مذاق ہی مذاق میں

احمد حاطب صدیقی (ابونثر)

برادرِ عزیز سہیل احمد صدیقی کی ’بزمِ زبان فہمی‘ میں اُس روز بات شروع ہوئی زبانِ گُفتنی سے اورجا پہنچی زبانِ چشیدنی تک۔ سب چٹوروں نے اپنی اپنی پسند کے چٹپٹے یا چاشنی بھرے ذائقوں کا ذکر کیا۔ گفتگو کا آغاز’ذائقۃُ الموت‘سے ہوا تھا۔ایک شریکِ بحث پوچھ بیٹھے:
”موت کا ذائقہ کیسا ہوگا؟ تلخ یا شیریں؟“
سہیلؔ صاحب کا جواب تھا: ”اہلِ عصیان کے لیے تلخ اور اہلِ ایمان کے لیے شیریں“۔

مذاق ہی مذاق میں
مذاق ہی مذاق میں

جواب قرآن و حدیث سے ماخوذ تھا، سو کافی تھا۔ مگر سمجھنے کے لیے سوال کیا گیا کہ ’ذائقہ‘ تو سب کی زبان ایک سا محسوس کرتی ہے۔ میٹھی چیز سب کے لیے میٹھی ہوگی۔ کڑوی شے کی کڑواہٹ سب کا منہ کڑوا کردے گی۔مگر ایک ہی چیز یعنی ’موت‘ کا ذائقہ مختلف لوگوں کو مختلف کیسے محسوس ہوگا؟’حواس‘ توسب کے ایک جیسے ہیں۔ یہ سوال سب کے سامنے پِھرایا گیا۔ ہم بھی وہیں موجود تھے۔ ہم سے بھی سب پوچھا کیے۔ ہم چپ رہے، ہم ہنس دیے۔یوں جہل کا پردہ رہا۔ بھائیو! ہم تو علومِ قرآنی کے ادنیٰ طالب علم بھی نہیں،بھلا سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر ۵۳ کی تفسیر ہم کیا کرتے؟چہ پدی چہ پدی کا شوربا…ملا کی دوڑ یقینا مسجد تک ہوگی, ہماری دوڑ بس لغات تک ہے۔سو،ہم دوڑ کر لغت اُٹھا لائے۔

اصل میں سارا چیستاں ’چکھنے‘ سے شروع ہوا تھا۔اس میں کوئی اِبہام نہیں کہ لُغوی طور پر ’ذائقہ‘ چکھنے کی حس کو کہا جاتا ہے۔ یہ حِس انسان کی اُن پانچ حِسوں (حواسِ خمسہ) میں سے ایک ہے، جن کے ذریعے سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ بقیہ چارحواس باصرہ (دیکھنے کی صلاحیت) سامعہ (سننے کی صلاحیت) لامسہ (چھونے کی صلاحیت) اور شامّہ (سونگھنے کی صلاحیت)ہیں۔ سائنسی علوم کے حصول کا سب سے بڑا اور سب سے یقینی ذریعہ یہی حواسِ خمسہ ہیں۔ اِنھیں کی مدد سے انسان معلومات بٹورتا پھرتا ہے۔ عقل اِن منتشر معلومات کو باندھ کر یکجا کر دیتی ہے، پھر نتائج اخذ کرتی ہے۔ ’عقل‘ کا مطلب ہی باندھنا ہے۔عرب اپنے سر پر رومال دھر کر جس ڈوری سے باندھتے ہیں اُس کو ’عِقال‘ کہتے ہیں۔ عقل ہی مشاہدات و تجربات کی روشنی میں طبعی قوانین دریافت کرتی ہے اور سائنسی کلیات ترتیب دیتی ہے۔ مگر عقل دھوکا بھی کھا جاتی ہے، دھوکا وہی حواسِ خمسہ دیتے ہیں جن پر عقل کا تکیہ ہے۔ کوئی ایک تکیہ بھی سرک جائے تو شاعر اپنا سر پیٹنے لگتا ہے:

جنھیں ہم اپنی آنکھیں کہہ رہے تھے
انھیں آنکھوں نے بھٹکایا بھی کیسا

صاحبو! ہمارے حواس اپنی تمام تر وسعت کے باوجود محدود ہیں۔ہر حس کا اپنا اپنا نقص ہے۔ آنکھیں دھوکا کھاتی ہیں تو سراب میں پانی نظر آنے لگتا ہے۔اگر آپ کے پاس صحرا نوردی کی فرصت نہیں تو گھر ہی میں نصف گلاس پانی لے کر اُس میں پنسل ڈال دیجے۔ پنسل ٹیڑھی نظر آنے لگے گی۔ جب کہ حقیقت میں پنسل ٹیڑھی نہیں ہوئی۔ نظر کا یہ دھوکا عشق سمیت بہت سے معاملات میں اکثر ہو جاتا ہے۔

کان بھی بج اُٹھتے ہیں۔ ماں نے بُلایا نہیں، بیٹا لپک کر پہنچ گیا: ”جی امی! آ ٓپ نے پُکارا؟“ ماں حیران رہ جاتی ہے ”میں نے تو آواز نہیں دی“۔بیٹے کو اصرار ہے: ”ابھی ابھی آپ نے پکارا تھا“۔آخر ماں یہ قضیہ یوں نمٹتا تی ہے: ”بیٹا! تمھارے کان بجے ہوں گے“۔

چھونے کی حس کا اُور چھور بھی ایک سائنسی تجربے سے کھلا۔ تین پیالے پانی کے لیجیے۔ ایک میں گرما گرم۔ دوسرے میں یخ سرد اور تیسرے میں گرم نہ ٹھنڈا،بس معتدل۔ دایاں ہاتھ گرم پانی میں ڈالیے۔ بایاں ہاتھ سرد پانی میں ڈبوئیے۔پھر فوراً دونوں ہاتھوں کو معتدل پانی میں ڈال دیجیے۔ دائیں ہاتھ کو وہ پانی سرد محسوس ہوگا اور بائیں ہاتھ کو گرم۔ مگر اس میں پانی کا کیا قصور؟ قصور تو قوتِ لامسہ کا ہے۔

اِدھر آپ کونزلہ ہوا اُدھر ناک گئی کام سے۔ خوش بُوآ رہی ہے نہ بد بُو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گھر کے کسی فرد کو کہیں سے گیس کی بو آ رہی ہوتی ہے، کسی اور کو نہیں آرہی ہوتی۔ چولھے وغیرہ چیک کیے جاتے ہیں۔ پھر محسوس کرنے والا کھسیا کر کہہ دیتا ہے کہ”اب نہیں آرہی۔“
بخار میں میٹھی چیز بھی کڑوی لگنے لگتی ہے۔ اگر کسی شخص کی ناک زکام کی وجہ سے بند ہو اور اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جائے۔ پھر اُس کو پیاز اور سیب کی کترنیں ملا کر کھانے کو دی جائیں تو آپ یقین کیجیے کہ ناک اور آنکھ بند کرکے کھانے والے کو اُس کی قوتِ ذائقہ ہرگز نہیں بتا سکے گی کہ کون سی کترن پیاز کی ہے اور کون سی کترن سیب کی۔قلاقند کھا کر تیز سے تیز میٹھی چائے کا جُرعہ لیجے، چائے پھیکی محسوس ہوگی۔گویا یہ حواسِ خمسہ بڑے دھوکے باز ہیں۔ ان سے کسی آن بھی خطا ہو سکتی۔یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کی خطا کار عقل دوسرے شخص کی عقلِ خطا کار سے بالکل الگ نتائج اخذ کرتی ہے۔”عقل عیّار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے“۔لہٰذا عقل سے حاصل ہونے والا علم ظنّی و تخمینی علم کہلاتا ہے۔ یقینی اور بے خطا علم صرف وحیِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اقبالؔ ایمان کے مقابلے میں عقل کو امام بنانے کے سخت مخالف تھے:

عقلِ بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات

گویا حیاتِ دُنیوی کی صحت اور مرض کے ذائقوں میں فرق پایا جانا تمثیل ہے اس حقیقت کی کہ شرک و کفر کے ساتھ مریضانہ اخلاقی زندگی گزار نے والے بیمار کوموت کا ذائقہ کڑوا لگے گا۔ جب کہ ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ صحت مند زندگی بسر کرنے والے کے لیے موت کا ذائقہ شیریں ہوگا۔شاید اسی شیرینی کے پیشِ نظر اقبالؔ نے بھی ’مردِحق‘ کی نشانی یہی بتائی ہے کہ ”چومرگ آید تبسم بر لبِ اوست“۔

ویسے عربی لغت کہتی ہے کہ ”ذَاقَ“ کا معنی برداشت کرنا اور آزمانا بھی ہے۔ ’ذاق العذاب‘ عذاب برداشت کرنا۔ ’ذاق الرجل‘ بندہ آزمانا۔ اُردو میں بھی ’ذاقَ‘ کے کئی مشتقات مستعمل ہیں۔ ان میں سے ایک تو ذائقہ ہی ہے۔ذائقہ کا اصل مطلب ہے چکھنے کی حِس۔ پھر اس سے مزید معانی ماخوذ ہو ئے اور ’ذائقے‘ کے مفہوم میں لذّت، لطف اور چٹخارا بھی شامل ہو گئے۔ لذّت لی جاتی ہے، لطف اُٹھایا جاتا ہے اور چٹخارا بھرا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز ’ذائقے دار‘ ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ شے خوش گوار،مزے دار اور لذیذہے، ایسی چیز کو آپ ’خوش ذائقہ‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ’چسکا‘ بھی عوام کی زبان لیتی رہتی ہے جو ذائقے کا متبادل ہے۔اہلِ پنجاب اسے ’چَس‘ کہتے ہیں۔ذائقہ چکھنا در اصل کسی چیز کا مزہ چکھنا ہے، حقیقی معنوں میں بھی اور مجازی معنوں میں بھی۔ دیکھیے جنابِ قلقؔ میرٹھی کس پھل کا ذائقہ چکھنے پر تُلے بیٹھے ہیں:

ذائقہ چکّھیں گے اک مدت سے اپنا دانت ہے
ہم دہانِ زخم سے کھائیں گے پھل تلوار کا

ذائقہ چکھنے کی صلاحیت رکھنے کو ’ذوق‘ کہا گیا۔ ہوتے ہوتے ذوق میں شوق بھی شامل ہو گیا۔ شوق کے متبادل کے طور پربھی ’ذوق‘ استعمال ہونے لگا۔دونوں کی یکجائی سے’ذوق و شوق‘پیدا ہوا۔ صاحبو!ذوق تو ایسی چیز ہے کہ جب اس کی صلاحیت شیخ محمد ابراہیم دہلوی میں پیدا ہوگئی تو وہ خاقانی ہند کہلائے، نیز استادِ شہ بنے اوربقولِ غالبؔ ’شہ کے مصاحب‘ کے منصب پر براجمان ہوگئے۔

ذائقے کے ظرف یعنی ذائقہ رکھنے کی جگہ کو ’مذاق‘ کہتے ہیں۔ گویا ’مذاق‘ اصلاًاسمِ ظرف ہے۔’چکھنے کی جگہ‘۔ مگر یہ تو لفظی اور لغوی معانی ہوئے۔ اصطلاحی معنی ہیں: ’رغبت، میلان، رجحان اور سلیقہ‘۔ اقبالؔ کہتے ہیں:’لے اُڑا بلبلِ بے پر کو مذاقِ پرواز‘ اور ظفرؔ کا شعر ہے:

وہ کیا لُطفِ سخن جانیں، مذاق اس کا نہ ہو جن کو
مزا ہے شعر خوانی کا ظفرؔ کامل مذاقوں میں

فارسی سے ’مذاق‘ کا ایک پُر مذاق مفہوم بھی ہمارے ہاں آگیا: ظرافت، ہنسی، ٹھٹّا،تمسخر، مزاح اور دل لگی۔ مثلاً:

”پہنچ گئے عدو کے گھر مذاق ہی مذاق میں
چڑھایا اُس کو داؤ پر مذاق ہی مذاق میں
پٹخ دیا زمین پر مذاق ہی مذاق میں
عدو کی توڑ دی کمر……“

(پروفیسر عنایتؔ علی خان)

Leave a Reply