بہ موقع یوم وفات
مفکر ملت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ : نقوش و تأثرات
از:مفتی اشرف عباس ؔ صاحب قاسمی
استاذ تفسیر و ادب دارالعلوم دیوبند
گزشتہ ۱۰؍جولائی ۲۰۱۸ء کی سہ پہرتقریبا ۳؍بجے مفکرملت حضرت مولاناعبداللہ صاحب کاپودرویؒکے انتقال کی خبر نے قلب وجگر کو جھنجھوڑکر رکھ دیا، زبان سے بے ساختہ اناللہ واناالیہ راجعون کا کلمہ ادا ہوا، اس کے ساتھ ہی دل ودماغ میں حضرت مولانا کی دل آویز ، مردم گراور عہد ساز شخصیت کی زندگی کے مختلف نقوش، اور اخلاق کریمانہ کی مختلف صورتیں مرتسم ہوتی گئیں۔ حضرت مولانا گجرات کی جان اور ملک کی شان تھے، گجرات میں علم ومعرفت کی اس وقت جو باد بہاری ہے اور علم وتحقیق کی جتنی انجمنیں اور ادارے قائم ہیں، آپ سب کے سرپرست اور روح رواں تھے۔ آپ کی وفات یوں تو اسلامیا ن ہند کے لیے ایک بڑا حادثہ ہے ؛ لیکن اس وقت گجرات کا سب سے بڑا سرمایہ وہی تھے، وہی ایک چراغ تھا جس سے سارا گھر روشن تھا۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ آپ کی وفات اس صدی کے گجرات کا سب سے بڑا حادثہ ہے۔
وطن اورپیدائش: اصل وطن جیتالی، تحصیل انکلیشور،ضلع بھروچ ہے۔ والد گرامی جناب اسماعیل حسین پٹیل، مقامی اسکول میں چند سال رہ کر تجارت کے لیے برما چلے گئے تھے، اور برما میں شان اسٹیٹ نامی صوبہ کے ہیہو نامی شہر میں کاروبار شروع کیا، اسی شہر میں۱۳۵۲ھ؍۹۳۳اء میں آپ کی پیدائش ہوئی۔
خاندانی ماحول: آپ کا گھرانہ متدین اور دین دار تھا، والد صاحبؒ کا برما اور ہندوستان کے بزرگوں خاص کر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور آپ کے خلفاء سے عقیدت مندی کا تعلق تھا، حضرت تھانوی ؒسے بیعت بھی تھے؛ اس لیے والد صاحب نے پانچ بیٹیوں کے بعد پیدا ہونے والے اپنے اس فرزند کی پیدائش کی اطلاع حضرت تھانوی کو دے کر دعا کی گزارش کی، جواب میں حضرت تھانویؒ نے اس نومولود کواپنی خاص مستجاب دعاؤں سے نوازا۔ ۹۳۵اء کے اواخر میں والد صاحب برما چھوڑکر ہندوستان آگئے، اور ــ’’کاپودرا‘‘ میں مستقل سکونت اختیار کرلی، اسی نسبت سے کاپودروی مشہور ہوئے۔ والد صاحب چوں کہ علما ومشائخ کے صحبت یافتہ اور عقائد واعمال میں پختہ تھے؛ اس لیے انھوں نے اپنے اس فرزند عزیز کی نہایت توجہ کے ساتھ دینی خطوط پر تربیت کی اور بچپن سے ہی جماعت کی پابندی اور تلاوت کی عادت ڈالی۔
تعلیم: خاندان میں عموما اعلی انگریزی تعلیم کا رواج تھا، بعض چچا جج تھے، کوئی تحصیل داراور کوئی فوج دار، چچازاد بھائی وکیل تھے، اس لیے خاندان والوں کا اصرار آپ کے لیے بھی عصری تعلیم کا ہی تھا، لیکن والد صاحب نے نہایت استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کے لیے دینی تعلیم کی ہی راہ منتخب کی۔ حضرت مولانا ؒ اس صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں: اگر والدین کی استقامت نہ ہوتی تو آج میں بھی حکومت کے دفتر میں ہوتایا افریقہ کے کسی شہر میں زندگی گزرتی۔‘‘ (گلدستہ ء محبت ۴۵)
قرآن کریم، ابتدائی اردو فارسی اور اسکول کی درجہ پانچ تک کی تعلیم کاپودرا میں ہوئی،۹۴۴اء میںجامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں داخل ہوکرفارسی سے عربی دوم تک کی کتابیں پڑھیں،۱۹۴۸ء میں دیوبند کا سفر کیا اوردارالعلوم میں عربی سوم میں داخلہ لیا،لیکن چہارم کے سال مہینوں بیمار رہنے کے سبب درمیان سال میں ہی گھر واپس آنا پڑا،اور دوبارہ ڈابھیل میں داخل ہوکر وہیںسے سند فراغت حاصل کی۔۶۰؍۱۹۵۹ء میں ایک مناسبت سے دارالعلوم دیوبند میں دوسال قیام کا موقع ملا،جس میں دارالعلوم کے کبار اساتذہ سے استفادے کے خاص مواقع حاصل رہے۔
تدریس واہتمام: ۱۹۵۴ ء میں پہلی بار جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل میں تدریس کے لیے تقرر ہوا،ابتدائی عربی درجات کے اسباق متعلق ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند سے واپسی کے بعد مارچ ۱۹۶۲ء میں دوبارہ جب ڈابھیل بلائے گئے تو چند اسباق کے علاوہ انتظامی ذمہ داریاں بھی آپ کو تفویض کی گئیں۔۱۹۶۶ء میں فلاح دارین ترکیسر تشریف لے آئے،کار اہتمام کے ساتھ مختلف فنون کی کتابوں کی تدریس بھی آپ سے متعلق رہی،۱۹۹۳ء تک فلاح دارین سے باضابطہ وابستگی رہی،آپ کا دور اہتمام فلاح دارین کی تاریخ کا وہ عہد میمون ہے جس نے اسے ملک کے ممتاز مدارس کی صف میں لاکھڑاکیا۔اس کے بعد آپ کا قیام زیادہ ترٹورنٹو(کنیڈا)اور اپنی بستی کاپودرا میں ہی رہا۔اور یہیں سے مدارس ومعاہد کی سرپرستی فرماتے رہے۔تا آں کہ گزشتہ ۱۰؍ جولائی ۲۰۱۹ء کو یہیں آخری سانس لی۔
تصنیفات: ابتدا سے ہی عربی، اردو اور مقامی زبان گجراتی کا آپ کو صاف ستھرا ذوق رہاہے، اور تینوں زبانوں میںآپ کی قابل قدر تصنیفات موجود ہیں۔ عربی میں بہ راہ راست تصانیف بھی ہیں، اور بعض عربی کتابوں کے ترجمے بھی۔جن میں سے چند یہ ہیں: (۱) أضواء علی تاریخ الحرکۃ العلمیۃوالمعاھد الاسلامیۃ والعربیۃ في غجرات، (۲) علامہ عینی اور علم حدیث میں ان کا نقش دوام، عربی سے ترجمہ۔ (۳) مکارم الشیم ترجمہ’’عنوان الحکم‘‘لابی الفتح البستی۔ (۴) ترجمہ دیوان امام شافعیؒ۔ (۵) رشدوہدایت کے منار جن سے میں نے کسب فیض کیا۔ (۶) افکار پریشاں، مجموعہ مضامین ومقالات۔ (۷) مقدمات کاپودروی۔ (۸) علامہ حارث محاسبی کے رسالہ المسترشدین پر شیخ عبدالفتاح کی تعلیقات کا اردو ترجمہ۔ (۹)علامہ محمد یوسف بنوریؒاور خدمات حدیث۔ (۱۰) ’’صدائے دل‘‘ خطبات اور مواعظ کا مجموعہ۔
نیازمندانہ تعلق: مولانا کاپودریؒ، نابغۂ روزگار عبقری شخصیات میں تھے ، علم دوستی،خردنوازی اور رجال سازی ان کے خاص اوصاف تھے جو انہیں اپنے معاصر علماء میں خاص مقام و امتیاز عطا کرتے ہیں، بندۂ ناچیز کا حضرت مولانا کے ساتھ نیازمندانہ تعلق جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ کے زمانۂ طالب علمی سے ہی ہے ، اس زمانے میں مولانا فلاح دارین سے علاحدہ ہو کر کناڈا میں مقیم تھے اور ہندوستان آمد پر کبھی کبھار ہانسوٹ بھی قدم رنجائی فرماتے ،۲۰۰۱ء کے بعد جب ہانسوٹ میں ہی تدریسی خدمات کا آغاز ہوا تو حضرت مولانا کو قریب سے دیکھنے اور آپ کی جامع الکمالات شخصیت سے استفادے کے مواقع نصیب ہوئے ، جامعہ میں کوئی بھی قابل ذکر علمی تقریب ہوتی یا تربیتی پروگرام ہوتاتو جامعہ کے مہتمم و بانی حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب مظاہری حفظہ اللہ آپ کو ضرور مدعو کرتے اور بسااوقات مجھے ہی پروگرام مرتب کرنے اور حضرت کی راحت کا خیال رکھنے کا حکم دیتے۔ اجتماعی خطابات کے علاوہ کوئی کوشش ہوتی تھی کہ مختلف جماعتوں کو رئیس الجامعہ کے سامنے پیش کرکے آپ کی قیمتی آراء سے استفادہ کیا جائے ، اس میں حضرت رحمہ اللہ کی بھی بڑی بشاشت رہتی تھی بالخصوص اس سبب سے بھی کہ یہاں کے حسن انتظام اور تعلیم وتربیت کی رعنائی میں آپ کو اپنے نظام و انداز تربیت کا عکس نظر آتا تھا ،بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ ایک ا یک جماعت سے دو دوگھنٹے تک سوالات کرتے رہے اور اپنے علم و تجربات کے موتی لٹا تے رہے ۔
ہانسوٹ قیام کے دوران جب بھی کاپودرا در دولت پر حاضری ہوتی؛ ہمیشہ اکرام و تشجیع کا معاملہ فرماتے، میری کج مج تحریروں کو بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور موضوع سے متعلق مزید مراجع ومصادر کی نشاندہی فرماتے ،بسااوقات کوئی علمی کتاب بھی ہدیۃ عطا فرماتے تھے۔
بصیرت ودوررسی: حضرت کی شفقتوں سے شہ پاکر کبھی کبھی طویل ٹیلی فونی گفتگو بھی کر لیتا، حضرت مولانا نہایت دوررس نگاہ ر کھتے تھے ، اور کبھی چند جملوںمیں آنے والے حالات کی تہہ میں پوشیدہ طوفان کی طرف اشارہ کر دیا کرتے تھے ؛ چنانچہ جس دن ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے عہدۂ اہتمام کے لیے مخدوم گرامی حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کے انتخاب کی خبر آئی تو اس دن شام کو میں نے حضرت رئیس الجامعہ کو فون کیا کہ آپ اس باوقار عہدے کے لیے اپنے تلمیذ اور فیض یافتہ کے انتخاب پر مبارکباد قبول فرمائیں ، میں نے نہایت پرجوش انداز میں کلمات تہنیت پیش کیے ، مجھے اسی انداز سے جواب کی توقع تھی ؛ لیکن اس کے برعکس آپ نے مبارکبادی پر ٹھہرے ہوئے اندازمیں شکریہ ادا کرتے ہوئے جو کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ مولانا ! مجھے اس انتخاب کے تعلق سے کئی خدشات ہیں ، دیکھیے! آگے کیا حالات آتے ہیں ،اللہ پاک دارالعلوم کی اور مولانا کی حفاظت کرے۔‘‘ میں نے بہ زعم خود اس کو بے وقت کی راگنی خیال کیا ؛ لیکن اس کے چند دن بعد ہی جو حالات آئے اس نے مجھے ایک بار پھرآپ کی بصیرت اور دور بینی کا قائل کر دیا ۔
