مولانا امداد صابری پر یادگار مجلہ
معصوم مرادآبادی
اردو صحافت کے محقق اعظم مولانا امداد صابری اس اعتبار سے ایک مظلوم شخصیت کہے جاسکتے ہیں کہ ان کے انتقال کو 36 برس گزرنے کے باوجود آج تک ان پر کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا۔ انھوں نے مختلف اور متنوع موضوعات پر 76 کتابیں تصنیف کیں اور ان میں تحقیق وتنقید کے دریا بہادئیے، لیکن آج تک ہماری کسی دانش گاہ کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ ان پر کسی طالب علم کو پی ایچ ڈی کرائی جاتی۔ پی ایچ ڈی توکجا کسی یونیورسٹی نے ان پر ایم فل کا مقالہ بھی نہیں لکھوایا۔ یہ دراصل اردو صحافت اور صحافیوں کے ساتھ ان دانش گاہوں کے سوتیلے سلوک کا مظہر ہے۔صحافی خواہ کتنا ہی ذی علم اور باشعور کیوں نہ ہو، وہ اہل ادب کی نگاہ میں روزنامچہ نویس ہی رہتا ہے۔
اردو، یولپمنٹ آرگنائزیشن ہرسال علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر ’عالمی یوم اردو‘ کا اہتمام بڑے تزک احتشام کے ساتھ کرتی ہے۔ اس موقع پر ایک یادگار مجلہ بھی شائع کیا جاتا ہے۔ اب تک مختلف علمی اور ادبی شخصیات پر یہ مجلے شائع ہوچکے ہیں۔ اس مرتبہ اس مجلہ کو مولانا امداد صابری سے منسوب کرنے کی تجویز پیش کرتے وقت میرے ذہن میں ان کا وہ بیش قیمت کام تھا جو انھوں نے اردو صحافت کی تاریخ وتدوین کے ذیل میں کیا ہے۔ پانچ جلدوں پر مشتمل تقریباً چار ہزار صفحات پھیلی ہوئی یہ کتاب اردو صحافت پر تحقیق کرنے والوں کے لیے بنیادی مآخذ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے اردو صحافت اور صحافیوں پر تقریبا تین ہزار صفحات لکھے۔
اردو اخبارات پر پہلی کتاب سید محمد اشرف کی ”اخترشہنشاہی‘ ہے ، جو 1888میں لکھنؤ سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے بعد دور تک خاموشی نظر آتی ہے۔ مولانا امداد صابری واحد شخص ہیں جنھوں نے آزادی کے بعد اردو صحافت پر سب سے زیادہ کام کیا۔ اس کے بعد محمد عتیق صدیقی، عبدالسلام خورشید، جی ڈی چندن اور ڈاکٹر طاہر مسعود کے نام آتے ہیں ، لیکن ان سب کا مجموعی کام مولانا امداد صابری کے برابر نہیں ہے۔انھوں نے اردو صحافت اور صحافیوں پر انتہائی وقیع کتابوں کے علاوہ مختلف موضوعات پر پانچ درجن سے زائد کتابیں لکھیں۔
مولانا امداد صابری پر مجلہ کی صورت گری کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مجھے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی شخصیت اور کارناموں پر مواد کی تلاش میں اس قدر جانفشانی سے گزرنا ہوگا۔ مولانا امداد صابری کی کوئی کتاب اس وقت بازار میں دستیاب نہیں ہے۔لائبریروں میں ان کی کتابیں خستہ حالت میں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مولانا اپنی کتابیں خود ہی شائع کرتے تھے۔ وسائل کم یاب ہونے کی وجہ سے یہ کتابیں لیتھو کی کتابت وطباعت کے قدیم طرز پر شائع ہوتی تھیں۔کاغذ بھی معمولی قسم کا ہوتا تھا۔
میں نے مولانا امداد صابری کے بارے میں مواد حاصل کرنے کے لیے خود ان کی کتابوں سے ہی سب سے زیادہ استفادہ کیا۔ اس کام کے لیے مجھے دہلی اردو اکادمی کی داراشکوہ لائبریری، جامعہ کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری، غالب اکیڈمی لائبریری کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری سے رجوع ہونا پڑا۔ اس دوڑ دھوپ کے دوران سب سے اہم چیز جو میری ہاتھ آئی وہ مولانا امداد صابری کے دوست اور سیاسی جدوجہد کے ساتھی پنڈت ہرسروپ شرما کا لکھا ہوا 48 صفحات کا بیش قیمت رسالہ تھا۔ اس میں پنڈت جی نے مولانا امداد صابری کی سیاسی اور عوامی جدوجہد کی ولولہ انگیز داستان بیان کرنے کے ساتھ ان کے حالات زندگی اور علمی وادبی خدمات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ میں نے اس رسالہ کی تلخیص اس مجلہ میں شامل کردی ہے۔ مولانا امداد صابری نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے کچھ احوال بیان کئے ہیں، جن میں سب سے اہم آل انڈیا اردویڈیٹرس کانفرنس کے لکھنؤ اجلاس (منعقدہ نومبر 1973)میں اردو اخبارات کی نمائش کے موقع پر کی گئی ان کی صدارتی تقریر ہے، جوانھوں نے آنجہانی وزیراعظم اندرکمار گجرال کی موجودگی میں کی تھی۔گجرال صاحب اس وقت مرکزی وزیراطلاعات ونشریات کے عہدے پر فائز تھے۔ مولانا امداد صابری بے اپنی تقریر ان جملوں سے شروع کی تھی:
”میری کوشش یہ رہی ہے کہ علمی وادبی وتحقیقی طبقہ میں اخبارات ورسائل کی اہمیت بتائی جائے اور صحافیوں نے ملک وقوم کے لیے جو خاموش قربانیاں دی ہیں، ان سے واقفیت کرائی جائے، تاکہ یہ طبقے اخبارات ورسائل کی طرف توجہ دیں اور ان سے استفادہ کریں۔“
اس پوری تقریر کو اس مجلہ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس تقریر سے ان کے اپنے احوال کے علاوہ اردو اخبارات وجرائد کے لیے ان کے دل میں پائی جانے والی تڑپ اور بے چینی کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔
سچ پوچھئے تو مولانا امداد صابری کی تحقیقی اور علمی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز اردو صحافت ہی تھی جس کی ترقی کے لیے انھوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں استعمال کیں۔مگر افسوس انھیں بہت جلد فراموش کردیا گیا۔ان کے کارناموں کو اجاگر کرنے والی دوسری اہم شخصیت دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر تنویر احمدعلوی کی تھی۔ علوی صاحب چوڑیوالان میں ہی مولانا امدادصابری کے مکان سے چند گز کے فاصلے پر رہتے تھے اور دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ پہلے پہل پروفیسر تنویراحمدعلوی نے ہی ان کی صحافتی اور علمی خدمات پر ایک مضمون تحریر کیا تھا، جو 4/اپریل 1965کو دہلی پبلک لائبریری کے ایک اجلاس میں پڑھا گیا۔ اس اجلاس کا افتتاح ماہر غالبیات مالک رام نے کیا تھا اور صدارت گوپی ناتھ امن نے کی تھی۔اس مضمون میں پروفیسر تنویر علوی نے مولانا امداد صابری کی ادبی زندگی اور ان کی تصنیفات بشمول ’تاریخ صحافت اردو‘ کے بارے میں اپنی رائے بڑے مدلل انداز میں پیش کی ہے۔ یہ مضمون بھی اس مجلہ میں شامل ہے۔پروفیسر تنویر احمد علوی نے مولانا امداد صابری کے انتہائی ذی علم والد علامہ شرف الحق صابری کا بھرپورتعارف کرایاہے۔
میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جنھوں نے مولانا امداد صابری کو نہ صرف بارہا دیکھا بلکہ اپنی صحافتی زندگی کی ابتداء میں مجھے ان سے انٹرویو لینے کا بھی موقع ملا۔ اس یادگار انٹرویو کوبھی اس مجلہ میں شامل کیا گیا ہے۔
میں دہلی کی سرکردہ علمی شخصیت جناب عبدالعزیز کا ممنون ہوں جنھوں نے تمام ترمصروفیات کو پس پشت ڈال کرمیری گزارش پر مولانا امدادصابری پر نہایت معلوماتی مضمون تحریر کیااور مولانا سے اپنے تعلق کی داستان بیان کی۔ اب اس دہلی میں ایسے لوگ خال خال ہی ہیں جنھوں نے مولانا سے کسب فیض کیا ہو۔ میں معروف خطاط اور صحافی جناب جلال الدین اسلم کا بھی ممنون ہوں جنھوں نے اپنی بیماری اور نقاہت کے باوجود اس مجلہ کے لیے مولانا امداد صابری سے اپنے تعلق کی روئیداد قلم بند کی۔آخر میں ’عالمی یوم اردو‘ کے روح رواں ڈاکٹر سید احمد خاں کا بھی شکریہ جنھوں نے اس مجلہ کی ترتیب وتدوین کی ذمہ داری مجھے سونپی۔
رابطہ 9810780563