ظ۔ انصاری کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

آج مشہور ترقی پسند نقاد، شاعر، ادیب اور البیلے صحافی ظ۔ انصاری کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے 31 جنوری 1991 کو بمبئی میں وفات پائی۔

ظ۔ انصاری کی یاد میں 
ظ۔ انصاری کی یاد میں

میں نے ایک بار بمبئی کے کولابہ علاقے میں واقع ان کے فلیٹ ” شیریں ” پر ملاقات کے دوران ان کے نام ظ۔ انصاری کا پس منظر جاننا چاہا تو انھوں نے مجھے دلچسپ بات بتائی ۔ کہنے لگے” میرا پورا نام ظل حسنین زیدی ہے اور میں سہارنپور کے محلہ انصاریان میں پیدا ہوا تھا۔ جب قلم وقرطاس سے رشتہ استوار ہوا تو میں نے اتنا لمبا نام رکھنے کی بجائے اپنے نام کا پہلا حرف "ظ” لے کر محلہ "انصاریان” کی نسبت سے "ظ۔ انصاری” لکھنا شروع کردیا۔ پھر لوگ مجھے اسی نام سے جاننے لگے اور میں ظل حسنین زیدی کی بجائے ادبی دنیا میں ظ ۔ انصاری مشہور ہوگیا۔”

مگر دلچسپ یہ بھی ہے کہ بمبئی والے انھیں صرف "ظوئے صاحب ” کہہ کر مخاطب کیا کرتےتھے۔حال ہی میں ان پر معروف صحافی اور شاعر ندیم صدیقی نے جو کتاب مرتب کی ہے ، اس کا عنوان بھی ” ظ۔ ایک شخص تھا ” رکھا گیا ہے۔

ظ ۔انصاری اردو کے ایک البیلے صحافی، ادیب اور نقاد تھے۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ دوبار روزنامہ ’انقلاب‘ بمبئی کے ایڈیٹر رہے۔انھوں نے70کی دہائی میں دہلی سے ادارہ’شمع‘ کی جانب سے نکلنے والے منفرد ہفتہ وار ”آئینہ“ کی ادارت بھی کی، لیکن اس کا دورانیہ زیادہ نہیں رہا۔حالانکہ اس مصور ہفتہ وار نے ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل کرلی تھی۔

ظ۔ انصاری کی زندگی کا بیشتر حصہ بمبئی میں گزرا، لیکن وہ بمبئی کے مقابلے دہلی کوترجیح دیتے تھے اور یہاں انھوں نے راجندر نگر علاقہ میں ایک مکان بھی خریدا تھا۔یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ90 کی دہائی کے وسط میں جب مشہور صنعت کار سنجے ڈالمیا نے دہلی سے ایک اردو روزنامہ نکالنے کی منصوبہ بندی کی تھی تو اس کا ایڈیٹر ظ۔انصاری کو ہی منتخب کیا گیا تھا۔ اس اخبار کے کوآرڈنیٹر سنجے ڈالمیا کے دست راست مرحوم شمس الزماں تھے۔شمس الزماں کا بنیادی تعلق کلکتہ سے تھا،لیکن انھوں نے زیادہ عرصہ دہلی میں گزارااور سنجے ڈالمیا کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق تنظیم کے ذمہ دار بھی رہے۔ اس کا دفتر ساؤتھ ایونیو کے ایک فلیٹ میں تھا۔روزنامہ اخبار کی تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں، لیکن بوجوہ وہ شائع نہیں ہوسکا۔ اس دور میں ظ۔انصاری صاحب بمبئی میں ”انقلاب“ کی ادارت کی ذمہ داریاں سنبھال رہے تھے۔میں نے ان سے وہاں ملاقات کی تو انھوں نے مجھے ”انقلاب“ سے بطور نامہ نگار وابستہ ہونے کی پیشکش کی، لیکن میرے لیے بمبئی کی بھاگتی دوڑتی زندگی کا حصہ بننا ممکن نہیں تھا تاہم میں نے سنجے ڈالمیا کے اخبار سے وابستہ ہونے کی ہامی بھرلی تھی۔ اس سلسلہ میں ظ۔انصاری صاحب نے شمس الزماں صاحب کے لیے ایک رقعہ لکھ کر مجھے دیا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ1986 میں بمبئی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ایک اجلاس ہوا تھا جس کی رپورٹنگ کے لیے میں وہاں گیا تھا۔اس اجلاس کی بڑی گہما گہمی تھی اور بمبئی والوں نے دیدہ ودل فرش راہ کررکھے تھے۔ ملک میں مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی تحریک چل رہی تھی اور مسلمان بہت جوش میں تھے۔اس اجلاس کے حوالے سے ظ۔انصاری صاحب نے ’انقلاب‘ میں ایک اداریہ لکھا جس میں علمائے کرام پر چوٹ کی گئی تھی۔ ظ۔انصاری صاحب کمیونسٹ نظریات کے حامل تھے۔ اگلے روز بمبئی کے وائی ایم سی گراؤنڈ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس عام تھا۔ گراؤنڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اجلاس کی نظامت مولانا ضیاء الدین بخاری کررہے تھے۔ان کے پاس پرچیاں آنے لگیں کہ ”انقلاب“ کی مذمت کیجئے۔جب درجنوں دس پرچیاں ان کی مٹھی میں جمع ہوگئیں تو وہ بھی بلبلا گئے۔ کہنے لگے لوگ مسلسل ”انقلاب“ کے ادارئیے کی مذمت کرنے کے لیے مجھے پرچیاں بھیج رہے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس پچڑے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے، مگر عوام کے اصرار پر انھوں نے کہا کہ میں ”انقلاب“ کہوں گااور آپ ”مردہ باد“کہیں گے۔ جیسے ہی انھوں نے ”انقلاب“ کہا مجمع نے ”زندہ باد“ کا نعرہ لگادیا۔ وہ مزید پریشان ہوئے اور کہا کہ ”زندہ باد“نہیں ”مردہ باد“ کہئے۔ پھر بھی آدھے لوگوں نے ”زندہ باد“ ہی کہا اور کئی بار کہنے کے بعد سب نے ایک ساتھ "مردہ باد” کا نعرہ لگایا۔دراصل اس معاملے میں ”انقلاب“ کے ہمعصر اردو اخبارات کی بھی کچھ کارستانی تھی۔ کیونکہ اس زمانے میں ”انقلاب“ بمبئی کا سب سے بڑا اردو روزنامہ تھااور آج بھی ہے۔ بعض اردو اخبارات اس کی مقبولیت سے پریشان تھے اور وہ ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے۔بعد کو برادرمکرم ندیم صدیقی نے جو کہ اس وقت ”انقلاب“ کے سب ایڈیٹر تھے اور ظ۔انصاری کے کافی قریب تھے، مجھے بتایا کہ یہ دراصل کچھ کاتبوں کی کارستانی تھی جو ظ۔ انصاری صاحب خوش نہیں تھے۔ انھوں نے ظ۔ انصاری صاحب کے اداریہ میں ”علمائے فحول“ کی جگہ ”علمائے مخول“ لکھ دیا تھا۔یہ معاملہ اتنا آگے بڑھا کہ ظ۔انصاری صاحب کو ”انقلاب“ سے علاحدہ ہونا پڑا۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس اجلاس میں مہمانوں کے قیام وطعام کا انتظام کرافورڈ مارکیٹ کے قریب صابو صدیق مسافرخانے میں تھا۔ میں بھی وہیں مقیم تھا۔ اجلاس عام کی اگلی صبح ناشتہ کی میز پر مولانا ضیاء الدین بخاری، پرنس انجم قدر اور میں ایک ہی ٹیبل پر تھے۔ انجم قدر صاحب نے مولانا بخاری سے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا کہ آپ نے ”انقلاب“ کے ساتھ ”مردہ باد“ کا نعرہ لگوادیا۔وہ زیرلب مسکراکر خاموش ہوگئے۔

ظ۔انصاری کی پیدائش سہارنپور میں 6/فروری 1925کو ایک شیعہ مذہبی گھرانے میں ہوئی تھی اور انھوں نے دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی، لیکن زندگی ایک مارکسی مجذوب کے طورپر گزاری۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو انہوں نے کمیونزم سے توبہ کرلی تھی۔اس دوران انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جس وقت روسی فوجیں کابل میں داخل ہوئیں تو مجھے ایسا لگا کہ یہ میرے سینے پر چل رہی ہیں۔ ظ انصاری نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں۔ان میں کئی روسی کتابوں کے تراجم بھی ہیں۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare