریوں کو حکومت کی جانب سے عصری اداروں کی سرٹیفکیٹ اور ڈگریوں کے مساوی قرار دیا گیا ، یہ مساوات ملازمت میں بھی ہے اور عصری اداروں میں داخلہ میں بھی ہے ، جیسے فوقانیہ سکنڈری کے مساوی ہے ، تو فوقانیہ پاس کرنے کے بعد سکنڈری پاس کے تمام عہدوں پر تقرری کے بھی اہل سمجھے جائیں گے اور براہ راست انٹرمیڈیٹ میں بھی داخلہ کے اہل سمجھے جائیں گے ، اسی طرح مولوی کا بھی ہے ، مولوی انٹرمیڈیٹ کے مساوی ہے ، تو مولوی پاس ان تمام عہدوں پر تقرری کے اہل ہیں ، جن میں انٹرمیڈیٹ کی سرٹیفکیٹ مطلوب ہے ، یہ تو تقرری کا معاملہ ہے ، جہانتک داخلہ کی بات ہے تو مولوی پاس امیدوار براہ راست کالج کے گریجویشن میں داخلہ لے سکتے ہیں ، اس طرح شمالی ہند میں مدرسہ بورڈ کا نظام رائج ہے ،اور اہل مدارس اس سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں

موجودہ وقت میں یوپی مدرسہ بورڈ کا معاملہ سرخیوں میں ہے ، اس کا معاملہ یہ ہے کہ کسی نے آلہ آباد ہائی کورٹ میں اپیل کیا تھا کہ یوپی کے مدارسِ یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ 2004 کے مطابق چل رہے ہیں ، اس ایکٹ 2004 کے مطابق مدارس کے نصاب تعلیم میں دینی تعلیم دینے کا بھی انتظام ہے ، یہ مدارس سرکاری فنڈ سے چلتے ہیں ، سرکاری فنڈ سے چلنے والے ادارے میں دینی تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے ،یہ ملک کے آئین کے خلاف ہے ، اس لئے یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ 2004 کو مسترد کیا جائے ، اس میں ترمیم کی جائے ، آلہ آباد ہائی کورٹ نے اس اپیل کی سماعت کی اور یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ 2004 کو غیر قانونی قرار دے دیا ، جس کی وجہ سے اہل مدارس پریشانی سے دو چار ہوئے

یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ 2004 کے مطابق کامل اور فاضل بالترتیب گریجویشن اور ایم اے کے مساوی ہیں ، حکومت نے جب تک کامل و فاضل کی ڈگری بورڈ کے ذریعہ دلایا ، وہ قابل قبول رہا ، اب کورٹ کے ذریعہ پابند کیا جارہا ہے کہ کامل اور فاضل کی ڈگریاں جو گریجویشن اور ایم اے کے مساوی ہیں ، وہ بورڈ کے ذریعہ نہیں دی جاسکتی ہیں ، تو اب حکومت کی جانب سے یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی ، اور کامل اور فاضل جو گریجویشن اور ایم اے کے مساوی ہیں ، ان کے لئے الگ سے یونیورسٹی قائم کی جائے گی یا وہاں موجود کسی یونیورسٹی سے منسلک کر کے کامل اور فاضل کی تعلیم اور امتحان کا انتظام کیا جائے گا ، اس لئے اس میں دشواری کی کوئی بات نہیں ہے ، اللہ کرے کہ انتظام مناسب اور مدارس کے لئے مفید ہو ،

ماضی میں سرکاری بورڈ سے ملحق مدارس کی تعلیم بھی بہت اچھی رہی ، بڑے قابل علماء اور دانشوران پیدا ہوئے ، مگر موجودہ وقت میں یہ ادارے سرخیوں میں رہتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ پہلے مدرسہ بورڈ آزادی کے ساتھ تعلیم و تربیت کی خدمات انجام دیتے تھے ، لیکن موجودہ وقت میں حکومت کی مداخلت زیادہ ہوگئی ، مجلس منتظمہ میں اچھی فکر کے لوگ کم رہ گئے ، اساتذہ سبکدوش ہوتے رہے ، حکومت نے بحالی کی اجازت نہ دی ، جس کی وجہ سے تعلیمی حالت ماضی کے مقابلے میں کمزور ہوگئی ، ویسے موجودہ وقت میں بہت مدارس ہیں جو اپنے معیار کو باقی رکھے ہوئے ہیں

یہ تو سرکاری بورڈ کی بات ہے ، جہانتک غیر سرکاری پرائیویٹ مدارس کی بات ہے تو پرائیویٹ مدارس کو مربوط کرنے کے لئے شمالی ہند میں تنظیم رابطہ مدارس اور وفاق المدارس قائم ہیں ، تنظیم رابطہ مدارس سے دارلعلوم دیوبند سے متعلق مدارس ملحق ہیں ، یہ پورے شمالی ہند کے لئے ہے ، جبکہ وفاق المدارس امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ ، جھارکھنڈ اور بنگال کے تحت جاری ہے ، یہ پرائیویٹ بورڈ ہیں ، ان سے مدارس ملحق ہیں ، ان سے ملحق مدارس کا ایک مربوط نظام ہے ، نصاب تعلیم ایک ہے ، تمام مدارس کے امتحانات ایک ساتھ ہوتے ہیں ، جس طرح سرکاری بورڈ ہے ،اسی طرح یہ پرائیویٹ بورڈ ہے ، جنوبی ہند میں اس طرح کا نظام دیکھنے میں نہیں آیا ،

جہانتک شمالی ہند میں یونیورسٹی کے قیام کا معاملہ ہے ،تو شمالی ہند میں سرکاری یونیورسٹیاں بھی کام کر رہی ہیں ، اور پرائیوٹ یونیورسٹیوں کا قیام بھی عمل میں آگیا ہے ، مدارس ملحقہ یعنی مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس کے لئے حکومت کی جانب سے مغربی بنگال میں عالیہ یونیورسٹی اور بہار میں مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی قائم کی گئی ہے ، ان دونوں یونیورسٹیوں سے دونوں اسٹیٹ کے مدارس ملحقہ کے عالم اور فاضل درجات ملحق ہیں ، جہانتک پرائیویٹ یونیورسٹی کی بات ہے تو بہار اور یوپی میں کئی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا بھی قیام عمل میں آچکا ہے ، بہار میں امام بخاری یونیورسٹی اور الکریم یونیورسٹی ، جبکہ یوپی میں انٹیگرل یونیورسٹی ، مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی ، خواجہ غریب نواز یونیورسٹی وغیرہ قابل ذکر ہیں

موجودہ وقت میں مدارس پر حکومت کی جانب سے طرح طرح کے اصول و ضوابط نافذ کئے جارہے ہیں ، آئندہ اور بھی خطرات منڈلا رہے ہیں ، اس لئے مدارس کے تحفظ اور اس کی تعلیم کے فروغ کے لیے پرائیویٹ بورڈ اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے قیام کو خاص اہمیت حاصل ہے ، اس لئے اس جانب ابھی سے توجہ کی ضرورت ہے ،

اللہ تعالیٰ نے جنوبی ہند کو بہت سے وسائل سے نوازا ہے ، یہاں کے مسلم سماج کے پاس بحمد اللہ مالی فراخی بھی ہے ، لوگ مثبت فکر بھی رکھتے ہیں ، کام کرنے کا جذبہ بھی ہے ، ابھی حالات سازگار بھی ہیں ، مسلم لیڈران اور علماء کا اثر بھی ہے ، اس سے فائدہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، یہاں بھی پرائیویٹ بورڈ اور یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے کام کیا جائے، تو بہتر ہوگا ، اس کے لئے میسور ، بنگلور وغیرہ مقامات نہایت ہی اہم ہیں ، جنوبی ہند کے علماء اور دانشوران کو اس جانب توجہ کی ضرورت ہے

جہانتک پرائیویٹ یونیورسٹی کی منظوری کی بات ہے تو موجودہ وقت میں حکومت کی جانب سے پرائیویٹ یونیورسٹی کو منظوری دی جارہی ہے ، اس کے لئے دیگر اسٹیٹ میں قائم یونیورسٹی سے رہنمائی حاصل کی سکتی ہے ، تعلیم کے فروغ کے لئے یہ ایک اہم اور مثبت قدم ہوگا ،جزاکم اللہ خیرا

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare