ماہِ محرم الحرام کی بدعات و خرافات
از عائشہ سراج مفلحاتی
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، جو اشھر حرم، یعنی حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، احادیث میں اس ماہ کی اہمیت وفضیلت مذکور ہے، یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، جو اسی ماہ کی دسویں تاریخ ہے؛ لیکن افسوس کی بات ہے کہ بہت سارے مسلم معاشرے میں، اس ماہ میں متعدد بدعات و خرافات نے جنم لے رکھا ہے، میں اپنی اس مختصر سی تحریر میں ماہ محرم الحرام سے متعلق مروجہ بدعات اور باطلانہ عقائد میں سے چند کا ذکر کروں گی؛ تاکہ لوگ ان سے باخبر ہوں اور دور رہنے کی کوشش کریں:
۱۔ سوگ منانا: بہت سارے لوگ اس مہینہ کو غم کا مہینہ کہتے ہیں؛ کیوں کہ اسی ماہ میں نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ اور افرادِ اہل بیت کو کربلا میں شہید کیا گیا تھا؛ اسی لیے اس ماہ میں ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا، سوگ منانا عوام الناس میں عام ہے؛ لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ نے اس سلسلے میں ہماری کیا رہنمائی کی ہے؟ اس مناسبت سے علامہ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ کا ایک قول نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جس کا مفہوم ہے کہ: غمِ حسین منانا اور سوگ کرنا صرف روافض کا ڈھونگ ہے، ورنہ حقیقی غم سردار بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہونا چاہیے؛ لیکن یہ شیعہ حضرات وفات نبی یا خلفائے راشدین کی وفات پر ماتم نہیں کرتے، بس شہادت حسین اور بعض دیگر افراد پر کرتے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ)
۲۔ شیعوں کی طرح واقعۂ کربلا کو مبالغے اور رنگ آمیزی سے بیان کرنا۔
۳۔ دس محرم کے دن تعزیے نکالنا، انہیں قابلِ تعظیم و تکریم سمجھنا اور ان سے مرادیں مانگنا۔
٤۔ گھروں میں مخصوص کھانے مثلاً کھچڑا پکانا، حلیم پکانا اور پانی کی سبیلیں لگانا اور بال بچوں کو ہرے رنگ کے کپڑے پہنا کر انہیں فقیرِ حسین بنانا، حافظ ابن کثیر کا قول البدایہ والنہایہ میں ہے کہ خوارج نے حضرت حسین کی شہادت کی خوشی میں کھچڑا پکایا تھا، یعنی کھچڑا پکانا اہل بیت سے دشمنی کی علامت ہے؛ لہذا محبین کو اس سے بچنا چاہیے ۔
۵۔ دس محرم کو تعزیوں اور ماتم کے جلوس نکالنا اور ذوق و شوق کے ساتھ اس میں شریک ہونا اور کھیل کود سے ان محفلوں کی رونق میں اضافہ کرنا۔
٦۔ کربلا کے واقعہ کو پیش کرنا اور اس کا ڈرامہ کرنا ۔
۷۔ دس محرم کو مرثیہ خوانی، سینہ کوبی، ماتم اور نوحہ میں شرکیہ کلمات ادا کرنا ۔
۸۔ شہادت حسین کے غم میں دس محرم کو زیب وزینت کو ترک کرکے ننگے سر، ننگے پاؤں اور برہنہ رہنا ۔
۹۔ دس محرم کو حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کے نام پر نذر ونیاز اور فاتحہ کرنا ۔
۱۰۔ حضرت حسین رضی اللّٰہ عنہ کی یاد میں یاحسین کے فلک شگاف نعرے لگانا ، سیاہ لباس میں ملبوس ہونا۔
١١۔ جلوس میں مرد و زن کا اختلاط ہونا ۔
میں نے بطورِ مثال چند مروجہ بدعات کا ذکر کیا ہے، ورنہ ان کے علاوہ اور بھی دیگر واہیات اعمال ماہ محرم میں مسلمانوں کا ایک طبقہ کارِ خیر اور ثواب سمجھ کر انجام دے رہا ہے؛ حالاں کہ انہیں اس بات پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہر وہ عمل جو قرآن و حدیث، صحابہ ، اہل خیر نیز خیر القرون سے ثابت نہ ہو، وہ لایعنی اور بے کار ہے، مندرجہ بالا تمام افعال سراسر غلط اور بدعات و خرافات ہیں، یہ وہ افعال ہیں جن سے شریعت اسلامیہ نے واضح طور پر دوری اختیار کرنے اور بچنے کا حکم دیا ہے؛ لیکن ان بدعات کے زنجیر میں عوام اس قدر جکڑ چکی ہے کہ اس سے آزاد ہونا مشکل ہوگیا ہے، ان بدعات سے یہ عیاں ہے کہ آج بھی امت مسلمہ اپنے خاندانی، سماجی اور علاقائی رسم و رواج کے ساتھ جہالت کی عمیق گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی ہے، محرم الحرام جیسے بابرکت ماہ کو ایک غم کی وجہ سے نحوست کا مہینہ قرار دینا اور بدعات وخرافات کو کار ثواب سمجھ کر کرنا، کونسی عقلمندی کہلائے گی؟ شہادت کے نام پر غم منانا اور شہیدوں کو مردہ گمان کرنا بہت بڑی جہالت ہے، جب کہ اللّٰہ نے شہیدوں کو زندہ کہا ہے۔
ایسے ماحول میں سخت ضرورت ہے کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں اور امت مسلمہ کو ان بدعات وخرافات کے گڑھوں میں گرنے سے بچائیں ۔