مشفق ومہربان اور علم دوست شخصیت
حضرت مولانا مفتی محمداسلام قاسمی رحمہ اللہ

     مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی 

بہ قلم : ( مفتی) محمد ساجد کُھجناوری

دیوبند، سہارن پور اور گنگوہ کی اپنی تقریبا پچیس سالہ تعلیمی و تدریسی زندگی کے علمی مراحل میں بہت سے افراد وشخصیات سے رسم وراہ پیداہوئی جو دوطرفہ خوش گوار طرزِ تعامل کی بدولت ناقابل فراموش تعلق پر منتج ہوکر بزم یاراں ،یاد اکابر اور سرمایۀ سعادت کا روپ دھار چکی ہے۔

یادش بخیر 1999 عیسوی میں ناچیز مکتبی تعلیم حاصل کرکے تجوید و قرأت اور درس نظامی پڑھنے کیلۓ دارالعلوم دیوبند وارد ہوا تو اپنی کم سنی اور کام سے کام رکھنے کی عادت نے باہر جھانکنے اور غیر درسی کتابوں سے قریب ہونے کا موقعہ نہیں دیا لیکن جیسے ہی درس نظامی کا ایک مرحلہ طے ہوا اور مطالعہ میں تنوع نے سر ابھارا تو اپنے مفید مطلب شخصیات وکتب سے استفادہ کا ذوق نکھرنے لگا جبکہ ” خذماصفاودع ماکدر ” کے اصول نے غیر ضروری فاصلوں کو سمیٹنے کی دلیل راہ فراہم کردی۔

دیوبند علم کی نگری ہے ، تحفظ دین وشریعت اس کا نصب العین ہے اور افراط وتفریط سے ماورا ہوکر صراط مستقیم کی توضیح و تشریح اس کی پیشانی کا جھومر، دانش وادب کا فروغ یہاں کے جیالوں کا ترجیحی عمل ہے ، اس کے برعکس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے بھی یقینا اس بستی میں پاۓ جاتے ہوں گے لیکن اس رحمان ورحیم جیسی صفات سے آراستہ پروردگار عالم کا بے نہایت شکر ہے کہ دیوبند کے دس سالہ قیام میں بھی خوشبو جیسے لوگ ہی تعارف سے بڑھ کر رفاقتوں کا حصہ بنے ۔

حضرت مولانا مفتی اسلام قاسمی ( متوفی 16/ جون _2023)سابق محدث و ادیب دارالعلوم وقف دیوبند بھی ایسے ہی ایک مشفق و مہربان اور علم دوست شخصیت کے حامل خوردنواز انسان تھے۔ جو اپنی حیات مستعار کی تقریبا پانچ دہائیاں وراثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم اور ملت کے جگرگوشوں کی تعلیم و تربیت میں بصد شوق صرف کرکے بہشتی کارواں میں شامل ہوگۓ تغمدہ اللہ بغفرانہ وامطرعلیہ شأٰبیب رحمتہ ویلھم اھلہ وذویہ ومنسبیہ الصبروالسلوان۔

سردست یہ فیصلہ دشوار ہے کہ مولانا محمد اسلام قاسمی مرحوم کو کس نسبت اور کن اداؤں سے یاد کریں ؟۔ وہ ہمارے باضابطہ استاذ نہیں تھے کیوں کہ آپ کی وابستگی دارالعلوم وقف سے تھی ، اسی طرح کسی درسی یا غیر درسی کتاب کے ذیل میں شرف تلمذ کا کوئی رشتہ بھی نہیں تھا اس کے باوصف انھیں ایک مشفق و مہربان استاذ کی حیثیت سے دیکھنے سننے اور مستفید ہونے میں کوئی تکلف نہیں ہوتا تھا، پھر یہ تعلق یک طرفہ بھی نہیں تھا حضرت مولانا توقع اور ہماری حیثیت سے زیادہ جو اعزاز واکرام اور رکھ رکھاؤ کا سلوک کرتے تھے ان کے اس بڑکپن نے مولانا کی زلفوں کا اسیر بناکر چھوڑا تھا ۔

حضرت مولانا بافیض استاذ اور مجموعۂ حسنات فرد تھے ، دارالعلوم دیوبند تو آپ کی تعلیم اور افادہ کی مادر علمی ، آنکھوں کا تارا اور سبھی کچھ تھا مع ہذا متحدہ مظاہرعلوم سہارن پور اور وہ درس گاہیں جہاں آپ نے فیض اٹھایا یا پہنچایا ان کی قدردانی اور تذکرۀ خدمات سے مولانا کی زبان تازہ رہتی تھی جس سے آپ کی احسان شناس طبیت کا ادراک ہوتا تھا ، اتنا ہی نہیں آپ نے ” درخشاں ستارے ” جیسی خوب تصنیف کے ذریعہ ان اداروں اور اپنے اساتذۀ ذی شان کو خراج عقیدت پیش کرکے فرض کفایہ ادا کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔

حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی خشک اور محدود ذہن یا واجبی مطالعہ رکھنے والے روایتی مدرس یاعالم دین نہیں تھے ، بلکہ ان میں اپنے مذہب کی طرح بڑی آفاقیت ،ہمدردی وسعت نظری اور مسلک ومشرب پر جمے رہنے کے ساتھ بحث ونظر میں کشادہ ظرفی پائی جاتی تھی ، دیوبند کی اعاظم شخصیات سے اکتساب علم اور دنیاۓ اسلام کی کچھ نام ور ہستیوں سے استفادہ و ملاقات جیسی تقریبات نے انھیں اچھی اور متوازن فکر و نظر کا خوب صورت ہالہ فراہم کردیا تھا جس سے زندگی بھر انہوں نے کام لیا ۔

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب جیسے شارح دیوبند سے توآپ قلبا وقالبا محبت رکھتے تھے جس پر بطور دلیل آپ کی مستقل تالیف لطیف ” دارالعلوم دیوبند اور حکیم الاسلام ۔۔۔۔۔ بے شمار تحریریں اور آپ کے خطبات پیش کۓ جاسکتے ہیں ۔ جبکہ ” خانوادۀ قاسمی اور دارالعلوم دیوبند” نامی کتاب سے آپ کی عقیدت کے مصادر کا عرفان بخوبی ہوجاتا ہے ۔

ًمولانا کے نام اور کام سے سرسری سی واقفیت دیوبند میں دوتین سال گزرتے ہی ہوگئی تھی ، حسن اتفاق کہ قلندرانہ شان کے حامل، شارح بخاری امام العصر حضرت علامہ انورشاہ کشمیری کے پوتے اور ابن الانور مولاناازہرشاہ قیصر کے قلمی ونسبی وارث حضرت مولانانسیم اخترشاہ قیصر رحمہ اللہ سابق استاذ دارالعلوم وقف دیوبند سے دید شنید ہی نہیں گھر کے فرد جیسا تعلق ہوگیا اور ان کی کرم گستری نے پے درپے ملاقاتوں کی راہ نکالی توبات حضرت مولانا محمداسلام قاسمی تک جاپہنچی آپ شاہ جی کے پڑوسی ہی نہیں پرورش لوح وقلم میں ان کے شانہ بشانہ اور ” محفل یاراں ” جمانےمیں مضبوط شراکت دار بھی تھے ۔

ان گرم محفلوں میں کبھی کبھار براۓ نام ہی شرکت ہوئی لیکن گفتگو کا محور عموما ” قلم وکتاب ” ہی رہتا تھا ، حضرت مولانا محمداسلام قاسمی اس بابت بندہ سے حسن ظن کی بناپر تبادلۀ خیال کو زیادہ ترجیح دیتے تھے اور چھوٹوں کی بے تکی باتوں کو بھی توجہ سے سنتے تھے ، تاریخ ،ادب ، سیرت وسوانح اور سیاست وسماج کے گلیاروں کی ضروری معلومات سے ان کا حافظہ تازہ رہتا تھا ، مدرسہ تحریک سے پروان چڑھنے والے اعلام وشخصیات کے علاوہ عصری درس گاہوں اور دعوت وعزیمت کے فکرمند احباب سے بھی ان کے مراسم تھے اور وہ ملت کے بہی خواہوں کو اختلاف فکر ونظر کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر دیکھنا پسند کرتے تھے اور عملا اس کے لۓ کوشاں بھی ، شاعر کی زبان میں ان کا وظیفہ یہی تھا کہ

کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعاراپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہاں اک چراغ جلادیا

دیوبند کے ایام طالب علمی میں آپ مشفق ومہربان اور علم دوست ہستی کے روپ میں اپنی عظمتوں کا طواف کراتے رہے ، تعلیمی مراحل کی ترقی اور قلمی کاوشیں معلوم کرکے کلمات تحسین اور دعاؤں سے نوازتے ، مغربی یوپی کے مشہور تعلیمی ادارہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں تدریسی سفر شروع ہوا تو بے اپنی مسرتوں کا اظہار فرمایا اور مؤسس جامعہ حضرت مولاناقاری شریف احمدگنگوہی قدس سرہ کے تعلیمی وتعمیری ذوق کارکردگی کا اعتراف بھی کیا اتنا ہی نہیں قاری صاحب مرحوم کی حیات وخدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلۓ کاتب الحروف نے مشاہیر اھل علم کے تأثراتی مضامین کا مجموعہ بنام ” نقوش دوام ” ترتیب دیا تو اپنا مفصل مضمون لکھ کر برقی ڈاک سے عنایت فرمایا۔

حضرت مولانا سے عقیدت ومحبت کا جو رشتہ دیوبند کے زمانہ میں قائم ہوا تھا وہ کبھی ماند نہیں پڑا اور ایسا ممکن بھی نہیں تھا اس لۓ کہ کبھی مجھ سے غفلت ہوجاتی اور فون کرلینے یا ملاقات نہ ہونے کا دورانیہ بڑھ جاتا تو آپ خود فون کرکے خیرخیریت معلوم کرلیتے تھے۔ یہاں تک کہ علالت کے زمانہ میں بھی واٹس ایپ اور دوسرے وسائط سے رابطہ میں رہے ۔

شروع میں جب بیمارہوۓ تو عیادت کی غرض سے بندہ حاضر ہوا ، برادرم مولانا بدرالاسلام قاسمی کے ذریعہ اطلاع کرائی تو اندر ہی بلوالیا ، علیک سلیک ہوئی بہت خوش ہوۓ ان دنوں آپ کا ایک رسالہ ” مبادیات حدیث ” تازہ تازہ چھپا تھا فورا عنایت کیا اور بولے کہ طلبۀ علم حدیث کیلۓ سال کے شروع میں کچھ چیزیں بیان کرنے کا معمول رہتا ہے الحمدللہ اب یہ مطبوع شکل میں آگیا ہے دعا کرو اللہ تعالی اس کی برکت سے شفا یاب کردے اور پھر سے حدیث شریف پڑھانے کی سعادت مل جاۓ ،

نانچہ کچھ ماہ وایام کی علالت کے بعد صحت بحال ہوئی تو درس حدیث کیلۓ دارالعلوم جانے لگے اور ضعف ونقاہت کے باوجود تدریس سے اشتغال رکھا مگر یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ سکا۔

اس کے بعد پھر کسی مناسب سے دیوبند حاضری ہوئی تو دردولت پر بھی پہنچا لیکن مولانابدرالاسلام صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ کمزوری بہت ہے اور ابھی آنکھ لگی ہے چنانچہ وقت کم تھا اس لۓ بغیر ملاقات کے ہی گنگوہ آگیا لیکن اسی دن شام یا دوسرے وقت حضرت مولانا کا یہ میسیج میرے واٹس ایپ پر موجود تھا”

السلام علیکم ورحمة اللہ
آج اتفاق سے بخار اتنا تھا کہ آپ سے ملنے کی ہمت نہ ہوئی ، چاربجے تک مدہوش رہا، بعد میں بدر نے کہا کہ مفتی صاحب آۓ تھے۔
معذرت کے ساتھ ۔
دعا کریں ، ابھی ڈاکٹر سے دوا لیکے آیا”۔

مولانا اسلام صاحب کی شفقتوں کی ٹھنڈی پھوار ہر آن محسوس ہوتی رہتی تھی ، وہ اپنی خوردنوازیوں سے شادکام رکھتے تھے کبھی فون تو کبھی میسیج اور کبھی شناسا افراد کی زبانی سلام وپیام بھیجتے رہتے تھے ، اپریل 2022 کا رمضان بھی حسب معمول شہرگلستاں بنگلور میں گزرا ، وہاں جانے سے پہلے آپ کو اطلاع نہیں دے پایا تو چند دن گزرتے ہی آپ کا یہ میسیج ملا

"السلام علیکم ورحمة اللہ
آپ غالبا بنگلورمیں ہوں گے ؟۔
وہاں ماحول کیسا ہے ؟۔
ڈاکٹرفاروق حبان اور جاننے والوں کو سلام کہ دیں ۔ اب میری طبیعت قدرے بہتر ہے لیکن کمزوری بہت ہے ۔۔۔۔ دعاؤں میں یاد رکھیں ۔

لکھنے پڑھنے کا ذوق رکھنے والوں سے محبت ان کی طبیعت ثانیہ تھی اس حوالہ سے وہ بروقت اپنے متعلقین کی تحسین وتشجیع کرنےسے اغماض کا رویہ نہیں رکھتے تھے جس کا اندازہ ذیل کے اس مکتوب سے لگایا جاسکتا ہے ۔

” السلام علیکم ورحمة اللہ
مولانامحمداخترصاحب ( سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ ریڑھی ) کے انتقال کی خبرسنی ۔۔۔تعزیتی پیغامات بھی دیکھے ۔
اللہ ان کی مغفرت فرماۓ اور لواحقین کو صبرجمیل عطافرماۓ،
( مولوی) عبدالمالک بلندشہری کا مضمون بھی پورا پڑھا جو آپ نے شامل کیا ہے ۔۔۔
امید کہ آپ تفصیلی مضمون لکھیں گے ۔۔ یہ ان کا حق بھی بنتا ہے ۔۔۔اس میں تعلیم کے مراحل کاذکربھی کریں اور سنین بھی لکھیں ، شکریہ۔

ختام مسک کے بطور یہی کہاجاسکتا ہے کہ حضرت مولانا کی ذات والاصفات ہم جیسوں کیلۓ شجرہاۓ سایہ دار کی حیثیت رکھتی تھی جن کی ٹھنڈی چھاؤں میں جویان قلم ودانش کو سکون میسرآتا تھا آپ گۓ تو آنکھوں میں آنسودے گۓ ، لیکن یہ امرباعث تسلی ہے کہ آپ کے فرزند صالح جناب مولانابدرالاسلام قاسمی استاذجامعہ امام محمدانورشاہ دیوبند آپ کے راست جانشین اور آپ کے علمی ورثہ کو ترقی دینے کا اچھا ہنر وجذبہ رکھتے ہیں ، اللہ تعالی ان کا حامی وناصر ہو اوردونوں جہان میں بہترین مددگار بھی ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply