"قضاء کی ضرورت ، اہمیت اور افادیت ” ایک مطالعہ
تبصرہ نگار: عین الحق امینی قاسمی
ایک حقیقی مسلمان کے لئے ایمان و اطاعت کے ساتھ جینا،نہ صرف زندگی کا لازمی حصہ ہے،بلکہ بنیادی ذمہ داری بھی ہے ۔ یہ ذمہ داری ادا ہوگی اطاعت والے مزاج اور دین وشریعت کو مان کر زندگی جینے کے ذہن کے ساتھ ۔ دارالقضاء کا پورا نظام اور اس کے فیصلوں کے نفاذ کا مدار بھی اسی اطاعت اور ماننے کی صلاحیت پر موقوف ہے، یہ حقیقت ہے کہ دار القضاء کے سسٹم سے خود کو جوڑ کر چلنے میں جہاں خاندانی، سماجی اور دینی فائدے ہیں وہیں وقت ،معاش ،عزت، اوراحترام واعتبار کے حوالے سے بھی بھلائیاں جڑی ہوئی ہیں۔ جہاں قاضی کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم ،عقل وفہم اور عدل وانصاف کو راہ دے ،وہیں مدعی اور مدعا علیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عائلی وخاندانی مسائل میں قاضی کے فیصلے کو دین کا حصہ سمجھ کر اپنے اوپر نافذ کرے۔
قضا کی ضرورت ،اہمیت اور افادیت کے موضوع پر امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ بانی آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے گراں مایہ منفرد مقالات ہیں،جنہیں ممتاز صاحب قلم جناب حافظ محمدامتیاز رحمانی جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر نے ترتیب و تزئین سے آراستہ کر امت کے سامنے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ کتاب میں قضاء سے متعلق تمام کنہیات سے بحث کی گئی ہے ،حضرت امیر شریعت رابع نے موجودہ ہندستان میں دارالقضاء کے قیام کے لئے کتنی کوششیں کی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امارت شرعیہ کے قیام 1921کےبعد سے1958تک صرف ایک دارالقضاء پھلواری شریف سے کام لیا جارہا تھا ۔ مگر جب انہوں نے امارت شرعیہ کے امیر کی حیثیت سے ذمہ داری قبول کی توپہلا حکم نامہ جو انہوں نے لکھا ہے اس میں اس بات کا اظہار فرمایا کہ دارالقضاء کی توسیع ہماری ترجیحات کا حصہ ہے ۔انہوں نے اپنے دور امارت میں دارالقضاء کے لئے متعدد الگ الگ جہتوں سے پروگرام منعقد کروائے ،قضاۃ تیار کئے ،کام کی ضرورت ،قضاۃ کی اہمیت اور دارالقضاء کے قیام کی افادیت کے لئے سرگرم ماحول سازی فرمائی۔آج الحمد للّہ 91/دارالقضاء ملک کے طول عرض میں قائم ہیں جوملی وسماجی خدمات کی راہ سے ملک کی عدالتوں کے بوجھ کو کم کرنے میں اپنا بھر پورتعاون پیش کررہے ہیں۔
کتاب دراصل امیر شریعت رابع کی انہیں تحریکی فکر وزہن کی رہین منت اور چھ گراں قدرمقالا ت و خطبات پر مشتمل ہے۔ جواں سال مؤلف کتاب، مشمولات کتاب کے حوالے سے ایک جگہ تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں : ان میں سے پہلا مقالہ تربیت قضاء ہفتہ منعقده 16/ اگست ۱۹۵۸ء خانقاہ رحمانی مونگیر اور دوسرا ہفتہ منعقده ۳۰ /ا گست ۱۹۵۸ء خانقاہ رحمانی ، مونگیر میں پڑھا گیا تھا۔ اس میں تیسرا خطبہ صدارت ہے جو” ایمان کی طاقت٫ اطاعت کا مزاج: دارالقضاء کی بنیاد ہے“ کے عنوان سے ہے ، یہ افتتاح دار القضاء ہزاری باغ وپلاموں منعقدہ ۲۸ فروری 1962 ء کا ہے ، جسمیں ہر علاقہ میں دارالقضاء کی ضرورت واہمیت پر گفتگو کی گئی ہے۔ چوتھا خطبہ دارالقضا کا قیام شرعی ذمہ داری کے عنوان سے ہے، جو مرکزی دارالقضا ریاست کرناٹک بنگلورکے افتتاح کے موقع سے اا /اکتو بر 1987ء کو دیا تھا، اس میں نظام قضا کی اہمیت ، ہندوستان میں قضا کی مختصر تاریخ، قاضی کی صفات وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پانچواں خطبہ قضا کا محکمہ مسلمانوں کی زندگی کا لازمی حصہ کے عنوان سے ہے، فقیہ عصر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی کی قضا کے موضوع پر اہم تالیف اسلامی عدالت ہے۔ ۱۸ دسمبر ۱۹۸۸ء کو غالب اکیڈمی دہلی میں اس کتاب کا رسم اجراء عمل میں آیا ، حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نے اجلاس کی صدارت کی ، یہ اسی اجلاس کا خطبہ صدارت ہے، جس میں قضا کی اہمیت، نظام قضا کو وسیع کرنے کی ضرورت وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چھٹا خطبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں ۲۸ جولائی 1986 ء کو دیا گیا ہے جس کا عنوان "اسلامی حکم کے مطابق فیصلہ ہر صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے "دراصل یہ تربیت قضاء کے کیمپ کا افتتاحی خطبہ ہے، جسمیں تربیت قضا کی اہمیت اور طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے”.
اپنا احساس یہ ہے کہ کتاب کی اہمیت کے لئے مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا نام وقلم ہی کافی ہے ،دیدہ زیب طباعت کے لئے حافظ محمد امتیاز رحمانی صاحب مبارک باد کےمستحق ہیں ،جنہوں نے گنج گراں مایہ کو سامنے لانے کا کام کیا ،موصوف خانوادہ رحمانی کے بزرگوں کے تربیت یافتہ ہیں ،جامعہ رحمانی ،خانقاہ رحمانی ،امارت شرعیہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی نسبت سے ہندستان بھر میں چوٹی کےعلماء و دانشوران قوم وملت سے دید وشنید ان کی برابر رہی ہے ،قلم وقرطاس کی جہت سے انہوں نے اپنا قد کافی بلند کیا ہواہے ، بہت سے اکابرین سے انہوں نے دعائیں بٹوری ہیں ، اس وقت وہ جن زاویوں سےخدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ سچ مچ انہیں دعاؤں کا صدقہ ہے۔انہیں لکھنے پڑھنے کے کاموں سے غیر معمولی دلچسپی ہے ، امیر شریعت سابع مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی کی بلند نگاہی بھی انہیں خوب نصیب ہوئی ہے ،ان کے معتمدین میں سر فہرست رہنے والے سعادت مندوں میں سے ایک ہیں۔خوبی کی بات یہ ہے کہ حافظ صاحب آسان زبان میں مافی الضمیر کے اظہار کی صلاحیت سے مالا مال ہیں ،چھوٹے بڑوں سے بے تکلف باتیں کرنا جانتے ہیں،حاضر جوابی یقینا صحبت باولیا کا اثر ہے اور کسی بھی مجلس میں شہ نشیں پر براجمان ہوکر نمایاں رہنے کی خواہش بھی ان کی برابر پوری ہوتی رہتی ہے ۔اچھا ذوق انہوں نے پایا ہے ،کام کو ذمہ داری سے پورا کرنے کا جگر رکھتے ہیں ،تعب وتھکن سے چور کبھی افسردہ سبک گامی سے جینا وہ پسند نہیں کرتے ،مسلسل حرکت وتیز گامی ،وقت سے کاموں کی انجام دہی ان کی زندگی کا خاصہ ہے ،درجن بھر سے زائد کتابیں ،ان کےگہر بار قلم سے نکل کر سرمہ بصیرت بن چکی ہیں وہ اس وقت چھوٹے قد کے بڑے قلم کار مؤلف ومرتب کی حیثیت سے امت کو مستفید کررہے ہیں ،بزرگوں کی امانت کو سینوں میں محفوظ رکھ کر قلم وقرطاس کے حوالے کرنے کی جو صلاحیت اللہ نے انہیں دی ہے وہ اس عمر میں کم لوگوں کے نصیبے میں آئی ہے۔کمال کی بات یہ بھی ہے کہ وہ مواقع کے استعمال میں بھی انتہائی حساس ہیں وہ کسی بھی مخصوص لمحے کو یادگار بنانا اور اچھوتے طرز تحریر سے مہمانوں کی علمی ضیافت کرنا بھی خوب جانتے ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب شہر آہن جمشید پور کی ایک علمی مجلس میں پیش کرنے کی غرض سے ہی مرتب کی تھی جس میں سولہ آنہ وہ بحمدللہ کامیاب رہے۔
یوں تو شائع ہونے والی ساری کتابیں ہی ان کی ظاہری وباطنی خوبیوں کا مرقع ہوتی ہیں ،تاہم یہ کتاب بھی تمام تر تابانیوں میں اہم اضافہ ہے ۔80/صفحات پر مشتمل اس کتابچے میں حضرت امیر شریعت رابع کی دینی روح کو گویا سمودیا گیا ہے جس میں قضاء ،تاریخ قضاۃ ،ہند ستان جیسے ملک میں نظام قضاکے فروغ ، مفکر اسلام مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی فکری بصیرت ،ملت اسلامیہ ہندیہ کی امارت شرعیہ سے وابستگی اور ذمہ داری جیسے پہلوؤں کو مختلف زاویوں سے واضح کیا گیا ہے ۔
کتاب میں قیمت درج نہیں ہے ،البتہ یہ کتاب ہر گھراور ہر فرد کی ضرورت ہے جسے دارالاشاعت خانقاہ رحمانی مونگیر ،مکتبہ امارت شرعیہ پٹنہ ،مدرسہ مدیۃ المعارف مرزا پور بشن پور ،ڈمرا سیتا مڑھی اور ادارہ حضرت ابو بکر صدیق راجو پٹی سیتا مڑھی کے پتے سے بہ آسانی قیمتاً حاصل کر پڑھی جاسکتی ہے۔مبارک باد دیجئے مولانا قاضی محمد عمران قاسمی صاحب سیتا مڑھی کو بھی جنہوں نے اپنے منصب کی مناسبت سے علمی مواد کو شائع کرنے کی ذمہ داری قبول کی اور اپنے امیر محترم سے سچی پکی عقیدت ومحبت کا صدقہ بھی اتاردیا۔