مذہب کی سیاست

مفتی غالب شمس قاسمی :✍️

              ہندوستان میں مذہب کی سیاست بہت پرانی ہے، انگریزوں نے ہندوستان میں حکومت کی پائداری کے لئے مذہبی شوشے چھوڑے، اور اب  بی جے پی کا یہی ایجنڈہ ہے کہ وہ لوگوں کو مذہبی ایموشنل  کرکے ووٹ بینک بنائے، عوام کو باہمی منافرت سے بھردے،  جذباتی سیاست میں الجھا کر مدت حکومت میں اضافہ کرے، اور ایک مخصوص ذات کی بالادستی قائم کرے، رام مندر پر سیاست ہو، یا مسلم ریزرویشن میں کٹوتی کی بات ہو، مرکزی حکومت کھل کر مسلمانوں کو چیلنج کرتی ہے،  حالیہ کرناٹکا الیکشن میں پوری بی جے پی آئی ٹی سیل سرگرم ہوگئی،  ملک کے وزیر اعظم نے جم کر انتخابی  پرچار کیا، منی پور جل کر خاکستر ہوگیا، قریباً54 آدمی  فساد میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، منی پور کی مشہور چیمپئن باکسر میری کوم نے ٹویٹر پر پرائم منسٹر سے درخواست کی کہ منی پور جل رہا ہے، اسے بچا لیجئے!

لیکن نا تو برسر اقتدار لوگوں نے اس جانب التفات ضروری سمجھا، نا گودی میڈیا نے اس پر بات کی، ہر طرف ایسا ماحول بنایا گیا کہ اگر بی جے پی حکومت سے باہر ہوئی تو ہندو خطرے میں آجائیں گے ،  بلکہ اب  سیاست اتنی گندی ہوگئی ہے کہ فلموں کے ذریعے ایک خاص طبقے پر نشانہ سادھا جارہاہے، اور تمام  بھگوادھاری سیاسی لیڈران  مسلم مخالف پروپیگنڈا فلم دی کیرلا اسٹوری کی تشہیر میں لگے ہوئے ہیں،، جگہ جگہ اس فلم کو ٹیکس فری کیا گیا۔ لیکن ان کا یہ حربہ اس مرتبہ ناکام ہوا، اور کانگریس نے بڑی جیت حاصل کی، دراصل عوام نے صاف طور پر مذہبی سیاست، مذہبی منافرت اور جذباتی تقریر کو رد کردیا، اور عندیہ دے دیا کہ ترقیاتی کاموں سے صرف نظر کرکے ہم سے ووٹ نہیں لے سکتے۔

     اسی طرح اتر پردیش کی یوگی حکومت نے این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے  تاریخ ہند کے باب میں  مغل سلطنت کا تذکرہ تک ختم کردیا۔  اور اب مرکزی حکومت نے یہ ماحول بنادیا ہے کہ حکومت پر تنقید کرنے والے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے جاتے ہیں، یا جھوٹے کیس میں پھنسا کر ان کی زبان بند کردی جاتی ہے، کوئی ذرا سا عدم تحفظ کا اظہار کردے، تو اسے پاکستان چلے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

     آخر ملک کے باشندوں کو کیا ہوگیا ہے ؟  ایک خاص طبقے سے اتنی نفرت کیوں؟  آئے دن  ملک کے مسلمان یا داڑھی ٹوپی والے  پر حملہ کردیا جاتا ہے، ملک میں اسلامو فوبیا اور  مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت  روز افزوں ہے، ٹویٹر اور فیس بک پر اسلام کے خلاف اتنا زیادہ زہر اگلا جاتا ہے کہ  ایک رپورٹ کے مطابق   "عالمی سطح پر 55.12% مسلم مخالف نفرت انگیز ٹویٹس ہندوستان سے آتے ہیں”۔

    آخر اس ملک کے اکثریتی طبقہ کس سمت جارہاہے ؟ کہ اب جرم کو مذہبی نقطہء نظر سے دیکھا جاتا ہے، اگر  کوئی مسلم ہو تو قانون کی پاسداری کا خیال آتا ہے، ہندو ہو تو جے شری رام کے نعرے سے ڈھک دیا جاتا ہے، ہر پارٹی دھرم کی سیاست کرنے میں لگی ہوئی ہے، ترقیاتی منصوبوں پر بات چیت نہیں ہوتی، تعلیم کو اصل مدعا نہیں بننے دیاجاتا، بلکہ عمومی طور پر  یہ گونج سنائی پڑتی ہے کہ” بھارت کو ہندو راشٹر بنانا ہے”  مسلمانوں کی گھر واپسی کرنی ہے ” ان دنوں ہندوؤں کے مذہبی گرو دھیریندر  کرشنا شاستری خاصے چرچے میں ہیں، جو آئے دن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں، اور حکومت کی پشت پناہی حاصل ہونے کی وجہ سے کھلم کھلا جمہوریت کو داغدار کرنے والی باتیں کرتے رہتے ہیں، حالانکہ ان کے آشرم سے اکیس لوگوں کے غائب ہونے کی خبر آرہی ہے، باوجود اس کے حکومت کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ، بہار  کی پر بہار فضا کو مکدر کرنے کے لئے دھیریندر شاستری  کی سبھا بہار میں لگی، جہاں انہوں نے کھلم کھلا بھارت کو ہندو راشٹ بنانے کی بات کی، اسی طرح بہار کے بدنام زماں  بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے بھڑکاؤ بیان دیتے ہوئے کہا: کہ ” ستر سال پہلے ہمارے آباء و اجداد سے جو بھول ہوئی ہے، اس کا خمیازہ آج کی نسل بھگت رہی ہے، پوری مسلم کمیونٹی اگر پاکستان چلی گئی ہوتی تو آج بھارت میں نا کوئی ذاکر میاں،نا کوئی اویسی نا مدنی پیدا ہوتا”.

    بقول کلیم عاجز

    مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ

             پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو

ہم کچھ نہیں کہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا

تم کیا ہو تمہیں سب سے کہلوائے چلو ہو۔

     دراصل 2024 کا الیکشن  مذہبی بنیادوں پر کرنے کے لئے ابھی سے راہ ہموار کی جا رہی ہے، اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ انہوں نے نو سال میں ملک کی ابتری کو  ہی بڑھایا ہے،اور معاشی بدحالی سے دوچار کیا ہے، بھکمری میں اضافہ ہوا ہے، بے روز گاری حد سے زیادہ ہوگئی ہے، قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔

    لیکن اس بار مذہبی تقاریر، جذباتی باتیں عوام کو گمراہ نہیں کرسکتی، نفرت کی باتیں ووٹ کا سبب نہیں بن سکتی، حالیہ کرناٹکا الیکشن اس تناظر میں بہترین مثال ہے، اور خوش آئند مستقبل کی گونج ہے کہ مذہب کی راہ سے حکومت کی کرسی حاصل کرنا آسان نہیں۔

    اس سلسلے میں سعادت حسن منٹو کی بات بڑی سچی لگ رہی ہے کہ

    "لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں”۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare