مدینہ کا منشور، بھارت کا دستور اور کثرت میں وحدت کا شعور
ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
تاریخِ انسانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عدل، مساوات اور اخوت جیسے اصول ہر دور میں انسانی تہذیب کے ارتقا کا حصہ رہے ہیں، لیکن ان اصولوں کو عملی شکل دینا ہمیشہ آسان نہ تھا، خصوصاً جب قبائلی تعصبات اور جابرانہ حکمرانی غالب ہو، ایسے میں "میثاقِ مدینہ” Constitution of Medina نے روشنی کی کرن بن کر انسانی تاریخ کو ایک نئی جہت دی، یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جو انصاف، آزادی اور امن کی بنیاد پر ایک متنوع معاشرہ کی تشکیل کی طرف پہلا قدم تھا۔

یہ معاہدہ میگنا کارٹا سے بھی کئی صدی پہلے وجود میں آیا، اور محض سیاسی معاہدہ نہیں تھا بلکہ مختلف مذاہب، قبائل اور طبقات کو ایک وحدت میں پرو دینے کی ایک منفرد کوشش تھی۔
محمد عربی ﷺ کی قیادت میں تشکیل پانے والا یہ منشور انسانیت کے لیے ایک عملی درس تھا کہ کامیاب ریاست کا قیام مساوات، رواداری اور قانون کی حکمرانی پر ممکن ہے، اس میں ہر طبقہ کی علاحدہ شناخت کو تسلیم کیا گیا، یہودی قبائل کو ان کی خود مختاری دی گئی، اور دیگر اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا، یہ اصول آج بھی انسانی سماج کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
صدیوں بعد، جب ہندوستان غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوا، تو اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایک ایسے آئین کی تشکیل تھا جو نہ صرف آزادی کی حفاظت کرے بلکہ ہندوستان کے متنوع ثقافتی اور مذہبی ورثہ کو بھی دوام عطا کرے، 26 جنوری 1950 کو نافذ ہونے والا دستورِ ہند اسی خواب کی تعبیر تھا، یہ ایک جمہوری منشور ہے جو ہر شہری کے لیے مساوات، آزادی اور انصاف کی ضمانت دیتا ہے، اس دستور کے اصول—انصافJustice، آزادیLiberty، مساواتEquality اور اخوتFraternity—نہ صرف میثاقِ مدینہ کی روح کے قریب ہیں بلکہ ایک متنوع سماج کی بنیادی ضرورت بھی ہیں۔
یومِ جمہوریہ ہمیں اس بات کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے دستور کی قدروں کا جائزہ لیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کا عہد کریں، یہ دن ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرہ میں انصاف، مساوات اور رواداری کو فروغ دے رہے ہیں؟ آزادی محض ایک نعمت نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے، اور اس کا تحفظ ہم تبھی کر سکتے ہیں جب ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی کردار کو ان اصولوں کے مطابق ڈھالیں جس کا آئین ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔
دستورِ ہند کی جامعیت اس کی سب سے بڑی خوبی ہے، خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کے حوالہ سے، آرٹیکل 29 اور 30 اقلیتوں کو اپنی زبان، ثقافت اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کی آزادی دیتا ہے، یہ صرف قانونی تحفظ نہیں بلکہ ایک متنوع معاشرہ کے استحکام کی بنیاد ہے، لیکن آج کے حالات میں مسلمانوں کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں اوقاف کی جائیدادوں پر قبضہ اور پرسنل لا کے مسائل میں مداخلت نمایاں ہیں، اوقاف مسلمانوں کی دینی، تعلیمی اور سماجی ترقی کا اہم ذریعہ ہیں، اور ان پر قدغن دراصل ایک گہری سازش کا حصہ ہے، اور جمہوریت کے نام پر "سلطانئ جمہور” بننے کی کوشش ہے، اسی لیے:
بلند دعویٔ جمہوریت کے پردہ میں
فروغ مجلس و زنداں ہیں تازیانے ہیں
اسی طرح، مدارسِ اسلامیہ پر الزامات اور ان کے خلاف پروپیگنڈوں کا سلسلہ بھی ایک منظم منصوبہ کا حصہ ہے، یہ مدارس جو علم و تربیت کے مراکز ہیں، آج خود تحفظ کے محتاج ہیں، دستورِ ہند نے مذہبی تعلیمی اداروں کے تحفظ کا جو حق دیا ہے، وہ مدارس کی بقا اور ان کے کردار کو مضبوط کرنے کے لیے نہایت اہم ہے۔
ان حالات میں مسلمانوں کو اپنے کردار کا ازسرِنو جائزہ لینا ہوگا، میثاقِ مدینہ اور دستورِ ہند کی روح کو اپناتے ہوئے انہیں معاشرتی ہم آہنگی، تعلیم اور انصاف کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، یہ وقت ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے ساتھ اپنے فرائض پر بھی توجہ دیں، تاکہ وہ ایک مضبوط اور منصفانہ سماج کی تشکیل میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کر سکیں، منزل مشکل ضرور ہے، مگر راستہ امید اور عزم کے چراغوں سے روشن کیا جا سکتا ہے۔
یاد رکھنا ہوگا کہ عدل و مساوات کی قدریں ابدی ہیں، اور ان پر عمل صرف سماجی ضرورت نہیں بلکہ انسانی ذمہ داری بھی ہے، ہمیں اپنی میراث اور آئین دونوں کا احترام کرتے ہوئے ان اصولوں کو زندہ رکھنا ہوگا جو ہمارے معاشرہ کو وحدت کا شعور بخشتے ہیں۔
ایوانِ اقتدار کے مکینوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ نا انصافی اور جبر کی بنیاد پر استوار نظام زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، نازی، صہیونی، اور سامراجی طرزِ حکمرانی کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ظلم پر مبنی حکمت عملی بالآخر خود اپنے بوجھ تلے دب کر ختم ہو جاتی ہے، یہ صرف ماضی کی کہانی نہیں بلکہ آج بھی دنیا کے کئی گوشوں میں ظالم حکومتیں ایک کے بعد دوسری زمیں بوس ہو رہی ہیں۔
انہیں یہ جان لینا چاہیے کہ ملک دستور اور قانون کی بالادستی سے چلتا ہے، کسی مخصوص نظریہ یا متعصبانہ ضابطوں سے نہیں، منو سمرتی کے اصول یا کسی بھی جابرانہ طرزِ حکمرانی کے خواب دیکھنے والوں کو اس سے سبق لینا ہوگا، یہ وقت ہے کہ حکمراں اپنے رویوں پر نظرثانی کریں اور یہ تسلیم کریں کہ دستور کی روح کے بغیر کوئی جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی، اور غور کریں کہ:
جمہوریت نواز بشر دوست امن خواہ
خود کو جو خود دیے تھے وہ القاب کیا ہوئے
یوم جمہوریہ مبارک