مدارس اسلامیہ پر خطرات کے سایے
محمد ساجد کھجناوری
دنیاکے بیش تر ممالک خصوصاً برصغیر اور جنوبی ایشیاء میں مروج مدارس اسلامیہ عربیہ کا علمی فکری اور روحانی رشتہ بنیادی طور پر تومکہ مکرمہ کے دار ارقم اور مدینہ منورہ کے صفہ نبوی مدرسہ سے ملا ہوا ہے، جہاں کے سرچشمةہدایت اور نبوی نظام تعلیم وتربیت نے قعرِ مزلت میں پڑی انسانیت کو عظمتوں کا طواف کرایا، اسے کفر وشرک اور جہالت کے بحر ظلمات سے نکال کر دین ودانش ، حیاءوتہذیب اورا نسانی تمدن سے مالامال کیا ، اسے نظافت وطہارت اور باوقاراسلامی زندگی گزارنے کے ایسے رہنما اصول دئے جنہیں گلے لگاکر انسان خالق اور مخلوق کے درمیان محترم بن سکتا ہے، حقوق انسانی کا اولین عالمی منشور بھی اسی رہبر انسانیت کا تجویز فرمودہ ہے جو صفہ مدرسہ کے سب سے پہلے مثالی معلم تھے، صلی اﷲ علیہ وسلم۔
لیکن گذشتہ قریب کی ڈیڑھ صدی میں قائم برصغیر کے مدارس دینیہ کی بات کریں تو ذہن فوراً ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی طرف مرکوز ہوجاتا ہے جسے خیرالقرون کے مدارس اسلامیہ کا نیاورزن اور تازہ بتازہ مقبول ایڈیشن بھی کہ سکتے ہیں، حکومت کے تعاون یا چند بااثر افراد کے مالی قول وقرار اور امداد سے بے نیاز ہوکر اپنے مزاج ومعیار کے مطابق نہایت خاموشی کے ساتھ یہ ادارے اپنے کام میں مگن ہیں، نہ کل یہ مدارس حکومت کے رحم وکرم پر تھے نہ آج ہیں اور مستقبل میں بھی ان کی تابناکی اور مقاصد میں کامیابی اسی الہامی اصول سے مشروط نظر آتی ہے جیسے یکے از بانیان دارالعلوم دیوبند اور روشن ضمیر عالم دین حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہ نے دیگر مزید سات اصول کے ذیل میں بطور وصیت نمبر ۸ پر ارقام فرمایا ہے ”اس مدرسہ میں جب تلک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ ان شاءاﷲ بشرطِ توجہ الی اﷲ اسی طرح چلے گا اور اگر کوئی آمدنی اس کی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر، کارخانہ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف ورجا جو سرمایۀ رجوع الی اﷲ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امدادِ غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا، گویا تعلیم سے لے کر تعمیر تک مطلوبہ وسائل میں عمومی چندہ پر ارتکاز کیا گیا، اللہ کا بے انتہا شکر واحسان ہے کہ مدارس اسلامیہ کی نشاة ثانیہ دارالعلوم دیوبند کی صورت میں محرم 1283ھ / 1866ءمیں ہوئی ۔جبکہ اس کے چھ ماہ بعد رجب 1283ھ میں جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کا قیام عمل میں آیا گویا آج سے ایک سو اٹھاون سال سے یہ ادارہ اوراس کے نقوش وخطوط پر قائم ہزار ہا مدارس غیورمسلمانوں کے عوامی تعاون سے دین وملت کی ایسی نمایاں خدمت کر رہے ہیں کہ شاید حکومتی نظام کے زیر اثر کروڑہا کروڑ روپئے سے چلنے والے تعلیمی ادارے اس کا عشرعشیر بھی پیش نہ کرسکیں۔
یہ مدارس بے سروسامانی کے عالم میں قائم ہوئے، ان کے بانیان اور وابستگان نے سماج کی تعلیم وتربیت کا ایسا بیڑہ اٹھایا کہ معاصر عصری دانش گاہوں کے پروردہ افراد اس کا تصوربھی نہیں کرسکتے تھے، تعلیم کی شمع روشن کرنے کے علاوہ ملت کے جگر گوشوں کی ایسی ذہنی وفکری تربیت کی کہ فرنگی تہذیب وکلچر اور مادیت کا عفریت انہیں پابہ زنجیر نہ کرسکا، یہاں کے اسلامی اور روحانی ماحول نے انہیں اپنے مذہب کا عقل اور نقل کی بنیاد پر ایسا گرویدہ بنایاکہ احترام انسانیت ، خدمت انسانیت کے ساتھ عالم گیر مذہب اسلام کی حقانیت اور آفاقیت سے ان سے دماغی منطقے روشن ہوگئے ، پھر وہ دانش وادب کے سفیر بھی کہلائے اور حقیقی امن وامان کے پیمبر بھی، انہوں نے مساوات ، آزادی، وطن دوستی سے بڑھ کر تعمیرِ ملک وملت کا بارگراں بھی اپنے دوشِ ناتواں پر اٹھانے میں فخر محسوس کیا، اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ہر قسم کے صلہ وستائش سے بے پرواہ ہوکر اگر کسی جماعت نے اپنے ملک اپنے سما ج اوراچھے معاشرہ کی تشکیل کیلئے اچھے شہری فراہم کئے ہیں تو اس کا سہرا بھی مدارس سے منسوب بوریا نشینوں کے سرجاتا ہے، بلکہ برصغیر اور اطراف میں ادھر سو ڈیڑھ سو سال کے اندر جو تحریکات وجود پذیر ہوئیں ان کو روبہ عمل لانے والے انہی مدارس کے پروردہ ہیں۔
لہذا آئینہ جیسی صاف وشفاف تاریخ اور زریں خدمات انجام دینے والے ان مدارس دینیہ کو ہدف تنقید اور ٹارگیٹ کرنے والے یا تو مالیخولیا کے شکار ہیں یا پھر انہیں حقیقت سے آنکھیں چرانے کا مرض لاحق ہوگیا ہے، سامراجی نظام سے ان کا ٹکراؤ تو امرمعقول تھا کہ وطن سے انہیں کھدیڑنے اور فرنگی استعمار سے اپنے ملک کو آزاد کرانے میں مدارس کے جیالوں نے پھانسی کے پھندوں تک کو جوانمردی سے چوما تھا مگر حیرت تو ان نادانوں پر ہے جنہیں اقتدار کے مزے بھی اسی مدرسہ تحریک کے سپوتوں کی قربانیوں کے صدقہ میں مل رہے ہیں۔
مدارس کی کردار کشی اور انہیں بدنام کرنے کی تاریخ تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ان کے قیام وتاسیس کی تاریخ ، غیروں سے کیا شکوہ خود اپنے نام نہاد روشن خیال اور دین بیزار طبقہ نے مدارس کو مکروہ القاب سے منسوب کرنے میں حد درجہ بے شرمی کا مظاہرہ کیا ،ادھر فرقہ پرست اور تشدد پسند افراد گاہے گاہے مدارس کے خلاف بکواس کرتے نظر آتے ہیں بلکہ زیادہ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب تختِ اقتدار پر براجمان ذمے دار شخصیتیں اپنی آئینی حدود پر شب خون مارتے ہوئے ہرزہ سرائی کرنے لگتی ہیں اوردن دہاڑے کھلے تعصب پر اتر آتی ہیں، اس کا حالیہ کربناک بیانیہ ہر ذی شعور کے علم میں ہے جس کی مختصر وضاحت یا تفصیل یوں ہے کہ:
تحفظ حقوقِ اطفال کے کمشین نے اپنے سات جون2024ءکے ایک نوٹس میں حکومت یوپی کے چیف سکریٹری سے دو موضوع پر تفصیل طلب کی تھیں۔
(۱) اترپردیش میں ایسے مدارس کی تحقیقات کی جائے جو حکومت سے امداد یافتہ ہیں اورجہاں غیرمسلم طلبہ تعلیم پارہے ہیں۔
(۲) وہ مدارس جو حکومت سے منظور شدہ نہیں ہیں ان کی نشان دہی کی جائے۔علاوہ ازیں ایسے مدرسوں میں پڑھنے والے غیر مسلم طلبہ کو وہاں سے نکال کر الگ اسکولوں میں داخل کرانے کو کہا گیا ہے۔
چنانچہ اسی نوٹس کے ذیل میں 26 جون 2024ءکو یوپی حکومت کے چیف سکریٹری نے صوبہ کے سبھی ضلع افسران کو اس بابت خط لکھ کر مزید احکامات جاری کئے جس کے بعد ضلع افسران نے یوپی کے الگ الگ مدرسوں سے مذکورہ چیزوں کی تفصیل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اللہ جزائے خیر دے جمعیة علماءہند کی قیادت عظمیٰ کو انہوں نے کمیشن برائے تحفظ اطفال کے مذکورہ اقدام کو ائینی طریقہ سے چیلنج کرتے ہوئے درج ذیل قانونی وضاحتیں بصورتِ اشتہار اخبارات میں شائع کرائیں اور اہل مدارس کو اپنے تعاون کا یقین دلایا۔
جمعیة علماءہند کے صدر محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ سے منسوب جاری کردہ قانونی وضاحت نامہ میں کہا گیا کہ :
”کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کا مدرسوں کے خلاف یہ اقدام چار وجوہات کی بنا پر بالکل غیر قانونی اور آئین کے سراسر خلاف ہے۔
(۱) آرٹی ای ایکٹ مدرسوں پر نافذ نہیں ہوتا۔
آرٹی ای ایکٹ میں یہ واضح طور پر کہاگیا ہے کہ اس کی دفعات مدرسوں، ویدک پاٹھ شالاؤں اور وہ ادارے جہاں مذہبی تعلیم دی جاتی ہے ان پر جاری نہیں ہوں گی۔
(۲) اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے تحت رجسٹریشن لازمی نہیں ہے۔
(۳) کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کا اپنے قانونی دائرے سے تجاوز۔
کمیشن کو بے وجہ مدرسوں میں پڑھنے والے طالب علموں کے متعلق تفصیل مانگنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، کمیشن ممبران میں فی الوقت صرف اس کے صدر موجود ہیں اور کمیشن کے باقی چھ ممبران کی پوسٹ خالی معلوم ہوتی ہے ،یہ اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ کمیشن کا جس قانون کے تحت قیام عمل میں آیا ہے اس کے مطابق کمیشن کے فیصلے ایسی اجتماعی میٹنگ میں ہی پاس ہوسکتے ہیں جس میں کم ازکم کمیشن کے چار ممبران بشمول صدر موجود ہوں ، اگر کمیشن میں فی الوقت ممبران کی اکثریت موجود نہیں ہے جو اس کی کم ازکم حد کو پورا کرسکے تو ایسی صورت میں کمیشن کے فیصلوں پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتاہے، علاوہ ازیں مدرسوں سے طالب علموں کو زبردستی نکالنا اورانہیں دوسرے اسکولوں میں داخلہ دلانا کا اختیار کمیشن کو نہیں ہے ۔
(۴) آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی:
جس طرح سے مدرسوں میں غیر مسلم طالب علموں کے متعلق تفصیل طلب کی گئی ہے وہ در اصل مذہبی اختلاف کو ہَوا دیکر سیاسی فائدہ اٹھانے کی ایک مہم ہے ، ویدک پاٹھ شالاوں کی طرح ہی ہندوستان کے مدارس بھی یہاں کی تاریخ اورتہذیب کا ایک اہم حصہ ہیں، حالاتِ حاضرہ کے مطابق آج کے مدارس ماڈرن اور جدید تعلیم مہیا کرارہے ہیں۔ ایسے میں غیر مسلم بچوں کا مدرسوںمیں پڑھنا آئینی طور پر ایک فخر کی بات ہونی چاہئے تھی مگر افسوس ہے کہ کمیشن کے کچھ کارکن اپنے قانونی دائرہ سے تجاوز کرکے مدارس کے خلاف اس طرح کا غیر قانونی اور غیر آئینی حکم جاری کرکے اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری طرف موضوع کی حساسیت ،حالات کی نزاکت اوربعض افسران کے انتہائی غیر ذمے دارانہ اقدام کا سخت نوٹس لیتے ہوئے 25جولائی 2024ءکو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے ملک بھر کے تقریباً بیس اہم اورمرکزی مدارس کے ذمے داران کے دستخطوں سے مزین ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں مدارس کو نقصان پہنچانے والی کوششوں کو ناقابل برداشت قراردیا، اس اخباری بیان میں بورڈ نے کمیشن برائے تحفظ اطفال کے غیر آئینی اقدامات اور حکومت یوپی کے چیف سکریٹری کے جاری کردہ عجلت پسندانہ غیر قانونی احکامات پر شدید غم وغصہ کا ظہار کرتے ہوئے انہیں ناقابل قبول قرار دیا، بورڈ نے اس بات پر بھی شدید حیرت اور افسوس ظاہر کیا کہ اس موقع پر 4849 غیر قانونی مدارس کی ایک فہرست بھی شائع کی گئی ہے جس میں دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلماءلکھنو، مظاہر علوم سہارنپور ، جامعہ سلفیہ بنارس، جامعہ اشرفیہ مبارک پور، مدرسہ الاصلاح سرائے میر، جامعة الفلاح بلریا گنج اعظم گڈھ جیسے بڑے اور قدیم مدارس بھی شامل ہیں، اب ضلع مجسٹریٹوں کی طرف سے دباؤ ڈالاجارہا ہے کہ یہاں زیر تعلیم بچوں کو اسکولوں میں منتقل کردیاجائے، وغیرہ ۔ مسلم پرسنل لاءبورڈ نے مزید قدم بڑھاتے ہوئے یوپی حکومت کے سربراہ مسٹریوگی ادتیہ ناتھ سے بھی اس بابت ملاقات کرنے اور نوٹس پر اپنا میمورنڈم دینے کا مناسب فیصلہ لیا ،جسے درمند ملی حلقوں میں بنظرِ استحسان دیکھا گیا،چنانچہ تیس جولائی کو بورڈ کا ایک وفد اس کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی صاحب کی سرکردگی میں لکھنؤجاکر وزیر اعلا کی رہائش گاہ پر ملا اور انہیں راست معلومات سے آگاہ کرکے مناسب اقدام کرنے کی گزارش کی۔
لہذا ایسے نازک اور نامساعد حالات میں جبکہ بروبحر میں سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں اورجان سے زیادہ عزیز ہمارے یہ مدارس نام نہاد دیش بھکتوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں تو ہمیں بھی متوجہ الی اﷲ ہونے کے ساتھ ان اطراف وجوانب پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، جہاں سے ہماری قانونی، انتظامی یا اخلاقی کمزوری طشت ازبام ہوتی ہو، اب داخلی اور خارجی سطح پر ہمہ وقت چوکنا رہنے اور احتساب عمل کی سرد انگیٹھی گرمانے کی ضرورت آن پڑی ہے۔
( ادارتی تحریرماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ اگست ستمبر 2024 )