قطرہ قطرہ احساس : احساسات کا عکاس
اسلم رحمانی
اقبال حسن آزاد ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ آپ ایک مشہور ادیب،معروف شاعر، صحافی و مدیر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔اقبال حسن آزاد اگرچہ مختلف شعبہ ہائے فکر و ادب سے وابستہ ہیں۔مگر افسانہ نگاری ان کا خاص میدان ہے جس میں وہ فکرو نظر نت نئے تجربات کرتے،اظہار کےنئے وسائل کی اختراع و ایجاد کرتے اور قلم کی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔”قطرہ قطرہ احساس”ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے،جو پہلی بار 1987ء میں منظر عام پر آیا،دوسراایڈیشن 2024ء میں منصہ شہود پر آیا ہے اس میں درج ذیل تیس افسانے شامل ہیں۔
قطرہ قطرہ احساس، آگہی،انقلاب، فوجی،لا مکاں،گھروندے،کارجہاں دراز ہے،ہتیا،نروان،ٹھاکر کا کنواں،کھوئے ہوئے سال،بٹا ہواآدمی،ضرورت، جیل،قیامت،کس کےلئے؟،پھانس،چھوٹا آدمی،دوریاں، ڈور،الیوژن،آئینۂ،کالا تل،پاپ کے پاؤں، کھلونے،مچھلی،ڈیڈی راستہ بھول گئے،مجھے پہچانا؟،جواب اور جادو گر۔ مذکورہ افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے افسانے اساطیری ادب سے مزین ہیں۔”قطرہ قطرہ احساس” اس مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے،اس کے عنوان پر غور کریں تو ایک بوڑھے باپ کی بےبسی کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ بطور مثال ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"اتنا سارا وقت وہ کسے دیں؟وقت کی یہ دولت کوئی بھی اپنے نام کرنے کو تیار نہیں۔ ہرکسی کے پاس اپنا اپنا وقت ہے۔کاش کوئی آکر ان سے وقت لے جاتا مگر اس ویران گھر میں کون آئے؟ یہاں اب ہے ہی کون؟؟ لمحہ لمحہ موت کی طرف قدم بڑھاتا ایک بوڑھا شخص،
(ص:21/)
زیر تبصرہ مجموعہ کے پہلے افسانہ کے درج بالا اقتباس میں بوڑھے باپ کے احساسات کی ترجمانی اس کی زندگی کے تجربات، قربانیوں اور بچوں کے لیے محبت کی عکاسی نمایاں ہے۔ایک بوڑھا باپ اپنے بڑھاپے میں تنہائی، بے بسی اور زندگی کی تھکن محسوس کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے بچوں کی کامیابیوں اور خوشیوں میں سکون بھی پاتا ہے۔ اس افسانہ کے مطالعے سے درج ذیل جذبات اور کیفیات کی جھلک ملتی ہے:
تنہائی اور غم: بڑھاپے میں باپ کا جسم تھک چکا ہوا ہے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی آرزو کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی قربانیوں کا کوئی صحیح ادراک ہو، مگر بچے زندگی کے اپنے راستوں پر مصروف ہیں۔
محبت اور قربانی: بوڑھا باپ اپنے بچوں کے لیے ہمیشہ فکر مند ہے، چاہے وہ خود کتنی ہی تکالیف میں کیوں نہ ہو۔ اس کی محبت کبھی کم نہیں ہوتی، اور وہ ہمیشہ اپنے بچوں کی فلاح کے لیے دعا گو رہتا ہے۔
یادیں اور پچھتاوا: اس کی زندگی میں گزرے ہوئے وقت کی یادیں چھائی ہوتی ہیں، اور کبھی کبھار اسے یہ پچھتاوا ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنی زندگی کے کچھ اہم لمحے بچوں کے ساتھ گزار نہ سکا۔ تاہم، یہ یادیں اس کے لیے ایک تسکین کا باعث بھی ہوتی ہیں۔
مقدس رشتہ: ایک بوڑھا باپ اپنے بچوں سے محبت میں ایک خاص قسم کی گہرائی محسوس کرتا ہے، جو ایک بے لوث اور مقدس رشتہ بن چکا ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ ہمیشہ خوش رہے، اور اس کی دعائیں ہمیشہ اس کے ساتھ ہوں۔
افسانے میں ان احساسات کی عکاسی اس کی سوچوں، خوابوں،اس کی روزمرہ کی زندگی کے چھوٹے لمحوں کو بیان کیا گیا ہے، جیسے اس کا اپنے بچوں سے بات کرنا، یا خاموشی میں بیٹھ کر انہیں یاد کرنا۔ یہ سب اس کی اندرونی دنیا کو واضح کرتا ہے اور ایک گہرا، دلگداز منظر پیش کرتا ہے۔ اس مجموعہ میں دسواں افسانہ "ٹھاکر کا کنواں” ہے اس افسانے میں اقبال حسن آزاد نے بیسویں صدی کے جدید ٹھاکر کے جدید کنوؤں کی منظر کشی کی ہے۔ یہ افسانہ ‘ راقم کے نزدیک مجموعے کی سب سے دلچسپ اور مکمل ترین کہانی ہے حالانکہ یہ ایک انتہائی تشنہ موڑ پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ شاید یہی اس کہانی کی بنیادی خوبی بھی ہے کہ اس کا روایتی کلائمکس کہانی کی ابتدا ہی میں نمودار ہوجاتا ہے اور بقیہ حصہ ایک طرح سے اینٹی کلائمکس کا مواد ہے لیکن ایک نئے موڑ پر پہنچ کر جہاں کرداروں اور واقعات کو ذرا سنبھلنے کا موقعہ ملتا ہے، وہیں کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ ابتدا، اٹھان، تصادم اور انجام کے صدیوں پرانے ڈھانچے کو توڑ کر کہانی کے لیے ایک بالکل مختلف ساخت اپنا لینا ایک ایسا ہمت طلب اقدام ہے جس کی توقع ایک عام کہانی کار سے نہیں کی جا سکتی۔ اقبال حسن آزاد اپنے افسانوں میں احساس کی کوکھ کا دروازہ اس طرح کھولتے ہیں کہ شور کے بغیر آپ اس میں داخل ہو سکتے۔ کیونکہ احساس کا دروازہ بند تھا اور جب دروازہ بند ہوتا ہے تو احساس کی کوکھ بانجھ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ان کا افسانہ لمبے سائے اور قد معاشرے کو شبنم کے قطروں سے غسل دیتا ہے اور ان حدود و قیود کا تعین کرتا ہے جس سے انسانیت کا شیرازہ بکھرتا ہے۔ جو لوگ نقلی اور بہروپیہ قد اونچا رکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ عموماً حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔
میری نظر میں اقبال حسن آزاد نے قطرہ قطرہ احساس تخلیق کر کے افسانوی مجموعہ کو تاریخ کے جھروکوں میں افسانوی ادب کو محفوظ کیا ہے۔ اگر ادیب کی آنکھ میں مشاہدہ نہ ہو، ضمیر با آواز نہ ہو، زبان ذائقہ سے لطف اندوز ہونے کی عادی نہ ہو تو ادب کی تخلیق مشکل ہوتی ہے۔ بلاشبہ قطرہ قطرہ احساس افسانوی ادب سے معمور داستانوں کا سمندر ہے۔ قطرہ قطرہ احساس افسانوی مجموعہ کی کہانیاں واقعی ایک خاص نوعیت کی تخلیقی اور نفسیاتی گہرائی رکھتی ہیں۔ کہانیاں انسانی جذبات، احساسات اور داخلی دنیا کی خوبصورتی کو بہت باریک بینی سے بیان کرتی ہیں۔ یہ کہانیاں نہ صرف تخیلات کو پرواز فراہم کرتی ہیں، بلکہ قاری کو مختلف زندگی کے پہلوؤں سے جڑا محسوس کراتی ہیں۔یہ نہ صرف بیرونی دنیا کو، بلکہ اندر کی دنیا کو بھی ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ کہانیاں ایک طرح سے ہمارے اندر کی گہرائیوں میں سفر کرنے کی دعوت دیتی ہیں، جہاں انسان اپنے جذبات اور کیفیات کے بارے میں زیادہ گہرائی سے سوچتا ہے۔ ایسی کہانیاں پڑھتے ہوئے قاری محسوسات کے ایک وسیع سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ہے، جہاں ہر لفظ ایک نیا منظر اور ہر جملہ ایک نیا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس مجموعہ کے افسانوں میں زبان کی خوبصورتی اور بیان کی شگفتگی پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اس کی زبان نہ صرف سادہ بلکہ دلکش اور خوشنما ہے، جو قاری کو ہر لمحہ دلچسپی میں رکھتی ہے۔ افسانہ نگار نے افسانوں میں لفظوں کا انتخاب اس طرح کیا ہے کہ ہر جملہ دل پر اثر چھوڑتا ہے اور کسی قسم کی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے بیانیہ میں شگفتگی، جو ان کے افسانوں کی ہنسی اور غم کی لذت کو بڑھاتی ہے، زندگی کی پیچیدگیوں کو بڑی سلیقے سے ظاہر کرتی ہے۔ ان کی زبان میں جو توازن پایا جاتا ہے، وہ ان کے افسانوں کو نہ صرف ذہنی طور پر پُرکشش بلکہ جذباتی طور پر بھی گہرائی عطا کرتا ہے۔اپنے موضوع کے حوالے سے تمام کہانیاں اپنے اندر ندرت اور جدت لیے ہوئے ہیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’یہ افسانوی مجموعہ ‘ آج کے دور کے نمائندہ افسانوی مجموعوں میں سے ایک ہے۔ جدید اردو ادب کے طالب علموں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ 160 صفحات کی یہ خوبصورت کتاب،ثالث پبلیکیشنز، شاہ کالونی، مونگیر، بہار، انڈیا کے زیر اہتمام 2024 میں شائع ہوئی ہے۔ نامور ادیب عبد المغنی،ممتاز افسانہ نگار شفیع مشہدی،غضنفر،شہاب ظفر اعظمی،علی رفاد فتیحی،اسلم جمشیدپوری اور ارشد عبد المجید کے گراں قدر تاثرات کے علاوہ بیکور پر اقبال حسن آزاد افسانہ نگاری کی فنی خصوصیات پر ممتاز ناقد وہاب اشرفی کے بھی تاثرات شامل ہیں۔ جس سے کتاب کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔کتاب میں کئی مقامات پر ٹائپنگ کی غلطیاں ہیں۔ لیکن اس قدر نہیں ہے کہ مطالعے کے ذوق پر کوئی اثر پڑے،کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے، دوسری بار کتاب کی اشاعت کے لیے اقبال حسن آزاد کو ڈھیروں مبارکباد اور نیک خواہشات، امید ہے کہ ادبی حلقوں میں اس کتاب کی شایان شان پذیرائی کی جائے گی۔کتاب کی قیمت 250 روپے ہے، مصنف کا رابطہ نمبر: 9430667003