مفتی سید محمد عثمان غنی : فراموش کردہ نقوش

غالب شمس قاسمی

حضرت مفتی عثمان غنی کی شخصیت علم و عمل کا ایک ایسا روشن مینار تھی جس کی ضیاء پاشیوں سے ایک عالم منور ہوا۔

1896 ء میں ایک دیندار علمی گھرانے میں آنکھ کھولی، جس کی دینی فضا اور علمی ماحول نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

مفتی سید محمد عثمان غنی : فراموش کردہ نقوش
مفتی سید محمد عثمان غنی : فراموش کردہ نقوش

ابتدائی تعلیم کے بعد 1910ء میں برصغیر پاک و ہند کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور 1916ء میں وہاں سے فضیلت حاصل کی۔ اس دوران شیخ الہند حضرت محمود الحسن دیوبندی ، علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی جیسے اساطین علم سے کسب فیض کا موقع ملا۔

حضرت مفتی صاحب امارت شرعیہ کے پہلے ناظم اور دار الافتاء امارت شرعیہ کے پہلے صدر مفتی مقرر ہوئے، ان مناصب سے آپ کی فقہی بصیرت، انتظامی حکمت عملی کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔

آپ نے پندرہ روزہ جریدہ ” امارت” کے بانی مدیر کی حیثیت سے علمی و فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ ساتھ ساتھ آپ جمعیت علماء ہند کے بھی ایک فعال رکن رہے اور اہم عہدوں پر فائز رہ کر ملت کی رہنمائی کی، آپ کی پوری زندگی خدمت اور جد و جہد سے عبارت ہے۔ آپ کی عملی زندگی میں حضرت ابو المحاسن محمد سجادؒ کی سرپرستی، رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا نمایاں اور اہم کردار رہا۔

یہ ہماری کوتاہ نظری ہے کہ آپ جیسی علمی شخصیت موجودہ دور میں زیادہ معروف نہیں، حالانکہ آپ کی حیات و خدمات نئی نسل کے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں۔ نہایت کم عمری میں آپ پر بڑی ذمہ داریوں کا بار رکھ دیا گیا ۔ مگر آپ نے اپنی غیر معمولی صلاحیت اور پختہ عزم سے انہیں بحسن و خوبی نبھایا۔ یہ اس دور کے اکابر کا کمال تھا کہ وہ اپنی وسعتِ ظرفی کے باعث نوجوانوں کو بڑے کام سونپ کر ان سے تاریخ ساز خدمات لیتے تھے، جب کہ آج منصب کے لیے پیرانہ سالی اور بالوں کی سفیدی معیار بن چکی ہے۔

مجھے مسرت آمیز حیرت ہوئی جب معلوم ہوا کہ حضرت مفتی عثمان غنیؒ کا خانوادہ آج بھی علم و ادب کی روایت سے جڑا ہوا ہے ، ان کے نبیرہ ڈاکٹر ریحان غنی ( ولادت:1952ء) مشہور ادیب، صحافی اور مصنف ہیں، جبکہ ان کے پڑپوتے ڈاکٹر کامران غنی صبا ( صدر شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور) بھی شاعر و ادیب اور منجھے ہوئے قلم کار ہیں۔

افسوس کا پہلو یہ ہے کہ آپ کی خدمات کے روشن باب پر اب تک کوئی تحقیقی کام منظر عام پر نہیں آسکا، اگرچہ مولانا ولی رحمانی رحمہ اللہ نے ان کے تذکرے پر ایک سیمینار منعقد کرانے کا اعلان کیا تھا، جو مولانا رحمانی کی وفات کے بعد امارت شرعیہ کے زیر اہتمام بحسن و خوبی منعقد ہوا، لیکن مقالات تاحال کتابی صورت میں شائع ہونے کے منتظر ہیں۔

راقم الحروف کو فراموش کردہ علمی و دینی شخصیات پر کام کرنے کا ذوق ہمیشہ سے رہا ہے، کہ بقول حقانی القاسمی ” آج کی تفہیم کیلئے کل کی جستجو ضروری ہے۔ ماضی کے بغیر حال کی تفہیم ممکن ہی نہیں”۔ اور واقعی، دنیا کی کوئی قوم اپنے ماضی سے وابستگی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ قوموں کی روشن روایات اور اسلاف کا تعارف ان کی فکری اور تہذیبی شناخت کا حصہ ہوتا ہے۔

بہر حال اسی احساس کے تحت راقم الحروف نے ان کی سوانحی زندگی اور خدمات کا مختصر اور جامع خاکہ آزاد دائرۃ المعارف ( اردو ویکیپیڈیا) پر منتقل کردیا ہے، تاکہ نئی نسل اپنے محسن کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare