حضرت ماسٹر محمد قاسم کی خود نوشت سوانح حیات : تعارف وتبصرہ
ڈاکٹر مولانا نور السلام ندوی
بزرگان دین، علمائے ربانی اور مصلح امت کے تذکرے اور سوانح حیات آنے والی نسلوں کے لیے چراغ راہ ہوتے ہیں، ان کے پڑھنے سے اصلاح کا جذبہ اور عمل کا شوق بیدار ہوتا ہے، ساتھ ہی انسان اپنے بزرگوں کے احوال و آثار اور ان کی عملی زندگی کی جدوجہد سے آشنا ہوتا ہے، اپنے کردار و عمل کو اس آئینے میں دیکھ کر اسے سنوارنے اور سجانے کی کوشش کرتا ہے، زیر تبصرہ کتاب خود نوشت سوانح حیات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،اس کےسوانح نگار نمونہ سلف، عارف باللہ حضرت ماسٹر محمد قاسم صاحب پوہدی، بیلا ضلع دربھنگہ ہیں، اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی کے احوال، علمی و عملی زندگی کی سر گذشت، دعوتی و اصلاحی اسفار کی روداد، اپنے اساتذہ(جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں) شاگردوں، ہم عصروں کا تذکرہ کیا ہے، اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا سراج احمد امروہی کا ذکر نہایت ہی عقیدت و محبت کے ساتھ کیا ہے، ان کی مجلس اور صحبت کی اثر انگیزی، شخصیت کا جمال و جلال، شفقت و محبت، وعظ و نصیحت اور حج بیت اللہ کا تذکرہ بھی بڑا دلچسپ ہے، اس کے مطالعے سے سوانح نگار کی زندگی کے نشیب و فراز اور جدوجہد پر روشنی پڑتی ہے، ان کے عہد کے بعض واقعات اور حالات بھی زیر اثر بیان ہوئے ہیں، جو سبق آموز بھی ہیں اور نصیحت آمیز بھی،
سوانح نگارکی شخصیت کے کئی گوشے ایسے ہیں جو زیر قلم نہیں آسکے یا تشنہ رہ گئے ہیں، ضرورت تھی کہ اس پر بھی توجہ دی جاتی، تاکہ نئی نسل چراغ زندگی سے مزید منور ہوتی، یہ بھی درست ہے کہ زندگی میں بے شمار واقعات اور حالات پیش آتے ہیں لیکن صرف انہیں واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے ذہن و دل متاثر ہو،
آپ بیتی ایک تخلیقی عمل ہے، جس میں صداقت بیانی اور جمالیاتی کیفیت کا موجود رہنا ضروری ہے،ہر چند کہ یہ خود نوشت دوسری خود نوشتوں سے مختلف ہے، باوجود اس کے اس میں دونوں خوبیاں پائ جاتی ہیں، داخلی اور خارجی کیفیات کے امتزاج نے خود نوشت کو دلچسپ اور اثر انگیز بنا دیا ہے،
سوانح نگار کا نام محمد قاسم ہے اور اسی نام سے معروف و مشہور ہیں، لیکن بچپن میں ان کا نام محمد کاری تھا،یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا،نام کی تبدیلی کے سلسلے میں انہوں نے بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے، لکھتے ہیں:”نویں کلاس تک میرا نام محمد کاری تھا اور یہی اسکول کے رجسٹر میں بھی درج تھا، جب دسویں کلاس میں گیا تو میرے ایک مشفق استاد شری جمونا پرشاد جو ہیڈ ماسٹر بھی تھے، انہوں نے محمد کاری نام کو ناپسند کیا اور میرا نام محمد کاری سے محمد قاسم میں تبدیل کر دیا، اس کے بعد سے میں محمد قاسم ہو گیا”
اس واقعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ برادران وطن کا سلوک مسلمانوں کے ساتھ پہلے کس طرح کا تھا،وہ مسلمانوں کے کلچر سے کس حد تک واقفیت رکھتے تھے اور ان کا کتنا خیال رکھا کرتے تھے،اور یہ کہ معلم کسی بھی مذہب وفرقہ کا ہو اگر وہ شرافت انسانی کے زیور سے معمور ہے تو اس کے اثرات زیر اثر تربیت بچوں پر بھی پڑتے ہیں، یہ واقعہ اس کی ایک مثال ہے،
ماسٹر محمد قاسم صاحب کو حضرت مولانا سراج احمد امروہی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت و اجازت حاصل ہے اور طویل عرصہ سے جام عرفان لٹا رہے ہیں،عامۃ الناس کی رشد و ہدایت اور صلاح و اصلاح کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ان کی زندگی مثالی بھی ہے اور قابل عمل بھی، اس لیے ان کی زندگی کے نقوش عام لوگوں کے لیے باعث کشش اور لائق عمل ثابت ہوں گے، انہوں نے زندگی کے مشاہدات و تجربات،احساسات و تاثرات اور سبق آموز واقعات کو بڑے حسن وسلیقے سے تحریر کیا ہے،اسلوب تحریر آسان،عام فہم اور شائستہ وشگفتہ ہے،
آخر کے اٹھ صفحات میں مولانا رضوان احمد ندوی نائب مدیر ہفت روزہ نقیب، امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ نے حضرت ماسٹر محمد قاسم صاحب کے ارشادات ملفوظات کو جمع کر دیا ہے،حضرت کے ایک مرید جناب ڈاکٹر جمال الدین صاحب نرملی بازار ضلع سوپول،نے اپنے پیر ومرشد کے ملفوظات کا ایک حسین گلدستہ تیار کیا ہے، اسی گلد ستہ سے چند ملفوظات کا انتخاب کر کے شریک اشاعت کر دیئے گئے ہیں ، تاکہ قارئین کو حضرت ماسٹر صاحب کے احسان وسلوک کے مقام مرتبہ سے واقفیت حاصل ہو جائے،بلاشبہ یہ بہت مفید اضافہ ہے، لیکن یہ اضافہ بھی آٹے میں نمک کے مانند ہے،خود نوشت سوانح حیات بہت مختصر ہے، اختصار اس کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی،لیکن جو بھی ہے وہ سیکھنے، سمجھنے، برتنے اور عمل کرنے کے لحاظ سے بہت ہے، یہ کتاب عام پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بھی مفید ہے اور حضرت کے مریدین،متوسلین، متعلقین اور معاصرین کے لیے بھی یکساں مفید ہے، 72 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت ایک سو روپیہ ہے،مذکورہ کتاب مدرسہ اشرفیہ عربیہ پوہدی بیلا، ضلع دربھنگہ سے حاصل کی جا سکتی ہے، نیز مصنف کے موبائل نمبر 9934450409 پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے،