مثل آفتاب تھے حضرت ندیم الواجدی

ڈاکٹر سراج الدین ندوی

آج جب میں یہ سطر لکھ رہا ہوں کہ ندیم الوجدی اس دنیا میں نہیں رہے تو میرا ہاتھ کانپ رہا ہے، دل کی دھڑکنیں معمول سے زیادہ تیز ہورہی ہیں اور آنکھیں نم ہیں۔ سوچتا ہوں کہ دیوبند کی طرف کیسے رخ کروں کہ وہ شخصیت ہی اب دیوبند میں نہیں رہی جس کی محبت مجھے وہاں کے سفر پر مجبور کرتی تھی۔ کتنا پرکشش چہرہ تھا مرحوم کا جو دیکھتا تھا گرویدہ ہوجاتا تھا۔زہدو تقویٰ کا نور ان کی پیشانی پر چاند کے ہالہ کی طرح چمکتا تھا۔خاندانی وضع داری ان کی ہر ادا سے ٹپکتی تھی۔بات کرتے تھے تو پھول جھڑتے تھے۔مسکراکر استقبال کرتے،جب تک ساتھ بیٹھتے پوری توجہ دیتے تھے،حسب حال ضیافت کرتے تھے۔ کوئی ان کے سامنے اپنا ذاتی مسئلہ رکھتا تو اس کو حل کرنے کی حتی الوسع سعی کرتے۔ کتنے ہی بچوں کی مالی مدد کرتے تھے۔الغرض اسلامی اخلاق کا پیکر تھے حضرت ندیم الواجدی

مثل آفتاب تھے حضرت ندیم الواجدی
مثل آفتاب تھے حضرت ندیم الواجدی

مولانا ندیم الواجدی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ عالم باعمل،مثالی معلم، بیباک صحافی، ایک اچھے محقق اور صاحب طرز مصنف تھے۔آپ نے نہ صرف دینی و علمی موضوعات پر قلم اٹھایا بلکہ جدید زمانے کے امورو مسائل بھی آپ کے زیر قلم آئے۔ آپ کے مضامین و مقالات نہ صرف مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئے بلکہ آپ کے قلم سے عالمانہ و محققانہ وقار کی حامل کتب بھی منظر عام پر آئیں۔ہندوستان کا شاید ہی کوئی ایسا اردواخبار ہو،آپ کی تحریریں جس کی زینت نہ بنی ہوں۔آپ نے اپنا بھی ایک رسالہ ”ترجمان دیوبند“ کے عنوان سے جاری کیا۔
آپ کا انداز تحریردل نشیں تھا۔ علمی و تحقیقی کتب میں آپ نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس کی زبان اور انداز تحریر عالمانہ اور محققانہ ہو،بچوں کے لیے جو نگارشات آپ کے قلم سے منصہ شہود پر آئیں ان میں آپ نے تسہیل کا خیال رکھا اور صحافتی انداز کے مضامین میں آپ کی تحریروں کا مطمح نظر یہ تھا کہ:”شاید کے اتر جائے ترے دل میں مری بات“۔آپ نہ صرف ایک کامیاب مصنف اور قلم کار تھے بلکہ مصنف ساز بھی تھے۔دارالعلوم کے درجنوں طلبہ کو آپ نے مضمون نگاری اور ترجمہ نگاری کی طرف متوجہ کیا۔کئی باصلاحیت طلبہ سے آپ نے علمی و تحقیقی کام کرایا۔
مولانا ندیم الواجدیؒ 23جولائی 1954کو دیوبند میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدمولانا واجد حسین قاسمیؒ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے شیخ الحدیث تھے۔آپ کے دادا بھی معتبر عالم دین تھے اور جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد میں شیخ الحدیث تھے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا خانوادہ نہ صرف دیندار تھا بلکہ علم دین سے بھی مالا مال تھا۔آپ کے جد امجد تقریباً ڈیڑھ صدی قبل ضلع بجنور سے دیوبند منتقل ہوگئے تھے۔ آپ کا اصل نام ’واصف حسین‘تھا جو اس وقت کے عظیم عالم دین، مجاہد آزادی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ نے رکھا تھا۔جس پودے کو جیسا مالی ملتاہے اور جس طرح کی فضا میسر آتی ہے وہ اسی طرح پھلتا پھولتا ہے۔سرزمین دیوبند کی دینی و علمی فضا اور متبحر علمائے دین کی تربیت آپ کو میسر ہوئی۔ چنانچہ آپ خود بھی باکمال عالم ہوئے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم دیوبند کی علمی فضاؤں میں ہوئی۔ اس کے بعد آپ دادا کی سرپرستی میں چلے گئے اور جلال آباد رہ کر حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی،یہاں پر آپ نے عربی سوم تک تعلیم پائی۔ اس کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور1974میں دورہ حدیث کی سند حاصل کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دارالعلوم میں اس وقت کے نامور اساتذہ اپنے فیض علم کے دریا بہا رہے تھے۔دورہ حدیث سے فراغت کے بعد آپ نے عربی زبان و ادب کی طرف رخ کیا اور اپنے زمانے کے عربی ادیب، القاموس الجدید ودیگر درجن بھر عربی کتب کے مصنف حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیااورعربی ادب میں تخصص کی ڈگری حاصل کی۔ جسے ہم پی ایچ ڈی کہہ سکتے ہیں۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد آپ کو فکر معاش ہوئی۔اس کے لیے آپ نے مدرسہ عربیہ رحمانیہ حیدر آباد کا رخ کیا۔ابھی وہاں کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ دارالعلوم کے صد سالہ اجلاس کا وقت آن پہنچا اور اس کی بعض ذمہ داریاں آپ کے سپرد کی گئیں۔اجلاس کے بعد آپ کی صلاحیتوں کے پیش نظر دارالعلوم کے شعبہ تصنیف و تالیف نے آپ کی خدمات حاصل کرلیں۔اس شعبہ میں آپ نے دوسال گزارے اس دوران کئی اہم تصانیف منظر عام پر آئیں۔اس کے بعد آپ نے آزاد ذریعہ معاش کی منصوبہ بندی کی۔اس کے تحت دارالعلوم کے نزدیک ہی جو بازار ہے اس میں ”دارالکتاب“کے نام سے ایک مکتبہ قائم کیا۔آپ کے کتب خانہ میں درسی کتب کے علاوہ دیگر موضوعات پر بڑی وقیع کتب موجود رہتیں۔اسی کے ساتھ آپ نے خود درجنوں کتب تحریر کیں اور انھیں اپنے مکتبہ سے شائع کیا۔چند برسوں میں ہی ”دارالکتاب“ اردو دنیا کا معتبر دارالاشاعت شمار ہونے لگا۔ امام محمد غزالی کی عظیم تصنیف، شہرہ آفاق کتاب احیاء العلوم کا بے مثال اردو ترجمہ ’احیاء العلوم الدین‘کے نام سے ۴ جلدوں میں آپ ہی نے شائع کیا۔اس کے علاوہ رشحات قلم، قیامت کی نشانیاں، اور مولانا وحیدالدین خاں کے نظریات، لہو پکارے گا آستین کا، پھر سوئے حرم چل، ہندوستان کا تازہ سفر، ملت اسلامیہ کا دھڑکتا دل، جدید عربی، معلم العربیہ، التعبیرات المختارہ، سمیت درجنوں کتابیں نہ صرف مقبول ہوئیں،بلکہ کئی کتب کو بہت مدارس نے اپنی درسیات میں شامل کیا گیا۔
مولانا ندیم الواجدی ؒ مسلکی اعتبار سے اگر چہ مسلک دیوبند پر قائم تھے،مگر وہ توسع پسند تھے۔ہمیں ان کی تحریریں امت میں اتحاد کی راہیں تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔چنانچہ وہ تمام جماعتوں سے رابطہ رکھتے تھے اور ہر جگہ پسند کیے جاتے تھے۔وہ اسلام کے داعی تھے نہ کہ مسلک کے۔وہ حق پرست تھے اور سچائی کا جرات مندانہ اظہار بھی کرتے تھے۔وہ حکمت و مصلحت کی آڑ میں باطل سے مداہنت کے روادار ہر گز نہ تھے۔
میرا ان سے تقریباً تیس سال پرانا تعلق تھا۔ان سے درجنوں ملاقاتیں رہیں۔وہ ایک بار جامعۃ الفیصل تاج پور بجنور میں منعقدہ ایک سمینار میں تشریف لائے تھے جو ت”دینی تعلیمی ادارے اور عصری آگئی“ کے موضوع پر منعقد ہوا تھا۔ہمارے ادارے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔میری تصنیفات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔جب میں نے اپنے اساتذہ اور مشاہیر علماء کے حالات زندگی قلم بند کیے۔اور ان کو ایک کتاب کی شکل میں مرتب کیا۔جس کا نام میں نے ”جو اکثر یاد آتے ہیں“ رکھا تو نہایت مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اس نسخہ کو آپ دارالکتاب سے شائع کروائیں۔چنانچہ میں نے انھیں اجازت دے دی اور آج وہ کتاب دارالکتاب پر موجود ہے۔
کسے معلوم تھا کہ موصوف بغرض علاج امریکہ جائیں گے اور وہیں سے دارالبقاء کوچ کرجائیں گے۔ 26/ستمبر کو دل کا دورہ پڑااور داخل اسپتال کیے گئے۔چار اکتوبر کو ڈاکٹروں کے مشوروں کے بعد اوپن ہارٹ سرجی کی گئی۔ سرجری کے بعد حالات بہتر محسوس ہوئے۔لیکن 13/اکتوبر کو اچانک طبیعت بگڑنے لگی اور 14/ اکتوبر کو مالک حقیقی کی جانب سے بلاوا آگیا۔ ساری زندگی اللہ کی اطاعت کرنے والے بندے نے مالک کی پکار پر لبیک کہا اور خوشی خوشی اپنی جان فرشتوں کے حوالہ کردی۔ رب کی اطاعت میں اس نے ایک لمحہ کو بھی یہ نہیں سوچاکہ وطن میں کتنی آنکھیں اس کے آخری دیدار کو ترس رہی ہوں گی۔ ندیم الواجدی نے اپنا گھر ضرور دیوبند میں بنایا تھا مگر ان کا اصل مسکن تو لوگوں کا دل تھا اور جو دل میں رہتا ہے اس پر اس بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے جسم کو قبر کہاں نصیب ہوتی ہے۔ اس کے مداح اس کی زیارت اپنے دل کی طرف گردن جھکا کر کرلیتے ہیں۔ ندیم الواجدی کی وفات نے دیوبند سمیت تمام علمی حلقوں کو سوگوار کردیا۔ ندیم الواجدی مثل آفتاب تھے، جو مشرق سے طلوع ہوئے اور مغرب میں چھپ گئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

خورشید کی مثال تھے حضرت ندیم الواجدی
مشرق سے جو طلوع ہوا مغرب میں چھپ گیا

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply