مغربی جمہوریت اور اسلامی شورائیت میں فرق

حسین احمد قاسمی

خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت زمین اور نظم حکومت کے لیے انتخاب کا طریقہ یہ مشروع ہے کہ یہ امت جسے خلافت کے لیے منتخب کر دے وہ خلیفہ رسول کی حیثیت سے نظام عالم کا واحد ذمہ دار ہوگا اور خلیفہ سارے عالم کا ایک ہی ہوتا ہے خلفائے راشدین کے اخری عہد تک یہ سلسلہ خلافت صحیح اصول پر چلتا رہا اور اسی لیے ان کے فیصلے صرف دینی اور ہنگامی فیصلوں کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ایک محکم دستاویز اور ایک درجے میں امت کے لیے حجت مانے جاتے تھے کیونکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا : علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین۔ ترجمہ : میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو۔

مغربی جمہوریت اور اسلامی شورائیت میں فرق

مغربی جمہوریت اور اسلامی شورائیت میں فرق

خلافت راشدہ کے بعد کچھ طوائف الملوک کا اغاز ہوا، مختلف خطہ میں مختلف امیر بنائے گئے ان میں سے کوئی بھی خلیفہ کہلانے کا مستحق نہیں ہاں کسے ملک یا قوم کا امیر خاص کہا جا سکتا ہے اور جب پوری دنیا کے مسلمانوں کا اجماع کسی ایک فرد پر متعذر ہو گیا اور ہر ایک ملک ہر قوم کا علیحدہ علیدہ امیر بنانے کی رسم چل گئی تو مسلمانوں نے اس کا تقرر اسی اسلامی نظریے کے تحت جاری رکھا کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت جس کو امیر منتخب کرے وہی اس ملک کا امیر اور اولو الامر کہلائے۔

قرآن مجید کے ارشاد کے عموم سے اس پر استدلال کیا جا سکتا ہے وامرھم شوری بینھم۔

اسمبلیاں اسی طرز عمل کا ایک نمونہ ہے فرق اتنا ہے کہ عام جمہوری ملکوں کی اسمبلیاں اور ان کے ممبران بالکل آزاد اور خود مختار ہیں، محض اپنی رائے سے جو چاہیں اچھا یا برا قانون بنا سکتے ہیں اسلامی اسمبلی اور اس کے ممبران اور منتخب کردہ امیر سب اس اصول و قوانون کے پابند ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کو ملا ہے۔

اس اسمبلی یا مجلس شوری کی ممبری کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں اور جس شخص کو منتخب کرے اس کے لیے بھی کچھ حدود و قیود ہیں پھر ان کی قانون سازی بھی قرآن و سنت کے بیان کردہ اصول کے دائرے میں ہو سکتی ہے اس کے خلاف کوئی قانون بنانے کا ان کو اختیارنہیں. )حوالہ معارف القرآن(

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare