’’قواعد النحو‘‘
نحو کی کتابوں میں ایک مفید اور جامع اضافہ
تحریر: بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے اس کے قواعد اور گرامر کا علم ہونا لازم ہے، ان قواعد کے بغیر کسی زبان کے چند جملے زبان زد ہو تو سکتے ہیں خواہ وہ اہلِ زبان کی صحبت کے نتیجے میں ہوں یا جملوں کو رَٹ کر، تاہم اس کو زبان سے واقفیت یا مناسبت سمجھنا بڑا ظلم ہے۔ عربی زبان کا معاملہ بھی یہی ہے، اس کی گرامر کو ’’نحو و صرف‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں علوم مل کر اس عظیم قرآنی، نبوی اور جنّتی لغت سے آشنا کر سکتے ہیں۔ برصغیر بالخصوص ہندوستانی مدارس میں کچھ کتابیں اس حوالے سے نسلاً بعد نسلٍ نصاب کا حصہ ہیں، جس وقت ان کتابوں کو شاملِ نصاب کیا گیا یقیناً یہ ہمارے اکابرکا بہترین انتخاب تھا۔
چنانچہ اس زمانے کی رائج زبان ’’فارسی‘‘ میں مختلف علوم کی کتابیں نصاب کا جز قرار پائیں، عربی نحووصرف کے علاوہ فقہ، اصولِ فقہ اور منطق و فلسفے کی کئی فارسی کتابیں ہمارے اکابر نے پڑھیں اور انھوں نے فضل خداوندی، مخلص و تجربہ کار اساتذہ کے فیض، اپنی شبانہ روز جدوجہد اور ان کتابوں کی تدریس کے نتیجے میں اپنی شخصیت کو کثیر الاستفادہ بنایا۔ تاہم زمانہ کی رفتار اور تقاضوں کے مطابق نصابِ تعلیم میں جزوی ترمیمات ہوتی رہیں، مقصودِ اصلی (علومِ عالیہ) کو جوں کا توں باقی رکھا گیا اور ان مقاصد کے ذرائع (علومِ آلیہ) میں حسب ضرورت و حسبِ علاقہ مفید تبدیلیاں ہوئیں۔
نحو و صرف کی مشہور فارسی کتابوں میں سرفہرست نحومیر، صرف میر، میزان الصرف اور علم الصیغہ ہیں جو آج بھی بہت سے مدارس کے ابتدائی درجات میں شاملِ نصاب ہیں۔لیکن کیا عربی قواعد سیکھنے کے لیے فارسی زبان میں لکھی گئی کتابوں پر اصرار درست ہے؟ یہ اہلِ علم کے درمیان گفتگو اور بحث کا موضوع ہے۔
راقم کے ایک استاذ اس کو بطور مثال سمجھاتے تھے کہ عربی دوم میں استاذ سامنے بیٹھے ہوئے غیراردو داں طالب علم کو علم الصیغہ پڑھاتے ہیں، فارسی کی عبارت پڑھتے ہیں، اردو میں تقریر کرتے ہیں، اور عربی زبان کے قواعد سمجھاتے ہیں، جب کہ سامنے والے کی زبان حسب علاقہ گجراتی؍ بنگالی؍ آسامی؍ منی پوری وغیرہ ہے۔ اب بیک وقت اس طالب علم پر اردو، فارسی و عربی کا بوجھ ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر اس کی فارسی مضبوط ہے تو بھی علم الصیغہ کی پیچیدہ عبارتیں اسے ضرور پریشان کرتی ہیں، جب کہ اس دور انحطاط اور شارٹ کورس کے بڑھتے رواج سے صلاحیتوں کا حال ظاہر ہے۔
شاید اسی ضرورت کو سامنے رکھ کر ماضی قریب کے ہمارے اکابر اور موجودہ دور کے بہت سے علماء نے ابتدائی نحو و صرف کے لیے اردو زبان میں کتابیں تیار کیں جنہیں پڑھ کر طالب علم کو عربی زبان سے عمدہ مناسبت ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے جو کتابیں مقبول ہیں ان میں معلم الانشاء، تسہیل النحو، تسہیل الصرف، کتاب النحو، کتاب الصرف، تمرین النحو، تمرین الصرف، آسان نحو، آسان صرف، نحو قاسمی، لسان القرآن، تیسیر الإنشاء بے شمار مدارس میں نصاب کا حصہ ہیں، بلاشبہ ہر کتاب کی اپنی افادیت ہے اور ہر مصنّف کا اپنا خلوص اور عربی زبان کی خدمت کا جذبہ، یہ دونوں قابل قدر ہیں اور ان شاء اللہ قابلِ اجر بھی۔
اسی زرّیں اور عمدہ سلسلے میں ایک نہایت مفید اور شاندار اضافہ ’’قواعد النحو‘‘ کی شکل میں ہوا ہے۔ کتاب کا پورا نام ’’آسان اور مکمل قواعد النحو‘‘ ہے۔ اس کے مصنّف ہندوستان کے مشہور عالم دین، معروف صاحبِ قلم اور درجنوں کتابوں کے مصنّف و مترجم محترم جناب مولانا ندیم الواجدی صاحب مدظلہٗ ہیں۔ مصنّف کو نہ تو تعارف کی چنداں حاجت ہے اور نہ ہی ان کی قلمی خدمات کو کسی خراجِ عقیدت کی ضرورت۔
سردست کتاب کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں:
یہ کتاب 262 صفحات پر مشتمل ہے جس میں تمام کثیر الاستعمال بنیادی نحوی قواعد کو اسّی (80) اسباق پر تقسیم کیا گیا ہے۔ حروفِ تہجی کی شناخت سے لے کر تقریباً تمام نحوی قواعد کا اس انداز میں احاطہ کیا گیا ہے کہ عربی زبان کے شوقین عصری تعلیم یافتہ بھی اس کتاب سے بخوبی استفادہ کر سکتے ہیں۔ ہر سبق کے بعد مفصل و جامع تمرینات اس کی اہمیت کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔ راقم چند سالوں پر مشتمل اپنے حقیر سے تجربے کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہے کہ نحومیر، ہدایۃ النحو، کافیہ اور شرح جامی تک پڑھنے کے بعد اور ان کی پیچیدہ عبارتوں کو مالہٗ و ماعلیہ یاد کرنے کے بعد بھی جب کسی طالب علم سے مبتدا خبر کی مثال پوچھی جائے تو عموماً اس کی زبان سے بس ’’زید قائم‘‘ ہی نکل پاتا ہے۔
مزید مثالیں پیش کرنے کے لیے کہا جائے تو اکثر طلبہ توقف کے بعد جواب دے پاتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ قواعد تو انہیں رَٹوا دیے جاتے ہیں، بعض مدارس میں ایک بیٹھک میں ابتدائی کتابیں سننے کا رواج بھی ہوتا ہے لیکن جب قرآن کریم کھول کر ان سے کہا جائے کہ اس لفظ پر یہ اعراب کیوں ہے؟ یہ معرب ہے یا مبنی؟ اسم متمکن کی کون سی قسم ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر طلبہ بس نظریں نیچی رکھنے پر اکتفا کرتے ہیں، گویا ایک گونہ احساسِ مرض تو ہے لیکن اس مرض کی دوا سے شفایابی کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔
زیر نظر کتاب میں جس تفصیل کے ساتھ تمرینات دی گئی ہیں اگر نحومیر اور ہدایۃ النحو کے طلبہ اپنی اُن کتابوں ساتھ اس کتاب کو اپنے مطالعہ میں رکھیں، اُن کتابوں میں پڑھے جانے والے قواعد کی تمرین اِس کتاب سے حل کریں یا مدرّسین قواعد کا اِجراء اس کتاب سے کرائیں، ساتھ میں قرآنی مثالوں سے اُن قواعد کو ازبر کرائیں تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یقیناً بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔ اگرچہ کچھ قواعد نحومیر کے علمی مستویٰ سے بلند ہیں تاہم اساتذہ کی نگرانی میں اگر تمرینات حل کی جائیں تو فائدہ لازمی ہوگا۔ ان تمرینات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ روایتی انداز کی مشق نہیں، بلکہ نئے نئے الفاظ اور مثالیں طلبہ کے علمی ذخیرے اور ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے میں بڑی معاون ہیں۔
تاہم اگر ہر سبق نئے صفحے سے شروع ہوتا تو فنی اعتبار سے اس کتاب کی سیٹنگ مزید "پُر کشش” ہوتی، شاید آئندہ ایڈیشن میں اس پر غور کیا جائے۔
مصنّفِ کتاب سے معلوم ہوا کہ وہ اسی انداز میں ’’قواعد الصرف‘‘ بھی مرتب کر رہے ہیں۔ نیز ’’قواعد النحو‘‘ کو آگے چل کر حصص میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، گویا یہ کتاب ’’تسہیل الصرف‘‘ کی طرح مرحلہ وار الگ الگ جماعتوں کے لیے بھی دستیاب ہوگی، نیز مکمل کتاب کا یکجا ایڈیشن بھی طالبین کے لیے فراہم ہوگا۔
امید ہے کہ یہ دونوں کتابیں طلبہ کے لیے نہایت مفید ثابت ہوں گی، نیز نصاب و نظام میں اصلاح اور ترمیم کے خواہاں حضرات ان کتابوں کی شمولیت پر بھی غور کر سکتے ہیں۔