علم حدیث کا مہر تاباں غروب ہوگیا

حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب سہارن پوری کا سانحہ ارتحال

 عبید اللہ شمیم قاسمی

(ولادت: 1356ھ/1937ء وفات 1446ھ/2025ء)

29 شوال المکرم 1446ھ مطابق 28 اپریل 2025ء کو انتہائی کلفت اثر کے ساتھ یہ خبر گوش گزار ہوئی کہ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمہ اللہ جو مظاہر علوم سہارن پور کے ناظم اعلی اور شیخ الحدیث تھے ان کا انتقال ہو گیا إنا للہ وإنا إلیہ راجعون إن للہ ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى

علم حدیث کا مہر تاباں غروب ہوگیا 
علم حدیث کا مہر تاباں غروب ہوگیا

حضرت مولانا کی ذات گرامی مظاہر علوم سہارن پور کے لئے روشن ستارہ کے مانند تھی جس کی روشنی سے نصف صدی سے زائد عرصہ تک طالبان علوم نبويہ مستفید ہوتے رہے۔ آپ کی وفات سے مظاہر علوم کی تاریخ کا ایک روشن باب بند ہوگیا۔

گذشتہ چند سالوں میں مظاہر علوم سہارن پور کو بہت سے علماء کی وفات کے حادثہ سے دوچار ہونا پڑا۔ سب سے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری رحمہ اللہ کا انتقال ہوا، اس کے بعد پیر طریقت حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ داغ مفارقت دے گئے اس کے بعد ناظم مدرسہ حضرت مولانا سلمان صاحب سہارن پوری بھی مسافران آخرت میں شامل ہو گئے۔ ابھی مظاہر علوم ان حادثات سے پوری طرح باہر نہیں آسکا تھا کہ اچانک حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھی رفیق اعلی سے جا ملے۔ ان حضرات کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا تھا اس کا پر ہونا تو بہت ہی مشکل تھا مگر حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمہ اللہ کی ذات گرامی جو ایک عرصہ سے مظاہر علوم کی مسند درس کو زینت بخشے ہوئے تھے، بخاری شریف کا درس بھی ان سے متعلق ہوا اور نظامت کا عہدہ بار گراں بھی انہی کے کندھے پر آگیا، حضرت مولانا بھی اپنی عمر کے آخری مرحلے میں تھے مگر آپ کی ذات گرامی جن کے وجود سے مدرسے میں خیر و برکت تھی۔

آپ کی شخصیت متنوع کمالات کی حامل تھی آپ کے درس سے جہاں ہزاروں تشنگان علوم نبوت سیراب ہوئے اور ملک وبیرون ملک دینی خدمات انجام دے رہے ہیں وہیں آپ کا سب سے محبوب مشغلہ تصنیف و تالیف تھا اور آپ کو حدیث شریف سے خصوصی لگاؤ تھا، آپ نے اپنے تدریسی دور کے آغاز سے حدیث شریف کی جو تدریس کی ابتدا کی تو وہ زندگی کی آخری سانس تک باقی رہا،آپ نے ابتدا ابو داؤد شریف کا درس دیا جو بہت ہی مقبول تھا اس کے علاوہ حدیث شریف کی اور بھی کتابیں آپ سے متعلق رہیں لیکن جب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا جو تقریبا نصف صدی تک مظاہر علوم کی مسند حدیث کو زینت بخشے ہوئے تھے اور بخاری شریف آپ سے متعلق تھی اس خلا کو پر کرنے کے لیے سب کی نگاہ حضرت مولانا محمد عاقل صاحب پر پڑی اور آپ نے اس خلا کو حتی المقدور پر کر دیا تھا لیکن جب حضرت مولانا سلمان صاحب کا انتقال ہو گیا جو انتظامی امور میں بہت ہی مہارت رکھتے تھے اور حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رام پوری رحمہ اللہ کے بعد ناظم صاحب کے لقب سے معروف و مشہور تھے، حضرت مولانا سلمان صاحب نظامت کے ساتھ ساتھ درس بھی دیا کرتے تھے، ارکان شوری کے مشورے سے حضرت مولانا عاقل صاحب کے ذمے نظامت کا بارگراں بھی لگادیا گیا، آپ صدرالمدرسین میں تھے شیخ الحدیث بھی تھے اور ناظم اعلی بھی تھے، لیکن دو سال پہلے اپنی معذوری کی بنا پر آپ نے عہدہ صدارت سے استعفی دے دیا تھا اور یہ ذمہ داری مولانا یوسف صاحب گجراتی کے سپرد کردی گئی تھی۔ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب جنہیں اللہ رب العزت نے گوناگوں خصوصیات سے متصف فرمایا تھا آپ کی پوری تعلیم مظاہر علوم سہارن پور میں ہوئی اور فراغت 1380ھ میں ہوئی، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جون پوری اور حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بستوی سابق استاذ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی وغیرہ آپ کے رفیق درس تھے، اس کے اگلے سال علوم میں داخل رہے اور علوم سے فراغت کے بعد مظاہر علوم میں تدریس سے وابستہ ہو گئے، پہلے سال اگرچہ ابتدائی کتابیں آپ سے متعلق تھیں لیکن اگلے چند سال بعد ہی حدیث شریف کی تدریس بھی آپ سے متعلق ہوگئی اور 1386ھ میں ابو داؤد شریف اپ کے پاس آگئی، اسی طرح جب حضرت مولانا امیر احمد صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا تو 1390 میں آپ کو مظاہر علوم کا صدر مدرس بنایا گیا 50 سال سے زائد عرصہ تک آپ اس منصب پر بحسن و خوبی قائم رہے۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا بھی ذوق تھا اور آپ کو یہ ذوق کچھ تو اپنے والد صاحب رحمہ اللہ سے ورثہ میں ملا تھا، واضح رہے کہ آپ کے والد حضرت حکیم محمد ایوب صاحب رحمہ اللہ نے طحاوی شریف کے رجال پر بہترین کتاب تصنیف فرمائی ہے، اور زیادہ تر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ کی سرپرستی اور آپ کی شفقت و توجہ کی وجہ سے حاصل ہوا چنانچہ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ بہت سے علمی کاموں میں آپ ان کے معاون رہے، چاہے وہ الکوکب الدری کا حاشیہ ہو یا الابواب والتراجم ہو حتی کہ حضرت شیخ نے الابواب و التراجم کے آخر میں بہت ہی بلند الفاظ کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ہے اور شکریہ ادا کیا ہے حالانکہ اس وقت آپ بالکل نوجوان تھے، اسی طریقے سے جب بذل المجہود کی نئی طباعت جب مصر سے شائع ہوئی اس میں بہت سی غلطیاں رہ گئی تھی حضرت شیخ نے حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی صاحب دامت برکاتہم کو خط لکھا اور اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ میرے پیارے یہ کام اگر میری زندگی میں ہو جاتا تو حضرت سہارن پوری کی روح کو بہت ہی خوشی ہوتی، چنانچہ حضرت مولانا تقی الدین صاحب ندوی ترکیسر کی شیخ الحدیثی سے ایک سال کی رخصت لے کر سہارنپور حاضر ہوئے اور آپ نے حضرت شیخ سے کہا میرے ساتھ ایک معاون بھی اگر ہو جائے تو اس سے کام میں سہولت ہوگی تو حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب کو حضرت شیخ نے بطور معاون بذل المجہود کے کام کے لیے مولانا کے ساتھ لگا دیا۔

حضرت مولانا مرحوم کو علم حدیث وراثت میں ملا تھا اکابر مظاہر کا جو طرہ امتیاز تھا وہ علم حدیث سے خاص شغف تھا آپ مظاہر علوم کی تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو سب سے پہلے حضرت مولانا احمد علی سہارن پوری محدث رحمتہ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے جس نے علم حدیث کا ایک عرصہ تک ایسا درس دیا جن کے تلامذہ میں حضرت مولانا قاسم نانوتوی، مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوة العلماء لکھنؤ اور علامہ شبلی نعمانی جیسی شخصیات نماياں طور پر نظر آئیں گی، اس کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری صاحب بذل المجہود کی ذات بھی نماياں تھی، جن کے تلامذہ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی نور اللہ مرقدہ کا نام ہی کافی ہے۔

 اسی زمانے میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان بھی جاری تھا، جہاں طالبان علوم نبويہ پروانہ وار وارد ہوتے تھے، ان کی مجلس حدیث گنگوہ میں ہوتی تھی اور پورے سال میں صحاح ستہ کا درس اور دوسری احادیث کی کتب کا درس تنہا دیتے تھے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کے والد محترم حضرت مولانا محمد یحیی صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی آخری عمر میں جس درجہ خدمت کی اور ساتھ لگے رہے حتی کہ انہیں حضرت گنگوہی کی بڑھاپے کی لاٹھی کہا جاتا تھا انہوں نے حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے بھی علم حدیث حاصل کیا اور اپ کے دروس کو مرتب فرمایا انہی یادگار میں بخاری شریف پر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی مفصل تقریر لامع الدراری اور جامع ترمذی پر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام جو الکوکب الدری کے نام سے ہے، جس کو حضرت شیخ الحدیث صاحب کے والد رحمتہ اللہ علیہ نے مرتب فرمایا اور پھر حضرت شیخ الحدیث نے اس پر قیمتی حواشی تحریر فرمائے، اس پر حضرت مولانا مرحوم نے قیمتی مقدمہ تحریر فرمایا، اس کو موجودہ زمانے کے اعتبار حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے تحقیق کر کے اور اس کے ساتھ ترمذی شریف کا متن لگا کر آٹھ جلدوں میں سے شائع کرایا ہے بلکہ ایک جلد الگ سے جو شمائل نبوی ہے، جس پر حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے حواشی جو خصائل نبوی کے نام سے ہیں اور حضرت مولانا احمد علی صاحب سہارن پوری کا حاشیہ اس سے بھی استفادہ کیا ہے۔

اسی طرح حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مسلم شریف کے درس کو جو الحل المفہم کے نام سے شائع ہوا ہے اس پر بھی حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے حواشی تحریر فرمائے ہیں پہلے اس کتاب کو سہارن پور سے دو جلدوں میں شائع کیا گیا تھا جس پر مسلم شریف کا متن نہیں تھا لیکن بعد میں اس کی تحقیق کر کے اور متن کے ساتھ نہایت ہی عمدہ انداز میں دارالکتب العلمیہ بیروت سے حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی صاحب نے شائع فرمایا ہے، اس کے علاوہ الفیض السمائی کا حاشیہ بھی حضرت مولانا مرحوم کی زندہ یادگار ہیں، حدیث شریف اپ کا مشغلہ تھا اور تدریسی زندگی کے ابتدائی چھ سال اگر نکال دئے جائیں تو بقیہ پوری زندگی آپ نے حدیث شریف کا درس دیا خاص طور پر ابو داؤد شریف اور نسائی شریف کا درس آپ کا بہت ہی مقبول تھا ابو داؤد شریف کے حل کے لیے جہاں بذل المجہود کافی تھی وہیں آپ نے الدر المنضود کے نام سے اس کی اردو میں شرح فرمائی ہے جو علم حدیث سے شغف رکھنے والے طلبہ اور علماء کے لیے نہایت ہی قیمتی تحفہ ہے، آپ نے الفیض السمائی جو نسائی شریف کا حاشیہ ہے اس کو بھی مرتب فرمایا جس سے استفادہ کیا جاتا ہے، آپ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھی وہاں ہر طرف علم کا چرچہ تھا، دین داری تھی، آپ کے والد ماجد حضرت مولانا حکیم محمد ایوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بھی علم حدیث سے خصوصی شغف تھا یہی وجہ تھی کہ اپ نے طحاوی شریف کے رجال کا ترجمہ تحریر فرمایا اس کے علاوہ تہذیب التہذیب جو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی شاہکار کتاب ہے اس میں طبعات کی جو غلطیاں تھیں اس کو بھی تصحیح کر کے الگ سے شائع کیا، آپ نے اسی ماحول میں پرورش پائی اور 10 سال کی عمر میں حفظ کلام اللہ شروع فرمایا اور 1372 ہجری میں پہلی محراب سنائی اس کے بعد عربی کی تعلیم شروع کی آپ کے اساتذہ میں بھی نابغہ روزگار شخصیات تھیں خاص طور پر دورہ حدیث شریف کی کتابیں آپ نے جن اساتذہ کے سامنے پڑھیں ان میں ہر ایک آفتاب و ماہتاب تھا، آپ نے بخاری شریف شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ سے پڑھی، مسلم شریف حضرت مولانا منظور احمد صاحب سے ابو داؤد شریف حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ناظم مظاہر علوم سے ترمذی اور نسائی حضرت مولانا امیر احمد صاحب کاندھلوی رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھی تھی۔

حضرت مولانا کی تدریسی زندگی کا دورانیہ 60 سال سے متجاوز تھا جس میں 50 سال سے زائد مظاہر علوم کی مسند صدارت پر آپ نے جلوہ افروز ہو کر تدریس کی خدمت کو انجام دیا، آپ کی وفات سے مظاہر علوم کی تاریخ کا ایک درخشاں باب بند ہو گیا، اب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کے براہ راست تلامذہ جنہوں نے آپ سے بخاری شریف پڑھی تھی، مظاہر علوم میں بخاری شریف پڑھانے والا کوئی نہیں ہے جیسا کہ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بخاری شریف پڑھنے والے جو بخاری شریف کا درس دیتے ہوں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی اور حضرت مولانا قمر الدین احمد صاحب گورکھپوری رحمہما اللہ کی وفات سے وہ سلسلہ بند ہو گیا۔ حضرت مولانا کو اللہ تعالی نے تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ انتظامی امور کا ملکہ بھی عطا فرمایا تھا یہی وجہ تھی کہ ناظم مظاہر علوم حضرت مولانا سلمان احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد نظامت کا ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی گئی تھی جسے آپ نے بخوبی انجام دیا اپ شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ بھی تھے اور اس تعلق سے بھی اپ نے خدمات انجام دی ادھر چند سالوں سے اپ اسفار بھی فرمایا کرتے تھے حالانکہ اپ کا مزاج مدرسے میں رہ کر درس و تدریس کا تھا آپ کے تلامذہ ملک و بیرون ملک دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، ہندوستان کے اکثر مدارس جہاں مظاہر علوم کے فضلاء موجود ہیں اکثر آپ کے شاگرد ہیں، یہ سب آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔ اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے اور مظاہر علوم کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے امین یا رب العالمین

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare