قاری نسیم احمد : علم و عرفان کا روشن مینار
اسلم رحمانی
قاری نسیم احمد کا شمار اُن علماء اور اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو علم و تعلیم کی خدمت میں گزارا۔ وہ مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم چندوارہ مظفرپور کے سابق نائب مہتمم اور شعبۂ حفظ و قرأت کے استاذ تھے۔ اُنہوں نے نہ صرف اپنی تدریسی صلاحیتوں سے طلباء کی تربیت کی بلکہ دین اسلام کے پیغام کو بھی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قاری نسیم احمد کی شخصیت میں علم و حکمت کی جھلک تھی۔ اُنہوں نے قرآن کریم کی تعلیمات کو نہ صرف پڑھایا بلکہ اُس پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دی۔ اُن کی تدریس کا طریقہ انتہائی مؤثر تھا۔ خاص طور پر شعبۂ حفظ و قرأت میں اُنہوں نے بے شمار طلباء کو قرآن حفظ کرایا اور ان کی قرأت میں بہتری کے لیے خصوصی توجہ دی۔مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم میں اُن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بطور نائب مہتمم، اُنہوں نے ادارے کے نظم و ضبط کو بہتر بنایا اور تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے کئی اصلاحات متعارف کرائیں۔ وہ نہ صرف ایک بہترین معلم تھے، بلکہ ایک ایسے رہنما بھی تھے جنہوں نے ہمیشہ طلباء کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔وہ ہمیشہ سادگی اور عاجزی کی مثال بنے رہے، اور اپنے علم سے دوسروں کی رہنمائی کرتے رہے۔ قاری نسیم احمد کی شخصیت نہ صرف ان کے شاگردوں بلکہ ان کے محبان و معتقدین کے لیے ایک زندہ و جاوید مثال تھی۔ آپ کی قرآنی خدمات اور اسلامی تعلیمات کی ترویج میں بے شمار خدمات ہیں جنہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آپ کا انتقال 29 جنوری 2018 کو ہوا، اور اس دن آپ کے تلامذہ اور مخلصین نے ایک عظیم استاد اور رہنما کو کھو دیا۔

تجوید اور قراءت کے میدان میں آپ کی خدمات:
قاری نسیم احمد کی تجوید اور قراءت کے میدان میں خدمات نہ صرف اپنے ادارے بلکہ پورے ملک میں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کی خدمات کا جائزہ مختلف زاویوں سے لیا جا سکتا ہے، جن میں تدریسی خدمات، تجوید کی تعلیم، قراءت کی اصلاح اور قرآن کریم کے ساتھ تعلق کی گہری سمجھ شامل ہیں۔
تدریسی خدمات:
قاری نسیم احمد نے کئی برسوں تک مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم میں تدریس کی خدمات انجام دیں۔ شعبۂ حفظ و قرأت میں ان کا کردار انتہائی اہم رہا، جہاں انہوں نے قرآن کریم کی صحیح تلاوت اور تجوید کی تعلیم دی۔ ان کے زیر تدریس طلبہ نے نہ صرف قرآن کو صحیح پڑھنے کا فن سیکھا بلکہ تجوید کے اصولوں پر بھی بھرپور عمل کیا۔
تجوید کی تعلیم:
قاری نسیم احمد کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے تجوید کے اصولوں کو بہت سادہ اور آسان طریقے سے طلبہ تک پہنچایا۔ تجوید کی مہارت کا صحیح طریقے سے منتقل کرنا ایک چیلنج ہوتا ہے، لیکن قاری نسیم احمد نے اس میں کمال حاصل کیا۔ ان کے طریقہ تدریس میں تلفظ، مخارجِ حروف، (وقف) اور مدود جیسے اہم اصولوں کو اہمیت دی گئی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے طلبہ کو تلاوت کے دوران آواز کی صفائی، شدت اور نرم لہجے پر بھی توجہ دی۔
قرأت کی اصلاح:
قاری نسیم احمد کی قرأت نہ صرف علم کا خزانہ تھی بلکہ ان کا ہر لفظ اور ہر آیت پڑھنے کا انداز قرآن کی روح کے مطابق تھا۔ انہوں نے طلبہ کی قرأت کو درست کرنے کے لیے مختلف اصولوں پر زور دیا، جن میں عربی لہجے کی درستگی، تلفظ کا خیال رکھنا، اور قرأت کی خوبصورتی شامل تھی۔ ان کی محنت سے کئی طلبہ نے مختلف قرأت کے ذخیرے کو بہتر طریقے سے سمجھا اور پڑھا۔
قرآن کریم کے ساتھ تعلق کی گہری سمجھ:
قاری نسیم احمد نے ہمیشہ قرآن کریم کی تلاوت کو محض ایک تعلیمی عمل نہیں سمجھا، بلکہ ایک روحانی اور دینی تجربہ قرار دیا۔ ان کی تدریس میں نہ صرف علم بلکہ روحانیت کا بھی گہرا پہلو شامل تھا۔ انہوں نے طلبہ کو قرآن کریم کے پیغامات کو سمجھنے کی ترغیب دی اور ان کے دلوں میں قرآن سے محبت پیدا کی۔
طلبہ کی تربیت:
قاری نسیم احمد نے صرف طلبہ کو تجوید و قرأت کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کی اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دی۔ انہوں نے قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو اس کے اصولوں اور اس کے پیغامات کی روشنی میں کردار کی درستگی کی جانب بھی راغب کیا۔
دینی خدمات اور اہمیت:
ان کی خدمات نہ صرف تعلیمی لحاظ سے اہم تھیں بلکہ وہ دینی حوالے سے بھی ایک رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی قرأت میں جو روحانیت اور تاثیر تھی، وہ طلبہ کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑتی تھی۔
قاری نسیم احمد کی تجوید اور قراءت کے میدان میں خدمات نہ صرف ان کی تدریسی قابلیت کا اظہار ہیں، بلکہ ان کی زندگی قرآن کے پیغامات اور اصولوں کی تعلیم کا ایک عملی نمونہ ہے۔ ان کی محنت اور لگن نے نہ صرف مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم کے طلبہ کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا، بلکہ پورے ملک میں قرآن کی تعلیم و تلاوت کے معیار کو بلند کیا۔
آپ کی شخصیت:
قاری نسیم احمد کی شخصیت انتہائی متواضع، بااخلاق اور نیک تھی۔ آپ ہمیشہ اپنے طلباء کی رہنمائی اور ان کی فلاح کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ آپ کے اندر علم کی محبت اور دین کی خدمت کا جذبہ بے پناہ تھا، جس کا اثر آپ کے شاگردوں پر بھی واضح طور پر نظر آتا تھا۔ان کی زندگی ایک نمونہ تھی جس میں حسن اخلاق اور علم کا ایک خوبصورت امتزاج تھا۔
قاری نسیم احمد کا اخلاقی معیار ہمیشہ بلند رہا۔ ان کا ہر عمل، ہر بات، اور ہر قدم لوگوں کے دلوں میں احترام پیدا کرتا تھا۔ وہ نہ صرف اپنے شاگردوں کے لیے ایک بہترین استاد تھے بلکہ ایک حقیقی رہنمائی کا کردار بھی ادا کرتے تھے۔ ان کی نرم دلی، انسانیت پسندی، اور عاجزی ہر کسی کو متاثر کرتی تھی۔
قاری نسیم کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی تھی۔ ان کی زندگی میں تکبر یا خود پرستی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی سبق دیتے کہ سادگی اور اخلاقی فضائل انسان کو بلند کرتے ہیں۔ان کے ساتھ وقت گزارنے والے ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ قاری نسیم احمد حسین اخلاق کے پیکر تھے۔ وہ ہمیشہ لوگوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے اور ان کی شخصیت میں وہ سچائی اور صداقت تھی جو آج کل کے دور میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
قاری نسیم احمد صاحب کے اخلاق کا ایک اور نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے عمل سے لوگوں کو سکھاتے تھے۔ علم کی اہمیت کے ساتھ ساتھ، وہ اپنے شاگردوں کو اخلاقی تربیت بھی دیتے تھے۔ ان کا یہ گہرا عقیدہ تھا کہ علم اگر حسن اخلاق کے ساتھ نہ ہو تو وہ کسی بھی معاشرتی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
بہار قانون ساز کونسل کے رکن قاری صہیب کی کامیابی میں قاری نسیم احمد کا کردار:
قاری صہیب کی کامیابی میں ان کے والد محترم قاری نسیم احمد کی کاوشیں بے حد اہم اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قاری نسیم احمد نے نہ صرف اپنی زندگی کو علم و تدریس کی خدمت میں گزارا بلکہ اپنے بیٹے قاری صہیب کی شخصیت کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
قاری نسیم احمد کی تربیت اور رہنمائی نے قاری صہیب کو اخلاقی، فکری اور دینی اعتبار سے مضبوط بنیاد فراہم کی۔ وہ ایک اعلیٰ ترین استاد، والد اور رہنما تھے، جنہوں نے اپنے بیٹے کو ہمیشہ حق و انصاف کی راہ پر چلنے کی ترغیب دی۔ قاری صہیب کی سیاسی اور سماجی کامیابیوں میں ان کے والد کی فکری رہنمائی اور اصولوں کا گہرا اثر ہے۔ قاری نسیم احمد نے قاری صہیب کو یہ سکھایا کہ سیاست صرف اقتدار کے لیے نہیں، بلکہ لوگوں کی خدمت اور معاشرتی بہتری کے لیے کی جانی چاہیے۔
قاری نسیم احمد کی تعلیمات میں محبت، اخوت، سچائی اور محنت کا پیغام تھا، جس نے قاری صہیب کو ایک نیک دل رہنما بنایا۔ وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کو لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے کی ترغیب دیتے تھے، اور ان کی رہنمائی میں قاری صہیب نے نہ صرف اپنے دینی علم کو بڑھایا بلکہ سیاست میں بھی اپنی کامیابی حاصل کی۔اور آج وہ بہار قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے اپنی قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔
لہٰذا قاری صہیب کی کامیابی میں قاری نسیم احمد کی کاوشوں کا بڑا عمل دخل تھا۔ ان کی تربیت اور دعائیں قاری صہیب کو ایک کامیاب اور باصلاحیت فرد بنانے میں معاون ثابت ہوئیں،قاری نسیم احمد نے اپنے علم و عمل سے قاری صہیب کو نہ صرف دینی علم فراہم کیا بلکہ دنیاوی کامیابی کے لیے بھی اس کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کی۔ قاری نسیم احمد ایک بےباک اور حقیقت پسند شخصیت تھے، جو ہمیشہ حق و انصاف کے علمبردار رہے۔ ان کی زندگی کا مقصد لوگوں کی فلاح اور اصلاح تھا۔قاری نسیم احمد کا اس بات پر ایمان تھا کہ تعلیم اور اصولوں کی مضبوط بنیاد انسان کو کامیابی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری صہیب، جو بہار قانون ساز کونسل کے رکن بنے، اپنی سیاسی اور سماجی کامیابیوں میں اپنے والد قاری نسیم احمد کے اصولوں اور تعلیمات کو اپنا مشعل راہ سمجھتے ہیں۔
قاری نسیم احمد کی سرپرستی اور رہنمائی میں قاری صہیب نے نہ صرف دینی بلکہ سیاسی میدان میں بھی کامیابی حاصل کی۔ ان کے درمیان باہمی تعلقات میں ایک استاد اور شاگرد کی محبت اور احترام تھا، جو ایک دوسرے کی کامیابی کی بنیاد بنا۔ قاری نسیم احمد نے ہمیشہ قاری صہیب کو اس بات کی اہمیت دی کہ وہ اپنے علم اور عمل سے عوام کی خدمت کریں اور اپنے معاشرتی کردار کو بہتر بنائیں، تاکہ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکیں۔آخرکار قاری نسیم احمد کی فکری رہنمائی اور اخلاقی تربیت کا اثر قاری صہیب کی کامیابی میں واضح طور پر نظر آتا ہے، اور ان کی کامیاب زندگی اس بات کا غماز ہے کہ قاری نسیم احمد کی تعلیمات آج بھی ان کے ساتھ ہیں۔ قاری صہیب کی کامیابی قاری نسیم احمد کے تعلیمی، اخلاقی اور رہنمائی کے اثرات کا ایک عظیم نتیجہ ہے۔
آپ کی یادیں:
قاری نسیم احمد کی آواز کی تاثیر اور ان کی تلاوت کے انداز نے بہت سے لوگوں کے دلوں کو چھوا۔ ان کی تلاوت کی روانی، قواعد کی درستگی، اور جذبات کی شدت ان کی تلاوت سننے والے کے لئے ایک منفرد تجربہ بناتی تھی۔ قاری نسیم کی آواز میں ایک خاص تاثیر تھی جو سننے والے کو ایک روحانی سکون اور اطمینان بخشتی تھی۔آپ کے انتقال کے بعد بھی آپ کی تعلیمات اور رہنمائی کو یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کے شاگرد آج بھی آپ کے بتائے ہوئے اصولوں اور طریقوں کو اپنی زندگیوں میں عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ آپ کی شخصیت اور آپ کے علم کی قدردانی کرنے والے افراد کا حلقہ آج بھی قائم ہے۔
اللہ تعالی قاری نسیم احمد کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آپ کی قرآنی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور آپ کی شخصیت ایک روشن ستارے کی مانند رہ کر ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔ اُن کی شخصیت ایک روشن چراغ کی طرح ہے جس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کرتی رہیں گی۔