گجرات کے تئیں فکرمندی: ۲۰۱۳ء میں جب ہانسوٹ میںگیارہ سالہ تدریس کے بعد اللہ رب العزت نے محض اپنے فضل خاص سے بغیر کسی استحقاق کے دارالعلوم دیوبند میں خدمت تدریس کی سعادت عطا کی تو اگر چہ مولانا کو میری اس تقرری پر مسرت تھی او ران کی دعاؤں اور توجہات کااس میں بڑا دخل تھا ؛ لیکن جب میں نے باضابطہ اس کی اطلاع دی تو فرمانے لگے کہ ’’ مولانا آپ کومبارک ہو ؛لیکن مجھے اس کا بھی بڑ ا قلق ہے کہ ہمارے گجرات کو ایک باصلاحیت علمی ذوق کے حامل استاذ سے محروم ہونا پڑ رہا ہے ۔‘‘ اس سے آپ کی خرد نوازی کے ساتھ اپنے صوبے کے تئیں فکر مندی کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا ، آپ کا یہی کڑھن تھا جس نے آپ کو گجرات کی محبوب ترین شخصیت بنا دیا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گجرات کے مدارس میں جو پچھلے چند سالوں کے دوران تعلیم تربیت کے حوالے سے حساسیت آئی ہے اس میں مولانا کی فکر وں اورباربار توجہ دلانے اور آپ کے تیار کردہ فلاحی فضلاء کی کھیپ کو بڑا دخل ہے ۔
خوردنوازی: میرے دیوبند پہنچنے کے بعد بھی آپ کی عنایتوں کا سلسلہ جاری رہا، پہلی باردیوبند تشریف لائے تو آپ کے پاس میرا رابطہ نمبر نہیں تھا ،آپ نے دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا ابوالقاسم صاحب نعمانی سے میرا تذکرہ کیا ،حضرت مہتمم صاحب نے فورا مجھے آپ کی ملاقات کے لیے کہلوایا ،میں حاضر ہوا ،حضرت بڑے تپاک سے ملے ،میں نے صبح ناشتے کی دعوت پیش کی، حضرت مولانا کی کرم گستری او رعالی ظرفی تھی کہ آپ صبح کو اپنے رفقاء کے ہمراہ محلہ خانقاہ میںواقع کرایے پر لیے ہوئے احقر کی معمولی قیامگاہ پرجہاں سردی اور گرمی سے صحیح حفاظت بھی نہیں ہو پاتی، تشریف لے آئے، جو کچھ پیش کیا جا سکا بڑی بشاشت سے اس کو تناول فرمایا ،یقینا حضرت مولانا کی عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ انھوں نے مجھ جیسے ایک گا ؤں کے رہنے والے معمولی انسان کی دعوت پر اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ قد م رنجائی فرما کر ’’کلاہ گوشۂ دہقاں بہ آفتاب رسید ‘‘ کا عملی ثبوت دیا ۔فجزاہ اللہ خیرا لجزاء ۔
دارالحدیث میں طلبہ سے خطاب: آپ سے ملاقات اور استفادے کی ایک صورت یہ نکل آئی کہ آپ وقف دارالعلوم دیوبند کی مجلس مشاورت کے رکن منتخب ہوئے، اس کے اجلاس میں شرکت کے لیے دیوبند آمدورفت بڑھ گئی۔اور ہماری ایک دیرینہ تمنا برآئی۔ایک بار وقف کی مشاورت میں تشریف آور ی کے موقع کوغنیمت جانتے ہوئے دارالحدیث تحتانی قدیم میں سجاد لائبریری کے اجلاس عام میں شرکت کی گزارش کی گئی، حضرت والا تشریف لائے ،طلبہ کی خاصی بھیڑ اکھٹی تھی ،آپ نے طلبہ سے علالت کے باوجود بڑی بشاشت کے ساتھ وقیع خطاب فرمایا ؛ اگرچہ اس پروگرام میں دیر تک شر یک رہنے کے سبب رات میں نیند نہیں آئی اور آپ کے فرزند محترم مولانا اسماعیل صاحب جو حضرت کی راحت رسانی کے معاملہ میں ہمیشہ حساسیت کا مظاہر ہ کرتے رہے ہیں؛ کی خفگی کا سامنا کرناپڑا، غالبا یہ تقریر ریکارڈ بھی کرلی گئی تھی ، اگر صدائے دل کے کسی حصے میں شائع ہو جائے تو اس سے استفادہ عام ہو جائے گا ۔
دارالعلوم دیوبندسے تعلق خاطر: دارالعلوم دیوبند سے آپ کو قلبی او رجذباتی لگاؤ تھا آپ نے اپنی زندگی کے قیمتی چا رسال اس کی علمی و روحانی فضاؤں میں گزارے تھے ،یہاں کے مشائخ و اکابر اساتذہ سے براہ راست استفادہ کیا تھا ،شیخ عبدالوہاب محمود مصری سے بھی آپ نے یہیں عربی زبان و ادب کے اسالیب سیکھے ،مولانا عمید الزماں کیرانویؒ کے ساتھ مل کر پہلی بار عربی مجلہ ’’ الیقظہ ‘‘ نکالا ،اس کے در وبام سے آپ کو محبت تھی ،دارالعلوم کے اپنے اساتذہ کے تذکرے پر کھل اٹھتے ،خاص کر زندگی کے آخر ی ایام میں اس محبت میں زیاد ہ جوش نظر آنے لگا تھا ، آپ نے دو سال قبل مجھے ایک با رفون کرکے کہلوایاکہ میرے لیے دیوبند میں کہیں کمرے کا انتظام کرو ! میں چاہتا ہوں کہ پندرہ بیس دن وہیں قیا م کر لوں ،مجھے شدت سے طالب علمی کے گزرے ہوئے ایام کی یاد آرہی ہے ۔
درد دل: میں نے محسوس کیا کہ دیوبند میں جب بھی ملاقات ہوتی آپ بہت کھل کر گفتگو کرتے، آپ نے اس دوران بہت سے ایسے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا جنہیں سن کر میں دنگ رہ گیا ، اگر قلم سب اگل دے تو بہت سے جبہ و دستار والوں پر زدپڑے گی ، مجھے ان مواقع پر محسوس ہوا کہ اس پیرمغاں نے نہ جانے کتنے رازہائے سر بستہ اپنے سینے میں محفوظ کر رکھے ہیں اور بہت سے وہ حضرات جن سے آپ کا قلب چھلنی ہوا ؛ آپ زندگی بھر ان سے اسی اخلاق کریمانہ سے ملتے رہے کہ انہیں احساس تک نہیں ہونے دیا ۔
تربیت کا خاص انداز: حضرت مولانا کے رشتے کے پوتے عزیز گرامی مولوی سلیمان سعادتی مقیم کویت نے شادی کی تقریب میں مجھے خصوصیت کے ساتھ باصرار مدعو کیا ،میں نے بھی حضرت مولانا رحمۃاللہ علیہ سے ملاقات اور جامعہ ہانسوٹ کی زیارت جیسے کئی مقاصد کے پیش نظر ہامی بھرلی اور تقریب کے دن کاپودرا حاضر ہو گیا ،جمعہ کے بعدنکاح ہونا تھا ،حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ہی جمعے سے پہلے خطاب کا حکم دیا ؛لیکن اس دوران کئی مشائخ او رعلماء تشریف لائے جن میں ایک نمایاں ممتاز عالم دین تھے ، میں نے حضرت مولانا ؒ سے بات کرکے انہیں کا خطاب طے کروا دیا ،مولانا بھی کسی درجے میں آمادہ ہو گئے ،معروف عالم دین کا خطاب تو ہوا ؛ لیکن نکاح کے بعد بندے پر جی بھر کر ناراض ہوئے کہ آپ کو ہی اس موقع پر تقریر کرنی چاہیے تھی ؛ لیکن آپ نے میری منشاء کا خیا ل نہیں رکھا تو دیکھئے کیسی صور ت حال پیش آئی ۔مجھے بھی تنبہ ہوا کہ بڑوں کی منشا اور اشاروں کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔
حضرت سے آخری ملاقات : حضرت سے دیوبند میں آخری ملاقات ڈیڑھ سال قبل وقف دارالعلوم کی مجلس مشاورت کی مناسبت سے ہوئی ،اس وقت قیام حضرت مولانا سفیان صاحب قاسمی دامت برکاتہم کے ذاتی مہمان خانہ کے بہ جائے قلب شہر میں واقع رانا گیسٹ ہاؤس میں تھا ، اطلاع ملتے ہی مولوی اسحاق بارڈولی کے ہم راہ قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا ، علالت اور ناسازیٔ طبیعت کے باوجود بڑی بشاشت سے ملے،حضرت کے رفیق سفر فرزند گرامی جناب مولانا اسماعیل صاحب بھی بڑی محبت اوراپنائیت سے ملے، بہ قائمی ہوش وحواس حضرت سے یہ آخری ملاقات تھی،کیوں کہ وفات سے پانچ روز قبل بھی میں بہ غرض عیادت حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم دیوبند کا والانامہ لے کر کاپودرا حاضر ہواتھا، لیکن اس وقت غشی کی کیفیت تھی، اس لیے صرف زیارت ہی ہوسکی۔
بہ ہرحال گیسٹ ہاؤس کی اس ملاقات میں حضرت نے اس قدر شفقت اور اپنائیت کے کلمات دوران گفتگو فرمائے کہ عزیز مولوی اسحاق فلاحی قاسمی ؔ بعد میں کہنے لگے : ’’ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ رئیس آپ کو ا س قدر اہمیت دیتے ہیں اور آپ سے اس قدر لگاؤ ہے ‘‘ ۔یہ گفتگو اس وقت ہوئی تھی جب جامعہ ہانسوٹ کا قضیۂ نامرضیہ پیش آچکا تھا ، حضرت مفتی عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم پانولی تشریف لے جا چکے تھے ،اس پوری صورت حال پر حضرت مولاناؒ نے اپنے بے پناہ کر ب کا اظہار کیا اور صورت حال سے نمٹنے کے لیے مولانا ؒ نے جو کوششیں کی تھیں اس کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے شدت جذبات سے کئی بار آنکھیں نم ہو گئیں۔
ناقدری کا شکوہ نہیں: مولاناؒ مرحوم یقینا نسل نو کے مربی اور انفرادی خصوصیات کے حامل رجال ساز شخص تھے ۔’’ حاضر سے بے زاری اور غائب کی تلاش ‘‘ ہماری قوم کا عام مزاج ہے ، کوئی کتنا ہی باکمال ہومرنے کے بعدہی اس کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں ؛ لیکن حضرت مولانا کے سلسلے میں ہمارا یہ تاثر ہرگز نہیں ہے کہ اہل گجرات نے زندگی میں آپ کی قدر نہیں کی ؛ بلکہ مولاناؒ کی ہمہ گیر تربیت کے نتیجے میں جو خوش گواراور مثبت تبدیلی گجرات میں محسوس کی جارہی ہے ،اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حین حیات میں بھی گجرات اور ملک کے مقتدر علماء نے آپ کی خاص قدرو منزلت کی ، گجرات میں آپ کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ ہر خطے کے عوام اور مدرسے کے ذمہ داران دیدہ و دل آپ کے لیے فرش راہ کیے رہتے تھے ، ہرمدرسہ آپ کا اپنا مدرسہ تھا ؛ بلکہ آپ کی گجرات میں وہ حیثیت تھی جو کسی زمانے میں رے شہر میں عبد اللہ بن مبارکؒ کی تھی ، آپ اس پورے خطے کے شیخ الاسلام اور مرشد و امام تھے ، آپ کے شاگردوں نے پوری دنیا میں آپ کو مدعو کرکے آپ کا تعارف کرایا ، باہمت فضلاء نے زندگی میں بھی ’’ گلدستۂ محبت ‘‘ تیا رکرکے آپ کے مشام جان کو معطر کرنے کی کوشش کی ، مخدوم گرامی حضرت مولانا حنیف صاحب لوہاروی دامت برکاتہم نے زندگی کے آخری ایام میں آپ کے نام سے شاندار لائبریری قائم کرکے آپ کے قلب و نظر کے لیے سرور بخش کام کیا ، آپ کے نام پر قائم اکیڈمی نے آپ کی زندگی میں ہی پھل دینے شروع کر دئے تھے ۔اس لیے گجرات کے عوام وخواص اس بات کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے احسان شناسی کافریضہ بہ حسن وخوبی انجام دیا۔تاہم آپ کے تعلیمی وتربیتی مشن اور سرگرمیوں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنااور آپکے تخیلات میں رنگ بھرتے رہنا ہی آپ کو اصل خراج عقیدت ہے ۔
لذیذ تر بود ولے درازتر نہ گفتم:بہ ہر حال مفکر ملت حضرت مولانا کاپود روی ؒ کے ساتھ میرے نیازمندانہ تعلقات کی داستان طویل ہے ،میں نے مولانا کی زندگی اور باکمال شخصیت سے اپنے ظرف کے بہ قد ربہت کچھ سیکھا ہے ،لیکن عام قاری کے لیے ہوسکتاہے اس میں کوئی خاص دل چسپی نہ ہو؛اس لیے حکایت کے لذیذ تر ہونے کے باوجوداسے درازتر نہ کرنا ہی بہترہے۔مرحوم کی زندگی کے سوانح نگار تفصیلات لکھتے رہیں گے۔ مگر عقیدت کی چند سطریںایک نیازمند کی طرف سے یادگار اوراق رہیں،تو شایدمحسن کے شکریے کا بار اس کے کندھے سے کم ہو۔
الوداع اے مفکر ملت الوداع! مفکر ملت مولانا کاپودروی ؒ عمر طبعی گزار کر اپنے رب کے حضورایسی جگہ پہنچ چکے ، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا،ان کی وفات پر ہزاروں دل تڑپے، ہزاروں آنکھوں نے آنسو بہائے۔ لاکھوں کے مجمع نے باچشم تر الوداع کہا۔تاہم انہوں نے نسل نو کے تن مردہ میں جس طرح نئی جان ڈال دی ہے اور گجرات سے علم ومعرفت ا ور ادب و تحقیق کے جو سوتے جاری کیے ہیں ،اس سے آئندہ نسلوں کے قلب و ذہن کو بھی غذا فراہم ہوتی رہے گی ، میں نہیں سمجھتا کہ ماضی قریب کے گجرات میں مولانا ؒ کی ہم پلہ کوئی شخصیت گزری ہے ،جس نے ماحو ل پر اس قدر گہرا صالح اثر چھوڑ ا ہو اور جس کے نقش پا کو لوگ اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانا چاہتے ہوں ، آئندہ گجرات کی کو ئی علمی یا دینی تاریخ مولانا ؒ جیسے تاریخ ساز شخص کے ذکر کے بغیر نامکمل اور ادھوری رہے گی ۔
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
آپ کی تربت پر اللہ پاک کی کروڑوں رحمتیں ہوں ا و رآپ کو اعلیٰ علیین میں مقام بلند نصیب ہو۔ آمین۔