سنو سنو!!

قربانی مافیاؤں سے ہوشیار

(ناصرالدین مظاہری)

بے شک دین آسان ہے، اتنا آسان ہے کہ کسی کو بھی محروم نہیں چھوڑا، جو دینے والے ہیں انھیں دینے کا حکم ہے جو نہیں دینے والے ہیں انھیں صبر کا حکم ہے، دینے والے شکر ادا کرکے ان اللہ مع الشاکرین کا مصداق ہوں گے تو نہ دے پانے والے صبر کرکے ان اللہ مع الصابرین کے مستحق ہوں گے۔ محروم کوئی نہیں ہے، ہاں بس دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الید العلیا خیرمن ید السفلی۔

قربانی مافیاؤں سے ہوشیار
قربانی مافیاؤں سے ہوشیار

عید قرباں کی آمد آمد ہے، چاروں طرف قربانی کے تذکرے ہیں، امیر لوگ اچھے اچھے چھکے چھکے ، چھٹے چھٹے جانور خرید رہے ہیں، درمیانی لوگ بڑے جانور میں حصہ لینے کی تلاش وجستجو میں مشورے کررہے ہیں، بہت سے لوگ جو بڑے جانور کی قربانی کرنے کی ہمت یا دلچسپی نہیں رکھتے وہ خود اپنا بکرا پال لیتے ہیں، سال بھر اس کی پرورش کرتے ہیں، بچے اس بکرے سے اور بکرا گھر کے بچوں سے ایسے مانوس ہوجاتا ہے کہ گویا یہ بھی اسی خاندان کا ایک فرد ہے، ایسے مانوس بکروں کی قربانی بڑے دل گردے کا کام ہوتاہے، بچے جدائی پر روتے ہیں، بچیاں آنسو بہاتی ہیں، عورتیں اسکا گوشت نہیں کھاتی ہیں، کافی دن اس بکرے کے تذکرے ہوتے ہیں، اس کی اٹھکیلیاں، شرارتیں زبان زد ہوتی ہیں، سچ ہے کہ اصل قربانی تو یہی ہے کہ گھر والوں کو اس کی جدائی بہت ستاتی ہے اور اللہ تعالی بھی تو یہی چاہتے ہیں، اللہ تعالی ہمارے خلوص کا امتحان لیتے ہیں۔

بے شک آپ پیسے والے ہیں، آپ نے موبائل نکالا کسی سستے یا مہنگے حصہ کو کنفرم کرکے پیسے ٹرانسفر کردئے، ادھر سے آپ کو آپ کے موبائل کی اسکرین پر ہی رسید مل گئی، آپ بھی خوش ہوگئے کہ قربانی ہوگئی لیکن رکئے ٹھہرئے اور سوچئے فراڈ کام کرنے والے جب مکہ مکرمہ میں بھی فراڈ کرسکتے ہیں جہاں ذرا ذرا سی غلطی پر دل لرزتے ہیں تو سوچیں یہ تو ہے ہی "دارالفراڈ۔” آپ بالکل آنکھ بند کرکے اپنی رقمیں ٹرانسفر کرکے بری الذمہ نہیں ہوسکتے ہیں، یہ ایک وجوب ہے، وجوب کی ادائیگی تسلی بخش ہو اس کی تحقیق بھی آپ پر واجب ہے، بالکل زکوۃ کی طرح، جس طرح زکوۃ دینے سے پہلے آپ پر تحقیق ضروری ہے اسی طرح یہاں بھی تحقیق ضروری ہے ورنہ آپ کسی فراڈی کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔ زکوۃ مافیاؤں کی طرح ایک سرگرم گروہ قربانی مافیاؤں کا بھی ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے، آپ ہرگز اس کو ہلکے میں نہ لیں۔

بہت سے واقعات سنے ہیں کہ لوگ اچھے جانور کے روپے لے لیتے ہیں اور قربانی کہیں اور تھکے ہوئے مریل جانور کی کرادیتے ہیں ، کچھ تو کالے جانور کے پیسے لے کر کسی ایسے علاقہ میں جہاں سفید جانور کی اجازت ہے وہاں قربانی کرادیتے ہیں یہ بھی دھوکا ہے اس کے علاوہ ایسے بھی واقعات سنے ہیں کہ لوگ پوری پوری رقم ہضم کر جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب۔

سوچیں پندرہ سو روپے میں کیسا جانور ملے گا، اس کی حالت کیسی ہوگی، پندرہ سو کے حساب سے بڑا جانور صرف دس ہزار پانچ سو روپے کا ہوا، کیا مہنگائی کے اس دور میں جب ڈھائی سو روپے کلو بڑے کا گوشت ملتا ہے اتنا سستا جانور بے چارہ کتنا سست ہوگا سوچ سکتے ہیں۔

"مری بھیڑ خواجہ خضر کے نام”والا معاملہ تو نہ کریں، اللہ تعالی ہماری نیتوں کو دیکھتا ہے، ہمارے حال سے واقف ہے، جو چیز آپ اپنے لئے پسند نہیں کرتے کیسے آپ اس کو راہ خدا میں قربان کرنے کی سوچ سکتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے پہلے اس کے معیار کو بھی ملحوظ رکھئے یہ کیا کہ بھیڑ مرنے لگی تو خواجہ خضر کے نام والی حرکت کردی۔

قربانی ایک سعادت ہے اس کی ادائیگی واجب ہے، اس کا معیار آپ کی ذمہ داری ہے، مستحق لوگوں تک اس کا گوشت پہنچانا نبوی تعلیم ہے، فراڈ کے اس ماحول میں آپ آنکھ بند کرکے ہر کسی پر اعتماد مت کیجیے، فراڈیوں کی کمر توڑنے کے لئے کچھ حرکت آپ بھی کیجیے، جہاں قربانی کرانی ہے اس کی تحقیق مختلف ذرائع سے کرتے رہیے تاکہ آپ کی طرف سے قربانی صحیح طورپر ہوسکے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہر شخص مخدوش یا مشکوک ہے، اچھے لوگ بھی ہیں پر اچھے لوگوں کی تلاش کی ذمہ داری آپ کی ہے۔

ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے

اگر اللہ تعالی نے آپ کو امیر اور رئیس بنایا ہے تو قربانی بھی اپنے معیار کی کیجیے، آپ کا معیار زندگی شاندار ہے اور آپ حصہ سبب سے سستا لینا چاہتے ہیں یہ آپ کے خلوص کا امتحان ہے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare