معروف و مجہول اور حروف تہجی کے بارے میں چند اہم گزارشات
خادمِ حدیث مولانا عبد الرشید صاحب
اقرؤا القرآن بلحون العرب
قرآن شریف عربی میں نازل ہوا سبھی جانتے ہیں اللہ پاک نے فرمایا انا انزلناه قرآنا عربيا ہم نے اس کو عربی میں نازل کیا دوسری جگہ فرمایا ” بلسان عربی مبين ” قرآن خالص عربی میں ہے تیسری جگہ فرمایا” قرآنا عربیا غیر ذى عوج” اسکا بھی یہی مطلب ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور حضور اکرمﷺ نے فرمایا: قرآن کو عربی طرز میں پڑھا کرو علی ھذا ۔
قرآن عربی طرز میں پڑھنے کا کیا طریقہ ہے؟ ہم جو قرآن پڑھتے ہیں عام طور پر اس کا کیا طریقہ ہے ؟ اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ جو قرآن عام طور پر پڑ ھتے ہیں یہ اردو طرز ادا ہے اس لۓ کہ اردو میں معروف ، مجہول ہوتا ہے ۔ جیسے لوٹا جس میں پانی رکھا جاتا ہے یہ لفظ مجہول ہے اور لوٹا یعنی رہزنوں نے لوٹا یہ معروف لفظ ہے تو معروف اور مجہول اردو میں ہوتا ہے عربی میں نہیں ۔ عربی میں معروف ہی معروف ہے مجہول نہیں ہے ۔
عربی میں قرآن نازل ہواہے تو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے معروف ہی قرآن پڑھا اور اسی کی تعلیم دی چونکہ مجہول عربی میں نہیں ہوتا ہی اردو میں ہوتا ہے ۔ لہذا قرآن مجہول پڑھنا یہ ناپسندیدہ عمل ہے یعنی رسولﷺکو پسند نہیں ہے اسی کو مکروہ کہا جا تا ہے تو جب نماز میں قرآن پڑھا جائے گا تو نماز بھی مکروہ ہوگی معروف کس طرح ہوتا ہے اس کے لۓ علم صرف کی طرف جانا ہوگا ۔ علم صرف میں لکھا ہے کہ دو پیش مل کر واؤ ہوتا ہے ، دو زیر مل کر یاءاور دو زبر مل کر الف ہوتا ہے ۔ جیسے : قالوا ،قیل جب "قالوا "میں واؤ ادا کرتے ہیں تو کھینچ کر پڑھتے ہیں جب پیش ادا پڑھیں گے توں بغیر کھینچے پڑھیں گے یہی معروف ہے اور عربی ہے اگر پیش کو واؤ کی طرف جھکا کر نہ پڑھیں گے تو وہ عربی کے بجائے اردو کا "قالو” بولو کے وزن پر ہوجائے گا اسی طرح "قیل "ہے اسکی "یاء” کھینچ کر پڑھیں جائےگی اور جب زیر کی اداۓ گی کرنا ہوگا تو آدھی یاء پڑھی جائے گی تو معروف ہوگا ورنہ مجہول ہوگا ۔ معروف و مجہول پر مختصر گفتگو کے بعد اب حروف تہجی کی ادائیگی کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے ۔ پہلے الف ، بے ، تے وغیرہ بغدادی قاعدہ ، یسرنا القرآن وغیرہ میں پڑھتے تھے یہ طرز ادا بھی اردو کا ہوتا ہے عربی کا نہی ۔ عربی کا طرز وہ ہے جو نورانی قاعدہ میں بتایا جاتا ہے ۔
اب نورانی قاعدہ کا طرز ادا قرآن پاک کی روشنی میں عرض کردیا جاتا ہے اس سے اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا کہ نورانی قاعدہ کا ظرافت قرآن شریف کا طرز ادا ہے اس بات کو نقشہ کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جسمیں بالترتیب حروف تہجی ہونگے اور اسی کے مقابل قرآنی ثبوت بھی ہے ۔ اللہ پاک لکھنے پڑھنے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین