علی برادران کی والدہ ’بی اماں‘ پر کلیدی خطبہ

نئی دہلی،10/دسمبر ( یو این آئی)

"مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں نے نہ صرف جنگ آزادی کے دوعظیم مجاہدین کی پرورش وپرداخت کی بلکہ انھوں نے خود بھی آزادی کی جنگ لڑی۔ وہ برقع پہن کر خواتین کے اجتماعات کو خطاب کرتی تھیں اور انھوں نے تحریک عدم تعاون کے دوران فروری 1922میں خلافت کمیٹی کے لیے صرف دربھنگہ شہر سے ساٹھ ہزار کا چندہ جمع کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر بھگوان داس نے انھیں ”بھارت ماتا“ کے خطاب سے نوازا تھا۔“

علی برادران کی والدہ ’بی اماں‘ پر کلیدی خطبہ
علی برادران کی والدہ ’بی اماں‘ پر کلیدی خطبہ

ان خیالات کا اظہار آج یہاں سینئر صحافی اور محقق معصوم مرادآبادی نے مولانا محمدعلی جوہر کے یوم پیدائش کی تقریب میں ’بی اماں‘ پر کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ اس تقریب کا اہتمام مولانا محمدعلی جوہر اکیڈمی نے کیا تھا۔واضح رہے کہ بی اماں کے انتقال کو گزشتہ نومبر میں ایک صدی پوری ہوگئی ہے۔ ان کا انتقال13/نومبر 1924کو دہلی میں ہوا تھا۔اس خطبہ کا اہتمام اسی مناسبت سے کیا گیا تھا۔ معصوم مرادآبادی نے اپنے خطبہ میں کہا کہ ”بی اماں جیسی بہادر اور جری خواتین کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے، جنھوں نے سخت نامساعد حالات میں اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم مکمل کی۔ ان کے لافانی جذبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار جب علی برادران جیل میں تھے تو کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ دونوں بیٹے انگریزوں سے معافی مانگنے پر تیار ہوگئے ہیں تو کہلا بھیجا”دیکھو میں بوڑھی ہوگئی ہوں، لیکن اگر تم نے معافی مانگنے کا ارادہ کیا تو ابھی میرے ہاتھوں میں اتنی جان ہے کہ دونوں کا گلا گھونٹ دوں گی۔“مولانا محمدعلی جوہر کے آخری دنوں کے ساتھی مولانا عبدالملک جامعی نے بی اماں کے بارے میں لکھا ہے کہ ”شیروں کی ماں تھی، شیرنی تھی۔ دونوں بھائیوں کو دین کی حمیت اور غیرت ماں ہی سے ملی تھی۔ بی اماں کے گھر میں پہلی جنگ آزادی کے دوران سو نتھنیاں اتریں تھیں یعنی غدر کے دوران ایک ہی دن میں ان کے100 رشتے دار شہید ہوئے تھے۔“

معصوم مرادآبادی نے کہا کہ ”بی اماں کے والد کو جب انگریزوں نے سزائے موت دی تو بی اماں کی عمر محض پانچ سال تھی۔ان کی شادی رامپور میں ہوئی۔ شادی سے قبل وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھیں، لیکن شوہر عبدالعلی خاں تعلیم یافتہ تھے اور ان ہی کی صحبت میں بی اماں نے لکھنا پڑھنا سیکھا، لیکن افسوس جوانی میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ بی اماں نے اپنے بل بوتے پر چھ بچوں کی پرورش کی اور مولانا محمدعلی کواعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیجا۔مولانا محمدعلی جوہر کا بیان ہے کہ ”میری والدہ عملی طورپر بالکل ان پڑھ تھیں مگر مجھے زندگی میں جن لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، ان میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ملا جو میری والدہ سے زیادہ صاحب فہم ہو۔“مولانا محمدعلی یہ بھی کہتے تھے کہ وہ جو کچھ بھی ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے، وہ خدواندکریم نے انھیں ان کی والدہ کے ذریعہ پہنچا یا تھا۔“

معصوم مرادآبادی نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ ہم نے دیگر مجاہدین آزادی کے ساتھ علی برادران اور ان کی والدہ بی اماں کو بھی فراموش کردیا ہے۔ ضرورت اس بات کی آزادی کے ایسے سپاہیوں کی یادگاریں قایم کی جانی چاہئیں اور بی اماں پر ایک مستقل کتاب نیشنل بک ٹرسٹ کو تمام زبانوں میں شائع کرنی چاہئے۔ مولانا محمدعلی جوہر اکیڈمی کے صدر خواجہ محمدشاہد نے اس مطالبے کی تائید کی اور’یوم جوہر‘کی تقریب میں مولانا محمد علی جوہر ایوارڈیافتگان کو مبارکباد پیش کی۔مہمان خصوصی کے طورپر دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے شرکت کی۔ جن لوگوں کو جوہر ایوارڈ سے نوازا گیا، ان میں سینئر ایڈووکیٹ انل نوریا، پروفیسر اخلاق آہن، پروفیسر وی کے ترپاٹھی،ڈاکٹر سحر قریشی اور صحافی یامین انصاری کے نام شامل ہیں۔ تقریب کی صدارت ڈاکٹر سید فاروق نے کی اور شکریہ جوہر اکیڈمی نے جنرل سیکریٹری احمدندیم نے کیا۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare