صاحبِ علم وفضل

حضرت مولانا شیخ وسیم احمد سنسارپوری ثم گنگوہی

بہ قلم : محمد ساجد کُھجناوری

استاذ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ

راست طور پر تلمذ کا شرف حاصل نہ ہونے کے باوجود جن اھلِ علم شخصیات کے فضل وکمال نے متأثرکیا اورپسِ مرگ بھی ان کی عالمانہ شان وشوکت کے نفیس تذکرے کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں ایسے "رفتگان نارفتہ ” میں مخدوم گرامی حضرت مولانا وسیم احمد سنسارپوری ثم گنگوہی رحمہ اللہ سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کو سرفہرست رکھا جاسکتا ہے۔

شیخ وسیم احمد سنسارپوری گنگوہی
شیخ وسیم احمد سنسارپوری گنگوہی

واقعی کیاعجیب شخصیت تھی ، اجتماع علم وکمال کی کیسی منفردشان رکھتے تھے ، فی الحقیقت تدریس حدیث ، مطالعہ وتحقیق اورکتب بینی ان کا سرمایۀ حیات تھا تو مقتضیات علم پر کاربند رہنا آپ کا وظیفۀ زندگی ، سچ پوچھئے توعلم وعمل کے اسی توافق نے ان میں محبوبیت کے جوہرٹانک دۓ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ قلیل العلائق اور گوشہ گیر ہونے کے باوصف دیوانوں کا ایک ہجوم آپ کے قرب میں سکون پاتاتھا ، ہٹو بچو اور شورشرابے والی مخلوط زندگی سے گریزاں رہنے والے شیخ وسیم احمد سنسارپوری عالمان دین قیم کے معتمداور جویان علمِ شریعت وطریقت کیلۓ راحت قلب وجان تھے ۔

اھل علم کی مجالس اور مدارس دینیہ کی چہاردیواری سے باہر کے لوگ خواہ وہ قرب مکانی بھی رکھتے ہوں بہت کم ایسے افراد ہوِں گے جنھیں شیخ الحدیث حضرت مولانا وسیم احمد سنسارپوری کے علمی مقام ومرتبہ کا راست طور پر عرفان ہوگا ؟۔ البتہ تلامذہ اوراہل نظر واقفین ومتعلقین کے تجربہ اور مشاہدہ میں بالیقین آپ کی شخصیت جامع علم وفضل اور چشمۀ فیوض وبرکات تھی ۔

آپ کی سادگی ، بے نفسی ، اخفاۓ حال کے دستورکی پیروی اور کم آمیزی کا عالم یہ تھا کہ دور سے دیکھنے والاشخص آپ کو ایک عامی فرد سمجھتا لیکن اگر آپ کے درس حدیث میں شرکت کرلیتا تو زلفوں کا اسیر ہوۓ بغیر نہیں رہتا تھا،

جامعہ اشرف العلوم رشیدی میں کاتب الحروف کی تدریس کا یہ پندرہواں سال ہے اس عرصہ کے پہلے ایک دہے میں مولانا سنسارپوری نوراللہ مرقدہ کو قریب سے دیکھنے اور سفر وحضر میں آپ سے استفادہ کے کتنے ہی حسین لمحات میسر آۓ جن میں آپ کے وفور علم ، روشن حافظہ اور فنا فی التدریس ہونے کےساتھ زبان وبیان کی طہارت اور غیر ضروری باتوں سے کف لسان کاقابل رشک مظاہرہ سامنے آتا۔ وہ جلیل مقاصدکے ہم نوا، بڑے صابروشاکر اور قلیل امیدیں رکھنے والے خدامست انسان تھے ، وہ استاذالاساتذہ اور عالی وقار شیخ الحدیث ہونے کی نسبت سے بھی یقینابہت محترم تھے لیکن انتظامی امور میں دخیل بننے ، اپنے مطالبات منوانے یا از راہ مصلحت مسائل پیداکرنے کے بالکل روادار نہ تھے حتی کہ مشاورت کے بعض اہم موقعوں پر بھی وہ رخصت کوعزیمت پر ترجیح دیتے تھے ۔ عموماساکت وصامت رہتے لیکن بولتے توپھر سب پر بھاری، جہاں سے آشنا مگر بے خبر رہنے میں انھیں قرار ملتا تھا اسی لۓ کسی سے شکوہ یا شکایت کا کوئی حرف آپ کی زبان سے سننے میں نہیں آتاتھا ۔

دراصل انہوں نے ایسی شخصیات اور بافیض رجال کار کا جلوۀ جہاں آرا دیکھا تھا جو متبع سنت وشریعت اور خدمت دین میں رفاقت کا مزاج رکھتے تھے ۔

شیخ وسیم احمد صاحب ہمارے قریبی گاؤں سنسارپور کے رہنے والے تھے جہاں انیس سو باون ( 1952) عیسوی میں حضرت مولانا بشیر احمد مظاہری کے یہاں آپ نے آنکھیں کھولیں جواکابر مظاہرعلوم سہارن پور کے چہیتے اور شہرسہارن پورمیں امامت وخطابت کے ساتھ تفسیری خدمات کیلۓ موفق ایک صالح مردتھے، کچھ شعور پروان چڑھا تو مقامی درسگاہ فیض رحمانی میں ابتدائی تعلیم کیلۓ داخل کراۓ گۓ واضح رہے کہ یہ مدرسہ آپ کے روحانی شیخ اور مربی حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسارپوری قدس سرہ کے آباواجداد کا قائم فرمودہ ہے جنھیں حضرت گنگوہی حضرت راۓ پوری اور حضرت تھانوی قدس اللہ اسرارھم جیسے اھل دل بزرگوں اور مشایخ کا اعتبار واستناد حاصل تھا مرشدی مولانامکرم حسین سنسارپوری طاب اللہ ثراہ جنھوں نے آپ کو اجازت بیعت وخلافت سے نوازرکھاتھا خود بھی قطب زماں حضرت مولاناشاہ عبدالقادر راۓ پوری کے حلقۀ مجازین میں شامل تھے جن کی وفات ابھی چند سال پہلے ہوئی ہے رحمہ اللہ تعالی رحمة واسعة۔

مدرسہ فیض رحمانی سے آپ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ منتقل ہوگۓ جہاں درس نظامی کا ابتدائی تعلیمی مرحلہ شرح جامی تک بصد شوق پورا کیا ابھی جامعہ کے قیام پر محض سولہ سترہ سال گزرے تھے لیکن یہ ادارہ کا عنفوان شباب تھا جس کے نظام تعلیم وتربیت کی عمدگی نے قریب وبعید کے جویان علم کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اس کے مخلص بانی ومدیر حضرت مولاناقاری شریف احمدگنگوہی نے معروف صاحب علم حضرت مولانانسم احمدغازی جیسے باکمال مدرسین کی خدمات حاصل کررکھی تھیں، چنانچہ مولاناوسیم احمد صاحب نے یہاں کے علمی ماحول سے بھرپور استفادہ کرکے انیس سوچوسٹھ ( 1964) عیسوی میں مظاہرعلوم سہارن پور کی راہ لی اور درس نظامی کے بقیہ مراحل طے کرکے سن انیس سو ستر ( 1970) میں سند فراغت حاصل کی ۔ یہاں آپ کے اساتذۀ ذی شان میں حضرت مولانا شاہ محمد اسعد اللہ رام پوری ، فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین اجراڑوی ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جون پوری ، حضرت علامہ محمد صدیق کشمیری ، حضرت مولانامفتی عبدالقیوم راۓ پوری اور موجودہ ناظم وشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدعاقل سہارن پوری مدظلھم جیسے آفتاب وماہتاب شامل ہیں۔

جبکہ رفقاۓ درس میں چند مشاہیر کا تذکرہ کریں تو حضرت مولانا زبیر احمد کاندھلوی ، حضرت مولانا حبیب اللہ چمپارنی مہاجرمدنی، مولانامفتی ظہیرانواربستوی اور حضرت مولانا محمد شاہد سہارن پوری سابق امین عام جامعہ مظاہرعلوم سرفہرست ہیں۔

مولاناسنسارپوری کی نصیبہ وری دیکھۓ کہ مظاہرعلوم سے فراغت کے فورا بعد آپ کے مربی استاذ حضرت مولاناقاری شریف احمد گنگوہی نے تقریبا چھ سال کے بعد اپنےاس ہونہار اور سعادت مند شاگرد کو بحیثیت مدرس گھر واپسی کی دعوت دی جسے آپ نے بسروچشم قبول کرکے جامعہ اشرف العلوم رشیدی سے ہی اپنی تدریسی زندگی کا ایسا بابرکت آغاز کیا کہ ورق حیات پلٹنے تک جامعہ کے ہوکررہ گۓ جس کا دورانیہ نصف صدی پر مشتمل ہے جس میں چھتیس سال تو اصح الکتب بعد کتاب اللہ یعنی بخاری شریف کی تدریس کے ہیں وذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔

دریں اثنا آپ نے یہاں ابتدا تا انتہا درس نظامی کی تمام چھوٹی بڑی کتابیں نیک نامی کے ساتھ اس طرح پڑھائیں کہ مرکزی مدارس تک آپ کی تدریس کا شہرہ ہوگیا اور دارالعلوم ومظاہرعلوم جیسے اداروں کے باذوق طلبہ جمعہ کے روز ہونے والے آپ کے اسباق میں شرکت کرنے لگے تھےیہ اس زمانہ کی بات ہے جب اشرف العلوم گنگوہ میں جمعہ کی بجاۓ سنیچر کو تعطیل ہوا کرتی تھی ۔ حضرت مولانا روشن دماغ مدرس بلندپایہ استاذ اور اصول وفروع پر نگاہ رکھنے والے اصطلاحی عالم تھے ، آپ کتاب نہیں فن پڑھاتے تھے تمام ہی علوم وفنون پر گہری نظر تھی اسی لۓ آپ کے تربیت یافتہ کئی تلامذہ بتاتے ہیں کہ حضرةالأستاذ کا انداز تدریس قدیم فنی اساتذة کی یاددلاتا تھا جو مباحث علم وفن کو پڑھاتے ہوۓ متعقلہ کتاب سامنے نہیں رکھتے تھے مضمون کتاب پر زبانی بحث ہوتی اور آخر میں عبارات کا انطباق کرادیاجاتا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لطیف مضامین اور دقیق بحثوں سے بھی طالب علم مانوس ہوجاتا۔

جامعہ اشرف العلوم میں آپ کی علمی خدمات نقش دوام کی حیثیت رکھتی ہیں آپ کے زمانۀ تدریس وتربیت میں ایسے افاضل تیار ہوۓ جو ملک اور باہر بھی بڑے پیمانے پر قرآن وسنت کے ناشروامین بنے ہوۓ ہیں ، چنانچہ صاحبِ تذکرہ حضرت مولانامحمدسلمان گنگوہی استاذی حضرت مولانامحمدسلمان بجنوری ، حضرت مولانامفتی خالدسیف اللہ گنگوہی ، حضرت مولانامفتی ریاست علی رام پوری، حضرت مولانامفتی مقصوداحمدانبہٹوی ، حضرت حکیم ڈاکٹرمحمدادریس حبان چرتھاولی، حضرت مولانامفتی شعیب اللہ خان بنگلوری اور حضرت مولاناقاری عبدالرؤف بلندشہری وغیرھم آپ کے ہونہار تلامذہ کے بطور خاصے معروف ہیں ۔

شیخ وسیم احمد سنسارپوری مجموعۀ حسنات تھے ان کے روز وشب کھلی کتاب جیسے تھے ، انھیں دیکھ کر صبروشکر اور قناعت پسندی کا مومنانہ حوصلہ ملتا تھا زندگی بھر مقبول تدریس سے وابستگی ان کی شناخت کا روشن حوالہ اور کہیں آنے جانےکا معقول ریفرنس ہوسکتا تھا اتنا ہی نہیں آپ سے ٹوٹ کر محبت رکھنے والے باحیثیت طلبہ بھی اپنے ہاں شیخ کی آمد کیلۓ مشتاق اور چشم براہ رہتے تھے مگر استغنائی شان انھیں پابہ زنجیر رکھتی اور وہ بہ مشکل تمام کسی کی دعوت قبول کرتے۔

جلسے جلوس اور اسفار سے وحشت کی حد تک نفور تھا تاہم بسااوقات اپنوں کی دل جوئی کی خاطر سفر کرلیا کرتے تھے آج سے سات آٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے صوبۀ راجستھان کی مشہورتعلیمی درس گاہ دارالعلوم میل کھیڑلا بھرت پور کے مہتمم وشیخ الحدیث حضرت مولاناراشد علی قاسمی زیدجدھم نے اس خاکسار سے رابطہ کرکے اپنی یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ شیخ وسیم احمد صاحب اگر ہمارے یہاں بخاری شریف کا آخری درس دیدیں تو عنایت بے نہایت ہوگی ، مولانا نے یہ بھی بتایا کہ اس سے پیش ترسالوں میں وہ یہ کوشش کرچکے ہیں لیکن شیخ معذرت کرلیتے ہیں مگر آپ کی سفارش سے یہ سعادت میسر آسکتی ہے ، بندہ نے اپنی سی کوشش بروۓ کار لانے کا مولاناراشد صاحب سے وعدہ تو کرلیا لیکن یہ فکر دامن گیر رہی کہ مبادا شیخ سفر سے معذرت نہ کرلیں ؟۔ بہرکیف عاجز نے ملاقات پر حضرت کی خدمت میں یہ درخواست گزاری تو فرمانے لگے کہ سفر کی ہمت تو نہیں ہے لیکن اگر تم چاہتے ہو تو ایسی ترتیب بناَلیں جس سے سبق کاحرج نہ ہو اور میزبان کا کام بھی ہوجاۓ ۔

چنانچہ سالانہ امتحان کی آمدآمد تھی اور نصابی کتابیں تکمیل سے ہم آشنا تبھی میزبان مکرم کی ہدایات کا پالن کرتے ہوۓ نئی لگزری کار سے راجستھان کا سفر ہوا ، حضرت شیخ کے ہمراہ آپ کے ایک فرزند قاری محمدفہیم اور یہ خاکسار تھا ، آپ کی معیت میں یہ سفر بڑا دلچسپ اور یادگار رہا تھا جس سے شیخ کی عظمت ومحبت مزید بڑھ گئی تھی ۔

میزبان مکرم حضرت مولاناراشدعلی قاسمی نے ہم لوگوں کی راحت رسانی اور عزت افزائی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی بلکہ حضرت شیخ کے پرشوکت استقبال کی خاطر اپنے کچھ احباب کے ہمراہ گروگرام وارد ہوگۓ تھے اور پھر آپ کی رہبری میں ہی ہمارا یہ باقی سفر خوش گوار موڈ میں طے ہوا تھا پہلی مرتبہ میوات کی کچھ تاریخی ہستیوں اور بستیوں کے بارے میں محترم میزبان نے معلومات فراہم کی تھیں ۔

دارالعلوم محمدیہ پہنچے تو ایک وسیع وعریض علاقہ پر محیط اس کی بلندوبالا عمارتیں اپنی خوب صورتی اور شاہ کارطرزتعمیر کا منظرپیش کررہی تھیں اس پرمستزاد تعلیم وتربیت کے حسین سنگم نے دل موہ لیا تھا ،نماز مغرب کے بعد درس حدیث کا حلقہ لگا ، کچھ طلبہ نے عبارت خوانی بھی کی اور پھر وہ تاریخی لمحات بھی سامنے تھے جن کا اھل جامعہ سالوں سے اشتیاق رکھتے تھے ، چنانچہ بخآری شریف کی آخری روایت پر آپ کی عالمانہ اور محدثانہ گفتگو شروع ہوئی تو پچاس منٹ سے زیادہ وقت تک آب رواں کی مانند بولتے رہے ، آپ کا درس مدلل مفصل اور مکمل ہوا کرتا تھا تفہیم حدیث کیلۓ آیات وروایات اور پھر ائمہ کے اقوال وغیرہ اس طرح پیش فرماتے کہ مخاطبین عش عش کرنے لگتے تھے یہاں بھی آپنے شرح وبسط سے آخری حدیث اس طرح پڑھائی کہ طلبہ اور منتظمین کے چہرے کھلے ہوۓ تھے بعد میں شیخ الحدیث مولانامحمدراشد صاحب نے بندہ سے ازراہ تأثر بتایا کہ ہمارے یہاں بڑے نامی گرامی مدارس وجامعات کے شیوخ الحدیث افتتاح واختتام بخاری کیلۓ تشریف لاتے رہے ہیں لیکن شیخ وسیم احمد صاحب کی بات ہی دیگر ہے ۔

مولانا کے طریقۀ تدریس کی شہرت اور محبوبیت تو بہت دور تک تھی لیکن تقریروتحریر میں مطلوبہ صلاحیتیں موجود ہونے کے باوصف آپ کا یہ پہلو نمایاں نہ ہوسکا اگرچہ آپ آج کل کے زور آور خطیبوں جیسا رنگ وآہنگ تو نہیں رکھتے تھے نا ہی صحافت وادب کی مروجہ اصطلاحات وتعبیرات سے انھیں کوئی سروکارتھا لیکن مذکورہ دونوں میدانوں میں بھی وہ عاجز نہیں تھے لوگوں نے انھیں ہزاروں افراد کے مجمع سے بھی خطاب کرتے ہوۓ سنا ہے اور خواص کی تقریبات کو بھی آپ نے محروم نہیں رکھا ، جہاں تک آپ کے قلمی سفر کی بات ہے تو اس پرخار وادی کے بھی آپ کامیاب مسافر لگتے ہیں ، باوجودیکہ آپ کا یہ مشغلہ نہیں تھا، جب عہدپرشباب تھا اور طواف دشت جنوں کا جذبہ ھل من مزید کی راہ دکھاتا تھا کئی ایک علمی اور قلمی معرکے آپ نے سر کۓ تھے جو کاتا اور لے دوڑی کے مصداق نہیں بلکہ انھیں آپ کے علمی استحضار فنی بصیرت اور تالیفی ذوق کے ساتھ بے شمار رات ودن کی قربانی کاثمرہ کہاجاسکتا ہے جن میں خاص طور سے

بذل السعایہ فی مقدمةالھدایہ

تبذیرالبنان فی تذکرة النعمان

مقدمۀ تفسیر اور نفحات وسیم آپ کے قلمی شاہ کار کہے جاسکتے ہیں، ان میں اول الذکر کتاب آپ کے عربی ذوق ومطالعہ کا نمونہ بھی ہے دراصل یہ فقۀ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کا وافی شافی مقدمہ ہے جسے بعد میں اپنے والد مکرم کی فرمائش پر اردو کے قالب میں بھی آپ نے ڈھالا تھا یہ زیور طبع سے بھی آراستہ ہوا مگر اس وقت نایاب ہے جبکہ باقی مصنفات وافادات ہنوز اشاعت کے منتظر ہیں ۔

حضرت مولاناوسیم احمد کے علمی فیضان اور صلاحیتوں سے آپ کے بڑے اور اساتذہ بھی اچھی طرح واقف تھے ، شیخ الحدیث حضرت مولانایونس جون پوری تو طلبہ کے سامنے بھی آپ کے درس حدیث کی تعریف اس طرح فرماتے کہ بچو! اگر میرے بعد درس حدیث پڑھنا ہو تو گنگوہ جاکر مولاناوسیم احمد سے پڑھ لینا ظاہر ہے کہ آپ کی یہ شہادت مولاناسنسارپوری کے حق میں بڑی شہادت ہے جس سے آپ کے علمی مقام ومرتبہ کا کسی قدر اندازہ کیاجاسکتا ہے ۔

خود فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین اجراڑوی اور بعد میں آپ کے جانشین حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب نے آپ کو مظاہرعلوم میں امہات کتب کی تدریس کی پیش کش فرمائی لیکن آپ نے جامعہ اشرف العلوم رشیدی سے دست کش ہونے کا کبھی خیال بھی ظاہر نہیں کیا۔ حتی کہ بانئی جامعہ کی وفات کے بعد انقلاب زندہ باد انقلاب زندہ باد کے غیرضروری نعرے بھی ان کی شخصیت ونظریہ میں کوئی منفی تغیر نہ لاسکے اور وہ آہنی دیوار کے مانند اپنی جگہ ثابت وبرقرار رہے۔ آج حضرت شیخ جیسے مخلصین اور ادارہ کے جفاکش بانیان ومنتظمین کی دعاؤں اور توجہات کی برکت ہے کہ پندرہ سو زائد طلبہ وطالبات جامعہ اور اس کی مقامی وبیرونی شاخوں سے علمی استفادہ کررہے ہیں جن کی تعلیم وتربیت کیلۓ ایک سو سے زائد کا اسٹاف مصروف کار ہے ۔

یہاں بلاخوف تردید لکھاجاسکتا ہے کہ گنگوہ جیسے تاریخی قصبہ اور اطراف میں بھی آپ کے ہم پلہ کوئی دوسرا شخص نظرنہیں آتا تھا ان کی عظمت کا یہ سکہ ایسے گھرانوں تک بھی رائج تھا جہاں خاندانی اور موروثی علم کے بھرم کو باقی رکھنے کی الف لیلائی داستانیں ادھرادھر پھیلائی جاتی ہیں ، شیخ کے دم فیض سے چوں کہ درس حدیث کا وہ غلغلہ بھی دوبارہ آباد ہوا تھا جو کم وبیش بانوے سال قبل فقیہ النفس حضرت مولانارشید احمدگنگوہی قدس سرہ کے امراض اور وفات کی وجہ سے منقطع ہوگیا تھا حضرت گنگوہی کے باقیات صالحات اسی تناظرمیں جامعہ اشرف العلوم کے قیام اور اس کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے اور اس کے ہرفرد کو عزیزتر سمجھتے تھے چنانچہ حضرت گنگوہی کی آخری نشانی آپ کے نبیرۀ محترم حضرت مولاناحکیم عبدالرشید محمودعرف ننھو میاں کی وفات ہوئی تو دیوبند وسہارن پور کی بہت سی محترم شخصیات کی موجودگی میں نمازجنازہ کیلۓ حضرت مولاناوسیم احمدسنسارپوری کو آگے بڑھایاگیا بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت حکیم صاحب کی دیرینہ وصیت پر عمل کیا گیا ہے۔

مولانا وسیم احمد صاحب کی یہ محبوبیت عطیۀ ربانی کا مظہر تھی انہوں نے ادارہ میں تدریس کے ساتھ بعض اوقات جزوی طور سے نظم وانتظام بھی سنبھالا تھا لیکن ان کے کرداروعمل سے کبھی تصنع تجبراور مطلق العنانی کا رویہ دیکھنے میں نہیں آیا ، ہمیشہ وقت کے پابند تھے اور اپنے کام سے کام رکھنے کے عادی ، دارالمطالعہ ، درس گاہ اور باقی اوقات میں وہ اپنے گھر رہاکرتے تھے ، ان کے پاس بیٹھنے سے بہت کچھ سیکھ ملتی تھی ، بندہ کے ساتھ بھی شفقتوں سے پیش آتے اور کبھی کبھار حالات حاظرہ پر کچھ پوچھ لیتے تھے افسوس کہ آپ کی زندگی نے وفا نہیں کی وفات کے سال عمرہ پر بھی تشریف لے گۓ تھے جہاں سے واپسی پر آپ کی طبیعت مضمحل ہوتی چلی گئی ، دوسری طرف عالمی وبا کرونا وائرس نے ایسا آتنک مچایا کہ ہرشخص اپنے ہی گھر میں محبوس ہوکر رہ گیا،ادھر حضرت کی علالت نے بھی رفتار پکڑلی بالأخر گیارہ اپریل دوہزار بیس عیسوی مطابق سولہ شوال المکرم چودہ سواکتالیس ہجری بین العشائیںن اپنی مقبول خدمات کا صلہ پانے کیلۓ اللہ کے حضور پہنچ گۓ اناللہ واناالیہ راجعون ،

کچھ ہی گھنٹے بعد نمازجنازہ جامعہ کے شیخ الحدیث ومدیر حضرت مولانامفتی خالدسیف اللہ نقشبندی نے پڑھائی ، لاک ڈاؤن کی شدت کے باوجود افرادخانہ بہت سے اھل علم ، دینی احباب اور سیاسی سماجی اثرورسوخ رکھنے افراد ہی نمازجنازہ اور تدفین میں شریک ہوسکے اور اس طرح حضرت شیخ کے سانحۀ رحلت سے گنگوہ کے ایک عہدمیمون کا خاتمہ ہوگیا ۔

زندگی جن کے تصور سے جلاپاتی تھی

ہاۓ کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آۓ

آپ کے سانحۀ وفات کی خبروحشت اثر دینی علمی اور ملی حلقوں میں شدت غم کے ساتھ سنی گئی ، دنیا بھر میں پھیلے آپ کے ہزاروں شاگرد اورعقیدت مندوں نے ایصال ثواب کرکے دعاۓ مغفرت کی ،اھل تعلق افراد نے فون وغیرہ کے ذریعہ آپ کے صاحبزادگان جناب مفتی محمدکلیم قاسمی ، مولانامحمدعلیم، قاری محمدفہیم اور مولانامحمدقسیم صاحبان سے تعزیت کی۔ جبکہ بعض اھل قلم مشاہیر نےبیان جاری کرکے مضامین مرتب کرکے یا تعزیتی مراسلات بھیج کر اس حادثۀ فاجعہ پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔

حضرت شیخ کی وفات پر تقریبا چارسال بیت رہے ہیں ، جہدوعمل سے عبارت آپ کی مؤمنانہ زندگی اورروشن خدمات کا تقاضا تھا کہ اپنے اس عظیم علمی محسن کے نقوش حیات کو زیب قرطاس کرکے سلامی دی جاتی ، انھیں خراج تحسین پیش کیاجاتا اور نئی نسل کو ان کے فراہم کردہ خطوط سے آگاہ کرکے خدمت دین کا صور ان میں پھونکا جاتا سو اس حوالہ سے تاخیر ہوئی لیکن بے پناہ شکر اور مسرت کا مقام ہے کہ حضرت مرحوم ہی کے چہیتے شاگرد ،آپ کے علمی وقلمی کاموں کو فروغ دینے کا مخلصانہ جذبہ رکھنے والے بزرگ عالم دین ، نمونۀ اسلاف حضرت مولانامفتی محمدسلمان گنگوہی دامت برکاتھم محدث ومفتی جامعہ اشرف العلوم رشیدی نے آپ کا تذکرہ مرتب فرماکر اھل علم خصوصا رشیدی برادری کے اس واجبی قرض کو چکانے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے جس کا دیرینہ مطالبہ ان کے ذمے باقی تھا ، دریں باب وہ الفضل للمتقدم کا بھی بہترین مصداق ہیں فجزاہ اللہ احسن مایجزی عبادہ الصالحین ۔

حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مدظلھم خود صاحب علم وعمل اور جامع شریعت وطریقت ہیں ، وہ فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی ، مرشدی حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسارپوری اور مخدومی حضرت مولانا قاری شاہ عبدالستاربوڑیوی دامت برکاتھم جیسے اھل دل بزرگوں کی نسبتوں کے حامل ایک بافیض اور مربی استاذ ہیں ۔ آپ کے قلم فیض رقم سے آراستہ ” تذکرۀ شیخ الحدیث ” اپنے مندرجات ومضامین کے لحاظ سے خاصے کی چیز ہوگیا ہے جس کیلۓ اس کے مرتب کا قلم چومنے کو دل چاہتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply