فدائے قوم راحت مولائی
معصوم مرادآبادی
آج یوپی کے ایک معروف مجاہد آزادی، سیاسی رہنما اور شاعر راحت مولائی کا 111واں یوم پیدائش ہے۔ وہ 13 مارچ 1913 کو میرے وطن مرادآباد کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام سید حلیم الدین تھا اور ” فدائے قوم ” ان کا خطاب تھا۔ ان جیسی مقبولیت مرادآباد میں کسی اور قائد کو نہیں ملی۔
میں نے جب مرادآباد میں ہوش سنبھالا تو جلسے جلوسوں اور مشاعروں سے ایک فطری لگاؤ محسوس ہوا۔ غالباً آٹھ دس برس کی عمر میں ہی ان میں شرکت کرنے لگا۔ حالانکہ گھر کی بندشوں کی وجہ سے بہت زیادہ اس میں حصہ نہیں لے پاتا تھا، لیکن جب اور جہاں موقع ملتا، غیراختیاری طورپر ان میں شامل ہوجاتا تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد پہلا الیکشن راحت مولائی صاحب کا دیکھا اور میں نے شوقیہ طورپر بچوں کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ ہاتھ میں جھنڈا اٹھائے نعرے لگاتا ہوا اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ گلی کوچوں میں گھومتاتھا۔ اس وقت سیاسی شعور تو کجا زندگی کی بنیادی چیزوں کا بھی علم نہیں تھا، مگر نعرے بازی اور جھنڈا بلند کرنے میں عجیب سا لطف آتا تھا۔ایک سیاسی لیڈر کے طورپر سب سے پہلے راحت مولائی کو ہی دیکھا، جو مسلمانوں میں خاصے مقبول تھے اور اسی مقبولیت نے انھیں یوپی اسمبلی تک پہنچایا۔
راحت مولائی کے حالات زندگی پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مرادآباد کے محلہ ڈھیریا میں پیدا ہوئے تھے۔انھوں نے چھٹی کلاس تک مرادآباد کے ہائی اسکول میں تعلیم پائی۔میٹرک کا امتحان پیلی بھیت سے دیا۔ 1933میں گورنمنٹ انٹر کالج مرادآباد سے انٹر کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 1936 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیااور وہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔بعد کو ناگپور یونیورسٹی گئے اور وہاں سے ایم اے کیا ۔ انھوں نے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔1940میں کانگریس سے اپنی سیاسی زندگی کا سفر شروع کیا ۔کھادی پہننے کا قصد کیا اور تاعمر اس پر کاربند رہے۔1942 کی بھارت چھوڑو تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں نظربند ہوئے۔ دس مہینے بعد رہائی ہوئی۔1948 میں کانگریس چھوڑکر سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے، مگر 1953 میں سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔ 1956 میں داؤ دیال کھنہ نے ان پر گئوکشی کا الزام لگاکر مقدمہ ان کے خلاف مقدمہ قایم کرادیا، جس میں ڈیڑھ سال کی سزا ہوئی۔ بعد کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ڈیڑھ سو روپے کا جرمانہ لگاکر رہا کردیا۔اس مسئلہ نے انھیں مسلمانوں کا ہیرو بنادیا اور انھوں نے 1957میں یوپی اسمبلی کا الیکشن لڑکر کامیابی حاصل کی۔ 1967کے الیکشن میں بھی کھڑے ہوئے، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔
1971میں دوبارہ کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور 1975میں ضلع کو آپریٹیو کے چیئرمیں بنائے گئے۔ کافی عرصہ یوپی وقف بورڈ کے رکن بھی رہے۔1984میں کانگریس سے علیحدہ ہوکراسمبلی الیکشن میں آزاد امیدوار کے طورپر پھر قسمت آزمائی، لیکن ناکام رہے۔23جون 1987کو مرادآباد میں وفات پائی۔ ان کے خاص دوستوں میں دہلی کے مولانا امداد صابری اور مولانا عبدالوحید صدیقی شامل تھے۔ اخبار ’نئی دنیا‘ نے الیکشن میں ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔شعرگوئی کا بھی شوق تھا۔ مولانا امدادصابری نے ان کے شخصی احوال پر "تذکرہ راحت مولائی” کے عنوان سے جو کتاب 1988میں لکھ کر شائع کی تھی،اس میں ان کا مجموعہ کلام "رعنائی خیال” بھی شامل ہے۔ یہ مجموعہ پہلے پہل ستمبر 1948 میں شائع ہوا تھا۔ اس کی دوسری اشاعت دس سال بعد 1958 میں ہوئی اور تیسری مرتبہ مولانا امداد صابری نے ” تذکرہ راحت مولائی” میں اسے شامل کیا۔ اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے شاعری پر زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو۔
میری ہی طبیعت ہے یہ ظرف ہے میرا
دنیا کے ستم سہنا اور شکر خدا کرنا