طبی انشورنس : مجبوری یا كار ثواب

ڈاکٹر عبدالملك رسول پوری

آج بے گاری كی مصروفیات سےكچھ فارغ وقت ہاتھ آیا تو ارادہ تھا كہ سفر كانپور كی داستان تحریر كی جائے‏،نوجوان قائد مولانا امین الحق عبداللہ كی ضیافت وقیادت كےدوبارہ مزے لیے جائیں اور پرشباب كنوارے مولانا شادان نفیس كی شادی سے پہلے كی شادمانی پر روشنی ڈالی جائے؛لیكن بھلا ہو كارثواب میں ملفوف كار گناہ كا كہ ہمیں چٹخارہ لیتی زبان اور مسكراتے ہوئے ذہن كو لگام دینا پڑی۔ بات یوں ہے كہ اساطین ملت كے ایك اہم شخص كی طرف سے طبی انشورنس كو كار ثواب بتاكر اصحاب خیركو دست تعاون بڑھانے پر مہمیز كیا گیا ہے اور ہماری نظر میں یہ شفا بخشنے والے خالق پر بندے كے ایمان كو كمزور اور ملت كے سرمایے كو مغربی سرمایہ داروں كی جیبوں میں ٹھونسے كا ایك مكروہ عمل اور دور كی دیكھیں تو كار گناہ ہے۔اصطلاحی طور پر انشورنس۔پالیسی ہولڈر اور انشورنس كمپنی كےمابین ایك معاہدہ ہوتا ہے‏، جس میں یہ كمپنی پالیسی ہولڈر سے یك مشت یا قسط وار متعینہ رقم وصول كر كے محدود مدت كے اندر پالیسی ہولڈر كے كلی یا جزئی علاج كی ذمہ داری قبول كرتی ہے۔اگر محدود مدت كے اندر پالیسی ہولڈر كو بیماری نہ لاحق ہو بالفاظ دیگر علاج كی ضروت نہ پیش آئے تو كمپنی جمع شدہ رقم واپس نہیں كرتی ہے۔ اس اصطلاحی تعریف میں غور كریں تو پالیسی ہولڈر كی رقم واضح طور پربے سود ضائع ہوتی نظر آرہی ہے۔ سچ مانیں تو یہ ایك خوف كی تجارت ہے ‏، اس میں كمزور دل صارف كے ہاتھوں جفاكشی سے كمائی ہوئی دولت كے عوض ایك موہوم ڈر بے چا جاتا ہے ۔ اور تعجب یہ ہوتا ہے كہ ایك مسلمان اللہ رب العزت كو شافی سمجھتے ہوئے بھی مغرب كے اس موہوم خوف كا شكار ہوجاتا ہے اور اپنے سرمائے كو اپنے ہاتھوں نفع خوروں كی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔

طبی انشورنس : مجبوری یا كار ثواب
طبی انشورنس : مجبوری یا كار ثواب

یقینا بہت سی ایسی بیماریاں ہیں متوسط طبقے كے لیے جن كا علاج بہت مشكل ہوجاتا ہے ‏، حتی كہ وہ سودی قرضوں كےجال میں بھی پھنس جاتے ہیں؛ لیكن ان سب كے باوجود اگر ملی سرمایے كی اہمیت كو سامنے ركھ كر تجزیہ كریں گے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آئے گی كہ مہاجنوں كے ذریعہ سود پر لیا جانے والا قرض ان انشورنس كمپنیوں كو دیے جانے والےپیسوں كی بہ نسبت بہت كم ہوگا۔ ہمارے علم میں ایك ایسا تجارتی ادارہ ہے جس نے قانونی مجبوریوں كے تحت اپنے بیس سے زائد ملازمین كا سالانہ تین لاكھ روپے كا انشورنس كرایا ہے ؛ اس انشورنس سے چار پانچ ملازمیں نے پچاس ساٹھ ہزار كا علاج بھی كرایا ہے ؛ لیكن مجموعی طور دیكھیں تو ادارہ كے ذریعہ انشورنس میں دی جانے والی رقم ‏،علاج میں خرچ ہونےوالی رقم كی بہ نسبت بہت زیادہ ہے ‏،جو سالانہ بے سود ضایع ہوتی ہے۔ اگر یہ ادارہ بلا واسطہ طور پر اپنے ملازمین كا علاج كراتا تو علاج كے صرفے كے بعد بھی ادارے كے بیسوں لاكھ روپے محفوظ رہتے؛ لیكن حكومت كی طرف سے كچھ قانونی مجبوریاں ہیں جس كی وجہ سے ملازمین كا انشورنس لازمی ہے۔ یہاں مجبوری كی وجہ سے انشورنس كے جواز كی گنجائش نكل سكتی ہے۔ یہ ایك مباح عمل ہوگا نہ كہ كار ثواب۔

ہمیں یاد آرہا ہےكہ ایك مرتبہ انشورنس سے متعلق قابل تنقیح پہلؤوں اورشرعی طور پر وضاحت طلب نكتوں پر مشورے كےلیے موضوع كے عصری ماہرین فن سے مراجعت كی گئی تھی؛ چناں چہ یونیورسٹی میں انشورنس كے سبجیكٹ كو پڑھانے والےایك پروفیسر اور ایك بڑی انشورنس كمپنی سے وابستہ ریجنل ڈائریكٹر سے چند مفتیان كرام نے ملاقات كی تھی ‏،جس میں دونوں حضرات نے اس موضوع كو نہایت وضاحت كے ساتھ پیش كیا بعد میں مفتیان كرام نے ضیاع مال ‏، قمار اور غرر والے سوال ركھے تو نتیجہ عدم جواز كی صورت میں نكلا تھا‏، ہوا یہ تھا كہ مفتیان كرام نےفرمایا كہ جو پیسہ صارف نے جمع كیا ہے ‏،بیمار نہ ہونے كی صورت میں اسے اس پیسے كا فائدہ كہاں حاصل ہوا ؟ اور اگر بیمار ہوجاتا توجمع شدہ رقم سے زیادہ پیسے صرف ہونے كی صورت میں كمپنی وہ پیسے كہاں سے حاصل كرتی؟ اور وہ پیسے اس مریض صارف كے لیے كیوں كر استعمال كیے جاسكتے تھے؟ تو معلوم ہوا كہ اگر ایك سو افراد پالیسی لے رہے ہیں تو مشكل سے پچاس افراد كو بیماری لاحق ہوتی ہے اور ان كا علاج ہوتا ہے ‏،اس طرح جمع شدہ رقم اور علاج پر صرف رقم كا اگر موازنہ كیا جاتا ہے تو ایك اچھی خاصی رقم انشورنس كمپنی كو نفع كی صورت میں بچ جاتی ہے ‏۔ مفتیان كرام نے كہا تھا كہ یہی تو ہم بھی كہہ رہے ہیں بس فرق یہ ہے كہ باقی ماندہ رقم انشورنس كمپنی كے لیے نفع اور ہم مفتیان كے لیے غرر‏ اور قمار كہلاتی ہے۔ اگر یہ انشورنس كمپنیاں اپنے فارم پر اس ایك سطر كا اضافہ كردیں كہ ‏“ صارف كی جمع شدہ رقم سے حسب اجازت كسی دوسرے مریض كا بھی علاج كیا جاسكتا ہے ” تو ہوسكتا ہےكہ جواز كا كوئی پہلو نكل آئے ؛لیكن ان صاحب نے یكسر منع كردیا كہ پھر تو پوری انڈسٹری ہی ختم ہوجائے گی ؛ كیوں كہ اس كا وجود ہی اس بچی ہوئی رقم پر ہے۔ دوسرے شخص كے علاج كی صورت میں یہ رقم بچے گی ہی نہیں۔

اس تجزیہ كے بعد ہمیں نہیں معلوم كہ یہ كار ثواب والی بات كہاں سے اور كیوں كر آئی ہے۔ شاید یہ ممبئی كے كچھ علماے كرام كی وجہ سے ہو جو مدارس كے غریب اساتذہ اور مساجد كے ائمہ ومؤذنین كے لیے طبی انشورنس كی مہم چلارہے ہیں۔ وہ اس ہمدردی اور اپنے تعاونی جذبے میں یقینا مخلص ہوں گے؛ لیكن كیا طبی امداد كی فراہمی كا یہی ایك واحد اور جوڑ توڑ كر جائز كیا جانے والا طریقہ ہے ‏، اس كے علاوہ كوئی صورت نہیں نكالی جاسكتی ہے؟ كیا دنیا كے عظیم منتظم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس كے لیے كوئی طریقہ نہیں ایجاد كیا ؟ ہماری نظر میں تو اس عظیم كام كے بہت سے طریقے ہوسكتے ہیں۔بس كچھ فكرمند مدبر قسم كے دماغوں كے ایك ساتھ بیٹھنے كی ضرورت ہے۔ جن اساتذہ كرام اور ائمہ عظام كی ہمدردی میں یہ انشورنس كرایا جارہا ہے ‏، ان كے مدارس ومساجد ہی میں ایسا نظام بنایا جاسكتا ہے كہ دوران تدریس وامامت علاج كی ذمہ داری مدارس اور مساجد پر ہی ڈالی جائے اور دیكھا جائے كہ غزوات و سرایا میں زخمی مجاہدین اپنا علاج اپنے صرفے سے كرایا كرتے تھے یا مسلم بیت المال سے ان كا علاج كیا جاتا تھا۔ لیكن ایك افسوس یہ بھی ہے كہ تعلیمی سلسلہ میں جو چیز چوتھے درجے پر آتی ہے ہم اہل مدارس نے اس كو پہلے درجے پر ركھا ہوا ہے۔ ایسے میں یہ نظام یقینا مشكل ہوگا؛ لیكن اس مشكل كا حل اپنے نظام كو نبوی نظام كے تابع كرنے سے نكلے گا نہ كہ مغرب كی پیروی سے۔ چوتھی چیز كا مطلب تعمیر ہے۔ پہلی:طالب علم۔ دوسری: استاذ۔ تیسری: نصاب ۔ چوتھی :تعمیر.

جواز اور كار ثواب كے قائل اكابرین كے لیے مسئلہ ہے كہ یہ تمام حضرات بیرون ممالك كے اسفار بكثرت كرتے ہیں‏، جہاں طبی انشورنس نہ ہونے كی صورت میں ویزے كی مشكلیں پیش آتی ہیں۔ سماجی مسائل كی حكمتوں كے پیش نظر یہ حضرات ویزے كی اس مجبوری كو زندگی كی مجبوری باور كرتے ہیں۔ ہمارا كہنا یہ ہے كہ اس طرح كی مجبوری تو اندرون ملك سفر اور ملازمت میں بھی ہے ‏ اور تمام مسافرین كا انشورنس ہوتا ہے‏ ۔ ایسا كون ہے كہ جو ٹرین سے یا جہاز سے سفر كرتا ہو اور اس كا یہ سفر انشورڈ نہ رہتا ہو حتی كہ اب تو باضابطہ طور پر انشورنس كا ایك میسج بھی پہنچتا ہے؛ بس مجبوری كے درجے والا یہ انشورنس كسی كو معلوم بھی نہیں ہوتا ہے اور وہ اس كو ٹكٹ كا حصہ سمجھ كر اس كو اپنے لیے بار اور دشوار بھی نہیں سمجھتا ہے۔

ہماری نظر میں تو جس طرح نماز اپنے وقت پر فرض ہوتی ہے اسی طرح علاج بھی اپنے وقت پر فرض ہوتا ہے۔ آئیے اس فرض كی ادائیگی كے لیے كچھ راستے ہموار كرنے كی كوشش كرتے ہیں‏، سر دست جو ذہن میں مشورے آرہے ہیں وہ ذیل میں ذكر كیے جاتے ہیں:

اولا: امت مسلمہ كو غذا وخوراك اور علاج ومعالجے میں طب نبوی كو پیش نظر ركھنا چاہئے‏، مكھن اتنا كھایا ہی كیوں جائے كہ بعد میں انجیوگرافی كے لیے مجبور ہونا پڑے۔ہمیں یقین ہے كہ خوارك میں نبوی طریقہ كار كو اپنا یا جائے تو ان شاء اللہ كبھي بھی مغربی علاج كی نوبت نہیں آے گی۔

ثانیا: اگر علاج كی نوبت آبھی جائے تو ہمیں نبوی طریقہ كار ہی كو اپنانا چاہئے جسے یونانی اور آیورویدمیں بھی تلاش كیا جاسكتا ہے۔ ہماری ہندوستانی تہذیب میں بھی تقریبا چار طریقہ علاج تھے‏، آیوروید‏، ہومیو پیتھ اور پھر یونانی ساتھ میں نانی اما ں كے گھریلو نسخے؛ لیكن برا ہو اس ایلوپیتھ كا كہ جس طرح سےمغربی ڈالر نے پوری دنیا كو اپنے تجارتی چھلاوے میں قید كرركھا ہے؛ اسی طرح علاج ومعالجے كے لیے بھی دنیا كی تمام پیتھیوں كو نابودكر كے صرف ایلوپیتھ كوزندہ ركھا ہے اور پھر علاج كو مہنگا كر كے انشورنس كا طریقہ نكالا تا كہ مریضوں كو دو نوں ہاتھوں سے دوہا جاسكے اور غریب مزدور كو غلامی كے شكنجے میں دیر تك كسا جاسكے۔

ثالثا: ملت اسلامیہ كے ہر فرد كو چاہئے كہ وہ اپنی آمدن كا ایك حصہ مستقبل كی ضروریات كے لیے محفوظ ركھے۔ اس محفوظ حصے كو یا تو كسی مشتركہ تجارت میں مضاربت یاكسی دیگرجائز طریقے سے سرمایہ كاری میں صرف كردے ‏، یا سونے چاندی كی شكل میں اپنے پاس ہی ذخیرہ كرتا رہے مبادا كہیں یہ رقم روپے كی گھٹتی قیمت كے ساتھ كم نہ ہوتی رہے۔ پھر اگر كبھی علاج معالجے كی ضرورت پیش آئے تو اس محفوظے سے استفادہ كیا جاسكے۔

رابعا: دارالعلوم دیوبند‏، ندوۃ العلماء‏ لكھنؤ، جامعہ سلفیہ بنارس‏، جامعہ اشرفیہ مباركپور جیسے بڑے تعلیمی تحریكی اداروں كو چاہئے كہ مسجد نبوی كے اسوہ اور طریقہ كار كو اپناتے ہوئے صفہ كے ساتھ ایك ایسا بڑا اسپتال بھی قائم كریں‏، جہاں نہ صرف كھانسی بخار اور نزلےكی دوائیں دی جائیں ؛بلكہ مزمنہ امراض كا بھی علاج ہو اور سرجریاں بھی كی جائیں۔ یہ تعلیمی درس گاہیں یقینا ملت اسلامیہ كے فرزندگان كو صفہ كے نبوی علوم سے مستفید كررہی ہیں كتنا اچھا ہو كہ مسجد نبوی كے طرز پر بنے یہ ادارے اور انجمنیں صفہ كے ساتھ حضرت رفیدہ رضی اللہ تعالی عنہا كا خیمہ بھی لگالیں ‏ تاكہ ملت اسلامیہ كو دینی تعلیم كے ساتھ جسمانی شفا بھی حاصل ہوسكے اور وہ مغرب كے مہنگے اسپتالوں سے گریز كر كے انسانی خدمت پر مبنی مشرق كے سستے اسپتالوں میں اپنا علاج كراسكیں۔ ہمیں یقین ہے كہ اگر اس طرح كے بڑے ادارے اس مہم كو لے كركھڑے ہوئے اور پیشوائی كی تو ان سے مربوط دیگر ادارے بھی اپنے یہاں اسپتال نہ سہی تو نرسنگ ہوم اور كلینك ضرور قائم كرلیں گے اور معاشرے كو اسی چیز كی ضرورت ہے۔

خامسا: ملت اسلامیہ كو چاہئے كہ وہ اپنا خاندانی نظام اور ایك دوسرے كی مدد اور تعاون والا پہلو اتنا مضبوط كرلے كہ ہر مشكل گھڑی میں قوم كا ہر فرد دوسرے فرد كے تعاون كے لیے بصد شوق كھڑا ہوجائے ۔ یہ كوئی نا ممكن عمل نہیں ہیں ‏، بفضلہ تعالی بہت سی جگہوں پر ایسا ہوتا ہے؛ البتہ اگر انشورنس كی پالیسی كو مجبوری سے بڑھا كر كار ثواب كی حدتك لے جائیں گے تو رفتہ رفتہ ملت اسلامیہ باہمی تعاون سے كوری اور شخصی مفادات پر عقابی نگاہ ركھنے والی بن جائے گی جو یقینا امت كے لیے ایك ناسور ہوگا اور پھر وہ مشرقی اقوام كو ویسے ہی تڑپائے گا جیسے آج مغربی اقوام كا ہر فرد انشورنس كے لیے یہاں تك مجبور ہے كہ اس كے بغیر زندگی كا تصور محال ہے۔

ان پانچوں طریقوں كی بنیاد قرآن وحدیث میں آسانی سے تلاش كی جاسكتی ہے؛ لیكن اگر كوئی حاكم یا محكوم ‏،قائد یا متبع مغرب كی پالیسی كا حصہ ہی بننا چاہتا ہو تو اسے انشورنس كرانے میں كوئی حرج نہیں ہے‏، بس كار ثواب بتاكر امت كو اس گناہ میں مبتلا كرنے سے گریز كیا جانا چاہئے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare