مسلمان اور نیٹ( NEET)
ڈاکٹر عبد الرحیم خان
عالمی ادارہ برائے صحت (WHO) کے مطابق ایک ہزار کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے۔ موجودہ ھندوستان میں یہ تناسب اس سے بھی بہتر ہوچکا ہے، یعنی فی الوقت ہر 834 لوگوں پر ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ جہاں یہ ملک بنیادی صحتی امور میں ابھی بھی بہت پیچھے ہے وہاں WHO کی ھدایات سے بھی آگے چلے جانے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک، پچھلے دس پندرہ سالوں میں میڈیکل کالیجیز اور داخلہ سیٹس میں تقریباً دوگنا کا اضافہ ہوا ہے جس کے چلتے آج سات سو سے بھی زائد میڈیکل کالیجیز اور ایک لاکھ سے بھی زائد ایم بی بی ایس کی سِیٹس ہوچکی ہیں۔ دوسرے، گزشتہ دس سالوں میں MBBS کے علاوہ آیوش / AYUSH (آیوروید، یوگا، یونانی، سِدھا، ہومیوپیتھ) کو نا صرف حکومت نے باقاعدہ ایک منسٹری کی شکل دے کر پروموٹ کیا ہے بلکہ انہیں نیشنل رُورل ہیلتھ مِشن (NRHM) اور دیگر کئ پروگراموں کے تحت کافی نوکریاں اور میڈیکل پریکٹس میں کئ آزادیاں بھی دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں تیرہ لاکھ سے بھی زائد رجسٹرڈ ڈاکٹرز موجود ہیں۔
یہ سارا حساب کتاب یہاں رکھنے کا بنیادی مقصد ایک سوال تھا کہ ۔۔۔۔۔ اس میں ہماری حصے داری کتنی ہے؟۔ ڈاکٹری، انجینئرنگ اور پی ایچ ڈی پر بعد میں بات کریں گے۔ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ آپ میں گریجویٹ لیول پڑھے لکھوں کا کیا تناسب ہے۔ ھندوستان کی مجموعی آبادی میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق 8.15% آبادی گریجویٹ تھی جو اب بڑھ کر 12% سے کچھ زیادہ ہوگئ ہے۔ جانتے ہیں کہ اس بارہ فیصدی میں سے آپ کا کتنا حصہ ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف پونے تین فیصدی یعنی 2.75%۔ یوں کے کہہ لیں کہ آپ کے ہاں 97% سے زائد افراد بارہویں کلاس یا اس سے بھی کم تعلیم یافتہ ہیں۔ اور ہاں، اس میں چشم کشا سچر کمیٹی رپورٹ، ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے والے ممبئ و گجرات فسادات کی کرم فرمائیاں بھی شامل ہیں، ورنہ ہم سوتے رہتے اور یہ تناسب اور بھی کم رہ جاتا۔ ایسا نہیں کہ آپ کے بچے گریجویشن میں داخلہ تو لیتے ہیں پر تعصب کے چلتے انہیں فیل کردیا جاتا ہے، بلکہ آپ کا اینرولمنٹ یعنی داخلے کے لئے اپلائ کرنے کا تناسب بھی سب سے کم ہے۔ جہاں OBC 36%، SC 14% اور ST 6% گریجویشن میں داخلہ لیتے ہیں وہیں آج بھی مسلمان صرف 4.6% داخلہ کے لئے جاتا ہے اور تقریباً تین فیصد گریجویٹ لیول پاس کرتا ہے۔ جنرل ھندؤں، سکھوں، جین اور عیسائیوں کو تو آپ چھوڑ ہی دیں، جب آپ پچھڑے ورگوں سے اتنے پیچھے ہیں تو پھر بھلا ان سے کتنے زیادہ ہونگے۔ ۔۔۔۔۔ میرا کام آسان ہوگیا، اب آپ خود تخمینہ لگا سکتے ہیں کہ جب محض گریجویشن تک کا آپکا یہ حال ہے تو پھر آپ کی آبادی کا کتنا فیصد ڈاکٹر، انجینیئر، اور پی ایچ ڈی کی سطح کا تعلیم یافتہ ہوگا۔ اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اگر آپ کی فرینڈ لسٹ میں چار ہزار افراد ہیں جن میں سے آپ دو ہزار کو جانتے بھی ہیں تو شاید اسمیں دو پانچ ہی ہونگے جو پوسٹ گریجویٹ یا ڈاکٹریٹ والے ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔ چلئے رہنے دیں، اگر اس پر حقائق لکھ دوں تو باضمیروں کے بھرم کی دھجیاں اُڑ جائیں گی۔
گزشتہ سال نِیٹ کے ٹاپ پچاس کامیاب طلبہ میں سے ایک مسلم تھا، پچھلے پانچ سالوں میں یہ کبھی ایک کبھی دو اور زیادہ سے زیادہ چار ہوئے ہیں۔ نیٹ میں کامیاب مسلم طلباء کی مجموعی تعداد بھی ایک فیصدی سے بس کچھ ہی زیادہ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ اس میں بھی کتنی مسلم بچیاں ہونگی جو ہر سال نیٹ کوالیفائ کرکے ڈاکٹر بنیں گی، انہیں تو حساب کا کوئ کچا انسان بھی بآسانی انگلیوں پر شمار کرلے گا۔
سمجھنا صرف یہ تھا کہ جب آپ کو اپنی بیٹیوں کو پڑھانا نہیں تو پھر بھلا اپنی عورتوں کے لئے لیڈی ڈاکٹر ڈھونڈنے کی حماقت کیوں کرنا؟۔ جب آپ کو اپنے بیٹے کو انجینیئر نہیں بنانا تو کیوں فتویٰ بازی کرنی کہ غیر مسلم مہندس کے جانے سے مسجد پاک رہے گی یا ناپاک ہوجائے گی؟۔ جب آپ کو کمپیوٹر پروفیشنلز اور ڈیٹا ایکسپرٹ نہیں بنانے تو کیوں بکواس کرنا کہ ہمارے مذہبی ورثے کے ساتھ حکومت کیوں دوغلا رویہ اپنا رہی ہے اور ہماری کتابیں کیوں ناپید ہوتی جارہی ہیں؟
میں بسا اوقات سوچتا ہوں کہ جس مذہب میں وحی کی ابتداء اقراء سے ہو، جس میں عالم و جاھل کو صراحتاً الگ الگ درجات میں رکھا گیا ہو، جسمیں علم سیکھنے سکھانے کو راتوں کی عبادتوں تک پر فوقیت دی گئ ہو، جس میں کائیانت کے ذرے ذرے پر ریسرچ و تحقیق کی کسی بھی دوسرے مذھب سے سے زیادہ ترغیب دی گئ ہو، جس کے رسول کے اقوال و اعمال پر مکمل میڈیسین کی کتابیں موجود ہوں، جس کی خواتین گھروں سے لیکر جنگوں تک نرسنگ کے فرائض انجام دیتی رہی ہوں، جس کے اجداد شرعی علوم کے علاوہ طب، کیمیا، فلکیات، ریاضی، سائنس و فلسفہ جیسے علوم کے بابا تسلیم کیے گئے ہوں۔۔۔۔۔۔ بھلا اسے کون سی چیز مانع ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو ڈاکٹر نہ بنائے، اعلیٰ تعلیم نہ دلائے۔
میں اپنے نو بھائ بہنوں میں اکلوتا پوسٹ گریجویٹ تھا۔ اس کے بعد اللہ کی مشیت کے ساتھ کچھ میری کوششیں اور ترغیبات، کچھ انکے والدین کی نیک نیتیاں اور کچھ نئ نسل کی اپنی محنتیں کہ الحمدللہ آج دو درجن سے زیادہ بچوں میں سے کوئ ایک بھی تعلیم سے ادھر ادھر بھٹکا نہیں۔ تین ڈاکٹر، ایک فارماسسٹ، کئ انجینئر، کئ مختلف شعبوں میں گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس موجود ہیں، اور جو چھوٹے ہیں وہ بھی پڑھ رہے ہیں اور اچھی بات یہ کہ سبھی کی بنیادی تعلیم ٹھیک ٹھاک دینی بھی رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے بعض کے ہاں خواہ مخواہ کا عذر ہوتا ہے بچیوں کے برباد ہونے کا۔ میرے گھر میں ایک بچی ڈاکٹر ہوکے پریکٹس میں ہے، دوسری کا ایم بی بی ایس سکینڈ ایئر شروع ہورہا ہے، مجال کیا ہے کہ آپ دونوں میں سے ایک کو بھی اسلامی شعائر و اطوار کے ذرا بھی برعکس پاسکیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مقصد اپنی روداد دینا نہیں، بتانا ہے کہ آپ چاہیں تو تمام اسلامی اطوار و اقدار کی پاسداری ملحوظ رکھتے ہوئے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا سکتے اور خود کے اور معاشرے کے تئیں نفع بخش بناسکتے ہیں۔
“مسلمان اور نیٹ” پر ایک تبصرہ
ماشاء اللہ بہت عمدہ تحریریں ہیں پڑھ کر اچھا لگا